نسبتِ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
ہم اپنی روز مرہ ضرورت کی تکمیل کے لئے جو اشیاء استعمال کرتے ہیں ان کی از خود کوئی اہمیت نہیں ہوتی ان کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ یہ ہماری ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ مثلاً ہم تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے پہنتے ہیں، کھانے کے لئے برتن استعمال کرتے ہیں، سفر کے لئے سواری کو ذریعہ بناتے ہیں یا رہنے کے لئے کسی شہر یا گاؤں میں مکان بناتے ہیں لیکن اگر یہی عام اور معولی اشیاء اللہ کے کسی مقرب بندے سے منسوب ہو جائیں تو محض نسبت کی بنا پر بڑی بابرکت، فیض رساں اور باعث صد افتخار ہوجاتی ہیں۔ بلکہ اگر کسی جگہ کو اللہ کے کسی نیک بندے کی آخری آرام گاہ بننے کی سعادت نصیب ہو جائے تو نہ صرف وہ زیارتِ گاہِ خاص و عام بلکہ اس کے اردگرد کا پورا ماحول بابرکت ہو جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اندر رہ کر اپنی روز مرہ کی اشیاء استعمال فرماتے تو وہ خوش نصیب صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے برکت و فیض حاصل کرتے۔ احادیثِ مبارکہ میں ایسی بہت سی مثالیں مذکور ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کو تبرکاً مس کرتے، دوران حجامت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک سے جدا ہوتے بال حاصل کرنے کے لئے دیوانہ وار ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے جھپٹ پڑتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مستعمل پانی سے تبرک حاصل کرتے۔ الغرض ہر اس چیز سے انہوں نے برکت حاصل کی جس کو کسی نہ کسی طرح روز مرہ زندگی میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت حاصل ہوئی۔
فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیۡمَ۬ۚ وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًاؕ وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًاؕ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیۡنَ ۔ ﴿سورہ اٰل عمران آیت نمبر 97﴾
ترجمہ : اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے ۔
ﺍﮔﺮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ۔
ﺍﮔﺮ ﺧﻄﮧﺀ ﺯﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﮑۃ المکرّم ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯾﻨۃ المنوّرہ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ۔
ﻭﮦ ﮔﻨﺒﺪ ﺟﻮ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﮔﻨﺒﺪ ﺧﻀﺮﺍ
ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ۔
ﺍﮔﺮ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ
ﻋﻠﯽ ﺣﯿﺪﺭ ﮐﺮﺍﺭ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ۔
ﺍﮔﺮﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ۔
ﻭﮦ ﻣﻘﺎﻡ ﺟﻮ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﻣﻘﺎﻡ
ﻣﺴﺠﻮ ﺩ ، ﯾﻌﻨﯽ ﻗﺒﻠﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺍﺩﺏ ، ﺟﺴ ﮑﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﮐﻮ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭ ﮔﺰﺭﮮ ،
ﺗﻮ ﺍﺳ ﮑﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﺭﺕ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍس کو ﭘﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ۔ ( ﺳﻮﺭﺕ ﺍﻟﺤﺠﺮﺍﺕ: 2 )
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﻤﺤﮯ ﻧﮧ ﮔﻨﻮ ﺑﻠﮑﮧ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻭ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺷﻤﻊ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍِﮎ ﺑﺎﺭ ﺟﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﺠﮭﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﯾﮯ ﺳﮯ ﺩﯾﺎ ﺟﻼﺋﮯ ﺑﭩﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺭﻭﺷﻦ ﭼﺮﺍﻍ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺩﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍِﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﺘﮯ۔ ﺧﻮﺩﯼ ( ﻣﯿﮟ، Self) ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﯽ ﻟﻮ ﺳﮯ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔
فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ : اس میں کھلی نشانیاں ہیں ۔ خانۂ کعبہ کی عظمت و شان کا بیان چل رہا ہے، اسی ضمن میں فرمایا کہ : خانۂ کعبہ میں بہت سی فضیلتیں اور نشانیاں ہیں جو اس کی عزت و حرمت اور فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ۔ ان نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرندے کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتے اور اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں تو ادھر ادھر ہٹ جاتے ہیں اور جو پرندے بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جائیں ، اسی سے انہیں شِفا ہوتی ہے اور وحشی جانور ایک دوسرے کو حرم کی حدودمیں ایذا نہیں دیتے، حتّٰی کہ اس سرزمین میں کتے ہرن کے شکار کیلئے نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے نیز لوگوں کے دل کعبہ معظمہ کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کی طرف نظر کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور ہر شب ِجمعہ کو ارواحِ اَولیا ء اس کے ارد گرد حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی و بے ادبی کا ارادہ کرتا ہے برباد ہوجاتا ہے ۔انہیں آیات میں سے مقامِ ابراہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا آیت میں بیان فرمایا گیا ۔ (تفسیر خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱/۲۷۶، تفسیرات احمدیہ، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۲۰۱-۲۰۲،چشتی)
مَّقَامُ اِبْرٰہِیۡمَ: ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکعبہ شریف کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ یہ پتھر خانۂ کعبہ کی دیواروں کی اونچائی کے مطابق خود بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے قدمِ مبارک کے نشان تھے جو طویل زمانہ گزرنے اور بکثرت ہاتھوں سے مَس ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ باقی ہیں ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱/۲۷۶)
بزرگوں سے نسبت کی برکت
اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر سے پیغمبر کے قدم چھو جائیں وہ مُتَبَرَّک اور شَعَآئِرِ اللہِ اور آیۃُ اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانی بن جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِۚ ۔ (سورہ بقرہ:۱۵۸)
ترجمہ : بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ دونوں پہاڑ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے قدم پڑجانے سے شَعَائِرُاللہ بن گئے ۔
وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًاؕ: اور جو اس میں داخل ہوا امن والاہوگیا ۔ خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل وجرم کرکے حدودِحرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد قائم کی جائے گی۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ’’ اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے ۔ (تفسیر مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۱۷۴)
حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد کئی کلومیٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے ممتاز کردیا گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموما ًاس کی پہچان ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے لئے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے ۔
وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ : اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔} اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ اِستِطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس کی تفسیر ’’ زادِ راہ ‘‘اور’’ سواری‘‘ سے فرمائی ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اٰل عمران، ۵/۶، الحدیث: ۳۰۰۹،چشتی)
حج فرض ہونے کے لئے زادِ راہ کی مقدار
کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے خرچے کے علاوہ ہونا چاہئے۔ راستے کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔مزید تفصیل فقہی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں ۔
وَمَنۡ کَفَرَ : اور جو منکر ہو ۔ ارشاد فرمایا کہ ’’حج کی فرضیت بیان کردی گئی، اب جو اس کا منکر ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے بلکہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرضِ قطعی کا منکر کافر ہے ۔
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﮐﺎﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺫﯾﺖ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻧﮯ ﻓﺎﻧﯽ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ؛ ﺟﺒﮑﮧ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﻭ ﻣﻤﮑﻨﮧ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺑﻨﮯ ۔ ﮐﭽﮫ ﻧﺎﺁﺷﻨﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﭘﮧ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺑﮯ ﻧﺸﺎﮞ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ؛ ﻧﺎﮨﻤﻮﺍﺭ ؛ ﺳﻨﺴﺎﻥ؛ ﻏﯿﺮ ﺷﻔﺎﻑ ؛ ﺑﮯ ﺫﺍﺋﻘﮧ ؛ ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﺍﻭﺭ ﺍﺫﯾﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﮔﮭﺎﭨﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺤﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﮐﺎﮦ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺑﮩﺘﮯ ﻃﻮﻓﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﮭﭙﯿﮍﮮ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻧﮯ ﮔﺮﺩﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻨﺴﺘﮯ ﺍﺗﮭﺎﮦ ﮔﮩﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﻕ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻓﻨﺎ ﺗﮏ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﮯ ﺷﻨﺎﺳﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺳﮯ ﺳﺮﺷﺎﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﻮ ﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮐﯽ ﺳﺮﺳﺒﺰ ﻭ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﻭﺍﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺍﮨﯽ ﺑﻨﮯ؛ ﺟﺒﮑﮧ ﮨﻤﻮﺍﺭ؛ ﺧﻮﺵ ﺫﺍﺋﻘﮧ؛ ﺧﻮﺵ ﺭﻧﮓ ” ﺷﻔﺎﻑ“ ﻣﺴﺮﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﮔﮭﺎﭨﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﺑﺤﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻋﺎﻓﯿﺖ ﻭ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺣﻞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﻝ ﺑﻨﮯ ؛ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺩﺭﯾﺎ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﻮﺝ ﻧﮯ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺎ؛ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻮﺍﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮔﮭﭩﺎؤﮞ ﻧﮯ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺎ ۔ ﺍﮔﺮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺧﻮﺭﺷﯿﺪ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮐﺮﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻣﺎﮨﺘﺎﺏ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻮﺍﻭﮞ ﻧﮯ ﺻﺒﺢ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻧﺴﯿﻢ ﺳﺤﺮ ﺑﻦ ﮔﺌﯿﮟ ۔
ﻧﺴﺒﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﺭﻧﮓ ﺑﮑﮭﯿﺮﺗﯽ ﮨﮯ ؛ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﯽ ﻣﭩﯽ ﮐﻨﺪﻥ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺍﮔﺮ ﺧﯿﺮ ﮐﯽ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﺮﮐﺖ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺷﺮ ﮐﯽ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﻋﺚ ﺯﺣﻤﺖ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﺟﺴﮑﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﻘﺎﻡ ﺭﺣﻤﺖ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﻘﺎﻡ ﺫﻟﺖ؛ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﺎ ﮨﯽ ﮐﻤﺎﻝ ﮨﮯ ۔
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮐﭩﮭﻦ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﻮﻝ ﺑﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﺩﺧﻞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﺴﻄﺮﺡ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﮔﯽ ؟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ : ” ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﮐﮭﺎ۔ ﺍﻧﮑﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺟﻦ ﭘﺮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﯿﺎ ۔ ﻧﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺟﻦ ﭘﺮ ﺗﯿﺮﺍ ﻏﻀﺐ ﮨﻮﺍ؛ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮔﻤﺮﺍﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ۔ “ (ﺍﻟﻔﺎﺗﺤﮧ 5،6، 7 )
ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﻨﺰﻝ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻭﺭﻧﮧ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﺎ ﮨﯽ ﮐﻤﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺍﮨﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﺑﻨﺪﮦ ﮐﯽ
ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﻠﻤﮧ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﮯ ۔ ’ ﻻ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺷﮯ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻧﺴﺒﺖ ﻧﺎﻃﮧ ﺗﻮﮌﺍ ﯾﮧ ﭘﮩﻼ ﻣﻘﺎﻡ ؛ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻧﺴﺒﺖ ﺟﻮﮌﯼ ﮐﮧ ﻭﮨﯽ ﻣﻌﺒﻮﺩ ﺑﺮﺣﻖ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﻘﺎﻡ ؛ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻧﺴﺒﺖ ﺟﻮﮌﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﻼ ﻣﻘﺎﻡ ۔ ﺩﯾﺪﮦ ﺩﻝ ﻭﺍ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﻣﻘﺎﻡ ﺁﮔﮩﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮯ ۔ ﺧﺒﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﺧﯿﺮ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ۔ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﺐ ﮨﮯ ۔ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺁﺏ ﺯﻡ ﺯﻡ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺻﻔﺎ ﻭ ﻣﺮﻭﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﮦ ﻃﻮﺭ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺟﻦ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﻃﻮﺍﻑ
ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺳﮑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﻣﻮﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﯽ ﻟﮍﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﺭﻗﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮨﻤﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ۔ (ﺍﮔﺮ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ
ﮐﻮﺗﺎﮨﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎ ﻟﯽٰ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ،چشتی)
ﺑﻠﻎ ﺍﻟﻌﻠٰﮯ ﺑﮑﻤﺎﻟﮧ
ﮐﺸﻒ ﺍﻟﺪﺟٰﮯ ﺑﺠﻤﺎﻟﮧ
ﺣﺴﻨﺖ ﺟﻤﯿﻊ ﺧﺼﺎﻟﮧ
ﺻﻠﻮﺍ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ
ﻧﺴﺒﺖِ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﯿﺴﺮﮨﻮﺗﻮﻧﮩﺎﮞ ﺧﺎﻧﮧ ﺀﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﻮﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎﮨﮯ ، ﻧﺴﺒﺖ ﮨﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﮯ ، ﻧﺴﺒﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﯾﻦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﻧﺴﺒﺖ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺗﻮ ﻧﻤﺎﺯﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﯽ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﺍﻗﯿﻤﻮﺍ ﺍﻟﺼﻠﻮﺓ “ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻮﺍﭘﻨﯽ ﻋﺮﺑﯽ ﺩﺍﻧﯽ ﭘﺮ ﻧﺎﺯﺍﮞ ﻓﺼﺤﺎﺀ ِ ﻋﺮﺏ ﻣﺘﺤﯿﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﮑﻢِ ﺻﻠﻮﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺠﺎ ﻻﺋﯿﮟ،ﻧﮧ ﻃﺮﯾﻖِ ﺻﻠﻮﮦ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩِ ﺭﮐﻌﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮔﺌﯿﮟ ، ﻓﺼﺎﺣﺖ ﻭ ﺑﻼﻏﺖ ﺩﯾﺎﺭِ ﯾﺎﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺎﻥِ ﺣﺎﻝ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ، ﻧﺴﺒﺖِ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻓﺮﺽ ﮐﯽ ﺑﺠﺎ ﺁﻭﺭﯼ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ؟ ﺳﮑﻮﺕِ ﻣﺤﺾ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻵﺧﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺤﯿﻒ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﺮﺗﻌﺶ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ، ﻓﺼﺎﺣﺖ ﻭ ﺑﻼﻏﺖ ﺳﻮﺍﻟﯽ ﺑﻨﮑﺮ ﻣﻔﮩﻮﻡِ ﻟﻐﺖ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ، ﺳﻮﺍﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ” ﮐﯿﻒ ﻧﺼﻠﯽ ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ” ﺁﻗﺎ ﮨﻢ ﮐﯿﺴﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ؟ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻓﺮﯾﻀﮧ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﯾﮟ ۔۔ ﭘﻮﺭﺍ ﻗﺮﺁﻥ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﮯ، ﺍﻟﺤﻤﺪ ﺳﮯ ﻭﺍﻟﻨﺎﺱ ﺗﮏ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎﮔﯿﺎ۔ﺟﻮﺍﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ، ” ﺻﻠﻮﺍ ﮐﻤﺎ ﺭﺍﯾﺘﻤﻮﻧﯽ ﺍﺻﻠﯽ “ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻭﯾﺴﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮪ ﻟﻮ۔
ﺷﻮﻕ ﺗﯿﺮﺍ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺍﻣﺎﻡ
ﻣﯿﺮﺍ ﻗﯿﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺣﺠﺎﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺠﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺣﺠﺎﺏ
ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺩﺍﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻟﻮ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎﮨﻮﮞ ﻭﯾﺴﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﻭ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﻧﺴﺒﺖِ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﻤﺎﺯﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ، ﻧﻤﺎﺯ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﻭﮞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ، ﺟﺲ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮟ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺍﺱ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﻞ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﭘﮍ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ؟ ﮐﺴﯽ
ﻋﺎﺷﻖ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﮯ ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﺗﮭﯽ ﺭﮐﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻮﺵ ﮐﺐ ﺗﮭﺎ ﺳﺠﻮﺩ ﮐﺎ
ﺗﯿﺮﮮ ﻧﻘﺶِ ﭘﺎ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﮏ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ
ﻧﺴﺒﺖ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮﺗﻮ ﺫﺭﺍ ﻣﻨﺎﺳﮏ ﺣﺞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﻮ، ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺣﺞ ﮐﯿﺎﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺳﻌﯽ ﮨﮯ، ﺫﺭﺍ ﺻﻔﺎ ﻭﻣﺮﻭﮦ ﮐﻮﺩﯾﮑﮭﻮ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﻮﺍ : ” ﺍﻥ ﺍﻟﺼﻔﺎﻭﺍﻟﻤﺮﻭﮦ ﻣﻦ ﺷﻌﺎﺋﺮﺍﻟﻠﮧ “ ﮐﮧ ﺻﻔﺎ ﻭ ﻣﺮﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ؟ ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺴﮯ ؟ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﺗﺮﺍ، ﮐﯿﺎﮐﺒﮭﯽ ﺍﻥ ﭘﺮ ﭼﻼ ؟ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺍﺗﺮﻧﺎ ، ﯾﻤﯿﻦ
ﻭﯾﺴﺎﺭ ﺗﻮ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﮯ لیئے ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺗﻮ ﻭﺭﺍﺀ ﺍﻟﻮﺭﺍیٰ ۔ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺻﻔﺎ ﻭ ﻣﺮﻭﮦ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺴﮯ ؟ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻨﺪﮮ ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻋﻼﺋﻖِ ﺑﺸﺮﯾﮧ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﮞ ، ﻣﮕﺮ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﺎﮨﻮﮞ ، ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ : ﻭﺍﻟﺒﺪﻥ ﺟﻌﻠﻨﺎﮬﺎﻟﮑﻢ ﻣﻦ ﺷﻌﺎﺋﺮﺍﻟﻠﮧ : ﮐﮧ ﻭﮦ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺟﻮ ﺗﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ،ﺍﺱ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺗﻮ ﮐﺮﻡ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺑﮩﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻨﮭﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺧﺪﺍ ﯾﺎﺩ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﺣﺞ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺧﺎﺹ ﻟﺒﺎﺱ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺳﻼ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﻮﮞ ؟ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﻮﮞ ؟ ﺳﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺍﻥ ﺳﻼ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ علیہ السّلام ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﻮ ﻧﺒﮭﺎؤ ، ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺣﺮﺍﻡ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻟﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺧﺒﺮ ﺩﺍﺭ “ ﺍﺻﻄﺒﺎﻍ” ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ، ﯾﻌﻨﯽ ﺩﺍﯾﺎﮞ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﻧﻨﮕﺎ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮍﺍ ﺍﻣﯿﺮ ﮨﻮﮞ ، ﻣﮑﻤﻞ ﺟﺴﻢ ﮈﮬﺎﻧﭙﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭙﮍﺍ ﺧﺮﯾﺪ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﭘﮭﺮ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﻨﮕﺎ ﮐﺮﻭﮞ ؟ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﮐﺎ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﻨﮕﺎ ﺗﮭﺎ، ﺑﺲ ﻧﺴﺒﺖِ ﺧﻠﯿﻞ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻭ ۔ ﺟﻨﺎﺏ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﭼﮑﺮ ﺍﮐﮍ ﮐﺮ ، ﺷﺎﻧﮯ ﮨﻼ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺗﯿﺰﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻼﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ”ﺭﻣﻞ “ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺟﻨﺎﺏ ﺍﮐﮍ ﮐﺮ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ
ﺧﺪﺍﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ؟ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﻮﮞ ؟ ﺍﺳﯽ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺗﻮ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﻭ ﻻ ﺗﻤﺶ ﻓﯽ ﺍﻻﺭﺽ ﻣﺮﺣﺎ “ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﮐﮍ ﮐﺮ ﻣﺖ ﭼﻠﻮ ۔ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﺪﺍﮐﻮ ﻣﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺁﺝ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ، ﻣﯿﺰﺍﺏ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ،ﺣﻄﯿﻢ ﮐﮯ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﺍﮐﮍ ﮐﺮ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﮯ ، ﺁﺧﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ؟ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺒﯿﺐ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻓﺎﺗﺤﺎﻧﮧ ﺷﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ، ﺟﺐ ﮐﻞ ﮐﻔﺎﺭﻭ ﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﺎﻧﺜﺎﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺁﻗﺎﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﭼﮑﺮ ﺍﮐﮍ ﮐﺮ ﭼﻠﻮ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺭﻋﺐ ﻭ ﺩﺑﺪﺑﮧ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ، ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻭﮦ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﻭ ﺍﺩﺍ ﺭﺏ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﮐﮍ ﮐﺮ ﭼﻠﻨﺎ ﺣﺞ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ، ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﻧﺴﺒﺖِ ﯾﺎﺭ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﺫﺭﺍ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﯿﮯ، ﻃﻮﺍﻑ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺣﮑﻢ ﺁﮔﯿﺎ ﮐﮧ : ”ﻭَﺍﺗَّﺨِﺬﻭﺍ ﻣِﻦ ﻣَّﻘَﺎﻡِ ﺍِﺑﺮَﺍﮬِﯿﻢَ ﻡ ﺻَﻠﯽٰ “ ﺍﻭﺭ ( ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ) ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ( ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ) ﮐﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﻮ ﻣﻘﺎﻡِ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﻨﺎ ﻟﻮ ” ﻣﮕﺮ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ ﻣﻘﺎﻡِ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻭﮦ ﭘﺘﮭﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺒﯿﺐ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﮕﺎﺗﮭﺎ،ﺍﺱ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺩﻋﺎﺋﮯ ﻣﯿﻼﺩِﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ، ﺑﺲ ﺍﺱ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻭ،۔ ﺫﺭﺍ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﮯ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻢ ﺁﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺣﺠﺮ ﺍﺳﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﻭ،۔ ﺣﺠﺮِ ﺍﺳﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ؟ﻣﮕﺮ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﻭﮞ،ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ، ﯾﮧ ﻧﺴﺒﺖ ﻭﺍﻻ ﭘﺘﮭﺮ ﮨﮯ، ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺣﺠﺮ ﺍﺳﻮﺩ ” ﺍﻧﯽ ﺍﻋﻠﻢ ﺍﻧﮏ ﺣﺠﺮ ﻟﻦ ﺗﻀﺮﻧﯽ ﻭﻻ ﺗﻨﻔﻊ “ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﭘﺘﮭﺮ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﻔﻊ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻧﻘﺼﺎﻥ، ” ﻣﺎﻗﺒﻠﺘﮏ “ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮧ ﭼﻮﻣﺘﺎ، ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮﺑﮭﯽ ﭼﻮﻡ ﺭﮨﺎﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ” ﻭﻟﻮﻻﺍﻧﯽ ﺭﺍﯾﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﯾﻘﺒﻠﮏ ﺛﻢ ﻗﺒﻠﮧ “ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﻮﺳﮧ ﻟﯿﺎ ۔
ﮐﭽﮫ ﺑﻌﯿ ﺪﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺍﮎ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﮨﻮ ، ﺟﺲ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﺫﺭﮦ ﺫﺭﮦ ﺍﺭﺗﻌﺎﺵ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺒﺖ ﻭ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ , ﺁﺋﯿﮯ ﺍﺱ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﺴﺒﺖ ِﻻﺛﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮨﻤﮑﻨﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﻕ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻟﺬﺕ ﻻ ﺛﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺳﺮﺷﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ : ﺍﻥ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﻭ ﻣﻼﺋﮑﺘﮧ ﯾﺼﻠّﻮﻥ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﯾﺎ ﺍﯾﮭﺎ ﺍﻟﺬﯾﻦ ﺁﻣﻨﻮﺍ ﺻﻠّﻮﺍ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠّﻤﻮﺍ ﺗﺴﻠﯿﻤﺎ۔ ( ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ )
ترجمہ : ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺩ ﻭ ﺳﻼﻡ ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺩ ﻭ ﺳﻼﻡ ﺑﮭﯿﺠﻮ ۔ ﺍﻟﻠﮭﻢ ﺻﻠﯽ ﻋﻠﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺍﻻﻣﯽ ﻭﻋﻠﯽ ﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ
ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment