بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم میں سیّدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا کا مقام
عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ : دَعَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فَاطِمَة ابْنَتَهُ فِي شَکْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيْهَا، فَسَارَّهَا بِشَيءٍ فَبَکَتْ، ثُمَّ دَعَاهَا فَسَارَّهَا فَضَحِکَتْ، قَالَتْ : فَسَأَلْتُهَا عَنْ ذَلِکَ، فَقَالَتْ : سَارَّنِي النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَخْبَرَنِي : أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيْهِ، فَبَکَيْتُ، ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أنِّي أوَّلُ أهْلِ بَيْتِهِ أتْبَعُهُ، فَضَحِکْتُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بلایا پھر ان سے کچھ سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر انہیں قریب بلا کر سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اس بارے میں سیدہ سلام اﷲ علیہا سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے کان میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی مرض میں وصال ہو جائے گا۔ پس میں رونے لگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی اس پر میں ہنس پڑی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3511، و کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1327، الرقم : 3427، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1904، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 296، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 77، و في فضائل الصحابة، 2 / 754، الرقم : 1322)
عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّيْمِيِّ، قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَي عَائِشَة، فَسُئِلَتْ أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ : فَاطِمَة، فَقِيْلَ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ : زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ .
ترجمہ : حضرت جمیع بن عمیر تیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون زیادہ محبوب تھا؟ اُمُّ المؤمنین رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ سلام اﷲ علیہا۔ عرض کیا گیا : مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب تھا)؟ فرمایا : اُن کے شوہر، جہاں تک میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور راتوں کو عبادت کے لئے بہت قیام کرنے والے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874، و الحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4744، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403، 404، الرقم : 1008، 1009، و ابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 219، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 125، و المزي في تهذيب الکمال، 4 / 512، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 273)
عَنِ ابْنِ بُرَيْدَة، عَنْ أَبَيْهِ، قَالَ : کَانَ أَحَبَّ النِّسَاءِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَاطِمَة وَمِنَ الرِّجاَلِ عَلِيٌّ.رَوَاهُ التِّرْمِِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ.
ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا سے تھی اور مردوں میں سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الرقم : 3868، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 140، الرقم : 8498، و الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4735، و الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 199، الرقم : 7262، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 131، و الشوکاني في درالسحابة، 10 / 274)
عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : کاَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا سَافَرَ کَانَ آخِرُ عَهْدِهِ بِإِنْسَانٍ مِنْ أهْلِهِ فَاطِمَة، وَ أوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ عَلَيْهَا إِذَا قَدِمَ فَاطِمَة. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ .
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا اِرادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا ہوتیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، 4 / 87، الرقم : 4213، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 275، و البيهقي في السنن الکبري، 1 / 26، و زيد البغدادي في ترکة النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 57،چشتی)
عَنْ عَائِشَة أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا رَآهَا قَدْ أَقْبَلَتْ رَحَّبَ بِهَا، ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهَا فَجَاءَ بِهَا حَتَّي يُجْلِسَهَا فِي مَکَانِهِ. وَ کَانَتْ إِذَا رَأَتِ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم رَحَّبَتْ بِهِ، ثُمَّ قَامَتْ إِلَيْهِ فَقَبَّلَتْهُ صلي الله عليه وآله وسلم رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ .
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کو آتے ہوئے دیکھتے تو انہیں خوش آمدید کہتے، پھر ان کی خاطر کھڑے ہو جاتے، انہیں بوسہ دیتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر لاتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے اور جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف تشریف لاتے ہوئے دیکھتیں تو خوش آمدید کہتیں پھر کھڑی ہو جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دیتیں۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبري، 5 / 391، 392، الرقم : 9236، 9237، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 403، الرقم : 6953، و الحاکم في المستدرک، 4 / 303، الرقم : 7715، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 336، الرقم : 947، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 367، الرقم : 2967، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 242، الرقم : 4089، و الدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 100، الرقم : 184)
عَنْ أبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه قَالَ : نَظَرَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي عَلِيٍّ وَ فَاطِمَة وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ، فَقَالَ : أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکُمْ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَکُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کی طرف نظرِ اِلتفات کی اور فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا، جو تم سے صلح کر ے گا میں اُس سے صلح کروں گا (یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 442، و في فضائل الصحابة، 2 / 767، الرقم : 1350، و الحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4713، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم : 2621، و الخطيب في تاريخ بغداد، 7 / 137، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 122، 3 / 257، 258،چشتی)
عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ عَائِشَة رضي اﷲ عنها : أنَّهَا قَالَتْ : کَانَتْ (فَاطِمَة) إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ صلي الله عليه وآله وسلم رَحَّبَ بِهَا وَقَامَ إِلَيْهَا فَأخَذَ بِيَدِهَا فَقَبَّلَهَا وَ أَجْلَسَهَا فِي مَجْلَسِهِ. رَواهُ الْحَاکِمُ ۔
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ سلام اﷲ علیہا کو خوش آمدید کہتے، کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الرقم : 4732، و النسائي في فضائل الصحابة، 1 / 78، الرقم : 264، و ابن راهوية في المسند، 1 / 8، الرقم : 6، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 101، و في شعب الإيمان، 6 / 467، الرقم : 8927، و المقري في تقبيل اليد، 1 / 91، و العسقلاني في فتح الباري، 11 / 50)
عَنْ عَائِشَة أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : کَانَتْ فَاطِمَة إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ صلي الله عليه وآله وسلم قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا وَ رَحَّبَ بِهَا وَ أَخَذَ بِيَدِهَا، فَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلَسِهِ، وَ کَانَتْ هِي إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَامَتْ إِلَيْهِ مُسْتَقْبِلَة وَ قَبَّلَتْ يَدَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر ان کا استقبال فرماتے، انہیں بوسہ دیتے خوش آمدید کہتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی نشست پر بٹھالیتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے ہاں رونق افروز ہوتے تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے کھڑی ہو جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ دیتیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔(أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 174، الرقم : 4753، والمحب الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 85، و الهيثمي في موارد الظمآن : 549، الرقم : 2223، و العسقلاني في فتح الباري، 11 / 50، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 279،چشتی)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما : أنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا سَافَرَ کَانَ آخِرُ النَّاسِ عَهْدًا بِهِ فَاطِمَة، وَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ کَانَ أوَّلُ النَّاسِ بِهِ عَهْدًا فَاطِمَة رضي اﷲ عنها فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : فِدَاکِ أبِي وَ أُمِّي. رَوَاهُ الْحَاکِم .
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو کر کے سفر پر روانہ ہوتے وہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا ہوتیں، اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا ہی ہوتیں، اور یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرماتے : (فاطمہ!) میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 169، 170، الرقم : 4739، 4740، وابن حبان في الصحيح، 2 / 470، 471، الرقم : 696، والهيثمي في موارد الظمآن : 631، الرقم : 2540، وابن عساکر في ’تاريخ دمشق الکبير، 43 / 141)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَة رضي اﷲ عنه، قَالَ : قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طالب رضي اﷲ عنه : يَا رَسُوْلَ اﷲ، أَيُمَا أَحَبُّ إِلَيْکَ : أَنَا أَمْ فَاطِمَة؟ قَالَ : فَاطِمَة أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْکَ، وَ أَنْتَ أَعَزُّ عَلَيَّ مِنْهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ! آپ کو میرے اور حضرت فاطمہ میں سے کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ مجھے تم سے زیادہ پیاری ہے، اور تم میرے نزدیک اس سے زیادہ عزیز ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه طبراني في المعجم الأوسط، 7 / 343، الرقم : 7675، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 173، والمناوي في فيض القدير، 4 / 422)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment