بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا پیغام
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوعَلَیْہِمْ اٰیَاتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ۔ صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمْ۔
ترجمہ : یقینا اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک عظمت والے رسول کو مبعوث فرمایا ، جو ان پر اس کی آیتیں تلاوت فرماتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں ،بلاشبہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ (سورۃ اٰل عمران۔164)
بعثت سے پہلے کے حالات : ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی ساری انسانیت کے حق میں نعمت عظمی ہے،آپ کی بعثت سے قبل جاہلیت کا دور دورہ تھا، جزیرۂ عرب کے بشمول ساری دنیا جہالت کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی،لوگ بداعتقادی ،توہم پرستی اور کفر وشرک کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے،فحاشی وبے حیائی میں ملوث تھے،ظلم وزیادتی اور حق تلفی عام تھی،سودخوری اورجوابازی کا بازار گرم تھا،برسرعام مئے نوشی وخون ریزی کی جاتی تھی، لوگوں کے درمیان محبت والفت کے تعلقات نہیں ہواکرتے تھے بلکہ عداوت ودشمنی ،بغض وعناد ان کے مابین عام تھا،ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے مخالفت رکھتا تھا،ایک خاندان دوسرے خاندان کو ناپسند کرتا تھا،نفرت ومخالفت کی وجہ سے دو قبیلوں کے درمیان لڑائی اور جنگ کی نوبت آتی ،ہر دوقبیلے اپنے حلیف قبائل سے تعاون لیتے تاکہ دوسرے قبیلہ کو تباہ وتاراج کردیں،اس طرح متعدد قبائل کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی،وہ اپنی مکمل طاقت ،صِرف اس مہم میں خرچ کرتے کہ کسی طرح مقابل والے قبیلہ کے افرادکی خونریزی کریں اور اس قبیلہ کا نام ونشان صفحۂ ہستی سے مٹادیں،ایک چھوٹی سے بات پرعرب کے دو قبیلوں "اوس وخزرج"کے درمیان تکرار ہوئی اور تکرار کی یہ حالت جنگ میں تبدیل ہوگئی،اوس وخزرج کے درمیان چھڑی یہ جنگ ایک سو بیس(120)سال تک جاری رہی۔
اس دہشت ناک ماحول میں انسانی جان کیسے محفوظ رہ سکتی تھی؟جان کی ارزانی کا یہ عالم ہے تو مال کی تباہی وبربادی کا کیا پوچھنا؟دلوں میں شدت وسختی تھی،تعلقات میں کشیدگی تھی،خود غرضی ،دھوکہ دہی ،غرور وتکبر کو لوگ اپنی شان سمجھتے تھے،انسانیت سِسک کر دم توڑ رہی تھی،ایسے نازک وقت میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لئے ،کفر وشرک کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان واسلام کے انوار سے منور کرنے اور جہالت وناخواندگی کو مٹاکر دولت علم سے مالامال کرنے کے لئے اللہ تعالی نے محسن انسانیت ،رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ختم نبوت کی خلعت فاخرہ پہناکر تمام مخلوق کی طرف بھیجا،رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تشریف آوری کیا ہوئی،کائنات پر رحمت سایہ فگن ہوگئی،انسانیت کو قرار حاصل ہوا،فساد وبدامنی کی جگہ امن وسلامتی آگئی،قَسْوَتِ قلبی کی جگہ شفقت ونرمی آگئی،تعلقات میں کشیدگی کی جگہ دلوں کی کشادگی نے لے لی،خودغرضی ودھوکہ دہی کی جگہ اخلاص وللہیت نے اختیار کی،غرور وتکبر کی جگہ فروتنی وانکساری نے حاصل کرلی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بکھرے ہوئے معاشرہ کی شیرازہ بندی کی،سماج کے انتشار وپراگندگی کو اتحاد واتفاق سے بدل دیا،جہالت کی تاریکیوں میں حیراں وسرگرداں دنیا کو علم ومعرفت کی روشنی عطا فرمائی،سِسَکتی ہوئی انسانیت کو زندگی سے آشنا کردیا،معلم کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بتلایا کہ تمہاری طاقت وقوت خونریزی اور غارت گیری کے لئے نہیں،بلکہ فتنہ وفساد کا سد باب کرکے امن قائم کرنے کے لئے ہے،تمہاری کدّ وکاوش اختلاف کے لئے نہیں ،یکجہتی کے لئے ہو،تمہاری کوشش خود غرضی ودھوکہ دہی کے لئے نہیں،ایثار وقربانی کے لئے ہو،تمہارا وجود ظلم وزیادتی کرنے کے لئے نہیں بلکہ باطل کی سرکوبی اور حق کی سربلندی کے لئے ہے۔
بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عالمگیریت : نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رسالت میں اللہ تعالی نے عالمگیریت وآفاقیت رکھی ہے،آپ کسی خاص قوم وملک کے لئے نہیں بلکہ ساری مخلوق کے لئے ہادی ورہبر ہیں۔ارشاد الہی ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعٰلَمِینَ نَذِیرًا۔
بڑی بابرکت ہے وہ ذات !جس نے فیصلہ والی کتاب (قرآن کریم)اپنے بندۂ خاص (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم )پر نازل فرمائی ،تاکہ وہ تمام جہاں والوں کو ڈرانے والے ہوں۔ (سورۃ الفرقان:1)
رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت کا پیام ہمہ جہت ہے،آپ کا پیام ہرطبقہ اور گروہ کے لئے راحت رساں اور فیض بخش ہے،آپ کی بعثت کے بعد معبودان باطلہ کی پرستش کرنے والے، معبود برحق’’خدائے واحد‘‘کی عبادت کرنے لگے،آپ نے انسانی اقدار کا تحفظ فرمایا،کمزور وناتواں افراد کو ان کے حقوق دلائے،غلامی وظلم کی بیڑیوں میں قید رہنے والی انسانیت کو رہائی اور آزادانہ زندگی گزارنے کا حق دیا،اخلاق سوز حرکت کرنے والوں کو پاکیزہ اخلاق اور بلند کردار کا حامل بنایا،آپ نے دہشت وبربریت کے ماحول کو ختم کرکے امن وسلامتی ،صلح وآشتی کی فضا عام فرمائی،جنہوں نے آپ کی راہ میں کانٹے بچھائے آپ نے ان کے حق میں بھی ہدایت کی دعا فرمائی،جنگ وجدال ،خون ریزی وفساد کی عادی قوم کو محبت واخوت کا ایسادرس دیا کہ سخت دشمن بھی آپس میں بھائی بھائی ہوگئے،آپ کے اس احسان عظیم کا تذکرہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر103 میں اس طرح کیا گیا،ارشاد الہی ہے : وَاذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ، فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا۔
ترجمہ : اور تم اللہ تعالی کی نعمت کو یاد کرو؛جو(محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں) اس نے تم پر فرمائی ہے !جب کہ تم دشمن تھے،تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی،اور تم اس کی اس نعمت کی برکت سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے،اور تم لوگ دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے، تو اس نے تمہیں وہاں سے نکالا۔ (سورۂ آل عمران:103)
رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اعلان نبوت سے قبل چالیس سال مکہ مکرمہ میں گزارے،آپ کی یہ بابرکت زندگی،آپ کے اخلاق کی پاکیزگی ،معاملات کی صفائی،کردار کی بلندی اور آپ کی حق پسندی وحق گوئی کو دیکھ کر اغیار بھی آپ کو صادق وامین تسلیم کیا کرتے۔
اسی لئے اللہ تعالی نے آپ کے وجود باجود کو نعمت کبری اور آپ کی بعثت کو احسان عظیم قرار دیا،ارشاد الہی ہے : لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آَیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ۔
ترجمہ : یقینا اللہ تعالی نے اہل ایمان پر بڑا احسان فرمایا کہ ان کے درمیان انہیں میں سے ایک باعظمت رسول کو مبعوث فرمایا،جو ان پر اس کی آیتیں تلاوت فرماتے ہیں اور انہیں پاک وصاف کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کا علم عطا فرماتے ہیں،حالانکہ وہ (آپ کی آمد سے)قبل کھلی گمراہی میں تھے۔(سورۃ اٰل عمران:164)
عفو ورحمت کی عظیم مثال : کفار مکہ جواعلانِ نبوت سے لے کر ہجرت تک اور ہجرت مدینہ سے صلح حدیبیہ تک حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے رہے،ایذا رسانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی بارہا ناپاک سازشیں کیں، قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔فتح مکہ کے وقت ایسے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کے حق میں رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رحمت و الفت سے لبریز فرمان عالیشان جاری فرمایا:قَالَ لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ .. اذْہَبُوا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ۔
آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ،جاؤ تم لوگ آزاد ہو ۔ (سبل الہدی والرشاد،ج5 ص242)
اور عام اعلان فرمایاکہ : اَلْیَوْمْ یَوْمُ الْمَرْحَمَۃْ۔آج تو رحمت و مہربانی فرمانے کا دن ہے ۔ (جامع الأحادیث، مسند عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما. حدیث نمبر38481،چشتی)
جب سلطنت کی باگ ڈور ہاتھ میں آتی ہے تو انسان ظلم و انصاف کا فرق بھول جاتا ہے ، دنیا کی جتنی سوپر پاور مملکتیں گزری ہیں ،انہوں نے اپنی فتح کا جشن مظلوم افراد کا خون بہا کر منایا ہے، دنیا میں جب بڑی بڑی فتوحات ہوئیں تو فتح کے بعد مفتوحہ علاقہ میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ تاتاری قوم جب پوری قوت کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئی تو انہوں نے سارے شہر کو تہس نہس کردیا، انسانی خون کا سمندر بہادیا۔صلیبیوں نے جب ملک شام پرغلبہ و اقتدار حاصل کیا توخون کی ندیاں رواں کردیں ، اس وقت مسجد اقصیٰ میں گھوڑوں کے گھٹنے انسانی خون میں ڈوبے ہوئے تھے ، ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ دنیا نے صلیبیوں کا یہ اقتدار دیکھا، جہاں انسانی خون کی ندیاں بہتی ہیں، انسانیت سسک سسک کر دم توڑتی ہے، فتح مکہ کے موقع پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے تمام بادشاہوں ، سربراہانِ مملکت اورارباب سلطنت کے لئے عظیم مثال قائم فرمائی۔ اقتدار حاصل کرنے والوں کو ایک آفاقی پیام دیا ، فتح مکہ جیسا عظیم کارنامہ ہوا ،جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کواپنے زیراقتدارملاحظہ فرمایا،چاہتے تو تمام کافروں کو قتل کیا جاسکتاتھا ، لیکن آپ نے ارشاد فرمایا :آج تم پر کوئی داروگیر نہیں، تم لوگ آزاد ہو،پر امن رہو۔
دنیا فکری، عملی اور اخلاقی اعتبار سے تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی ، اندھیریوں میں کھوگئی تھی، رب العالمین نے اپنے حبیب کریم،آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو جلوہ گر فرمایا، جن کی کرنوں سے اقطاعِ عالم کو روشن کر دیا گیا جس نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے عالم کو امن وسلامتی کا پیغام دیا ، جس نبی عالی وقار نے انسانیت کو درس حیات دیا، جس معلم کائنات نے مخلوق کو ان کے حقوق عطاکئے اورخالق کا عرفان عطاکیا اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصدبعثت کے بارے میںاللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا : الر کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیزِالْحَمِیْدِ ۔
ترجمہ : الف، لام، را،یہ عظیم کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیاہے تاکہ آپ لوگوں کوتاریکیوں سے نکال کر نور کی جانب لے آئیں ، ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف لائیں جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہے۔(سورۃ ابراھیم ۔آیت 1)
سختیاں ختم کردی گئیں : گزشتہ امتوں کے ذمہ گراں بار احکام تھے، سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک کے سبب انہیں اُٹھالیاگیا، گزشتہ شریعت کے احکام میں جوسختیاں تھیں وہ برخاست کردی گئیں ، چنانچہ یہود کے پاس ہفتہ کے دن ہر قسم کا دنیوی کام کرناممنوع تھا؛ کپڑا ناپاک ہوجائے تو اُسے کاٹ کر علیٰحدہ کرناضروری تھا؛ اب شریعت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں ہفتہ کے دن دنیوی کام کرنا ممنوع نہیں ،کپڑے کو دھونے سے پاکی حاصل ہوجاتی ہے ، پہلے مال غنیمت کا استعمال حرام تھا؛ اب اُس کی حرمت ختم کردی گئی، عبادت کے لئے مخصوص مقام پر حاضرہونالازمی تھا؛ اب ساری زمین کو جائے عبادت اور سجدہ گاہ بنادیاگیا، پاکی حاصل کرنے کے لئے پانی کے استعمال کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہ تھا؛ اب شرعی عذرکی بنامٹی سے پاکی حاصل کرنے کی اجازت دی گئی،ماہواری میں عورت پربہت ساری پابندیاں عائد تھیں؛ازدواجی تعلق کے سوا باقی تمام تعلقات کو جائز ومباح قرار دیاگیا،اُس کے ساتھ خوردونوش،نشست وبرخواست وغیرہ ممنوع نہ رہے۔
اور اس طرح کی تمام مشقتوں کو بعثت کی برکت سے دور کردیا گیااور انہیں یسروسہولت،راحت وسکون پر مبنی احکام عطاکردئے گئے اور یہ سب رحمۃ للعالمین کی جلوہ گری کی برکت اور آپ ہی کا فیضان ہے،جیساکہ ارشاد خداوندی ہے : وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیْہِمْ ۔
ترجمہ : اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے ان کا وہ بوجھ جو ان پر لدا ہواہے اتار تے ہیں اور وہ زنجیریں توڑدیتے ہیں‘ جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔(سورۃ الاعراف ۔157)
طوقِ غلامی سے آزادی : رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد نے سختیوں کو آسانیوں سے ، صعوبتوں کو سہولتوں سے بدل دیا ، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلوہ گری کیا ہوئی ، غلامی کی بیڑیاں توڑدی گئیں ، قیدوبندکی زنجیریں کھولدی گئیں ۔
چنانچہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسے ہی دنیا میں آمد ہوئی ، حضرت ثویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آزادی مل گئی ،(صحیح البخاری، ج2ص،764، عمدۃ القاری، کتاب النکاح،باب من مال لارضاع بعد حولین ، ج4ص،45)
اللہ عزّوجل نے بتایاکہ یہ وہ حبیب ہیں جوانسانیت کوطوقِ غلامی سے آزاد فرمانے والے ہیں ۔
ظلم کی جکڑ بندیوں سے رہائی : یہ وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو انسانی معاشرہ کو ظلم کی جکڑبندیوں سے نکالنے والے ہیں ،انسانی افکار کو تعصب وجانبداری کی گرفت سے رِہا کرنے والے ہیںاوران کے محدود تعلقات کو بین الاقوامی وسعت دینے والے ہیں، جیساکہ سنن ابوداود کی یہ روایت ناطق حق ہے ، ارشاد نبوی ہے : أَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاہَدًا أَوِ انْتَقَصَہٗ أَوْ کَلَّفَہٗ فَوْقَ طَاقَتِہٖ أَوْ أَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِیجُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔
ترجمہ : خبردار!جس شخص نے کسی صاحب معاہدہ غیر مسلم اقلیتی فرد پر ظلم کیا یا اس کا حق چھین لیا یا اسے اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری دی یا اس کی خوشدلی کے بغیر اس کی کوئی چیزلے لی تو میں قیامت کے دن اس زیادتی کرنے والے کے خلاف مقدمہ پیش کروں گا۔(سنن ابی داود،کتاب الخراج ،باب فی تعشیر أہل الذمۃ إذا اختلفوا بالتجارات۔حدیث نمبر3054)
رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیسا پیارا نظام عطا فرمایا ہے جس میں غیر مسلم شخص پر بھی ظلم روا نہیں رکھا گیا،اسلامی تعلیمات کا یہ وہ عظیم پہلو ہے کہ آدمی اگر تعصب کی عینک نکال کر حقیقت کودیکھے تو ہمیشہ کے لئے اس نظام کو قبول کرلے ۔
شیر خوارگی میں پیغام عدل : زمانۂ جاہلیت میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کو چھین لینا فخر سمجھتے تھے،کسی پر ظلم وزیادتی کرنا بلندہمتی اور بہادری سمجھتے تھے ، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت عدل کا پیغام دیا، انصاف کی تعلیم دی اورحقوق کی ادائیگی کا عملی نمونہ ظاہر فرمایا، جبکہ آپ شیرخوارگی کے عالم میںتھے، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں لے کر جب سیدھی جانب کا دودھ پیش کیا تو آپ نے نوش فرمایا ، پھرجب بائیں جانب کا دودھ پیش کیا توآپ نے نوش نہیں فرمایا، تب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ آپ نے ان کے دوسرے صاحبزادہ حضرت عبداللہ کے لئے اس حصہ کو چھوڑدیا ہے ۔کہتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیر ہوئے اور انکے صاحبزادے بھی سیراب ہوئے۔(المواہب اللدنیۃ مع حاشیۃ الزرقانی ، ج1،ص269،چشتی)
واعطیتہ ثدیی الایمن ،فاقبل علیہ بما شاء من لبن ،فحولتہ الی الایسر فابی،وکانت تلک حالہ بعد۔ قال اہل العلم :الھمہ اللہ تعالی ان لہ شریکا فالھمہ العدل۔قالت فروی وروی اخوہ۔
پھرحلیمہ وہ کہ جن کا خانداں تک سعد تھا
آئیں خدمت میں تو دیکھا ان کوشدنی مسکرا
دا ہنی جانب کا ان کے دودھ نوش جاں کیا
جانب چپ ان کے بچے کے لئے رکھے بچا
طفل بھی گرتھے تودانش تھی طفیل اُن کی رسا
عدل واحسان وکرم تھے جلوہ گر صبح ومسا
ملاحظہ فرمائیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے گہوارہ میںرہ کر امت کو پیغامِ عدل دیا، شیرخوارگی کے مبارک دورہی سے ادائی حقوق کا درس دیا اور خود عملی طورپر اس بات کو واضح کردیا کہ اب تک تو حقوق پامال کئے جاتے تھے اور اب سبھی کوان کےحقوق عطا کرنے کا قانون عطا کردیاجائیگا۔
صداقت کا پیغام : حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال زندگی، آپکی وفاشعاری اورآپ کی صداقت وامانت داری کے اغیار بھی قائل تھے،کیونکہ آپ ہمیشہ سچ ہی فرماتے ہیں ، آپ کی گفتگو میں خلاف واقعہ کبھی کوئی بات نہیں ہوتی ، آپ کی ذات اقدس سراپا صدق ہے مُستدرَک علی الصحیحینمیں روایت ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : ابوجہل نے نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : قَدْ نَعْلَمُ یَا مُحَمَّدُانَّکَ تَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ ۔
ترجمہ : اے محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور سچ بات فرماتے ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الأنعام، حدیث نمبر3187)
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کا معیار اور آپ کے اخلاق حمیدہ کاکمال اس قدر بلند تھا کہ کفار مکہ بھی اسے تسلیم کیا کرتے تھے، چنانچہ جب آپ نے صفا پہاڑپر ٹہر کر قریش کو آوازدی ، تو سب لوگ جمع ہوگئے ،آپ نے ان سے سوال کیا : اَرَاَیْتَکُمْ لَوْ اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً بِالْوَادِی تُرِیدُ اَنْ تُغِیرَ عَلَیْکُم اَکُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ.قَالُوا نَعَمْ ، مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلاَّ صِدْقًا .
ترجمہ : بتاؤ!اگر میں تمہیں اطلاع دوں کہ وادی کے پیچھے لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ، کیا تم میری بات کی تصدیق کروگے؟ انہوں نے کہا:ہاں!ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ کہتے ہوئے پایا ۔ (صحیح البخاری ،کتاب التفسیر،باب وانذر عشیرتک الاقربین ، حدیث نمبر4770)
خصائلِ حمیدہ کے ذریعہ عملی پیغام : اسی طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی کے نزول کے بعد جب امت کی فکر دامن گیر ہوئی تو ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائل حمیدہ بیان کرتے ہوئے آپ کو ان کلمات سے تسلی دیں : کَلاَّ وَاللَّہِ مَا یُخْزِیکَ اللَّہُ اَبَدًا ، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ ، وَتُعِینُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ .
ترھمہ : ہر گز نہیں!اللہ تعالیٰ آپ کی شان بلند رکھے گااور اپنی مدد کو نہیں روکے گا ، آپ تورشتہ داروں کے ساتھ بہتر سلوک کرتے ہیں ، ناداروں کابوجھ اٹھاتے ہیں ، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں ، مہمان نوازی فرماتے ہیں اور مصیبتوں کے وقت لوگوں کے کام آتے ہیں ۔ (صحیح البخاری ،باب بدء الوحی ، حدیث نمبر3،چشتی)
مصیبت زدہ افراد کی مدد کاپیغام : دورِجاہلیت میں اخلاقی انحطاط اپنی حد کو پہنچ چکاتھا، لوگوں میں رسہ کشی اور کشمکش عام تھی، تکلیف وایذا رسانی ان کاشعار تھا، انتقام کا جذبہ انسانیت کی حدوں کوپار کرچکاتھا، ایسے وحشیانہ ماحول میں سرورِدوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ہمدردی وغمگساری کی تعلیم دی ، لوگوں کے دکھ درد میں ساتھ دینے کادرس دیا ،جیساکہ صحیح مسلم شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ۔ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم۔ مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللَّہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ یَسَّرَ عَلَی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللَّہُ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللَّہُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَاللَّہُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیہِ ۔
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص کسی مومن سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کسی ادنی مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالی اس شخص سے قیامت کی بڑی مصیبت کو دور فرمادیگا،اور جو شخص کسی تنگدست کے لئے سہولت فراہم کرے گاتو اللہ تعالی اس کے لئے دنیا وآخرت میں آسانی پیدا فرمادیگا۔اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرماتا ہے،اور اللہ تعالی بندہ کی خصوصی مدد فرماتا رہتاہے جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر ،حدیث نمبر7028)
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے سہاروں کو سہارا دینے کی تعلیم دی، بے کسوں کی مدد کرنے کی تربیت فرمائی اور بے نواؤں کی فریادرسی کی ترغیب دی اور عمل خیر انجام دینے والے کے لئے اجر وثواب کی بشارت سنائی ۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حدیث مبارک ہے:عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ: السَّاعِی عَلَی الأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِینِ کَالْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَأَحْسِبُہُ قَالَ ۔وَکَالْقَائِمِ لاَ یَفْتُرُ وَکَالصَّائِمِ لاَ یُفْطِرُ .
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیوہ خاتون اور مسکین ومحتاج کو راحت پہونچانے کے لئے کوشش کرنے والا راہ خدا میں جہادکرنے والے کی طرح ہے،راوی کہتے ہیں : میں سمجھتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:وہ شخص اس شب بیدار کی طرح ہے جوکبھی تھکتا نہیں،اور اس روزہ دارکی طرح ہے جو مسلسل روزے رکھتا ہے ۔ (صحیح البخاری، باب الساعی علی المسکین، حدیث نمبر6007۔صحیح مسلم، باب الإحسان إلی الارملۃ والمسکین والیتیم، حدیث نمبر2982،چشتی)
رحمت وشفقت سے پیش آنے کی تاکید : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل جو سنگ دل افراد تھے جن میں شفقت ومہربانی کانام ونشان نہ تھا، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باہم شفقت ومہربانی کرنے کی رغبت دلائی، اور رحمت ومودت پر اُبھارا،جیساکہ جامع ترمذی اور سنن ابوداود میں حدیث پاک ہے : عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ: الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمٰنُ اِرْحَمُوا مَنْ فِی الأَرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ ۔
ترجمہ : سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لوگوں کے ساتھ رحمدلی سے پیش آنے والوں پر خدائے رحمن مہربانی فرماتا ہے،زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو !آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا ۔ (جامع الترمذی ، ابواب البر والصلۃ ،باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین، حدیث نمبر2049 ۔سنن ابو داود، کتاب الادب ، باب فی الرحمۃ ، حدیث نمبر 4943)
رسول رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم جن پاکیزہ تعلیمات کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں ،آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے،حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس نظام کے ساتھ تشریف لائے ہیں ؛آج زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظام کے ایک ایک گوشہ کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے ،رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں جو اسلامی قانون عطا فرمایا ہے اس قانون کے ایک ایک دفعہ سے غیر مسلم اقوام کو واقف وروشناس کروایا جائے ۔
یہ ایک ایسا معقول ضابطہ اورباقاعدہ نظام ہے کہ اس کا ہر گوشہ اپنے اندر ایک کشش وجاذبیت رکھتا ہے،یہ ایسا لچک دار قانون ہے کہ اس کی دفعات کو غیر جانبدارانہ طریقہ سے غور کرنے والا ہر فرد اختیار کئے بغیر نہیں رہ سکتا ،جس کا ہر کُلّیہ اور ہر جزئیہ انسانیت کوحق قبول کرنے پر آمدہ کرتا ہے،یہ ایسی پاکیزہ تعلیمات ہیں جن کا ہر حصہ طہارت وپاکیزگی پر مبنی ہے،یہ وہ درخشاں ہدایات ہیں جو انسانیت کو سیدھی راہ پر گامزن کرتی اورخدا کے قرب میں پہنچاتی ہیں ۔
عرض کرنے کا مقصود یہی ہے کہ حقیقی طور پر سکون اور یقینی طور پر اطمینان اسی نظام پر عمل کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے اوراسی قانون کو روبہ عمل لانے سے ہدایت حاصل ہوسکتی ہے،انہی تعلیمات پر عمل کرنا ، راحت ونجات کا باعث اور فلاح وکامیابی کا سبب ہے۔اس قانون میں ظلم وزیادتی کے لئے کوئی جگہ نہیں،اس نظام میں وحشت ودہشت کے لئے کوئی حصہ نہیں،ان تعلیمات میں بداخلاقی وبدکرداری کے لئے کوئی راہ نہیں ،ان ہدایات میں فحاشی وبے راہ روی کے لئے کوئی موقع نہیں ۔ یہی قانون امن والا قانون ہے،یہی نظام سلامتی والا نظام ہے، یہی تعلیمات اخلاق والی تعلیمات ہیں اوریہی ہدایات پاکیزہ ہدایات ہیں ۔
اللہ تعالی ہمیں ان پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور ان روشن ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے،اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آمد کی برکتوں سے بہریاب فرمائے اور آپ کی جلوہ گری کے انوار سے ہماری جان وایمان کو منور فرمائے ۔ آمین بجاہ نبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment