Tuesday 4 September 2018

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اہلِ ایمان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں

0 comments

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اہلِ ایمان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم اہل ایمان سے دور نہیں یہ اور بات ہے کہ ہم خود ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم سے دور ہوں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم کی شان تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم ہماری جانوں سے زیادہ قریب ہیں ۔ قران مجید میں ہے : اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ ۔ (سورۃُ الاحزاب آیت نمبر ۶)

بانی دیوبند علامہ قاسم نانوتوی صاحب لکھتےہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم مومنوں کیا جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ (تحذیر الناس صفحہ نمبر 10 مکتبہ دیوبند)

کاپی پیسٹر گوگل کے شاگردوں فیس بکی مفتیان دیوبند سے سوال بانی دیوبند لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم مومنوں کے صرف قریب نہیں بلکہ اقرب ہیں اس اقرب کا معنیٰ بتا دیجیے ؟

اور بانی دیوبند یہ سب کچھ لکھ کر آپ لوگوں کے فتوے کے مطابق کیا ہوے؟

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ : {اَلنَّبِيُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ} الأحزاب، 33 : 6 فَأَيُمَا مُؤْمِنٍ تَرَکَ مَالاً فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ کَانُوْا، فَإِنْ تَرَکَ دَيْنًا، أَوْ ضِيَاعًا فَلْيَأْتِنِي وَأَنَا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی مومن ایسا نہیں کہ دنیا و آخرت میں جس کی جان کا میں اس سے بھی زیادہ مالک نہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنوں کے لئے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ "الاحزاب، 33 : 6" سو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو جو بھی اس کا خاندان ہو گا وہی اس کا وارث ہو گا لیکن اگر قرض یا بچے چھوڑ کر مرے تو وہ بچے میرے پاس آئیں میں ان کا سرپرست ہوں ۔ اس حدیث کو امام بخاری اور دارمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : التفسير / الأحزاب، باب : النبيّ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، 4 / 1795، الرقم : 4503، والدارمی فی السنن، 2 / 341، الرقم : 2594، والبيهقی فی السنن الکبری، 6 / 238، الرقم : 12148،چشتی)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم کے کلمات نے اس ایک جملے کی مزید تفصیل و تشریح کی ہے : میں اس مؤمن سے تمام لوگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قریب ہوں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق کے لیے ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ۔‘‘ کا قرآنی جملہ پڑھ لو ۔ (بخاری و مسلم)

معنی یہ ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم ایمان والوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم ہم سے دور ہوں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم سے ہمارا رابطہ کیسے ہوگا اور ہمیں رسالت کا فیض کیسے حاصل ہوگا۔ دیکھئے یہ آسمان کا سورج ہم سے دور نہیں جو جہاں بیٹھا ہے لاہور‘ کراچی‘ ملتان میں وہ کہتا ہے سورج میرے قریب ہے حالانکہ سورج تو ایک ہے اور وہ سورج سب کے قریب ہے یہ اور بات ہے کوئی شخص شامیانہ تان لے تو وہ خود سورج سے دور ہوگیا۔ شامیانہ ہٹا کر دیکھے تو سورج کو اپنے قریب پائے گا یہ تو دنیا کے سورج کا حال ہے اور جو ساری کائنات کا سورج میں اور تمام اشیاء کا مبدأ ہیں ان کے قرب کا کیا عالم ہوگا۔ بے شک ان کی شان یہی ہے کہ وہ تو ہماری جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

صحیحین کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم سورج گرہن کی نماز پڑھا رہے ہیں اور نماز پڑھاتے ہوئے کچھ آگے بڑھے اور پھر پیچھے آئے۔ نماز کے بعد صحابہ کرام نے وجہ پوچھی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ کو میرے سامنے کردیا میں نے ارادہ کیا کہ جنت کے انگور کا خوشہ توڑ لوں اگر میں توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو فقط جنت اور دوزخ کی مثالی صورتیں تھیں اور جنت دوزخ کی حقیقت نہیں تھی لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے گھر سے کسی دوسرے مقام پر جائے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ شخص تو آگیا لیکن اپنی حقیقت اپنے گھر چھوڑ کر آیا تو جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے لائی گئیں تو بے شک وہ فی الحقیقت جنت اور دوزخ ہی تھیں ان کی مثالی صورتیں نہیں تھیں اگر حقیقت نہ ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے کیوں فرمایا کہ میں نے چاہا جنت کے انگور کا خوشہ توڑ لوں۔ کیا مثالی صورت کو کھایا جاتا ہے اگر مثالی صورت کو کھایا جاسکتا ہے تو کاغذ پر انگور کی مثالی شکل بنی ہوئی ہے اسے کوئی کھا کر دکھائے اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے دوزخ کی حرارت بھی محسوس فرمائی اگر دوزخ کی حقیقت نہ ہوتی تو حرارت کیوں محسوس ہوتی۔ کیا مثالی سے بھی حرارت محسوس ہوسکتی ہے ۔

بعض لوگ یہ شبہ بھی وارد کرتے ہیں کہ اتنی بڑی جنت دوزخ کیسے ممکن ہے کہ ایک دیوار میں سما جائیں۔ یہ شبہ اس لیے پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو فراموش کردیا۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ اتنی بڑی جنت دوزخ کو اپنے حبیب ا کے سامنے دیوار قبلہ میں رکھ دے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نشانیاں دکھائی ہیں۔ آفاق اور انفس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عظیم نشان موجود ہیں غور فرمائیے ہماری آنکھ کیسی چھوٹی سی ہے لیکن یہی چھوٹی سی آنکھ بڑی سے بڑی شے کا احاطہ کرلیتی ہے تو معلوم ہوا کہ بے شک اللہ تعالیٰ ضرور قادر ہے کہ وہ جنت اور دوزخ کو ایک دیوار میں رکھ دے ۔

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم کو دوزخ کی حرارت محسوس ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے اس کا ذکر بھی فرمایا تو کیا آتش دوزخ سے جلنے کا خوف تھا ۔ افسوس! ایسی بات کوئی مومن نہیں کرسکتا کوئی جلنے کا خوف کہے تو خود ہی اپنا انجام سوچے میں یہ کہتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم اس لیے پیچھے ہٹے کہ کہیں دوزخ کی آگ بجھ نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ دشمنان رسول کیلیے دوزخ کی آگ بھڑکتی ہی رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم کی شان کا کیا کہنا حدیث شریف میں تو یہ مضمون آیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم کے غلام پل صراط سے گزریں گے تو دوزخ فریاد کرے گی اور کہے گی ۔

جُزْ یَا مُؤْمِنُ فَاِنَّ نُوْرَکَ اَطْفَاَ نَارِیْ ۔
ترجمہ : اے مومن! تو جلدی سے گزر جا کیونکہ تیرے نور نے میری نار کو بجھا دیا ہے ۔

مقام غور ہے جب غلاموں کا یہ حال ہے کہ دوزخ بھی پناہ طلب کررہی ہے اور بجھ جانے کے خوف سے فریاد کررہی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم کے نور کا کیا عالم ہوگا ۔

آیتِ مبارکہ کی مزید تشریح : اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ: یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں ۔ اَولیٰ کے معنی ہیں زیادہ مالک، زیادہ قریب، زیادہ حقدار، یہاں تینوں معنی درست ہیں اور اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دنیا اور دین کے تمام اُمور میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مسلمانوں پر نافذ اور آپ کی اطاعت واجب ہے اورآپ کے حکم کے مقابلے میں نفس کی خواہش کو ترک کر دینا واجب ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنین پر اُن کی جانوں سے زیادہ نرمی، رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اورانہیں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں ،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۔ (سورہ توبہ:۱۲۸) ۔ ترجمہ : مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔ ( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳/۴۸۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲،چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورلوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی،جب ا س نے اپنے ماحول کوروشن کیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے کیڑے ا س میں گرنا شروع ہو گئے تو وہ آدمی انہیں آگ سے ہٹانے لگا لیکن وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں ہی گرتے رہے، پس میں کمر سے پکڑ کر تمہیں آگ سے کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے ہی جا رہے ہو۔ ( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴/۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۳)

امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی امت کے باپ ہوتے ہیں اور اسی رشتہ سے مسلمان آپس میں بھائی کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے نبی کی دینی اولاد ہیں ۔ ( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲)

نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مالکیت

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سچی کامل مالکیت وہ ہے کہ جان وجسم سب کو محیط اورجن وبشر سب کوشامل ہے، یعنی اَوْلٰی بِالتَّصَرُّفْ (تصرف کرنے کا ایسا مالک) ہونا کہ اس کے حضور کسی کو اپنی جان کابھی اصلاً اختیارنہ ہو۔ یہ مالکیت ِحقہ، صادقہ، محیط، شاملہ، تامہ، کاملہ حضور پُرنورمَالِکُ النَّاس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بخلافت ِکبرٰیٔ حضرت کبریا عَزَّوَعَلَا تمام جہاں پرحاصل ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی : ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘ ۔ ترجمہ : نبی زیادہ والی ومالک ومختارہے، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے ۔
وَقَالَ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی (اور اللہ تَبَارَک وَتَعَالٰی نے فرمایا :) ۔ ’’وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا‘‘(احزاب:۳۶)
ترجمہ : نہیں پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو جب حکم کردیں اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا کہ انہیں کچھ اختیاررہے اپنی جانوں کا، اور جوحکم نہ مانے اللہ ورسول کاتو وہ صریح گمراہ ہوا ۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ‘‘ میں زیادہ والی و مالک ومختارہوں ، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے ۔ (بخاری، کتاب الکفالۃ، باب الدَّین،۲/۷۷، الحدیث: ۲۲۹۸)۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء، ۲۴/۷۰۳-۷۰۴)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایمان والوں کے سب سے زیادہ قریبی ہیں : مسلمانوں پر جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنے کے حوالے سے دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ قریب ہیں ، چنانچہ : حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں ،اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘ ۔ ترجمہ : یہ نبی ایمان والوں سے ان کی جانوں کی نسبت زیادہ قریب ہے ۔ تو جس مسلمان کاانتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ ا س کے عَصبہ (یعنی وارثوں ) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں ۔ ( بخاری، کتاب فی الاستقراض واداء الدیون۔۔۔ الخ، باب الصلاۃ علی من ترک دَیناً، ۲/۱۰۸، الحدیث: ۲۳۹۹)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں جب کسی مومن کا انتقال ہو جاتا تو اسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کیاجاتا ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دریافت فرماتے ’’کیااس کے ذمہ کوئی قرض ہے ؟ اگرلوگ کہتے : ہاں ، تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دریافت فرماتے’’ کیااس نے مال چھوڑاہے جوا س کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہو؟اگرلوگ بتاتے: جی ہاں ، تونبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نمازجنازہ پڑھتے تھے اوراگرلوگ یہ بتاتے کہ مال نہیں چھوڑا، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے: ’’تم اپنے ساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔پھرجباللہ تعالیٰ نے ہمیں فتوحات عطافرمائیں تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’میں مومنوں کے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریبی ہوں ۔ جس نے قرض چھوڑاوہ میرے ذمہ ہے اورجس نے مال چھوڑاوہ وارث کے لیے ہے۔( بخاری ، کتاب الکفالۃ ، باب الدَّین ، ۲/۷۷ ، الحدیث: ۳۲۹۸، مسند ابو داؤد طیالسی، ما روی ابو سلمۃ عن عبد الرحمٰن عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہم، ص۳۰۷، الحدیث: ۲۳۳۸،چشتی)

نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اپنے نفس کی اطاعت پر مقدم ہے : اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین و دنیا کے تمام اُمور میں نفس کی اطاعت پرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت مقدم ہے کہ اگر کسی مسلمان کو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کا حکم دیں اور ا س کی خواہش کوئی اور کام کرنے کی ہو تو ا س پر لازم ہے کہ اپنی خواہش کو پورا نہ کرے بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اسے ہی کرے۔ یاد رہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا‘‘ ۔
ترجمہ : جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تمہیں انہیں بچانے کے لئے نہیں بھیجا ۔ (سورۃُ النساء:۸۰)

اور نفس کے مقابلے میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ا س چیز کی طرف بلاتے ہیں جس میں لوگوں کی نجات ہے اور نفس اس چیز کی طرف بلاتا ہے جس میں لوگوں کی ہلاکت ہے ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری اور ا س کی مثال جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے،اُس آدمی جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہنے لگا:میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک بہت بڑ الشکر دیکھا ہے اور میں واضح طور پر تمہیں اس سے ڈراتا ہوں ، لہٰذا اپنے آپ کو بچا لو،اپنے آپ کو بچا لو۔پس ایک گروہ نے اس کی بات مانی اور کسی محفوظ مقام کی طرف چلے گئے، یوں انہوں نے نجات پالی اور دوسرے گروہ نے اسے جھٹلایا تو صبح سویرے وہ بڑ الشکر ان پر ٹوٹ پڑا اور سب کو تہ تیغ کر دیا۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴/۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۲،چشتی)

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دینی اور دُنْیَوی تمام اُمور میں اپنے نفس کی اطاعت کرنے کی بجائے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے تاکہ ہلاکت سے بچ کر نجات پا جائے۔

وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ : اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات کو مومنوں کی مائیں فرمایا گیا، لہٰذا اُمَّہاتُ المومنین کا تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہونے میں وہی حکم ہے جو سگی ماں کا ہے جبکہ اس کے علاوہ دوسرے احکام میں جیسے وراثت اور پردہ وغیرہ، ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا ہے یعنی ان سے پردہ بھی کیا جائے گا اور عام مسلمانوں کی وراثت میں وہ بطورِ ماں شریک نہ ہوں گی،نیز امہات المومنین کی بیٹیوں کو مومنین کی بہنیں اور ان کے بھائیوں اور بہنوں کو مومنین کے ماموں ، خالہ نہ کہا جائے گا۔( بغوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳/۴۳۷،چشتی)

یہ حکم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے لئے ہے جنسے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نکاح فرمایا، چاہے حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔ یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اور ہر امتی کے لئے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائقِ تعظیم و وا جبُ الاحترام ہیں ۔( زرقانی علی المواہب، المقصد الثانی، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات۔۔۔ الخ، ۴/۳۵۶-۳۵۷)

وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ : اور رشتہ والے ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہجرت کے بعد بعض مہاجرین کو بعض انصار رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھائی بنا دیا تھا اور اس رشتے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے وارث ہوا کرتے تھے، پھر یہ آیت نازل ہوئی اور فرما دیاگیا کہ میراث رشتہ داروں کاحق ہے اورانہی کوملے گی، ایمان یا ہجرت کے رشتہ سے جومیراث ملتی تھی وہ اب نہیں ملے گی البتہ تم دوستوں پر اس طرح احسان کرسکتے ہوکہ ان میں سے جس کے لئے چاہو کچھ مال کی وصیت کردو تووہ وصیت مال کے تیسرے حصے کی مقدار وراثت پر مُقَدَّم کی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، دینی برادری کے ذریعے کوئی اجنبی اب وارث نہیں ہوسکتا ۔ ( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳/۴۸۳، تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۶۱۴) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔