Monday 10 September 2018

حضرت عمر کا نکاح حضرت ام کلثوم بنت حضرت علی رضی اللہ عنہم سے

0 comments

حضرت عمر کا نکاح حضرت ام کلثوم بنت حضرت علی رضی اللہ عنہم سے

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطنِ مبارک سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم لیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوئی، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن میں حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے ہوا، جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں تھیں۔ ان کے بطن مبارک سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی۔

اس لیئے سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نواسی یا نواسی کی بیٹی نہیں ہیں ۔ شرعاً اس نکاح میں کوئی روکاوٹ نہیں ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں حضرت امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما، سیدنا عمر فاروق کی محرم نہیں بنتیں ۔

حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا جو نہ سیّد ہیں اور نہ ہی اہلبیت سے ہیں بزبان تاجدار گولڑہ حضرت سیّد پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ۔ ساتھ میں اصل اسکن پیش خدمت ہے ۔ حضرت ام کلثوم بنت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما کا نکاح امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا (عنہ سے ہوا (تحقیق الحق کلمۃُالحق صفحہ 152 حضرت سیّد پیر مہر علی شاہ رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ ۔
مکمل عبارت یہ ہے : تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : وام کلثوم رضی اللہ عنہا رابنکاح آورد امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ پس پسرے زید نام برائے او بزادو بعد عمر رضی اللہ عنہ عون بن جعفر بزنی خواست ۔ بعد از وے محمد بن جعفر بعد ازوے عبد اللہ بن جعفر ۔ ترجمہ ۔حضرت سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نکاح میں لائے ۔ ان سے ایک صاحبزادہ زید نام متولد ہوا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عون بن جعفر رضی اللہ عنہما کے نکاح میں آئیں ۔ ان کے بعد محمد بن جعفر رضی اللہ عنہما ان کے بعد عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے نکاح میں آئیں ۔ ( تحقیق الحق فی کلمة الحق ۔ تاریخ اشاعت ۔جون ۔2004 صفحہ 152)

حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا ۔(تاریخ طبری جلد سوم صفحہ نمبر 80 )

حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا ۔(طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 300)

ثعلبہ بن ابی مالک (القرظی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں ۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا : یا امیر المومنین ! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دے دیجئے ۔ جو آپ کے گھر میں ہیں ۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سے تھی ۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں ۔ (صحیح بخاری : 2881، ترجمہ محمد داود راز، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ 212/4،چشتی)

نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ : ووضعت جنازۃ ام کلثوم بنت علی امراۃ عمر بن الخطاب و ابن لھا یقال لہ زید ۔
ترجمہ : اور عمر بن خطاب کی بیوی ام کلثوم بنت علی کا جنازہ رکھا گیا اور اس کے بیٹے کا جنازہ رکھا گیا جیسے زید (بن عمر بن الخطاب) کہتے تھے ۔
(سنن النسائی 71-72/4 حدیث 1980، و سندہ صحیح و صححہ ابن الجارود بروایۃ: 545 و حسنہ النووی فی المجموع 5/224 و قال ابن حجر فی التلخیص الحبیر 2/146 حدیث 807: "و اسنادہ صحیح")

ثعلبہ بن ابی مالک (القرظی) رحمہ اللہ و رضی عنہ سے روایت ہے کہ : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا: یا امیر المومنین ! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دے دیجئے۔ جو آپ کے گھر میں ہیں۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سے تھی۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں ۔ " الخ ۔ (صحیح بخاری : 2881، ترجمہ محمد داود راز، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ 212/4)

صحیح بخاری کے اس حوالے سے ثابت ہوا کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ۔

حضرت نافع مولیٰ ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ : ووضعت جنازۃ ام کلثوم بنت علی امراۃ عمر بن الخطاب و ابن لھا یقال لہ زید۔۔"
اور عمر بن خطاب کی بیوی ام کلثوم بنت علی کا جنازہ رکھا گیا اور اس کے بیٹے کا جنازہ رکھا گیا جیسے زید (بن عمر بن الخطاب) کہتے تھے ۔ (سنن النسائی 71-72/4 حدیث 1980، و سندہ صحیح و صححہ ابن الجارود بروایۃ: 545 و حسنہ النووی فی المجموع 5/224 و قال ابن حجر فی التلخیص الحبیر 2/146 حدیث 807: "و اسنادہ صحیح")

مشہور ثقہ تابعی امام الشعبی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ : عن ابن عمر انہ صلی علی اخیہ و امہ ام کلثوم بنت علی ۔
ابن عمر ( رضی اللہ عنہ) نے اپنے بھائی (زید بن عمر) اور اس کی والدہ ام کلثوم بنت علی (رحمہما اللہ) کا جنازہ پڑھا ۔ (مسند علی بن الجعد: 593 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: 574،چشتی)

امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید (یعنی اپنے بھائی) کا جنازہ پڑھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/315 حدیث 11574 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ : 11690)

عبداللہ البہی رحمۃ اللہ علیہ (تابعی صدوق) سے روایت ہے کہ : شھدت ابن عمر صلی علیٰ ام کلثوم و زید بن عمر بن الخطاب ۔
میں نے دیکھا کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے ام کلثوم اور زید بن عمر بن الخطاب کا جنازہ پڑھا۔۔۔(طبقات ابن سعد 468/8 و سندہ حسن)

اس جنازے کے بارے میں عمار بن ابی عمار (ثقہ و صدوق) نے کہا کہ میں بھی وہاں حاضر تھا ۔ (طبقات بن سعد 8/468 و سندہ صحیح)

درج بالا چار صحیح روایات کی تائید میں ائمہ اہل بیت اور علمائے کرام کے کچھ اقوال اور مزید حوالے پیش خدمت ہیں : امام علی بن الحسین: زین العابدین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ : ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطب الیٰ علی رضی اللہ عنہ ام کلثوم فقال: انکحنیھا فقال علی: انی ارصدھا لابن اخی عبداللہ بن جعفر فقال عمر: انکحنیھا فو اللہ ما من الناس احد یرصد من امرھا ما ارصدہ، فانکحہ علی فاتی عمر المھاجرین فقال: الاتھنونی؟ فقالوا: بمن یاامیر المومنین؟ فقال: بام کلثوم بنت علی وا بنۃ فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا، کہا اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ کیونکہ اللہ کی قسم! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے ۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے۔) پھر علی (رضی اللہ عنہ ) نے اسے (ام کلثوم کو) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے تو کہا: کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے ؟ انہوں نے پوچھا: اے امیر المومنین! کس چیز کی مبارکباد ؟ تو انہوں نے فرمایا : فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی مبارکباد۔۔۔(المستدرک للحاکم 3/142 حدیث 4684 و سندہ حسن، وقال الحاکم : "صحیح الاسناد" وقال الذہبی: " منقطع" السیرۃ لابن اسحاق ص 275-276 و سندہ صحیح)
حضرت علی بن امام حسین رضی اللہ عنہما تک سند حسن لذاتہ ہے، جو کہ ائمہ اہل بیت میں سے تھے اور ان کی یہ روایت سابقہ احادیث صحیحہ کی تائید میں ہے۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا: یا امیر المومنین ! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دے دیجئے۔ جو آپ کے گھر میں ہیں۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سے تھی۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں ۔ " الخ (صحیح بخاری : 2881، ترجمہ محمد داود راز، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ 212/4)

امام محمد بن علی بن حسین الباقر ابو جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عمر نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ مانگا تو علی نے فرمایا : میں نے اپنی بیٹیاں بنو جعفر (جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد) کے لئے روک رکھی ہیں تو انہوں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: آپ میرے ساتھ ان (ام کلثوم) کا نکاح کر دیں۔ کیونکہ اللہ کی قسم! روئے زمین پر میرے علاوہ دوسرا کوئی بھی ان کی حسن معاشرت کا طلبگار نہیں ہے۔
پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "قد انکحتکھا" میں نے اس کا نکاح تمہارے ساتھ کر دیا۔۔۔الخ ۔ (سنن سعید بن منصور 1/146 حدیث 520 و سندہ صحیح، طبقات ابن سعد 8/463،چشتی)

عاصم بن عمر بن قتادہ المدنی (ثقہ عالم بالغازی) رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : عمر بن خطاب نے علی بن ابی طالب سے ان کی لڑکی ام کلثوم کا رشتہ مانگا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی تھیں۔۔۔"فزوجھا ایاہ" پھر انہوں (علی رضی اللہ عنہ) نے اس (ام کلثوم رضی اللہ عنہا) کا نکاح ان (عمر رضی اللہ عنہ) سے کر دیا۔ (السیرۃ لابن اسحاق صفحہ 275 وسندہ حسن)

محمد بن اسحاق بن یسار امام المغازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : وتزوج ام کلثوم ابنۃ علی من فاطمۃ ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن الخطاب فولدت لہ زید بن عمر و امراۃ معہ فمات عمر عنھا ۔
علی اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن الخطاب سے ہوا تو ان کا بیٹا زید بن عمر (بن الخطاب) اور ایک لڑکی پیدا ہوئے ۔ پھر عمر (رضی اللہ عنہ) فوت ہو گئے اور وہ آپ کے نکاح میں تھیں۔ (السیرۃ لابن اسحاق صفحہ 275)

عطاء الخراسانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : عمر (رضی اللہ عنہ) نے ام کلثوم بنت علی کو چالیس ہزار کا مہر دیا تھا۔ (طبقات ابن سعد 8/463-466) ۔ اس روایت کی سند عطاء الخراسانی تک حسن ہے ۔

امام ابن شہاب الزہری رحمۃ اللہ علیہ (تابعی) نے فرمایا : واما ام کلثوم بنت علی فتزوجھا عمر بن الخطاب فولدت لہ زید بن عمر۔۔۔"
اور ام کلثوم بنت علی سے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہما) نے شادی کی تو ان کا بیٹا زید بن عمر پیدا ہوا۔۔۔(تاریخ دمشق لابن عساکر 21/342 و سندہ حسن)

ان کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں اور بھی بہت سے حوالے ہیں جن سے ہمارے عنوان کا ثبوت ملتا ہے اور متعدد علماء نے اس کی صراحت کر رکھی ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا ۔ دیکھئے ان مستند کتب کو : (التاریخ الاوسط للبخاری (1/672 ح 379، ص 674 ح 380،381) (کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم (3/568)(طبقات ابن سعد (3/265)(کتاب الثقات لابن حبان (2/216،چشتی)

علامہ ابوجعفر طوسی الاستبصار صفحہ ١٨٥ میں فرماتے ہیں : جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُم کلثوم کو عدت گذارنے کے لئے لے آئے۔۔۔ نیز تہذیب میں یہ روایت کی ہے اُم کلثوم بنت علی علیہ السلام اور اُم کلثوم کا بیٹا ایک ہی ساعت میں مدفون ہوئے اور یہ معلوم نہ ہوسکا کہ پہلے کون مرا پس ایکدوسرے کا وارث نہ ہوا۔

مشہور شیعہ عالم علامہ ابو جعفر الکلینی نے کہا : حمید بن زیاد عن ابن سماعۃ عن محمد بن زیاد عن عبداللہ بن سنان و معاویۃ بن عمار عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال: ۔۔۔ان علیاً لما توفی عمر اتی ام کلثوم فانطلق بھا الیٰ بیتہ۔"
ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام سے روایت ہے کہ۔۔۔جب عمر فوت ہوئے تو علی آئے اور ام کلثوم کو اپنے گھر لے گئے۔(الفروع من الکافی 6/115)

اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے ۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب : تنقیح المقال میں موجود ہیں ۔
ابو جعفر الکلینی نے کہا : علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم و حماد عن زرارۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی تزویج ام کلثوم فقال: ان ذلک فرج غصبناہ" ۔ ان ابو عبداللہ علیہ السلام (امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا : یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی ۔ (الفروع من الکافی 5/ 346) ۔ اس روایت کی سند بھی شیعہ اصول سے صحیح ہے۔ اس کے راویوں علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں۔
تنبیہ: اہل سنت کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے اور مام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اس سے بری ہیں۔

ابو عبداللہ امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جب عمر فوت ہو گئے تو علی نے آ کر کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے گھر لے گئے۔ (الفروع من الکافی 6/115-116)

ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی نے " الحسین بن سعید عن النضر بن سوید عن ھشام بن سالم عن سلیمان بن خالد" کی سند کے ساتھ نقل کیا کہ ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر الصادق رحمہ اللہ ) نے فرمایا : جب عمر فوت ہوئے تو علی علیہ السلام نے آ کر ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا پھر انہیں اپنے گھر لے گئے۔ (الاستبصار فیما اختلف من الاخبار 3/472 ح 1258) ۔ اس روایت کی سند بھی شیعہ اسماء الرجال کی رو سے صحیح ہے۔ ان کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کے نکاح کا ذکر موجود ہے : (تہذیب الاحکام (8/161، 9/262)(الشافی للسید المرتضیٰ علم الھدی (ص 116)(مناقب آل ابی طالب لابن شھر آشوب (3/162)(کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ للاربلی (ص 10) (مجالس المومنین للنور اللہ الشوستری (ص 76)(حدیقۃ الشیعہ للاردبیلی (ص 277،چشتی)

ایک عبرت انگیز واقعہ پیش خدمت ہے : وزیر معز الدولہ احمد بن بویہ شیعہ تھا ۔ (دیکھئے سیر اعلام النبلاء 16/190) ۔ اس کی موت کے وقت ایک عالم اس کے پاس گئے تو صحابہ کرام کے فضائل بیان کئے اور فرمایا: بے شک علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن خطاب سے کیا تھا ۔ اس (احمد بن بویہ) نے اس بات کو بہت عظیم جانا اور کہا: مجھے اس کا علم نہیں تھا پھر اس نے (توبہ کر کے) اپنا اکثر مال صدقہ کردیا، اپنے غلاموں کو آزاد کر دیا، بہت سے مظالم کی تلافی کر دی اور رونے لگا حتیٰ کہ اس پر غشی طاری ہو گئی۔ (المنتظم لابن الجوزی 14/183 ت 2653)

اہل تشیع سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اس وزیر کی طرح توبہ کر لیں ورنہ یاد رکھیں کہ رب العالمین کے سامنے اپنے تمام اقوال و افعال کا جواب دہ ہونا پڑے گا اور اس دن اللہ کے عذاب سے چھڑانے والا کوئی نہیں ہے ۔

ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما خطب الیٰ علی رضی اللہ عنہ ام کلثوم فقال: انکحنیھا فقال علی : انی ارصدھا لابن اخی عبداللہ بن جعفر فقال عمر: انکحنیھا فو اللہ ما من الناس احد یرصد من امرھا ما ارصدہ، فانکحہ علی فاتی عمر المھاجرین فقال: الاتھنونی؟ فقالوا: بمن یاامیر المومنین؟ فقال: بام کلثوم بنت علی وا بنۃ فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔"
بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا، کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ کیونکہ اللہ کی قسم! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے۔)
پھر علی (رضی اللہ عنہ ) نے اسے (ام کلثوم کو) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے تو کہا: کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے ؟ انہوں نے پوچھا: اے امیر المومنین! کس چیز کی مبارکباد ؟ تو انہوں نے فرمایا : فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی مبارکباد۔۔۔(المستدرک للحاکم 3/142 حدیث 4684 و سندہ حسن، وقال الحاکم: "صحیح الاسناد" وقال الذہبی: " منقطع" السیرۃ لابن اسحاق ص 275-276 و سندہ صحیح،چشتی)

أنَّ عمرَ بنَ الخطابِ خطب إلى عليٍّ رضيَ اللهُ عنهُ أمَّ كلثومٍ فقال أنكِحْنِيها فقال إني أرصدُها لابنِ أخي عبدِ اللهِ بنِ جعفرَ فقال عمرُ أنكِحْنيها فواللهِ ما من الناسِ أحدٌ يرصدُ من أمرها ما أرصدُه فأنكحَه عليٌّ فأتى عمرُ المهاجرينَ فقال ألا تُهِنُّوني فقالوا بمَن يا أميرَ المؤمنين فقال أمُّ كلثومٍ بنتُ عليٍّ وابنةُ فاطمةَ بنتُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إني سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كلُّ سببٍ ونسبٍ مُنقطعٌ يومَ القيامةِ إلا سبَبي ونسَبي ۔ الراوي : عمر بن الخطاب المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 5/59۔
ترجمہ : بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا، کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ کیونکہ اللہ کی قسم! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے۔)
پھر علی (رضی اللہ عنہ ) نے اسے (ام کلثوم کو) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے تو کہا : کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے ؟ انہوں نے پوچھا : اے امیر المومنین ! کس چیز کی مبارکباد ؟ تو انہوں نے فرمایا : فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی مبارکباد کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا روز قیامت سارے سبب ونسب منقطع ہوجائیں گے صرف میرے سبب ونسب کے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے نکاح کردیا ۔ تفصیل کےلیئے دیکھیئے : (فروغ کافی جلد ٢ صفحہ ١٤١ مطبوعہ نولکشور باب المتوفی صفحہ ٣١١)(الاستبصار فی اختلف من الاخبار جلد ثانی مطبع جعفریہ صفحہ ١٨٥)(تہذیب میں محمد بن احمد سے روایت)(مجالس المومنین، مصائب النواصب، سیف صارم، خرائج وجرائح، بحار الانوار، شرائع قمی، کتاب شہبات، الفرق)(استیعاب جلد اول صفحہ ٢٢، تحفہ العوام صفحہ ١١٢)(اصول کافی باب مولد النبی، حیات القلوب جلد ٤ صفحہ٨٩،٧١٨،٧٢٨)ـتاریخ التواریخ جلد ١ کتاب ٢)(شافی شرح اصول کافی باب مولد النبی)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔