Monday, 17 September 2018

مودتِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم


مودتِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۔ (سورہ شوریٰ)
ترجمہ : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت ۔

حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مقدس زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے جو طرح طرح کی گمراہیوں کے باعث اپنے رب سے بہت دور جا چکے ہیں پھر قریب ہوجائیں۔ کفرو شرک کے اندھیروں سے نکل کر پھر نور ہدایت سے اپنے قلب ونظر کو روشن کر یں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی لگن کا یہ عالم تھا کہ دن رات اسی میں مشغول رہتے۔ ان کو سمجھاتے ، وہ غصہ ہوتے تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) مسکرا دیتے ، وہ گالیاں بکتے تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) دعائیں دیتے، وہ روشن معجزات دیکھ کر اور آیات الٰہی سن کر بھی کفر سے چمٹے رہنے پر اصرار کرتے تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے شفیق دل پر غم واندوہ کے بادل گھر آتے اور آپ رات بھر اللہ تعالیٰ کی جناب میں ان کی مغفرت اور ہدایت کے لئے دعائیں مانگتے۔ اخلاص ومحبت کے یہ بےمثل انداز کفار مکہ نے بھلا کب کہیں دیکھے تھے وہ دل ہی دل میں خیال کرتے کہ اس ساری جدو جہد اور شبانہ روز تک ودو کے پس منظر میں کوئی بڑا مقصد ہے جس کے حصول کے لئے یہ شخص جانگسل محنت اور مشقت برداشت کر رہا ہے اور ہمارے جو روجفا پر اتنے حوصلہ اور حلم کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ دولت جمع کرنا چاہتا ہے یا اقتدار کی ہوس ہے یا ہمارا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ آخر کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے جس کے باعث انہوں نے اپنا یہ حال بنا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ اے نادانو ! تم کس ادھیڑ بن میں ہو۔ سن لو میں اپنی ان جانکاہیوں کا، ان دلسوزیوں کا تم سے کسی قسم کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرنا چاہتا نہ آج نہ کل اور نہ کبھی قیامت تک البتہ میری یہ خواہش ضرور ہے کہ تم نے آپس میں قتل وغارت کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور ایک دوسرے کو ایذا پہنچانے میں اپنی قوتیں صرف کر رہے ہو اس سے باز آجاؤ اور آپس میں محبت اور پیار کرو۔ تمہاری باہمی رشتہ داریاں اور قرابتیں ہیں۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ بھائی بھائی کا گلا کاٹے، چھوٹا بڑے کی پگڑی اچھالے، کسی کی جان، کسی کا مال محفوظ نہ ہو۔ مجھے تمہارے یہ انداز پسند نہیں۔ میں تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھو تاکہ تمہاری زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی نمودار ہوجائے۔
الا حرف استثنا ہے۔ یہاں مستثنیٰ منقطع ہے یعنی ’’ المودۃ فی القربی ‘‘ جو مستثنیٰ ہے۔ یہ مستثنیٰ منہ میں داخل نہیں تاکہ آیت کا یہ مفہوم ہو کہ میں تم سے کوئی اجر ، کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا، مگر یہ اجر طلب کرتا ہوں کہ تم آپس میں پیار اور محبت کرو۔ تقریبا یہی مفہوم ایک دوسری آیت میں بیان کیا گیا قل لا اسئلکم علیہ اجرا الامن شاء ان یتخذ الی ربہ سبیلا (الفرقان ) یعنی میں اس پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔ میرا یہی اجر ہے کہ تم میں سے کون معرفت الٰہی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ اس آیت کا بھی یہی مقصد ہے کہ میں تم سے اپنے لئے کوئی اجر طلب نہیں کرتا سوائے اس کے کہ تم آپس میں محبت اور پیار کرنے لگو۔ مجھے صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی مطلوب ہے۔ اگر تم سدھر جاؤ اور تمہارے طور اطوار درست ہو جائیں تو یہی میری کاوشوں کا بہترین معاوضہ ہے۔ اظہار خلوص کے لئے اس سے زیادہ اثر انگیز اسلوب بیان اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف انبیا کے یہ اعلانات مذکور ہیں۔ لا اسئلکم علیہ اجرا ان اجری الا علی رب العالمین ۔ میں تم سے کسی اجر کا سوال نہیں کرتا۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ جب دیگر انبیاء اپنی قوموں سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کر رہے ، کسی مالی یا ادبی منفعت کی خواہش نہیں کر رہے، تو فخر الانبیا، سید الرسل کے متعلق یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کسی قسم کی منفعت کی خواہش کی ہو۔ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی نعمت کسی قارون کے بھرے ہوئے خزانے، ربع مسکون کی فرمانروائی ، ان دعا ہائے نیم شبی، ان گریہ ہائے سحر گاہی کا صلہ نہیں ہو سکتی جن سے اس رحمت عالمیاں نے بنی نوع انسان کو مشرف فرمایا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مرقع دلبری وزیبائی کی نوک مژگاں پر لرزتا ہوا ایک آنسو سارے عالم سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی ان دلسوزیوں، ان اشکباروں کے معاوضہ کا تصور بھی کرتے تو شان رفیع سے بہت فروتر ہوتا۔ دشمنوں کو انگشت نمائی کا موقع مل جاتا ۔ یہودی اور عیسائی ہمیں طعنہ دے سکتے کہ ہمارے راہنماؤں نے تو یہ اعلان کیا کہ لا اسئلکم علیہ اجرا ان اجری الا علی رب العالمین اور تمہارے رسول نے مودۃ قربیٰ کا مطالبہ کر کے اپنی محبت ومشقت کا معاوضہ طلب کیا۔ (العیاذ باللہ) ۔
اس آیت سے تھوڑا پہلے فرمایا کہ من کان یرید حرث الدنیا نوتہ منہا : جو شخص دنیا کی کھیتی کا خواہاں ہوگا ہم اسے اسی میں سے دیں گے۔ اس سیاق وسباق کو پیش نظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک تو آیت کی یہی تفسیر زیادہ پسندیدہ ہے۔
حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جملہ قرابت داروں خاندان بنو ہاشم خصوصا اہل بیت کرام کی محبت، ان کا ادب واحترام عین ایمان بلکہ جان ایمان ہے۔ جس کے دل میں اہل بیت کے لئے محبت نہیں وہ یوں سمجھے کہ اس کی شمع ایمان بجھی ہوئی ہے اور وہ منافقت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔ جتنی کسی کی قرابت حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ ہوگی اتنی ہی اس کی محبت واحترام زیادہ مطلوب ہو گا۔ ایک نہیں صدہا ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جن میں اہل بیت پاک سے محبت کرنے اور ان کا ادب ملحوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بےشک اہل بیت پاک کی محبت ہمارا ایمان ہے لیکن یہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت کا اجر نہیں بلکہ یہ شجر ایمان کا ثمر ہے۔ یہ اس گل کی مہک ہے، یہ اس خورشید کی چمک ہے۔ جہاں ایمان ہوگا وہاں حب آل مصطفی ضرور ہوگی ۔ یہ گرہ اب تک نہ کھلی کہ بعض لوگوں کے نزدیک حب آل مصطفی علیہ اطیب التحیۃ والثنا کے لئے بغض اصحاب حبیب کبریا کی شرط کہاں سے ماخوذ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے اہل بیت کی محبت کا اگر حکم دیا ہے تو اپنے صحابہ کے احترام واکرام کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں اہل بیت کے بارے میں فرمایا: مثل اھل بیتی کمثل سفینۃ نوح من رکب فیھا نجا ومن تخلف عنھا غرق ۔ یعنی میرے اہل بیت کی مثال نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے۔ جو اس میں سوار ہوا، نجات پا گیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ڈوب گیا ۔ تو دوسرا ارشاد گرامی یہ بھی ہے اصحابی کالنجوم میرے صحابہ درخشاں ستاروں کی طرح ہیں ۔ بحمدہ تعالیٰ یہ شرف اہل سنت کو ہی حاصل ہے کہ ہم اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کی کشتی میں سوار ہیں اور ہماری نگاہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جگمگاتی ہوئی روشنی پر مرکوز ہیں۔ ہم زندگی کے سمندر کو آزمائشوں اور تکالیف کی کالی رات میں عبور کر رہے ہیں۔ جو اس کشتی میں سوار نہ ہوا وہ غرق ہو گیا اور جس نے ان روشن ستاروں سے ہدایت حاصل نہ کی وہ راہ راست سے بھٹک گیا ۔ (تفسیر ضیاء القرآن)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...