بے مثال بشریّتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
اللہ تعالیٰ نے اپنے بے مثل و بے مثال رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے دین کی نشر و اشاعت اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجا تو بشریت کے لباس میں بھیجا ۔
جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے : قُل اِنَّمَا اَنَا بَشَر مِّثلُکُم یُوحٰی اِلَیَّ اِنَّمَا اِلٰھُکُم اِلٰہ وَّاحِد ۔”تم فرماﺅ! کہ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ۔“
لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو لباس بشریت میں اس لئے مبعوث کیا گیا تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ سکیں اور آپ کے قریب آسکیں ۔کیونکہ نورکو دیکھنے کی انسان میں طاقت کہاں۔ جیسے سورج کو آنکھ نہیں دیکھ سکتی ،مگر جب آفتاب پر ہلکا سا بادل آجائے ،تب اس بادل کے حجاب سے لوگ اس کو کچھ دیکھ سکتے ہیں ،اسی طرح نور کو دکھانے کےلئے بشری حجاب و لباس پہنایا گیا ،پھر آپ جیسے ہیں ویسا کسی نے نہ دیکھا ۔نہ کسی ماں نے جنا اور نہ قیامت تک آئے گا۔
تفسیر کبیر قصہ نوح علیہ السلام میں انبیاء علیہم السّلام کو لباس بشریت میں مبعوث ہونے کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو لوگ ان کے معجزات کو ان کی ملکی طاقت پر محمول کر لیتے ،جب وہ بشر ہو کر یہ معجزات دیکھاتے ہیں تو یہ ان کا کما ل ہوتا ہے ۔لیکن نبی کی بشریت کو اپنی بشریت کی طرح جاننا جہالت ہے ۔
اگر کوئی شخص اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا شوہر کہے تو اگر چہ یہ بات سچی ہے مگر بے ادب و گستاخ کہا جائے گا ۔اسی طرح آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت والے القاب کے ہوتے ہوئے محض بشر یا بھائی کہنے والوں کو یقینا بے ادب و گستاخ کہا جائے گا اور نبی کو بشر کہنا مومنین کا طریقہ ہر گز نہیں رہا ہے بلکہ کفار کا طریقہ رہا ہے ۔سب سے پہلے شیطان نے نبی کو بشر کہا تھا شیطان کے بعد اور کفار نے اپنے نبی کو اپنے جیسا بشر کہا ۔ قرآن کریم پڑھیئے : حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا ۔ مَا نَرَاکَ اِلَّا بَشَرًا مِّث لَنَا ۔”نہیں دیکھتے ہم تم کو مگر اپنی مثل ایک بشر۔“
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا :مَا اَن تَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا ۔”اور تو یہی ایک بشر ہے ہماری مثل۔“
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا :وَمَا اَن تَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا۔
اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قوم نے آپ کے بارے میں کہا : ھَل ھٰذَا اِلَّا بَشَر مِّثلُکُم ۔” یہ محض تم جیسے ایک معمولی آدمی ہیں ۔“
مذکورہ آیات سے یہ حقیقت خوب آشکارا ہو جاتی ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کو محض اپنے جیسا بشر کہنا کفار کا طریقہ رہا ہے ۔ تو یہ کتنی بڑی عاقبت نا اندیشی ہو گی کہ کفار کا طریقہ اپنایا جائے اور سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعلیٰ القاب کے ہوتے ہوئے بشر یا بھائی کہا جائے اور قرآن کریم کے ارشاد :اِنَّمَا ال مُومِنُونَ اِخ وَة ۔ سے دلیل پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھائی کہنا اعلیٰ درجہ کی حماقت ہے ۔ اس لئے کہ آیت کریمہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے حق میں ہے نہ کہ ہر قسم کے مومن کے بارے میں ۔ کیونکہ اگر ہر مومن بھائی ہو تو خدا بھی مسلمانوں کا بھائی ہو جائے گا ، کہ وہ بھی مومن ہے تو جب ہر مومن بھائی نہیں ، تو پھر حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟جبکہ ہم میں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں صرف لفظ مومن میں اشتراک ہے ، حقیقت مومن میں نہیں ۔کہ ہم مومن ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین ایمان ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ایمان دیکھی ہوئی چیزوں پر ہے، اور ہمارا ایمان ایسا نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کلمہ ہے ”اَنَا رَسُو لُ اللّٰہ “ اگر ہم کہیں تو کافر ہو جائیں ، ہمارے لئے ارکان اسلام پانچ ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے چار ، کہ آپ پر زکوٰة فرض نہیں ۔ معلوم ہوا کہ ہم میں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حقیقت مومن میں اشتراک نہیں تو آپ ”اِنَّمَا ال مُومِنُونَ اِخوَة “میں شامل نہیں ہو سکتے ، تو پھر آپ ہمارے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اور جب آپ ہمارے بھائی نہیں تو پھر آپ کو بھائی کہنے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے ؟ کہ جب کوئی اپنے باپ کو بھائی نہیں کہتا کہ اس میں ان کی بے ادبی اور گستاخی ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھائی کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟
محترم قارئین : سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہ شرعاً ہماری مثل ہیں اور نہ عقلاً ۔ شرعاً تو اس لئے نہیں کہ ایمان و اعمال اور احکام و معاملات کسی میں بھی ہمیں ان سے مماثلت و مشابہت نہیں ۔ حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کلمہ ہے :” اَشھَدُ اِنِّی رَسُو لُ اللّٰہ “ اگر اس طرح ہم کہیں تو کافر ہو جائیں ۔ یہ فرق تو کلمہ میں ہوا ، نمازیں ہم پر پانچ اور حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر چھ فرض ہیں ۔ تہجد بھی آپ پر فرض ہے ۔ ہمیں بیک وقت چار ہی بیویاں رکھنا حلال ، حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس قدر چاہیں اجازت ہے ۔ہماری بیویاں موت کے بعد جس سے چاہے نکاح کریں لیکن حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیویاں کسی سے نکاح نہیں کر سکتیں ۔ ہماری میراث تقسیم ہو اور حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی میراث تقسیم نہیں ہوتی ، ہم تو قانون کے پابند مگر قانون الہٰی جنبش لب مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منتظر ۔جس کو چاہیں حلال فرما دیں اور جس کو چاہیں حرام ۔ اس کے بیشمار دلائل موجود ہیں ۔ مثلاً ایک حضرت ابو خذیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی دو کے برابر قرار دے دی ۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو خاتونِ جنت کی موجودگی میں دوسری عورت سے نکاح کرنے سے روک دیا اور ایک صاحب کے روزے کا کفارہ انہی کوکھلا دیا ۔ معلوم ہوا کہ سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو رب العالمین نے یہ اختیار دیا ہے کہ جس کے لئے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو چاہیں حرام کر دیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :” میرے محبوب پاک کی شان تو یہ ہے کہ وہ دنیا والوں کو نیکی کی تلقین کرتا ہے اور ان کو برائی سے روکتا ہے اور صاف ستھری چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک و گندی چیزیں حرام کرتا ہے ۔“
دوسرا ارشاد ہے :”پس اے محبوب!(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) مجھے تیری معرفت اپنی ذات کی قسم کوئی مومن اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک ہر معاملہ میں تیرا فیصلہ نہ مانیں گے اور تجھے حاکم اعلیٰ تسلیم نہ کریں گے ۔“
مذکورہ آیتوں سے صاف دلالت ہو رہی ہے کہ آپ ہماری مثل کیونکر ہو سکتے ہیں جبکہ آپ کے علاوہ ساری کائنات میں کوئی بھی ایسا نہیں ،جس کو یہ اختیار دیا گیا ہو کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کر دے اور جس کا فیصلہ نہ ماننے سے انسان کافر ہو جائے ۔تو پھر مماثلت کا دعویٰ کتنی بڑی کم عقلی کی بات ہے حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہماری مثل بشر نہ ہونے کا ثبوت اس حدیث پاک سے بھی ہوتا ہے کہ آپ رمضان شریف کی بعض راتوں میں صوم و صال اختیار فرماتے ،یعنی بغیر کچھ کھائے پیئے اور افطار کئے ہوئے پے در پے روزے رکھتے ، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رحمت و شفقت اور دوراندیشی کی خاطر اس سے منع فرماتے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ :” حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صوم و صال سے منع فرمایا ! تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! جب آپ صوم و صال رکھتے ہیں تو ہمیں کیوں منع فرماتے ہیں ؟ حالانکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی متابعت کی تمنا رکھتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا :لَس تُ کَاَحَدِ کُم ۔”میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ۔“
ایک روایت میں ہے :اَیُّکُم مِث لِی ۔”تم میں سے کون میری مثل ہے ۔“اِنِّی اَبِی تُ عِن دَ رَبِّی ۔”میں اپنے رب کے حضور شب باشی کرتا ہوں ،کیونکہ وہ میرا پالنے والا اور تربیت فرمانیوالا ہے ۔“یَط عِمُنِی و۔ یُس قِی نِی ۔”وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ۔“
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :” اس کھانے پینے کے متعلق علماءکے چند اقوال ہیں ایک تو یہی کھانا پینا مراد ہے ۔یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلئے ہر شب جنت سے کھانے پینے کا سامان آتا ہے تاکہ حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کھائیں اور پئیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر خاص اکرام تھا اور یہ نہ صوم و صال کے منافی ہے نہ بطلان صوم کو موجب ۔اس لئے کہ جو چیزیں شرعاً بطلان صوم کا موجب ہیں وہ عام دنیاوی چیزیں ہیں ، لیکن بطریق معجزات اور خوارق عادت جنت سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آئے وہ بطلان صوم کا موجب نہیں ۔“
بعض علماءکہتے ہیں کہ اس کھانے پینے سے مراد قوت ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے حق تعالیٰ کھانے پینے سے حاصل ہونے والی قوت مرحمت فرماتا ہے اور ایسی چیز تفویض فرماتا ہے جو کھانے پینے کے قائم مقام ہوتی ہے جسکی بدولت طاعت و عبادت کی قوت پاتا ہوں اور کسی قسم کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا ، لیکن محققین کے نزدیک یہ ہے کہ غذائے روحانی مراد ہے جواز قسم لذت مناجات اور فیضان معارف اور لطائف الہٰی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب اطہر اور روح پرفتوح پروارد ہوتا ہے ۔جس سے احوال شریف کو ایسی خوشی و مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے غذائے جسمانی سے استغناءحاصل ہو جاتا ہے ۔ (مدارج النبوة جلد 1صفحہ723،چشتی)
حدیث پاک میں بڑی صراحت سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کافرمان موجود ہے کہ ” تم میں سے کوئی بھی میری طرح نہیں “لہٰذا مذکورہ ساری توضیحات سے اس حقیقت کا بخوبی پتہ چلا کہ حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شرعاً ہم جیسے نہیں ۔
عقلاً ہماری طرح اس لئے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ایمان دیکھا ہوا ہے اور ہمیں یہ شرف حاصل نہیں ، ہم جو کھاتے پیتے ہیں اس سے پیشاب ،پاخانہ وغیرہ ناپاک چیزیں بنتی ہیں ،لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو کھاتے ہیں اس سے ناپاک چیزیں نہیں بنتیں ۔جیسے شہد کی مکھی جو کھاتی ہے اس سے شہد بنتا ہے اور بھڑ جو کھاتی ہے اس سے زہر بنتا ہے ۔حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایمان ہےں اور ہم مومن ۔ حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قدموں کے نیچے پتھر موم ہو جایا کرتا تھا ۔ (بیہقی ، ابن عساکر، زرقانی)
لیکن ہمیں یہ شرف حاصل نہیں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جسم پر مکھی نہیں بیٹھی تھی ، مگر ہمارے جسم پر بیٹھتی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جسم کا سایہ نہ تھا اور ہمارے جسم کا سایہ ہے ۔دھوپ سے بچاﺅ کےلئے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بادل سایہ کرتا تھا ،لیکن ہمیں یہ بات حاصل نہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :” آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا! انبیاءکرا م اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،نمازیں پڑھتے ہیں ۔ (جذب القلوب صفحہ207،چشتی)
مدارج النبوة میں ہے کہ :” یقینا سرکا ر کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے موت کا دردوالم اور ذائقہ چکھا ،لیکن اس کے بعد حق تعالیٰ نے آپ کو حیات عطا فرما دی ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ نے زمین پر حرام قرار دیا کہ وہ انبیاءکے جسموں کو کھائے ،تو اللہ کے نبی زندہ ہیں ،انہیں رزق دیا جاتا ہے ۔“
معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات جسمانی ،دنیاوی اور اس بدن کیساتھ زندہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رکھتے تھے ۔ اس کے بعد پھر فرماتے ہیں :” انبیاء کرام علیہم السّلام کی ارواح مقدسہ ان کے انہیں ابدان طیبہ میں لوٹادی جاتی ہے جو وہ دنیا میں رکھتے تھے ، ان کے ابدان و اجسام نہ بوسیدہ ہوتے ہیں نہ خاک بنتے ہیں اور حق تعالیٰ قادر ہے کہ ارواح کوبغیر بدنوں کے محفوظ رکھے ، لیکن ان کے بدنوں میں ارواح کے وجود پر نقل وارد ہے ۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا ، کیونکہ نماز ادا کرنا بدن میں روح کے وجود اور جیتے بدن کا تقاضہ کرتا ہے ۔ اور اگر کوئی کہے کہ برزخ نہ دار العمل ہے اور نہ وہاں کوئی احکام شریعہ پر مکلف ہے ، تو پھر وہ اعمال کس لئے کرتے ہیں ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم برزخ میں اجر و ثواب کا اجرا ہوتا ہے اور دنیاوی احکام مثلاً کثرت عمل اور زیادت اجر و ثواب کا حکم جاری ہے اور اعمال کے مکلف ہونا ضروری نہیں کیونکہ بسا اوقات بغیر مکلف ہوئے ذوق اعمال رونما ہوتے ہیں ۔جیسا کہ نوافل و حسنات کا حال ہے وہاں بھی یہی ہے ۔اسی لئے جنت میں لوگ تسبیح کریں گے اور قرآن پڑھیں گے ۔ (مدارج النبوة جلد 1صفحہ258)
مذکورہ بیانات سے یہ حقیقت خوب واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور دیگر انبیاءکرام زندہ ہیں اور ان کی ارواح مقدسہ ان کے اجسام طیبہ میں لوٹا دی گئی ہیں ۔جو عام لوگوں کو حاصل نہیں ۔تو ثابت ہوا کہ حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس طرح شرعاً ہم جیسے نہیں ،ویسے ہی عقلاً ہم جیسے نہیں ۔
لہٰذا ہمارا سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرح ہونا تو بہر دور کی بات ہے ۔ہم آپ کے بول و براز کی طرح بھی نہیں ہو سکتے ۔کہ آپ کے بول و براز سے خوشبو پھوٹتی تھی ۔
جیسا کہ شیخ عبد الحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو زمین میں شگاف پڑجاتا اور زمین آپ کا بول و براز اپنے اندر سمولیتی اور اس جگہ ایک خوشبو پھیل جاتی تھی ۔“
ایک صحابی فرماتے ہیں :” کہ ایک سفر میں ، میں حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیساتھ تھا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قضائے حاجت کے لئے ایک جگہ تشریف لے گئے ، جب آپ واپس تشریف لے آئے تو میں اس جگہ گیا جہاں آپ نے فراغت پائی تھی تو میں نے اس جگہ بول و براز شریف کا کوئی نشان تک نہ دیکھا ۔ البتہ چند ڈھیلے وہاں پڑے تھے ، میں نے ان ڈھیلوں کو اٹھالیا تو ان سے نہایت لطیف و پاکیزہ خوشبو آرہی تھی ۔“
اور بعض روایتوں میں ہے کہ :” ایک شخص نے آپ کا بول شریف پی لیا تھا ،تو اس کے جسم سے ہمیشہ خوشبو پھوٹتی رہتی ،حتیٰ کہ اس کی اولاد میں کئی نسلوں تک یہ خوشبو باقی رہی ۔ (مدارج النبوة جلد 1صفحہ50,49)
محترم قارئین : سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بول و براز کو غالباً زمین اس لئے اپنے اندر سمالیتی تھی تاکہ دوسرے لوگوں کے بول و براز کی طرح آپ کے بول و براز کی طرف کراہت کا خیال نہ کیا جائے ،بلکہ اس کی طہارت و پاکیزگی کا خیال آئے ، اس لئے کہ آپ کابول و براز طیب و طاہر ہے ۔جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔
جیسا کہ حضرت عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عینی شارح بخاری نے فرمایا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور شیخ ابن حجر مکی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضلات کی طہارت پر بہت زیادہ اور کثرت سے روشن دلائل موجود ہیں ۔ (مدارج النبوة جلد 1صفحہ51،چشتی)
مذکورہ بیانات سے معلوم ہوا کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بول و براز کی طرح نہیں ہو سکتے ہیں تو جب ہم آپکے بول و براز کی طرح نہیں ہو سکتے تو پھر آپ کی طرح کیسے ہو سکتے ہیں ؟
رہایہ کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جو فرمایا ہے کہ میں تم جیسا بشر ہوں تو بطور تواضع اور انکساری فرمایا ہے ۔ اس لئے کسی کےلئے جائز نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنی طرح بشر کہے کیوںکہ جو کلمات اصحاب عزو شرف بطور تواضع فرماتے ہیں ان کا کہنا دوسروں کے لئے جائز نہیں ہوتا دیکھئے حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا۔ رَبَّنَا ظَلَم نَا اَن فُسَنَا ۔ حضرت یونس علیہ السلام نے عرض کیا ۔ اِنِّی کُن تُ مِنَ الظَّالِمِی ن ۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے فرمایا ۔ فَعَل تُھَا اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِی ن ۔
تو ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم بھی انہیں ایسا کہیں ۔ لہٰذا اگر کوئی ان حضرات کو ظالم یا ضال کہے تو ایمان سے خارج ہو جائیگا ایسے ہی ایک استاد اپنے شاگرد کو، ایک پیر اپنے مرید کو خط لکھتا ہے تو اس میں اپنے نام کے ساتھ حقیر بھی لکھتا ہے لیکن ہم انہیں حقیر نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں انکی توہین ہو گی ۔
تو جب سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بطور تواضع اپنے آپ کو ہماری مثل فرمایا ہے اس لئے ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم بھی آپ کو ایسا کہیں ،اگر ہم کہیں گے تو اس میں آپکی توہین ہو گی ۔لیکن یاد رہے کہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بطور تواضع اپنے آپکو ہماری طرح اسلئے فرمایا کہ جب آپ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو کفار و مشرکین آپ سے نفرت و کراہت اور بے زارگی کا اظہار کرنے لگے اور بولے ہم توحید و ایمان کو سمجھ نہیں سکتے اور نہ سن سکتے ہیں تو ہم آپ کی پیروی کرنے میں معذور ہیں لہٰذا آپ اپنا کام کیجئے ہم اپنا کام کرتے ہیں ۔تو رسول دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عاجزی کے طور پر فرمایا میں ظاہر صورت بشری میں تم جیسا بشر ہوں یعنی میں دیکھا بھی جاتا ہوں میری بات سنی بھی جاتی ہے اور میرے اور تمہارے درمیان بظاہر کوئی جنسی فرق بھی نہیں تو تمہارا یہ کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے کہ میری بات نہ تمہارے دل تک پہنچ سکتی ہے نہ تمہارے سننے میں آسکتی ہے اور میرے اور تمہارے درمیان کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے ۔اگر میری جگہ کوئی جن یا فرشتہ آتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ نہ وہ ہمارے دیکھنے میں آتے ہیں نہ انکی بات سننے میں آتی ہے نہ ہم ان کے کلام کو سمجھ سکتے ہیں ۔ہمارے اور انکے درمیان تو جنسی فرق ہی بڑی رکاوٹ ہے لیکن یہاں تو ایسی بات نہیں کیونکہ میں بشری صورت میں جلوہ نما ہوا ہوں تو تمہیں مجھ سے مانوس ہونا چاہےے اور میرے کلام کے سمجھنے اوراس سے فائدے اُٹھانے کی بہت کوشش کرنی چاہئے کیونکہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میرا کلام بہت عالی ہے اسلئے کہ میں وہی کہتا ہوں جو مجھے وحی آتی ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان پارہ24رکوع15،چشتی)
اور دوسری بات یہ ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کے معجزات کو دیکھا تو انہیں خدا کا بیٹا کہہ دیا اور نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھا تو انہیں خدا کا بیٹا کہنے لگے اور چونکہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سراپا معجزہ بن کر تشریف لائے تو احتمال تھا کہ آپ کی قوم بھی آپ کو مغرب سے سورج نکالتے ہوئے اور دیگر معجزات کو دیکھ کر آپ کو خدا یا خدا کا بیٹانہ کہنے لگے۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اعلان کروایا جارہا ہے کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے دعوی ربوبیت کے ابطال پہ یہی دلیل پیش کی تھی کہ میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو سورج مغرب سے نکال دے ۔
لہٰذا لوگوں کو گمراہی سے بچانے کےلئے فرمان باری تعالیٰ ہواکہ اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! میں تم کو طٰہٰ و یٰسین اور مزمل جیسے خطابات عالیہ سے یاد کروں گا اور تمہاری امت تم کو نبی اللہ و رسول اللہ اور شفیع المذنبین وغیرہم جیسے پیارے القابات سے یاد کرے گی لیکن تم خود اپنی زبان فیض ترجمان سے بطور تواضع ارشاد فرما دو :اِنَّمَا اَنَا بَشَر مِّثلُکُم ۔”بے شک میں ظاہر صورت بشری میں تمہاری طرح ہوں ۔“
لہٰذا مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوا یہ اعلان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انسانیت کو قریب لانے ،خدائی فیض پہنچانے اور ہدایت کی راہ دیکھانے کے لئے زبان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کروایا گیا ۔اللہ تعالیٰ مقام مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بلند و بالا مراتب کو سمجھنے کی توفیق بخشے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment