Sunday 9 September 2018

اولادِ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

0 comments

اولادِ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

مؤرخین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار بیٹیاں تھی ۔ بیٹوں کی تعداد میں البتہ اختلاف ہے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب بچپن ہی میں انتقال فرما گئے تھے ۔ اکثر کی تحقیق یہ ہے کہ تین لڑکے تھے حضرت قاسم حضرت عبداللہ حضرت ابراہیم بعضوں نے کہا چوتھے صاحبزادے حضرت طیب اور پانچویں حضرت طاہر تھے ۔ بعض کہتے ہیں طیب اور طاہر ایک ہی صاحبزادے کے نام ہیں بعض کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ہی کا نام طیب اور طاہر تھا اس طرح تین ہوئے لیکن اکثر کی تحقیق تین بیٹوں کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ساری اولاد حضرت ابراہیًم کے سوا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پیدا ہوئی ۔

حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اولاد میں پہلے حضرت قاسم پیدا ہوےاور بعثتِ نبوت سے پہلے ہی انتقال فرما گئے ۔دو سال کی عمر پائی انہیں کے نام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم مشہور ہوئ ۔مکہ میں ولادت ہوئی اور وہیں انتقال ہوا ۔ (زرقانی ج3 ص 24،چشتی)

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ایک صاحبزادے کا نام حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے اور حضرت قاسم کی طرح ان کی والدہ کا نام بھی حضرت سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا ہے ۔ حضرت عبداللہ اعلان نبوت کے بعد پیدا ہوئے اور ایک سال چھ ماہ آٹھ دن زندہ رہے اور طائف میں وفات پائی ۔

حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ : حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آخری اولاد ہیں جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعا عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ یہ 8 ہجری کا واقعہ ہے حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر ولادت کی خوشخبری دی اس بشارت پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابو رافع کو ایک غلام عنایت فرمایا ۔ ساتویں روز اس شہزادہ رسول کاعقیقہ کیا ۔ دو مینڈھے ذبح کرائے سر منڈایا بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی ۔ بال زمین میں دفن کئے۔ ابراہیم نام رکھا ۔ تقریباً سولہ ماہ زندہ رہ کر 10 ہجری میں انتقال فرمایا (ضیاء النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش حضرت قاسم کے بعد ہوئی 24 قبل ہجری میں ہوئی ۔ (الاستعیاب جلد 7 ص 732) و (المستدرک جلد ۴ ص 42)

سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش 21 قبل ہجری میں ہوئی آپ سیدہ زینب سے ۳ سال چھوٹی تھیں ۔ (الستیعاب جلد 2 ص 727)۔(المستفرک جلد ۴ ص 46)

سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش 20 قبل ہجری ہو ئی آپ سیدہ رقیہ سے چھوٹی تھیں ۔ (تاریخ خمیس جلد 1 ص 271) و( زخائر العقبی ص ۱64،چشتی)

سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش نبوت کے پہلے سال میں ہوئی ۔ (الستیعاب جلد 2 ص 727)۔(المستفرک جلد ۴ ص 46)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار بیٹیاں تھیں شیعہ عالم کی گواہی

و جمعى از علماى خاصه و عامه را اعتقاد آن است كه رقيه و ام كلثوم دختران خديجه بودند از شوهر ديگر مع پيش از رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) داشته و حضرت ايشان را تربيت كرده بود و دختر حقيقى آن جناب نبودند(16)؛ و بعضى گفتند كه: دختران هاله خواهر خديجه بوده‏اند(17). و بر نفى اين دو قول روايت معتبره دلالت مى‏كند ۔
خاصہ و عامہ کی ایک جماعت کا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم حضرت خدیجہ کی صاحبزادیاں ہیں (رضی اللہ عنہن) ان کے دوسرے شوہر سے جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پہلے تھا اور حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی تربیت کی تھی (ورنہ) وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حقیقی صاحبزادیاں نہ تھیں اور بعض نے کہا کہ یہ (سرے سے) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ کی لڑکیاں تھیں مگر ان دونوں اقوال کی نفی پر معتبر روایات دلالت کرتی ہیں ۔ (حیات القلوب ج ۲ ص ۵۶۰،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسے و نواسیاں

بنو امیہ و بنو ہاشم کے مابین رشتہ داریوں کا سبائی پروپیگنڈہ کے زیر اثر کتنے ہی مسلمانوں کو پتہ نہیں اور نہ ہی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی کتنے نواسے اور نواسیاں تھیں . اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ایک پروپیگنڈے کے تحت یہ باور کرایا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں اور صرف دو نواسے حضرت امام حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہا تھے . وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے محدثین کرام علیہم الرّحمہ کا کہ ان کی خدمات کے زیر اثر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اصل آل کی معلومات ہم تک بہم پہنچ گئیں اور پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار صاحبزادیاں بنام حضرت زینب ، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن تھیں جن میں سے صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی بنو ہاشم میں ہوئی تھی جبکہ باقی تینوں لڑکیاں بنو امیہ میں بیاہی گئیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اموی نواسے اور نواسیاں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے :

(1) حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہما
(2) حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما
(3) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما
(4) حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما
(5) حضرت محسن بن علی رضی اللہ عنہما

(1) حضرت امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا
(2) حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا
(3) حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسے

(1) حضرت علی بن ابی العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے بڑے نواسے . ان کے والد حضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کا تعلق بنو امیہ سے تھا جو کہ بہت سخی ، ایماندار اور بہادر مشہور تھے . یہ رشتہ میں ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے . حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ہجرت سے 5, 6 سال قبل پیدا ہوئے . جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا مدینہ ہجرت کرگئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ان نواسہ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے لے لیا اور انکی پرورش خود کیب .

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے ان بڑے نواسہ سے بہت پیار تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام اہم مواقع پر انکو اپنے ساتھ رکھتے تھے.. یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یہی نواسہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ انکی سواری پر سوار ہوکر مکہ میں داخل ہوئے تھے ۔ انہوں نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کندھوں پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کے بت گرائے تھے.. اس وقت انکی عمر 14 , 15 سال کے لگ بھگ تھی ۔ ( الاصابہ جلد ۲ ص ۵۰۳،چشتی)

یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کی نسبت سے "علی الزینبی" کہلاتے تھے اور سلطنت روم کے خلاف جنگ یرموک میں بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ شامل تھے . یہ جنگ 15 ہجری میں لڑی گئی جس میں انکو شہادت نصیب ہوئی.. اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی.. یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسوں میں پہلے شہید تھے جو کہ کفار کے خلاف لڑتے ہوئے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے شہید ہوئے . کفار کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کسی اور نواسہ کو شہادت نصیب نہیں ہوئی.. اس متعلق حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کا مقام ممتاز ہے ۔

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب بانگ درا میں ’’جنگ یرموک کے واقعہ‘‘ میں جس نوجوان کا ذکر کرکے خراج تحسین پیش کیا ہے وہ یہی علی الزینبی رضی اللہ عنہ ہیں ۔

(2) حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اموی داماد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں . ان کی والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں جن کا انتقال 2 ہجری میں ہوا . سو لازم ہے کہ ان کی پیدائش 2 ہجری سے پہلے کی ہی ہوگی . حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہجرت حبشہ سے پہلے ہوئی . (صحیح بخاری)

امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ان کی عمر جب سات سال تھی تو ایک پرندے نے انکی آنکھ میں چونچ ماری جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا لیکن مسعودی لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے ستر سال عمر پائی اور زندگی کے آخری ایام میں ان کی آنکھ میں کچھ خرابی آگئی تھی جس پر مزید کسی پرندے کے چونچ مارنے کی وجہ سے زخم پڑ گیا اور بڑھاپے کے سبب علاج ممکن نہ ہوسکا اور ان کا انتقال ہوگیا . ہمارے زمانے (یعنی مسعودی کے زمانے چوتھی صدی ہجری) میں مکہ میں ایک محلہ ان حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد سے آباد ہے . اس کے علادہ ان کی کچھ آل اولاد قرطبہ اور اشبیلیہ نقل مکانی کرگئی تھی اور وہاں مقیم ہے . (سیر للواقدی)

(3) حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تیسرے نواسہ ہیں جو کہ چوتھی یا غالباً پانچویں ہجری میں پیدا ہوئے .. ان کی والدہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں .. یہ مسلمانوں کے پانچویں خلیفہ تھے جہنوں نے 6 مہینہ تک خلافت کے فرائض انجام دیئے اور چونکہ ان کی طبعیت میں شروع سے صلح جوئی کا مادہ زیادہ تھا اسی لئے اس خیال کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے کہ مسلمانوں کا آپس کا جنگ اور فساد ختم ہو جائے .. نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ان نواسہ کو ’’سید‘‘ یعنی ’’سردار‘‘ کے لقب سے نوازا تھا اور پیشن گوئی فرمائی تھی کہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے مابین صلح انجام پائی گی.. سبائی پروپیگنڈہ کے زیر اثر یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان کی وفات زہر خورانی سے ہوئی تھی جو کہ ان کی زوجہ حضرت جعدہ بنت اشعث بن قیس جو کہ رشتہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بھانجی تھیں , کے ذریعے ان کو دلوایا گیا.. اس بات کی حیثیت ایک بے سند گپ سے زیادہ کچھ نہیں جس کا کوئی اثر تاریخ کی متداول کتابوں میں نہیں ملتا ۔

(4) حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے چھوٹے نواسہ ہیں .. ان کی والدہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں .. 61 ہجری میں یزید (بن معاویہ رضی اللہ عنہ) کی بیعت فسخ کرکے یہ کوفہ کی طرف چلے گئے.. حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انکو خروج کرنے سے سختی سے منع کیا لیکن انہوں نے انکے مشورہ پر عمل نہ کیا اور کوفہ کا رخت سفر باندھا لیکن جب کوفہ پہنچنے پر اہل کوفہ کی غداری کا پتہ چلا تو عمر بن سعد جو کہ یزید کی طرف سے فوجی کماندار تھا , کے سامنے واپسی کے لیے تین شرائط پیش کیں تاہم زبردستی بیعت کو قبول نہ کرتے ہوئے یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے ۔

(5) حضرت محسن بن علی رضی اللہ عنہما

آپ جنابِ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے تھے ہمیں ابو احمد الوہاب بن ابی منصور الامین نے ابو الفضل محمد بن ناصر سے، اس نے ابو طاہر بن ابی الصقر الانباری سے، اس نے ابو البرکات بن لطیف الفراء سے۔ اس نے حسن بن رشیق سے۔ اُس نے ابوبشر الدو لابی سے، اُس نے محمد بن عوف الطائی سے، اُس نے ابو نعیم اور عبد اللہ بن موسیٰ سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا۔ ہم سے اسرائیل نے، اس سے ابو اسحاق نے، اس سے ہانی بن ہانی نے، اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب امام حسن پیدا ہُوئے تو مَیں نے ان کا نام حرب رکھا۔ حضور تشریف لائے۔ فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ۔ پوچھا کیا نام رکھا مَیں نے عرض کیا، حرب۔ فرمایا: نہیں یہ حسن ہے۔ یہی صورت جناب حسین کی پیدائش کے وقت پیش آئی۔ مَیں نے نام حرب بتایا۔ تو آپ نے حسین تجویز کیا۔ تیسری دفعہ محسن پیدا ہوئے تو مَیں نے حرب ہی نام رکھا تھا ۔ حضور نے محسن رکھ دیا ۔ پھر فرمایا ۔ مَیں نے ان بچوں کے نام حضرت ہارون کے بچوں کے نام پر شبر، شبیر،اور مشبر رکھ دیے ہیں۔ کئی راویوں نے ابو اسحاق سے اس طرح نقل کیا ہے۔ سالم بن ابی الجعدہ نے حضرت علی سے روایت کی ہے، لیکن محسن کا ذکر نہیں کیا ۔ اسی طرح ابو الخلیل نے سلمان سے ذکر کیا ہے۔ حضرت محسن رضی اللہ عنہ بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ ابو موسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نواسیاں

(1) حضرت امامہ بنت ابو العاص رضی اللہ عنہا

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے بڑی نواسی ہیں .. نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان سے بہت پیار تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد میں صلوٰۃ کی امامت کروانے جاتے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کندھوں پر سوار ہوتیں .. حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ صلوٰۃ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گردن پر سوار ہوتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سجدہ کرنے لگتے تو انکو اپنی گردن سے اتار دیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سجدہ سے واپس کھڑے ہوتے تو انکو اپنی گردن پر پھر بٹھالیتے . (صحیح بخاری، جلد ۱ ص ۷۴،چشتی)

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں ایک بہت ہی خوبصورت ہار پیش کیا گیا .. آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں اس کو اپنے خاندان میں جس سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں اس کی گردن میں پہناؤنگا .. لوگوں نے سوچا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ ہار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عنائت فرمائیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ امامہ بنت ابو العاص رضی اللہ عنہا کو بلوایا اور وہ ہار اپنے ہاتھ سے ان کو پہنایا .. حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق حضرت امامہ بنت ابو العاص رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا تھا .. حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ان کا نکاح حضرت محمد بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہوا . (جمہرۃ الانساب)

(1) حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما

یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی بیٹی ہیں .. ان کی والدہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں .. حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام اپنی بڑی بہن حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے نام پر رکھا تھا کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنی بہنوں سے بہت محبت تھی . ان کی شادی خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی .. حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی دو اولادیں ہوئیں .. ایک لڑکا حضرت زید بن عمر رضی اللہ عنہ اور ایک لڑکی حضرت رقیہ بن عمر رضی اللہ عنہما ۔ (سیراعلام النبلا للذہبی)

(3) حضرت سیّدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہما

یہ حضرت علی اور حضرت سیّدم فاطمہ رضی اللہ عنہما کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں جو کہ حضرت ام کلثوم ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم سے عمر میں چھوٹی تھیں ۔ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام بھی اپنی بڑی بہن کے نام پر زینب رکھا تھا .. ان کی شادی اپنے چچا زاد عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے ہوئی تھی . واقعہ کربلا کے بعد یہ دمشق چلی گئیں اور اس کے بعد ساری زندگی وہیں گزاری ۔

محترم قارئین : فقیر نے کوشش کی ہے کہ اولادِ مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مختصر ، مکمل اور جامع تعارف پیش کیا جائے تاکہ اہل ایمان آگاہ ہوں فقیر کہاں تک کامیاب ہوا یہ آپ احباب اپنی قیمتی آراء سے نوازیں گے اہل علم کہیں غلطی پائیں تو آگاہ فرمائیں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔