ناموسِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پاسبانی کے لئے اُٹھو
قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اور اپنے محبوب جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے والوں اور ایذا پہنچانے والوں کی مذمت میں متعدد مقامات پر وعیدات نازل فرمائیں اور انہیں دردناک عذاب سے ڈرایا‘ چنانچہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 57 میں اﷲ عزوجل نے فرمایا : بے شک جو ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر اﷲ کی لعنت ہے‘ دنیا اور آخرت میں اور اﷲ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کررکھا ہے ۔
اور سورہ المجادلہ آیت نمبر 20 میں فرمایا : بے شک وہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں‘ وہ سب سے زیادہ ذلیلوں میں ہیں ۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 104میں بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ادب بھی سکھایا : اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
علامہ آلوسی رحمتہ اﷲ علیہ روح المعانی ص 136میں لکھتے ہیں : یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کسی قول یا فعل کے ذریعے تکلیف پہنچانا کفر ہے جس سے انسان کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ لہذا ایسے اعمال سے بھی منع فرمایا گیا ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت پہنچنے کا احتمال ہو ۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے غلام حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گالی دی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ میرے اس دشمن کی خبر کون لے گا تو حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ نے عرض کی‘ میں حاضر ہوں‘ پس حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ گئے اور اسے قتل کردیا ۔
ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ۔ میرے اس دشمن کو کون کیفر کردار تک پہنچائے گا‘ پس حضرت خالد بن ولید تشریف لے گئے اور اسے قتل کردیا ۔
مروی ہے کہ ایک دریدہ دہن آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت زبیر کو بھیجا تاکہ وہ اسے قتل کردیں ۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ نگاہ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں شاتم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سزا قتل کے سوا اور کچھ نہیں ہے (المصنف عبدالرزاق ج 5ص 307،چشتی)
صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایمان کا یہ عالم تھا کہ گستاخ رسول کا زندہ رہنا ان کو گوارا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں معلوم ہوتا کہ فلاں شخص گستاخ رسول ہے تو اس کو قتل کرنے کے لئے جھپٹ پڑتے ۔
فاتح بیت المقدس حضرت صلاح الدین ایوبی رحمتہ اﷲ علیہ نے جب بیت المقدس کو فتح کیا تو آپ نے عام معافی کا اعلان کیا۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ آج ہر ایک کے لئے معافی ہے سوائے ایک شخص کے جس نے میرے پیارے آقا ومولیٰ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں گستاخی کی‘ جب تک اس گستاخ کو انجام تک نہیں پہنچائوں گا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ اس گستاخ رسول نے پوری امت مسلمہ کو چیلنج کیا تھا کہ (نعوذ باﷲ من ذالک) کہ کہاں ہے تمہارا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‘ آکے بیت المقدس کو کیوں نہیں چھڑاتا‘ حضرت صلاح الدین ایوبی رحمتہ اﷲ علیہ نے اس گستاخ رسول کو تلاش کرکے سب لوگوں کے سامنے قتل کیا اور للکار کر کہا کہ اس سلطنت میں گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ ہر ایک کو رہنے کی اجازت ہے۔ آپ نے اس گستاخ رسول کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چیلنج کرنے والے گستاخ آج اس محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غلام بیت المقدس کو آزاد کرنے آیا ہے ۔ حضرت صلاح الدین ایوبی رحمتہ اﷲ علیہ نے اس گستاخ رسول کو واصل جہنم کرنے کے بعد سکون کا سانس لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہر امتی کو ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مرمٹنے کا عملی درس دیا کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انجام سوائے موت اور واصل جہنم کے اور کچھ نہیں ۔ (الروضتین فی اخبار الدولتین ج 2 ص 81،چشتی)
ہر دور میں یہود ونصاریٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے مٹانے کی ناپاک سازشیں کی ہیں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں کیا کیا گستاخی کررہے ہیں۔ اسے تحریر میں لاتے ہوئے قلم کانپتا ہے‘ قلب و جگر زخمی ہوتے ہیں اور روح تڑپتی ہے لیکن حالات کا تقاضا ہے اور وقت کی پکار یہ ہے کہ اس دور کے نوجوانوں کو بتادو کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت و ناموس پر یہودی گدھیں کس طرح حملہ آور ہورہی ہیں ۔
یہود وہنود کبھی ڈراموں کے ذریعے‘ کبھی فلمیں بنا کر‘ کبھی کارٹون اور کبھی تعصب خیز لٹریچر کے ذریعے مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کررہے ہیں۔ حال ہی میں ڈنمارک اور ناروے کے چند اخبارات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں اعلانیہ گستاخیاں کی گئیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدسہ کے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کئے گئے۔ یہود وہنود نے اسے آزادی اظہار کا نام دیا اور گستاخوں کے ناپاک ارادوں کا دفاع کیا ۔
لیکن آج کا مسلم نوجوان لبوں پر مہر سکوت لگا کر خاموش بیٹھا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟ اے نوجوانو! اس کے اسباب صرف یہ ہیں کہ آج حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تمہارا الفت و محبت کا رشتہ کمزور پڑچکا ہے۔ تمہارے دلوں میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور مدہم پڑچکا ہے۔ تم میں غیرت فاروقیت موجود نہیں‘ جذبہ اویسی تمہارے دلوں سے اٹھ چکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت و ناموس پر مرمٹنے کے جذبہ عظیم سے تم محروم ہوچکے ہو۔ تمہیں کانوں میں بالیاں‘ سر پر چوٹی باندھنے اور اغیار کے فیشن سے فرصت نہیں (اے یہودونصاریٰ کی تقلید کرنے والو! یقینا تمہیں اس حلیے میں دیکھ کر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دل دکھتا ہوگا) یہود وہنود کی گستاخیاں تمہارے سامنے ہیں پھر بھی تمہیں غصہ نہیں آتا‘ تمہارے جذبات نہیں بھڑکتے۔ لیکن نہیں! تم بھی غصے میں آتے ہو‘ تمہارے بھی جذبات بھڑکتے ہیں۔ لیکن کب! جب کوئی تمہاری ماں کو گالی دیتا ہے‘ جب کوئی تمہارے باپ کی توہین کرتا ہے ۔ جب کوئی تمہارے جگری یار کے بارے میں نازیبا کلمات کہتا ہے ۔
پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امیتو! فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ تم میں سے کوئی ایمان والا نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے والدین اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دم بھرنے والو! آئو دل و دماغ کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں جب میدان قیامت میں جمع ہوں گے‘ نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ ماں باپ‘ دوست یار کوئی کام نہیں آئے گا۔ اس وقت ایک ہی تو ذات پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہوگی جو عاصیوں کی امیدگاہ ہوگی۔ اسی سرکارصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں سب کو حاضری دینی ہوگی۔ اگر پیارے سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے استفسار فرمالیا کہ تمہارے سامنے کبھی ڈراموں کے ذریعے اور کبھی فلمیں بنا کر میری شان اقدس میں گستاخیاں کی گئیں‘ تم نے کیا کیا؟ کیا توہین آمیز خاکے اور تعصب خیز لٹریچر شائع کئے گئے‘ تم نے کیا کیا ؟
کیا ہمارے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں ؟ یاد رکھو! اگر خدانخواستہ شافع محشر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روٹھ گئے تو کیا کریں گے ؟ سوچو! غور کرو! پھر کس کے دروازے پر شفاعت کی بھیک لینے جائوگے؟ کون اﷲ عزوجل کے قہروغضب سے بچانے والا ہوگا ؟
اے مسلم نوجوانو! آج محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے تقاضا کررہی ہے کہ اپنی لہکتی ہوئیں جوانیاں تحفظ ناموسِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے وقف کردیں ۔
مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت و ناموس پر جان قربان کرنا یہ بہت بڑی کامیابی اور سعادت ہے اور ایسے شہید کا درجہ و مقام بہت بلند ہوگا۔ جو لوگ اﷲ عزوجل کے نام پر مرتے ہیں وہ سدا زندہ رہتے ہیں اور جو اس کے حبیب کی شان و شوکت اور ناموس کے لئے جان کی قربانی دیتے ہیں انہیں تو رب بھی سلام کہتا ہے : سلام قولا من رب الرحیم ۔
اے مسلم نوجوانو! خالد بن ولید‘ صلاح الدین ایوبی اور غازی علم الدین شہید ، غازی ممتاز قادری شہید علیہم الرحمہ کے جذبات لے کر اٹھو اور ان گستاخوں کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچائو تاکہ حشر کے میدان میں شافع محشر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سرخرو ہوسکو!
بتلادو گستاخ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو غیرت مسلم زندہ ہے
آقا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پہ مرمٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادنیٰ سی گستاخی و بےادبی ، توہین و تنقیص ، تحقیر و استخفاف ، صریح ہو یا بانداز اشارہ و کنایہ، ارادی ہو یا بغیر ارادی بنیت تحقیر ہو یا بغیر نیت تحقیر، گستاخی کی نیت سے ہو یا بغیر اس کے حتیٰ کہ وہ محض گستاخی پر دلالت کرے تو اس کا مرتکب کافر و مرتد اور واجب القتل ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment