Wednesday 5 September 2018

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گستاخ کی سزاء

0 comments

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گستاخ کی سزاء

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہانت کا مرتکب واجب القتل ہے اور اس کی توبہ مطلقًا کسی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی خواہ وہ قبل الأخذ یعنی مقدمے کے اندراج یا گرفتاری سے پہلے توبہ کرے یا بعد الأخذ مقدمے کے اندراج یا گرفتاری کے بعد تائب ہو، ہر صورت برابر ہے۔ کسی صور ت میں بھی قطعاً قبولیت توبہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اس موقف پر دلائل درج ذیل ہیں۔ قرآن مجید میں ہے : وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ط قُلْ اَبِاﷲِ وَاٰيٰـتِهِ وَرَسُوْلِهِ کُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُوْنَo لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ۔
ترجمہ : اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو، بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے ۔ (سورۃُ التوبة، 9 : 65، 66)

مفسرین کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : قَدْ کَفَرْتُمْ ، قد أظهرتم الکفر بإيذاء الرسول والطعن فيه.
’’تم کافر ہو چکے ہو یعنی تمہارا کفر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت وتکلیف دینے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں طعن وتشنیع کرنے کی وجہ سے ظاہر ہوچکا ہے ۔
عظیم مفسر علامہ عبد اﷲ بن عمر بيضاوی رحمۃ اللہ علیہ ، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، 3: 155، بيروت، لبنان: دارالفکر ۔
أبو السعود محمد بن محمد رحمۃ اللہ علیہ، تفسير أبو السعود، 4: 80، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي ۔
علامہ محمود آلوسي رحمۃ اللہ علیہ، روح المعاني، 10: 131، بيروت، لبنان: دارا حياء التراث العربي ۔

دیگر مفسرین کرام کی اکثریت نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔ سورہ احزاب کی آیت مباکہ میں ہے : اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اﷲُ فِی الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا ۔
ترجمہ : بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ (سورۃُ الاحزاب، 33 ۔ 57)

اس آیت کریمہ سے علامہ ابن تیمیہ استدلال کرتے ہوے لکھتے ہیں : ان المسلم يقتل اذا سب من غير استتابة وان اظهر التوبة بعد اخذه کما هو مذهب الجمهور.
ترجمہ : کوئی بھی مسلمان (جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کرے گا) اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کر دیا جائے۔ اگر چہ وہ گرفتاری کے بعد توبہ کرلے یہی مذہب جمہور ہے ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 635، بيروت، لبنان: دار ابن حزم)
علامہ ابن تیمیہ مزید بیان کرتے ہیں، نسبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہے، شان رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی و بے ادبی کا ارتکاب کرنے والے کی سزا تو بہ کا موقع دیئے بغیر اسے قتل کرنا ہے۔ حدیث رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی بات سامنے آتی ہے : فانه امر بقتل الذي کذب عليه من غير استتابه.
ترجمہ : حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں بغیر توبہ کا موقع دیئے قتل کا حکم صادر فرمایا جس نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کیا ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 638)
فتنہ اہانت رسول میں مسلم وغیر مسلم کا امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا ۔ دونوں پر حد کا اجراء ہوگا، کوئی بھی اس سے مستثنیٰ و مبراء نہ ہوگا ۔ امام مالک رحمہ اﷲ نے اسی چیز کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : من سب رسول اﷲ أو شتمه أو عابه أو قتل مسلما کان أو کافراً ولا يستتاب.
ترجمہ : جس شخص نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی یا عیب لگایا یا آپ کی تنقیص کی تو وہ قتل کیا جائے گا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 572)

امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ نے فرمایا ہروہ شخص جس نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی یا تنقیص واہانت کا مرتکب ہوا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اس جسارت پر سزائے قتل اس پر لازم ہوجائے گی۔ مزید برآں فرماتے ہیں : اری ان يقتل ولا يستتاب ۔
ترجمہ : کہ میری رائے یہ ہے کہ اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کر دیا جائے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ کے صاحبزادے فرماتے ہیں ایک روز میں نے والد گرامی سے پوچھا جو شخص حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کرے آپ کی شان اقدس میں دشنام طرازی کا ارتکاب کرے تو ایسے شخص کی توبہ قبول کی جائے گی ؟ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : قد وجب عليه القتل ولايستتاب ۔ ترجمہ : سزائے قتل اس پر واجب ہو چکی ہے اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 551)

جو شخص حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کا مرتکب ہو کیا اس کی توبہ قبول کی جائے گی ؟ اس کے بارے میں امام زین الدین ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قلبی طور پر بغض وعداوت رکھتا ہے وہ مرتد ہے جبکہ کھلم کھلا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے والا بطریق اولیٰ کافرومرتد ہے : يقتل عندنا حدا فلا تقبل توبته في إسقاطه القتل ۔
ترجمہ : ہمارے نزدیک (یعنی مذہب احناف کے مطابق) اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور حد قتل کو ساقط کرنے کے حوالے سے اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔ )البحر الرائق، 5: 136، بيروت، لبنان: دارالمعرفة)

امام ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اﷲ شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اہانت وگستاخی کے مرتکب کی سزا کے متعلق فرماتے ہیں : فإنه يقتل حداً ولا تقبل توبته لأن الحد لايسقط بالتوبة، وأفاد أنه حکم الدنيا وأما عند اﷲ تعالیٰ فھي مقبولة ۔
ترجمہ : اسے حداً قتل کر دیا جائے گا۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اس لئے کہ حد توبہ سے ساقط ومعاف نہیں ہوتی، یہ حکم اس دنیا سے متعلق ہے جبکہ آخرت میں اﷲ رب العزت کے ہاں اس کی توبہ مقبول ہوگی ۔ (رد المحتار ، 4: 230، 231، بيروت، لبنان: دارالفکر)

محمد بن علی بن محمد علاؤ الدین دمشقی المعروف حصکفی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الکافر بسب نبي من الأنبياء فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا ولو سب اﷲ تعالیٰ قبلت لأنه حق اﷲ تعالیٰ والأول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شک في عذابه وکفره کفر ۔
ترجمہ : انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی توہین کرکے جو شخص کا فر ہو اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ کسی صورت میں قبول نہیںہوگی۔ اگر اس نے شان الوہیت میں گستاخی کی (پھر توبہ کی) تو اس کی توبہ قبول ہو جائے گی۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے (جو توبہ سے معاف ہوجاتا ہے) جبکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی یہ حق عبد ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا اور جو شخص اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ (الدر المختار، 4: 231، 232، بيروت، لبنان: دارالفکر)۔

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادنیٰ سی گستاخی و بےادبی ، توہین و تنقیص ، تحقیر و استخفاف ، صریح ہو یا بانداز اشارہ و کنایہ، ارادی ہو یا بغیر ارادی بنیت تحقیر ہو یا بغیر نیت تحقیر، گستاخی کی نیت سے ہو یا بغیر اس کے حتیٰ کہ وہ محض گستاخی پر دلالت کرے تو اس کا مرتکب کافر و مرتد اور واجب القتل ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔