حضرت فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی اہلبیت رضی اللہ عنہم سے محبت
حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک دن حضرت عمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے گھر گیا ، مگر آپ رضی اللہ عنہ حضرت امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ علیحدگی میں مصروفِ گفتگو تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبدُ اللہ رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے اِنتظار کر رہے تھے ۔ کچھ دیر انتظار کے بعد وہ واپس لوٹنے لگے تو ان کے ساتھ ہی میں بھی واپس لوٹ آیا ۔ بعد میں حضرت عمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے میری مُلاقات ہوئی تو میں نے عرض کی : اے اَمِیْرُالْمُومنین ! میں آپ کے پاس آیا تھا ، مگر آپ حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مَصْروفِ گفتگو تھے ۔ آپ کے بیٹے عبدُ اللہ رضی اللہ عنہ بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے ( میں نے سوچا جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے ، مجھے کیسے ہوسکتی ہے ) لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا ۔ تو فارُوْقِ اَعْظَم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے میرے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ میری اَوْلاد سے زِیادہ ، آپ رضی اللہ عنہ اس بات کے حق دار ہیں کہ آپ اَندر آجائیں اور ہمارے سروں پر یہ جو بال ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بعد کس نے اُگائے ہیں ، تم سادات ِکرام رضی اللہ عنہم نے ہی تو اُگائے ہیں ۔ (تاریخِ ابن عساکر،ج ۱۴،ص۱۷۵)۔(الصواعق المحرقتہ: ۲۷۲،چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ دورِفاروقی میں مدائن کی فتح کے بعد حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں مال غنیمت جمع کر کے تقسیم کرنا شروع کیا۔ امام حسن رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں ایک ہزار درہم نذر کیے۔پھر امام حسین رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں بھی ایک ہزار درہم پیش کیے۔ پھر آپ کے صاحبزادے عبداﷲ رضی اﷲ عنہ آئے تو انہیں پانچ سودرہم دیے۔ انہوں نے عرض کی‘ اے امیرالمٔومنین ! جب میں عہد رسالت میں جہاد کیا کرتا تھا اس وقت حسن و حسین بچے تھے ۔ جبکہ آپ نے انہیں ہزار ہزار اور مجھے سو درہم دیے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ تم عمر کے بیٹے ہو جبکہ ان والد علی المرتضٰی‘ والدہ فاطمۃ الزہرا‘ نانا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ نانی خدیجہ الکبریٰ‘ چچا جعفر طیار‘ پھوپھی اْم ہانی‘ ماموں ابراہیم بن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ خالہ رقیہ و ام کلثوم و زینب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹیاں ہیںرضی اﷲ عنہ۔ اگر تمہیں ایسی فضیلت ملتی تو تم ہزار درہم کا مطالبہ کرتے۔ یہ سن کر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ خاموش ہو گئے ۔ جب اس واقعہ کی خبر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوہوئی تو انہوں نے فرمایا‘ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’عمر اہل جنت کے چراغ ہیں ۔‘‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ تک پہنچا تو آپ بعض صحابہ کے ہمراہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف لائے اور دریافت کیا‘ اے علی! کیا تم نے سنا ہے کہ آقاو مولی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے اہل جنت کا چراغ فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ہاں! میں نے خود سنا ہے ۔ حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ اے علی! میری خواہش ہے کہ آپ یہ حدیث میرے لیے تحریر کردیں ۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے یہ حدیث لکھی : یہ وہ بات ہے جس کے ضامن علی بن ابی طالب ہیں عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے لئے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا‘ اْن سے جبرائیل علیہ السلام نے‘ اْن سے اﷲ تعالٰی نے کہ:ان عمر بن الخطاب سراج اھل الجنۃ ۔ ترجمہ : عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں ۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی یہ تحریر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے لے لی اور وصیت فرمائی کہ جب میرا وصال ہو تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔ چنانچہ آپ کی شہادت کے بعد وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی ۔ (ازالتہ الخفاء، الریاض النضرۃ ج ا:۲۸۲،چشتی)
اگران کے مابین کسی قسم کی مخاصمت ہوتی تو کیا دونوں حضرات ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے ؟ یہ واقعہ ان کی باہم محبت کی بہت عمدہ دلیل ہے۔
دارقطنی رحمہ اﷲ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کوئی بات پوچھی جس کا انہوں نے جواب دیا۔ اس پر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ اے ابوالحسن! میں اس بات سے اﷲ تعالٰی کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں ایسے لوگوں میں رہوں جن میں آپ نہ ہوں۔
(الصواعق المحرقتہ: ۲۷۲)
اس واقعہ سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کس قدر محبت تھی ۔
ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں جس سے سیدنا عمرو علی رضی اﷲ عنہ میں محبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ جب شدید علیل ہو گئے تو آپ نے کھڑکی سے سر مبارک باہر نکال کر صحابہ سے فرمایا‘ اے لوگو! میں نے ایک شخص کو تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے کیا تم اس کام سے راضی ہو؟ سب لوگوں نے متفق ہو کر کہا‘ اے خلیفئہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! ہم بالکل راضی ہیں۔ اس پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا ‘ وہ شخص اگر عمر رضی اﷲ عنہ نہیں ہیں تو ہم راضی نہیں ہیں ۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ بیشک وہ عمر ہی ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء:۱۵۰‘ عساکر)
اسی طرح امام محمد باقر رضی اﷲ عنہ حضرت جابر انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وصال کے بعد حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو غسل دیکر کفن پہنایا گیا تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ تشریف لائے اور فرمانے لگے‘ ان پر اﷲ تعالٰی کی رحمت ہو‘ میرے نزدیک تم میں سے کوئی شخص مجھے اس (حضرت عمررضی اﷲ عنہ) سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں اس جیسا اعمال نامہ لیکر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں ۔ (تلخیص الشافی:۲۱۹‘ مطبوعہ ایران،چشتی)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات میں کس قدر پیار و محبت تھی۔ اور فاروقی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ جب ایک حاسد شخص نے حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی متعلق سوال کیا تو آپ نے ان کی خوبیاں بیان کیں پھر پوچھا‘ یہ باتیں تجھے بری لگیں؟ اس نے کہا‘ ہاں ۔ آپ نے فرمایا‘ اﷲ تعالٰی تجھے ذلیل و خوار کرے۔ جادفع ہو اور مجھے نقصان پہنچانے کی جو کوشش کر سکتا ہو کر لے۔ (بخاری باب مناقب علی)
حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواہر سلسلۂ نسب منقطع ہو جائے گا’’۔ اسی بنا پر سیدنا عمررضی اﷲ عنہ نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے انکی صاحبزادی سیدہ اْم کلثوم رضی اﷲ عنہا کا رشتہ مانگ لیا ۔ اور ان سے آپ کے ایک فرزند زیدرضی اﷲ عنہ پیدا ہوئے ۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد بھی قابلِ غور ہے‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ جب تم صالحین کا ذکر کرو تو حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو کبھی فراموش نہ کرو۔‘‘ (تاریخ الخلفاء: ۱۹۵)
امام حسن رضی اللہ عنہ سے کہو لکھ دیں عمر ہمارا غلام ہے:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آل رسول علیہم السّلام سے محبت آپ فرماتے ہیں آل رسول کی غلامی سند ہے آزاد ہونے کی ۔ (چودہ ستارے صفحہ 240 شیعہ)
اہلبیت سے جسے اتنا محبت ہو کہا جاتا ہے وہ اہلبیت کے دشمن تھے ذرا سوچیئے ؟؟؟ ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قبلہ اگر یہ چودہ ستارے والی روایت کا کوئی مستند حوالہ مل سکے تو عین نوازش ہوگی.
ReplyDelete