مرتد ، زندیق اور عام کافر میں فرق
محترم قارئین : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مختلف لبرلز کے مضامین پڑھے اور مختلف ٹی وی پروگرامز سنے جن میں کچھ نام نہاد اسکالرز قادیانیوں کی حمایت کر رہے تھے کہ وہ بھی ایک اقلیت ہیں ان کے بھی حقوق ہیں جی ہاں اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا بہت خیال رکھا گیا ہے مگر عام کافر اور قادیانی مرتدوں و زندیقوں میں فرق ہے اس سے قبل فقیر ایک مضمون لکھ چکا ہے بنام (قدیانی اور عام کافر میں فرق) اب پیشِ خدمت ہے ان جدید لبرلز و دیسی لبرلز کے مغالطوں کا جواب اہلِ ایمان سے گذارش ہے ایک بار ضرور پڑھیں بڑی محنت سے یہ مضمون تیار کیا گیا ہے اہل علم اصلاح فرمائیں :
فتاویٰ شامی میں ہے : "کافر"وہ شخص ہےجودین اسلام کو ظاہراً وباطناً ماننے والانہ ہو ۔ "زندیق" وہ شخص ہے جوزبان سےتو مسلمان ہونے کا اقرار کر رہا ہو لیکن احکامِ اسلام کی باطل تاویل کرتاہو۔ "مرتد" وہ شخص ہےکہ اپنی مرضی اور رضا مندی سے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پھرجائے ۔
” ملحد“ لغوی تعریف کے اعتبار سےتو کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سےاس شخص کو کہا جاتا ہے جو بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر وتشریح کرتا ہے جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم نیز اجماع امت کے خلاف ہو ۔ اور" منافق " اس کو کہا جاتا ہے جو زبان سے تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، مگر دل سے اس کا منکر ہو ۔ ( فتاوی شامی، ج: ۴، ص: ۳۴۱ ومابعد، ط: سعید)
زندیق شرعاً اس شخص کو کہا جا تا ہے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت کا اقرار کرتا ہو اور شعائر اسلا م کا اظہار کرتا ہو مگر کسی کفریہ عقیدہ پر ڈٹا ہو اہو ۔ زندیق اور ملحد جو بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتا ہو مگر خبیث عقائد رکھتا ہو اور غلط تاویلات کے ذریعے اسلامی نصوص کو اپنے عقائد خبیثہ پر چسپاں کرتا ہو۔ اس کی حالت کافر اور مرتد سے بھی بدترہے کہ کافر اور مرتدکی توبہ بالا تفاق قابل قبول ہے مگر بقول علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ زندیق کا نہ اسلام معتبر ہے نہ کلمہ ، نہ اس کی توبہ قابل التفا ہے ۔ الایہ کہ وہ اپنے تمام عقائد خبیثہ سے برأت کا اعلان کرے ۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقات جلد۷ صفحہ ۱۰۴ پر زندیق کا معنی بیان کر تے ہیں کہ وہ جو کفر کو چھپاتا ہو اور ایمان کو ظا ہر کر تا ہو ۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ : زندیق ملمع سازی کر کے اپنے کفر کو پیش کرتا ہے فاسد عقید ہ کی ترویج کر تا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظا ہر کر تاہے اور کفرکے چھپانے کا یہی مطلب ہے ۔ ( شامی جلد۳صفحہ۳۲۴)
زندیق کی تعریف میں جو عقائد کفریہ کا دل میں رکھنا ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مثل منافق کے اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کرتا ۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ اپنے عقائد کفریہ کو ملمع کرکے اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے ۔
مرتد وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے اَمر کا انکار کرے جو ضَرور يا تِ دین سے ہو یعنی زَبان سے (ایسا)کلِمۂ کفر بکے جس میں تاویلِ صحیح کی گنجائش نہ ہو۔ یونہی بعض افعال بھی ایسےہوتے ہیں جن سے کافر ہوجاتا ہے مَثَلاً بُت کو سجدہ کرنا ۔ مُصحَف شریف (قراٰن پاک ) کو نَجاست کی جگہ پھینک دینا ۔ (بہار شریعت حصہ 9 ص 173)
مُرتَد کی دُنیا میں سزا
بہارِ شریعت حصّہ9 صَفْحَہ174 تا 175 پر صدرُ الشَّریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص مَعاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ مُرتَد ہو گیا تو مُستَحَب ہے کہ حاکمِ اسلام اُس پر اسلام پیش کرے اور اگر وہ کچھ شُبہ بیان کرے تو اُس کا جواب دے اور اگرمُہلَت مانگے تو تین دن قید میں رکھے اور ہر روز اسلام کی تلقین کرے ۔ یوہیں اگر اُس نے مُہْلَت نہ ما نگی مگر امّید ہے کہ اسلام قَبول کر لے گا جب بھی تین دن قید میں رکھا جائے ۔ پھر اگر مسلمان ہو جائے فَبِہا(یعنی بَہُت بہتر)ورنہ قتل کر دیا جائے ۔ بِغیر اسلام پیش کیے اُسے قتل کر ڈالنا مکر وہ ہے ۔ (دُرِّمُختار ج6 ص 346۔349،چشتی)
کیا مُرتَد کو ہرکوئی قَتل کر سکتا ہے ؟
جی نہیں ۔ یہ صرف بادشاہِ اسلام کا کام ہے ۔ چُنانچِہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مُرتَد کو قید کرنا اور اسلام نہ قبول کرنے پر قتل کر ڈالنا بادشاہِ اسلام کا کام ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایسا شخص اگر زندہ رہا اور اس سے تَعَرُّض نہ کیا گیا (یعنی روک ٹوک نہ کی گئی ) تو ملک میں طرح طرح کے فساد پیدا ہو نگے اور فتنہ کا سلسلہ روز بروز ترقّی پذیر ہو گا، جس کی وجہ سے اَمْنِ عامّه میں خَلل پڑیگا ، لہٰذا ایسے شخص کو ختم کر دینا ہی مُقتَضائے حکمت (یعنی مَصلَحت کا تقاضا) تھا ۔ اب چُونکہ حکومتِ اسلام ہندوستان میں باقی نہیں ، کوئی روک تھام کرنے والا باقی نہ رہا ، ہر شخص جو چاہتا ہے بکتا ہے اور آئے دن مسلمانوں میں فَساد پیدا ہوتا ہے ، نئے نئے مذہب پیدا ہوتے رہتے ہیں ، ایک خاندان بلکہ بعض جگہ ایک گھر میں کئی مذہب ہیں اور بات بات پر جھگڑے لڑائی ہیں، ان تمام خرابیوں کا باعِث یِہی نیا مذہب ہے۔ ایسی صورت میں سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قراٰن و حدیث میں ارشاد ہوئی، اگر مسلمان اُس پر عمل کریں تمام قِصّوں سے نَجات پائیں دنیا و آخِرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل مَیل جُول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا، اُن کے ساتھ کھانا پینا، اُن کے یہاں شادی بیاہ کرنا غَرَض ہر قسم کے تعلُّقات ان سے قَطع کر دیں گویا سمجھیں کہ وہ اب رہا ہی نہیں ۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 ص175)
عورت یا بچّہ مُرتَد ہو تو سزا
علامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عورت یا نابالِغ سمجھ وال(یعنی سمجھدار )بچّہ مُرتَد ہو جائے تو قتل نہ کرینگے ۔ بلکہ قید کرینگے یہاں تک کہ توبہ کرے اور مسلمان ہو جائے ۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 ص175، عالمگیری ج2 ص254)
مُرتَد کی اولاد حرامی ہوتی ہے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فُقَہائے کرام رَحِمَھُمُ اللہُ علیہم سے نَقل فرماتے ہیں : جو شخص معاذَاللہ مُرتَد ہو جائے اُس کی عورت حرام ہو جاتی ہے ، پھر اسلام لائے تو اُس سے جدید نکاح کیاجائے ۔اس سے پہلے اس کلِمۂ کفر کے بعد کی صُحبت سے جو بچّہ ہو گا حرامی ہو گا اور یہ شخص اگر عادت کے طور پر کلمهٔ شہادت پڑھتا رہے کچھ فائدہ نہ دے گا جب تک اپنے اس کُفر سے توبہ نہ کرے کہ عادت کے طور پرمُرتَد کے کلمہ پڑھنے سے اس کا کُفر نہیں جاتا ۔ (فتاوٰی رضویہ ج14 ص 299۔300،چشتی)
کیا مُرتد کے تمام اعمال ضائِع ہوجاتے ہیں ؟
کُفْر قَطْعی بک کریا اِس طرح کا فِعلِ کفر کر کے جو کافر ومُرتَدہوا اس کے تمام اَعْمال برباد ہو جاتے ہیں ۔ پارہ2 سُورَۃُ الْبَقَرَہ آیت نمبر217 میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنۡ یَّرْتَدِدْ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَکَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمٰلُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالۡاٰخِرَۃِۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِیۡھَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۱۷
ترجمہ : اورتم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہو کر مرے توان لوگوں کا کیا اکارت گیادنیا اور آخِرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا۔
(پ 2البقرۃ 217)
کُفْر بکنے والے کی ہاں میں ہاں ملانے والے کا حکم
اگر فِقہی و لُزومی کفر بکا ہے تو بکنے والا اور ہاں میں ہاں ملانے والا اسلام سے خارِج نہ ہوئے اور سابِقہ نیک اَعمال بھی برباد نہ ہوئے۔ البتّہ توبہ و تجدید ِایمان فرض ہے اور بیوی والے کو تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گاالبتّہ بِلا اِکراہِ شَرعی ہوش و حَواس میں صریح کُفر بکنے والا ، ایسے ہی صریح کلمهٔ کفر کے معنیٰ سمجھنے کے باوُجود ہاں میں ہاں ملانے والا اور تائید میں سرہِلانے والا بھی کافِر و مُرتد ہو جاتا ہے اور شادی شدہ تھا تونِکاح ٹوٹ جاتا، کسی کا مُرید تھا تو بَیعت ختم ہو جاتی اور زندَگی بھر کے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں ، اگر حج کر لیا تھا تو وہ بھی گیا ، اب بعدِ تجدِید ایمان صاحِبِ استِطاعت ہونے پر نئے سِرے سے حج فرض ہو گا ۔
مُرتَد دوبارہ ایمان لائے تو نَماز روزے کے مسائل
مُرتد ہوتے ہی اُس کے پچھلے تمام نیک اَعمال بَشُمُول نَماز، روزہ، حج وغیرہ ضائِع ہو گئے ۔ دوبارہ ایمان لانے کے بعد یہ ہے کہ جونَمازیں زمانۂ اسلام میں قَضا ہوئی تھیں اُن کی قَضا ایمان لانے کے بعد بھی باقی ہے اور یِہی حکْم روزۂ رمضان کا ہے ۔ چُنانچِہ دُرِّمُختار میں ہے :'' اور زمانۂ اسلام میں جو عبادتیں ترک کیں ، اِرتِدَاد یعنی دین سے مُنْحَرِف ہونے (دین سے پھر جانے)کے بعداز سرِ نو مسلمان ہونے پر ان کو دوبارہ ادا کرے ، کیونکہ نَماز اور روزہ کا ترک گُناہ ہے اور اِرتِدَاد کے بعد (اگر چِہ نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں مگر) گناہ باقی رہتے ہیں ۔ اگر (پہلے حج کر لیا ہو تب بھی )صاحِبِ استِطاعت ہونے پر حج نئے سِرے سے فرض ہوگا ۔'' (دُرِّمختار ج 6 ص 383 ۔ 385 ) ہاں زمانہ ٔاِرتدِاد میں رہ جانے والی نَمازوں اور دیگر عبادتوں کی قضاء نہيں ہے اور اس دوران جو عبادَتیں کی ہیں وہ مقبول بھی نہیں۔
مُرتَدین کی صُحبت سے ایمان برباد ہوسکتا ہے
یہ یاد رہے کہ بِغیر دلیلِ قَطعی صِرف شک کی بنا پر کسی کو مُرتَد نہیں بول سکتے۔مُرتَدین کے ساتھ نِشَست وبَرخاست ( یعنی اٹھنے بیٹھنے )کے مُتَعَلِّق کئے جانے والے ایک سُوال کے جواب میں میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوی رضویہ جلد 21 صَفْحَہ 278 پر فرماتے ہیں:ان کے پاس نِشَست و بَرخاست حرام ہے اُن سے مَیل جُول حرام ہے اگر چِہ اپنا باپ یا بھائی بیٹے ہوں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۶۸
ترجَمہ : اورجو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
(پ7الانعام68)
اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوْ کَانُوۡۤا اٰبَآءَھُمْ اَوْ اَبْنَآءَھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیۡرَتَھُمْ ؕ
ترجَمہ : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کوجو یقین رکھتے ہیں اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں اُن سے جنہوں نے اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور اس کے رسول (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )سے مخالَفَت کی اگر چِہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یاکُنبے والے ہوں ۔ (پ28المجادلہ22)
فتاوٰی رضویہ جلد 14صَفْحَہ 328 پر ہے : مُرتَدّوں میں سب سے بد تر مُرتَد''مُنافِق ''ہے ۔ یِہی وہ ہے کہ اِس کی صحبت ہزار کافِر کی صُحبت سے زیادہ مُضِر (نقصان دِہ) ہے کہ یہ (بظاہِر) مسلمان بن کر کفر سکھاتا ہے ۔
مُرتَد کی نَمازِ جنازہ کا حُکمِ شَرعی
مرتد اور کافر کے جنازے کا ایک ہی حکم ہے۔مذہب تبدیل کرکے عیسائی (کرسچین) ہونے والے کا جنازہ پڑھنے والے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سیِّدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،مجدددین وملت ، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ جلد 9صَفْحَہ 170پرارشاد فرماتے ہیں:اگر بہ ثُبوتِ شرعی ثابِت ہو کہ میِّت عِیاذاً باللہ (خدا کی پناہ) تبدیلِ مذہب کرکے عیسائی (کرسچین) ہوچکا تھا تو بیشک اُس کے جنازہ کی نماز اور مسلمانوں کی طرح اس کی تَجہیز وتکفین سب حرام قَطعی تھی ۔ قالَ اللہ تعالیٰ(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)
وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ
ترجَمہ : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑ ے ہونا ۔ (پ 10 التوبہ 84)
مگر نماز پڑھنے والے اگر اس کی نصرانیت (یعنی کرسچین ہونے)پر مطلع نہ تھے اور بربِنائے علمِ سابِق (پچھلی معلومات کے سبب) اسے مسلمان سمجھتے تھے نہ اس کی تجہیز وتکفین ونَماز تک اُن کے نزدیک اس شخص کا نصرانی (کرسچین) ہو جانا ثابت ہوا ، توان اَفعال میں وہ اب بھی معذور و بے قُصُور ہیں کہ جب اُن کی دانِست(معلومات) میں وہ مسلمان تھا، اُن پر یہ اَفعال بجالانے بَزُعْمِ خود شرعاً لازم تھے ، ہاں اگر یہ بھی اس کی عیسائیت سے خبردار تھے پھر نماز وتجہیز وتکفین کے مُرتکب (مُر۔تَ ۔ کِب ) ہوئے قطعاً سخت گنہگار اور وبالِ کبیرہ میں گرفتار ہوئے ، جب تک توبہ نہ کریں نماز ان کے پیچھے مکروہ ۔ مگرمُعامَلۂ مُرتَدین پھر بھی برتنا جائز نہیں کہ یہ لوگ بھی اس گناہ سے کافر نہ ہوں گے ۔ ہماری شَرعِ مُطَہَّر صراطِ مُستقیم ہے ، اِفراط وتفریط (یعنی حد اعتدال سے بڑھانا گھٹانا) کسی بات میں پسند نہیں فرماتی ، البتّہ اگر ثابت ہو جائے کہ اُنہوں نے اُسے نصرانی جان کر نہ صرف بوجِہ حَماقت وجَہالت کسی غَرَضِ دُنیوی کی نیّت سے بلکہ خود اسے بوجہِ نصرانیّت مستحقِ تعظیم وقابل تجہیز وتکفین ونَمازِ جنازہ تصوُّر کیا تو بیشک جس جس کا ایسا خیال ہوگا وہ سب بھی کافِر ومُرتَد ہیں اور ان سے وُہی مُعامَلہ برتنا واجِب جو مُرتدین سے برتا جائے!اوران کی شرکت کسی طرح روا نہیں ، اور شریک ومعاون سب گنہگار ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔
کافِر کو مرحوم کہنا کیسا ؟
اِرتدِاد کا علم ہونے کی صُورت میں مرحوم کہنا کُفر ہے ۔ صدرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّريقہ ، حضرتِ علامہ مَوْلانامُفتی محمد امجَد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ''جو کسی کافِر کیلئے اس کے مرنے کے بعد مغفِرت کی دُعا کرے یا کسی مُردہ مُرتد کو مرحوم (یعنی رحمت کیا جائے) یا مغفور (یعنی مغفرت کیا جائے) یا کسی مر ے ہوئے ہندو کو بَیْکُنْٹھ (بے ۔کُنْ ۔ٹھ ) باشی (یعنی جنّتی) کہے وہ خود کافِر ہے ۔ (بہارِ شريعت حصّہ1 ص97،چشتی)
خاندان کاکوئی فرد بِالفرض کافِر ہو تو ؟
ماں باپ یا خاندان کاکوئی فرد اگر مَعاذَاللہ کافر یا مُرتد ہو تو واقِعی سخت آزمائش ہوتی ہے ، مگر کسی صورت شریعت کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ ذَیل میں دی ہوئی آیت اور اس کے تحت دیا ہوا مضمون پڑھیں گے تو اِن شاءَ اللہ استِقامت ملنے کے ساتھ ساتھ معلومات کا خزانۂ لاجواب ہاتھ آئے گا ۔ چُنانچِہ پارہ28 سورۂ مُجادَلہ آیت نمبر22میں ارشادِ ربُّ العباد ہے : لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوْ کَانُوۡۤا اٰبَآءَھُمْ اَوْ اَبْنَآءَھُمْ اَوْ اِخْوٰنَھُمْ اَوْ عَشِیۡرَتَھُمْ ؕ
ترجَمۂ كنزالایمان: تم نہ پاؤ گے ان لوگوں كو جو یقین ركھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر كہ دوستی كریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس كے رسول سے مخالَفَت كی اگرچہ وہ ان كے باپ یا بیٹے یا بھائی یا كُنبے والے ہوں ۔ (پ 28المجادلہ 22)
مسلمان کی پہچان
حکیم الامت حضر تِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ، شانِ حبیبُ الرحمن صَفْحَہ 235 تا 236 پر فرماتے ہیں : یہ آیتِ کریمہ بھی حُضور عَلَیْہِ السَّلام کی نعت ہے اور مسلمانوں کی پہچان ہے ۔ اس میں مسلمانوں کی نشانی یہ بتائی گئی کہ مومِن ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کہ اللہ و رسول عَلَیْہِ السَّلام کے دشمنوں سے مَحَبَّت رکھے اگر چِہ وہ اس کے خاص اہلِ قَرابت ہی ہوں ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اگر چِہ ماں باپ کا بَہُت بڑا حق ہے، مگر حقِّ مصطَفٰے عَلَیْہِ السَّلام کے مقابلہ میں کسی کا کچھ حق نہیں ۔
ماں باپ اگر کافِر ہوں تو ان سے مَحَبَّت حرام ہے
حضور عَلَیْہِ السَّلام کا حکم ہے کہ داڑھی رکھو ۔ ماں یا باپ یا یار دوست کہیں کہ داڑھی مُنڈواؤ ہرگز جائز نہیں کہ مُنڈائے ۔ رب کا حکم ہے کہ نَماز پڑھو اور روزہ رکھو ۔ ماں کہے یہ کام نہ کر۔ ماں کی بات ہرگز نہ مانی جاویگی ۔ کیوں کہ اللہ و رسول عَلَیْہِ السَّلام کا حق سب پر مُقَدَّم (یعنی سب سے بڑھ کر) ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کا بیٹا یا بھائی یا باپ یا ماں کافر ہوں ، تو ان سے مَحَبَّت ، دوستی تمام کی تمام حرام ہیں ۔
صَحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ میں کافر رشتے داروں کو قَتْل کیا
اِس آیت کی تفسیر صَحابہ کرام (علیھم الرضوان) کی زِندگی ہے ۔ چُنانچِہ حضرتِ ابو عُبَیدہ بِن جَرّاح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگِ اُحُد میں اپنے والِد''جَرّاح ''کو قتل کیا ، حضرتِ سیِّدُنا ابو بکرصِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے فرزند عبدالرحمن کو جو اُس وَقت کافِر تھے مقابلہ کے لئے بلایا کہ عبدالرحمٰن آؤ!آج باپ بیٹے دو دو ہاتھ ہو جائیں ! لیکن حُضور عَلَیْہِ السَّلام نے ان کو روک دیا (حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں مسلمان ہو گئے ) حضرت مُصعَب بِن عُمَیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھائی عبدُ اللہ بن عُمَیر کو قتل کیا جو کافِر تھا اور حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں عاص بِن ہَشّام بن مُغِیرہ کو قتل کیا جو کافر تھا ، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حَمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رَبِیعہ کے لڑکوں عُتبہ اورشَیبہ کو جنگِ بدر میں قتل کیا جو ان کے قَرابت (رشتہ دار) تھے ، خدا اور رسول پر ایمان لانے والوں کو (جِسمانی) رشتہ داری کا کیا پاس
(روحُ البیان ج 9 ص 412 ،خزائن العرفان ص870،چشتی)
سانپ جان اور بُرا دوست ایمان لیتا ہے
تاتُوانی دُور شَو اَز یارِ بد مارِ بد تنہا ہمیں برجاں زَنَد
یارِ بد بدتر بُوَد اَز مارِ بد یارِ بد بَر دین و بَرایماں زَنَد
(مثنوی شریف کے ان دو اشعار کا خلاصہ ہے کہ) جہاں تک ہوسکے بُرے دوست سے دُور رہو کہ بُرا دوست سانپ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ سانپ تو صرف جان لیتا ہے جبکہ بُرا یار ایمان لیتا ہے ۔
دولت مند (اگر) ڈاکو سے مَحَبَّت رکھے تو ایک دن (اُسی ڈاکو کے باعث)اپنی دولت برباد کر دے گا ۔ اِسی طرح دولتِ ایمان رکھنے والا اگر بے ایمانوں سے مَحَبَّت رکھے ، تو ایک دن اپنا ایمان کھو دیگا۔ آج بَہُت سی ایسی مِثالیں موجود ہیں کہ بُروں کی صحبت میں بیٹھ کر بد مذہب بن گئے ۔ (شانِ حبیب الرحمن ص 235 ۔ 236 )
قادِیانی کافِر ہیں
مِرزائیوں (قادیانیوں)کے کفر پر مُطَّلع ہوکر انہیں کافِر نہ سمجھنے والا خود کافِر مرتد ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج14ص321 ) ۔
اس میں قادیانیوں کے تمام گُروہ شامِل ہیں ۔ وہ قادِیانی بھی جو مرزا غلام احمد کو نبی مانیں اور وہ بھی جو مرزا کو مُجدِّد یا مسیح مانیں اور وہ بھی جو ان میں سے تو کچھ نہ مانیں مگر اس کو محض مسلمان مانیں بلکہ وہ بھی کافِر و مُرتَد ہیں جو اس کے عقائد کو جاننے کے باوُجُود اس کے کافِر ہونے پر شک کریں ۔ قادِیانی عقائد کی تفصیل امام اَحمد رَضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل میں موجود ہے جو ردِّ مِرزائیت کے نام سے مل سکتے ہیں ۔
فرقہ قادیانیہ جو غلام احمد قادیانی کو نبی یا مصلح و مرشد مانتا ہے ، یہ فرقہ زمانہ حال کے زنادقہ کبار میں سے ہے اور کسی اسلامی مملکت میں بحکم شرع اسے رہائش ، اقامت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ قادیانی ختم نبوت کے منکر ہیں اور ختم نبوت کا عقیدہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے ۔ کسی ا سلامی مملکت میں یہ فر قہ جزیہ ادا کرکے بطور ذمی بھی سکونت نہیں کر سکتا کیو نکہ ان میں سے جو لوگ مسلمان تھے اور پھر قادیانی ہو گئے وہ مرتد ہیں ۔ مرتد ذمی نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح یہ لوگ مرتد ہو نے کے علاوہ زندیق بھی ہیں لہذا ان میں جو اشخاص قادیانیت کے مبلغ و داعی ہوں ان کی توبہ قضاء مقبول نہیں ہے اور وہ زندقہ کی وجہ سے واجب القتل ہیں (مگریہ اسلامی حکومت وقت پر فرض ہے کہ شرعی سزا نافذ کر کے ان کے قتل کا حکم دے ، عوام کو اس کا اختیار نہیں ) ۔ جیسا کہ ابا حیہ و روافض و قرامطہ و زنادقہ فلاسفہ کی تو بہ مقبول نہیں اور وہ واجب القتل ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اور زندقہ کیا ہو گا کہ وہ اسلام کے اندر ہمارے نبی خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کی نبوت کے قائل ہیں ۔ اور جو قادیانی پیدائشی قادیانی ہوں یعنی قادیانی خاندان میں پیدا ہوئے اور پھر اسی عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے بڑے ہو گئے وہ بھی کسی اسلامی مملکت میں ازروئے شریعت اسلامیہ سکونت و اقامت کے مجاز نہیں ہو سکتے ۔ اور وہ جزیہ ادا کر کے ذمی بھی نہیں بن سکتے بلکہ وہ زندیق ہیں ۔ اگر وہ قادیانیت کے داعی و مبلغ ہوں تو ان کی تو بہ قضاء مقبول نہیں ہو سکتی اور اگر داعی و مبلغ نہ ہوں تو ان کی تو بہ قبول ہو سکتی ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment