Thursday 6 September 2018

مصطفیٰ کریم صل اللہ علیہ وسلّم کےگستاخ کی سزا پرچند اعتراضات کا جواب

0 comments

مصطفیٰ کریم صل اللہ علیہ وسلّم کےگستاخ کی سزا پرچند اعتراضات کا جواب

محترم قارئین : مصطفیٰ کریم صل اللہ علیہ وسلّم کےگستاخ کی سزا موت پر اب تک جتنے اعتراضات فقیر چشتی کی نظر سے گذرے یا احباب نے بھیجے ہیں اس مضمون میں فقیر نے کوشش کی ہے کہ ان کا مدلّل جواب دیا ہے فقیر کہاں تک کامیاب ہوا یہ آپ پڑھنے کے بعد بتا سکتے ہیں اہلِ علم سے گذارش کہیں غلطی پائیں تو شفقت فرماتے ہوئے اصلاح فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔

اعتراض نمبر 1 : قرآن مجید میں پیغمبروں کے ساتھ استہزاء کا جرم کاذکر بار بار آیا ہے لیکن مجرم کیلئے سزائے موت کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے ۔

اعتراض نمبر 1 کا جواب : اصل گفتگو اسلامی شریعت کے دائرے میں ہورہی ہے ۔ اور احادیث کے نصوص سے قتل کی سزا ثابت ہے ۔ اور اگر صرف احادیث سے قتل کی سزا ثابت ہے تو کیا منکرین حدیث کی طرح سے احادیث کا انکار کیا جاے گا۔ شراب نوشی کے حد کے بارے میں قرآن میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے ، تو اعتراض کرنے والے اسکے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔

اعتراض نمبر 2 : نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم دعوت و تبلیغ کیلئے طائف گئے تھے اور وہاں کے لوگوں نے آپکو سخت تکلیف پہنچائی تھی لیکن اسکے باوجود جب فرشتہ ملک الجبال آپ کے پاس آیا اور ان طائف والوں کی ہلاکت کی اجازت مانگی تو نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے اس کی اجازت نہیں دی ۔

اعتراض نمبر 2 کا جواب : یہ واقعہ مکی زندگی کے دوران ہوا اور یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا ، اور اس وقت تک شاتم رسول کے لئے سزا موت کا حکم نہیں ملا تھا ۔ نیز اس وقت تک شریعت محمدی نافظ نہیں ہوا تھا ۔لھذا طائف والوں کو عذاب نہیں ملا۔ظاہر ہے اکثر احکامات ہجرت کے بعد لاگو ہوے ہیں۔اور چونکہ انہوں نے نبی کی عزت کو مجروح کیا تھا ، لھذا نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ان لوگوں سے حکمت کی بناء پر بدلہ لینا گورا نہیں کیا ۔

اعتراض نمبر 3 : سہل بن عمرو ، عکرمہ بن ابوجھل اور عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے بھی آپ صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی شان میں گستاخیاں کی تھی لیکن انکو کچھ نہیں کہا گیا ۔بلکہ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ بھی حضور نے بذات خود پڑھایا، تو انکو کیوں قتل نہیں کیا گیا ؟

اعتراض نمبر 3 کا جواب : اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ایک مشہور قاعدہ بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کو بے گناہ قتل کردیا۔ اب قاتل کیلئے سزائے موت ہے، اور اسکا خون مباح ہے۔ قتل ثابت ہونے پر اسکو ضرور قتل کیا جائے گا۔ لیکن مقتول کےوارث کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف کردے ، اور مقتول کے وارث کے معاف کرنے کے بعد اس قاتل کو سزائے موت دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حق صرف مقتول کے وارث کے پاس ہے ، کسی اور کے پاس نہیں۔لھذا اگر مقتول کے وارث موجود نہ ہوں تو کوئی دوسرا آدمی اس قاتل کے سزاے موت کو نہیں بدل سکتا ۔

بالکل ایسے ہی چونکہ شاتم رسول نے نبی کی توہین کی ہوتی ہے تو یہ گستاخ سزاے موت کا حقدار بن گیا ہے۔لیکن اگر نبی کسی حکمت کے سبب اس گستاخ کی اس گستاخی کو معاف کردے تو ظاہر ہے کہ اس شاتم رسول کو سزاے موت نہیں ہوگی ۔

اور جس طرح صرف مقتول کے وارث کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔بالکل ایسے ہی گستاخ رسول کو معافی کا حق صرف رسول کو ہی ہوتا ہے۔نبی کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اہانت رسول کے مرتکب شخص کو معاف کردے ۔

ظاہر ہے نبی کی عزت کو اس نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف نبی کوحاصل ہوگا ۔

اور یہی امت مسلمہ کا معمول ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزاے موت دی جاے گی ۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزاے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں ۔

نیز نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم صاحب شریعت تھے اور صاحب حکمت تھے۔ انکو معلوم تھا کہ کس کے قتل کرنے میں حکمت ہے اور کس کے قتل نہ کرنے میں۔ لھذا ابن خطل اور اور حویرث کے سزاے موت کو نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے بحال رکھااور سہل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جھل کو معاف کیا ۔ اور بعد میں یہ دونوں سچے دل سے اسلام لائے تھے ۔

رہا یہ سوال کہ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے خود پڑھایا تھا ، تو یہ بات درست ہے اور عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کی منافقت کا علم نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو بھی ہوا تھا ۔ لیکن عبد اللہ ابن ابی ابن سلول مدینہ میں ایک قبیلہ کا سردار تھا اور مدینہ میں اگر نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم تشریف نہ لاتے تو اسکی سرداری یقینی تھی ۔ لیکن نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی تشریف آوری سے اس کو سرداری نہ مل سکی ، اور نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اس کوشش میں ہوتے تھے کہ کسی طرح عبد اللہ ابن ابی ابن سلول سچے دل سے مسلمان ہوجاے، اور منافقت کی چادر اتار پھینکے ۔ اور اس کی گستاخیوں کو بھی صرف اسلئے معاف کیا کہ معافی کا اختیار نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو حاصل تھا ۔(چشتی)
نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم امت پر مہربان تھے اور چاہتے تھے کہ یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچ جائیں ،لھذا اسی لئےنبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھا ۔

لیکن اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو منافقین کے جنازے پڑھنے سے منع کردیا ۔اور یہ حکم نازل ہوا کہ نہ تو ان منافقین کیلئے مغفرت کی دعاء کی جاے اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھا جاے۔اور یہ حکم آج تک قائم ودائم ہے ۔

اعتراض نمبر 4 : نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم تو امت کیلئے رحمت عالم بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ نا کہ قاتل عالم ۔ لھذا گستاخ رسول کی سزاے موت درست نہیں ہے ۔

اعتراض نمبر 4 کا جواب : یہ درست ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اس دنیا کیلئے رحمت عالم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مجرموں کو کچھ نہ کہا جاے اور ان کو کھلے عام چھوڑدیا جاے۔ مجرموں کو پکڑ کر انکو انکے جرم کے مطابق سزا دینا ہی عین رحمت اور انصاف ہے ۔ ورنہ تو قاتل اور چور قتل اور چوریاں کرتے ، اور قانون انکو کچھ نہ کہتی ، تو یہ تو انصاف نہیں بلکہ مجرموں کو اپنے کئے کی سزا دینا ہی رحمت اور انصاف ہے ۔ اور اسی لئے نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو رحمت عالم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم بنا کر بھیجا گیا تھا ۔ قرآن مجید میں ہے کہ :
ولکم فی القصاص حیاۃ ۔ (سورۃُ البقرہ:178۔179)
ترجمہ : اورتمہارےلئے قصاص میں زندگی ہے ۔

تو قصاص کو حیات اس لیئے کہا گیا کہ اس سے کشت وخون کی بدامنی سے انسانیت کو نجات ملتی ہے۔ شاتم رسول پیغمبر صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے کردار کی قتل کی کوشش کرتا ہے ، اور اس گستاخ کا قتل ہی پیغمبرصل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے کردار کے قتل کا بدلہ ہے ۔

آج اگر ایک ملک کی سفیر کی بے حرمتی ہوتی ہے تو پورے ملک کی بے حرمتی سمجھی جاتی ہے ۔ تو انبیاء علیہم السّلام بھی اللہ تعالیٰ کے سفیر ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کے سفیر کی بے حرمتی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے اور عذاب سے پورا علاقہ تباہ ہوتا ہے ، تو پورے علاقے کی تباہی کے بجاے کیوں نہ اس گستاخ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔

اعراض نمبر 5 : فقہائے احناف علیہم الرّحمہ کے نزدیک گستاخِ رسول کی سزا موت نہیں ہے ۔

اعراض نمبر 5 کا جواب : قانون ناموس رسالت کو ختم کروانے کے لئے انگریز کے وفادار نام نہاد مسلمان میدان عمل میں آگئے ۔ اسی طرح ایک نام نہاد سکالر جاوید غامدی جیسے لوگوں نے یہ شوشہ پھیلانے کی کوشش کی کہ فقہائے احناف علیہم الرّحمہ کے نزدیک گستاخِ رسول کی سزا موت نہیں، لہٰذا 295سی، کو ختم کردیا جائے، اس شخص کا مقصد اُمتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار کی فضا پیدا کرنا ہے ۔ اُمت ِمسلمہ کو ایسے اشخاص کے گھناؤنے کردار سے خبردار رہنا چاہئے۔ گستاخِ رسول کی سزا کے حوالے سے احناف کے جلیل القدر علما کی آرا ملاحظہ فرمائیے :
امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کل من أبغض رسول الله ﷺ بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل…. وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه ۔
ترجمہ : ہر وہ شخص جو دل میں رسول صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمہ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی ۔ (فتح القدیر: 5 /332،چشتی)
علامہ زین الدین ابن نجیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما…. لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه…. وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب ۔
ترجمہ : ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم یا شیخین رضی اللہ عنہما میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضورصل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی جائے تو اُسے معافی نہیں دی جائے گی۔ جب وہ شخص مرجائے تو اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی اہل ملت (یہودی نصرانی) کے گورستان میں بلکہ اسے کتے کی طرح کسی گڑھے میں پھینک دیا جائے گا ۔ (الاشباه والنظائر: 158،159)
امام ابن بزار علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : إذا سبّ الرسول صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم أو واحد من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حد واجب فلا یسقط بالتوبة ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تتعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحد القذف لا یزول بالتوبة ۔
ترجمہ : جو شخص رسول اللہ صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی اہانت کرے یا انبیا میں سے کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسےبطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ تائب ہوکر آئے یا گرفتار ہونے کے بعد تائب ہو اور اس پر شہادت مل جائے تو وہ زندیق کی طرح ہے۔اس لیے کہ اس پر حد واجب ہے اور وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ یہ ایسا حق ہے جو حق کےساتھ متعلق ہے، جو بقیہ حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوتا جیسے حد ِقذف بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔ (رسائل ابن عابدین: 2/327،چشتی)
علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الکافر بسبّ النبي من الأنبیاء لا تقبل توبته مطلقًا ومن شكّ في عذابه و کفره کفر ۔
ترجمہ : کسی نبی کی اہانت کرنے والا شخص ایسا کافر ہے جسے مطلقاً کوئی معافی نہیں دی جائے گی، جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے ۔ (درمختار: 6 /356)
علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : واعلم انه قد اجتمعت الأمة علی أن الاستخفاف بنبینا وبأي نبي کان من الأنبیاء کفر، سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك، والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لا یعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما ۔
ترجمہ : تمام علماے اُمت کااجماع ہے کہ ہمارے نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم ہوں یا کوئی اور نبی علیہ السلام ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر کرے یا حرام سمجھ کر، قصداً گستاخی کرے یا بلا قصد، ہر طرح اس پر کفر کافتویٰ ہے۔ شانِ نبوت کی گستاخی میں لا علمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا، حتیٰ کہ سبقت ِلسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ عقل سلیم کو ایسی غلطی سے بچنا ضروری ہے ۔ (روح البیان: 3 /394)
علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل ۔
ترجمہ : تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد مستحق قتل ہے ۔ (احکام القرآن: 3 /112)
ذمی شاتم رسول کا حکم : جو شخص کافر ہو اور اسلامی سلطنت میں رہتا ہوں، ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسے حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر جب وہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہو تو اس کا عہد ختم ہوجاتا ہے اور اس کی سزا بھی قتل ہے ۔
امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ : علامہ ابن تیمیہ امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فإن الذمي إذا سبه لا یستتاب بلا تردد فإنه یقتل لکفره الأصلي کما یقتل الأسیر الحربی ۔
ترجمہ : اگر کوئی ذمی نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیں گے کیونکہ اسے اس کے کفر اصلی کی سبب قتل کیا جائے گا جیسے حربی کافر کو قتل کیا جاتا ہے ۔ (الصارم المسلول:ص 260،چشتی)
امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی، اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے، جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا ۔ (فتح القدیر: 5 /303)
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ : فلو أعلن بشتمه أو إعتاده قُتل ولو امرأة وبه یفتٰی الیوم ۔
ترجمہ : جب ذمی علانیہ حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا، اگرچہ عورت ہی ہو او راسی پر فتویٰ ہے ۔ (رد المحتار: 6 /331)

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن تیمیہ ، دونوں نے امام ابوسلیمان خطابی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله ۔
”میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے شاتم رسول کے قتل میں اختلاف کیا ہو ۔علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : إن الساب إن کان مسلما فإنه یکفرویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم ۔ ترجمہ : بے شک حضور نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو سب و شتم کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کہلاتا ہو، وہ کافر ہوجائے گا۔ ائمہ اربعہ اور دیگر کے نزدیک اِسےبلا اختلاف قتل کیا جائے گا ۔ (الصارم المسلول)

اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اپنی اوراپنے حبیب صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و سلم کی محبت عطا فرمائے ، او رقرآن و سنت کے مطابق ہمیں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔