مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کے گستاخ کی سزا احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آرہے ہیں ۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے ۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا ۔ کبھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے ۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا ۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا ۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا ۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاءعلیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے ۔ رسوائی مقدر بن جائے گی ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد ہے : ان الذین یوذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والآخرۃ واعد لھم عذابا مھینا )) ( 33/احزاب 57 ) ترجمہ : بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
آئیے گستاخان رسول کا انجام دیکھئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی حوالے سے کارہائے نمایاں ملاحظہ فرمائیے اور فیصلہ فرمائیے کہ ان حالات میں عالم اسلام کی کیا ذمہ داری ہے ۔
عن علی رضی اللہ عنہ ان یھودیہ کانت تشتم النبی ا وتقع فیہ فخنقھا رجل حتی ماتت ، فاطل رسول اللہ ا دمھا ۔
ترجمہ : ایک یہودیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو گالیاں دیا کرتی تھی ایک آدمی نے اس کو گلا گھونٹ کر جہنم واصل کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا (اور کوئی قصاص یا دیت نہیں لی)حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اس خون کا قصاص یا خون بہا نہ لینا اس طرف اشارہ دیا کہ اس کی سزا ہی یہی تھی کہ اُس کو قتل کردیا جائے ۔ (سنن ابوداؤد جلد ۴ صفحہ ۵۳۰، سنن الکبری بیہقی جلد ۷ صفحہ ۶۰ اور جلد ۹ صفحہ ۲۰۰ و الحدیث الجیّد)
عن ابن عباس ضیللہعنہما ان اعمی کانتلہ ام ولد تشتم النبی وتقع فیہ، فینھا ھا فلا تنتھی، ویزجوھا فلا تنزجر، فلمّا کانت ذات لیلۃ تقع فی النبی ا وتشمہ؛ فاخذ المغول فوضعہ فی بطنھا واتکأَ علیھا فقتلھا، فلما اصبح ذکر ذلک للنبی ا فجمع الناس فقال (انشد اللہ رجلا فعل ما فعل لی علیہ حق الا قام) فقام الاعمی یتخطی الناس و ھو یتدلدل، حتی قعد بین یدی النبی، فقال : یا رسول اللہ ا أنا صاحبھا، کانت تشتمک وتقع فیک فأنھا ھا فلا تنتھی وازجرھا فلا تنزجر، علی منھا ابنان مثل اللؤلؤتین، وکانت بی رفیقہ، فلما کان البارحۃ جعلت تشتمک وتقع فیک، فاخذت المغول فوضعتہ فی بطنھا وانَّکات علیہ حتی قتلھا، فقال النبی (الا اشھدوا انّ دمھاھدرٌ) ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک اندھے شخص کی لونڈی تھی جس کا نام ام ولد تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور اس شخص کے منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتی تھی وہ اسے زجر و توبیخ کرتا لیکن وہ اپنی حرکت پر قائم رہتی۔ ایک رات اس نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے رہے تھی تو اس نابینا نے ایک مغول لے کر اس کے پیٹ میں گھسا دیا جس سے وہ جہنم واصل ہوگئی ۔ صبح کو اس کا تذکرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور کہا میں قسم دیتا ہوں کہ جس نے جو کیا اس پر میرا حق ہے وہ بندہ کھڑا ہوجائے ۔ اس پر وہ نابینا کھڑا ہوگیاحالت بے چینی میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ پھلانگ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گیا اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا لیکن وہ آپ کو گالیاں دیتی میں اسے روکتا پر وہ باز نہ آتی ۔ اس کے رحم سے میرے دو ہیرے کی مانند بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی ۔ گزشتہ رات جب وہ آپ کی شان میں ہجو بک رہی تھی تو میں نے مغول لیا اور اس کے پیٹ میں پیوست کرکے اس طاقت سے دبایا کہ وہ مر گئی، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم گواہ رہنا اس (عورت) کا خون ہدر ہے) ۔ (سنن ابوداؤد ۴؍۵۲۸ حدیث ۴۳۶۱، نسائی ۷؍۱۰۷، دارقطنی ۳؍۱۱۲ حدیث ۱۰۳، قال حاکم صحیح علی شرط مسلم فی مستدرک ۴؍ ۳۵۴، سنن الکبری بیہقی ۷؍ ۶۰، قال ابن حجر راوتہ ثقات فی بلوغ المرام ۲۵۵ حدیث ۳۶۶۵،چشتی)
اس حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات کا مستحق ہے کہ اسے قتل کردیا جائے چاہے وہ آپ کا کوئی بھی کیوں نہ ہو اور خون کا علی اعلان ہدر کرنے سے صحابہ کرام ث کو بھی یہ تعلیم ملی کہ گستاخِ رسول کی سزا موت ہے اور اگر عام آدمی سوائے حاکم وقت کے بھی یہ سزا دے تو اس سزا دینے والے پر کوئی گرفت نہیں بلکہ اس نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا ۔
ایک اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سزا نہیں دی لہذا یہ دلیل دعوے کے مطابق نہیں لیکن ذیل میں ہم ایسی حدیث بیان کرنے والے ہیں جو ان لوگوں پر ۔۔۔ جو باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کا دعوی کرنے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والے کے لئے سزائے موت کو درست نہیں مانتے ۔۔۔ زلزلہ کی طرح گرے گی پھر یا تو اسلام کو سلام کرنا پڑے گا یا پھر لبرلزم کو۔ دلیل ملاحظہ ہو : کتب حدیث اور سیرت میں متفقہ طور پر یہ واقعہ درج ہے کہ : کعب بن اشرف ایک یہودی تھا جسے اسلام سے سخت نفرت تھی وہ مسلمانوں کی عورتوں کے بارے میں غلیظ اشعا ر لکھتا اور کہتا تھا جس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجو اشعار کہہ کر گستاخی کا مرتکب ہوا تھا اس کو قتل کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ "من لکعب ابن الاشرف فانہ قہ اٰذی اللہ و رسول"یعنی "کون کعب بن اصرف کا کام تمام کرے گا کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ایذا پہنچا چکا" اس پر محمد بن مسلیمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ اتحب ان اقتلہ ۔ یعنی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ پسند فرمائے گے کہ میں اسے قتل کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دی۔ پھر محمد بن مسلیمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سمیت کعب بن اشرف کو جہنم واصل کردیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچائی ۔ (صحیح بخاری جلد ۳ صفحہ ۹۹ اور ۱۰۰ طبع المکتبۃ السلفیّہ،دلایل النبوۃ از بیہقی جلد ۳ صفحہ ۹۰ ۱ اور ۱۹۱، سیرت النبی ا از ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۱ تا ۵۸، تفسیر طبری جلد ۵ صفحہ۱۳۲، تاریخ طبری عربی جلد ۲ صفحہ ۴۸۸)
اس حدیث کے اندر یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ کون گستاخ کو قتل کرے گا اور ایک صحابی نے یہ کام اپنے ذمہ لیا اور اپنے ساتھیوں سمیت اس شاتمِ رسول کو جہنم واصل کیا ۔
ابورافع ایک خیبر کا یہودی تھا ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت بغض رکھتا تھا اور تن و دھن سے مسلمانوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر اس کے قتل کے لئے بھیجا جس نے اس کو جہنم واصل کیا اس حالت میں کہ وہ یہودی سو رہا تھا ۔ روایت میں ہے کہ : عن براء بن عازب رضی اللہ عنہ (بعث رسول اللہ ا رھطاً الی ابی رافع فدخل علیہ عبداللہ بن عتیک بیتہ لیلاً فھو نائم فقتلہ) ۔
ترجمہ : براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کی طرف بھیجا ۔ انہوں نے اس کے گھر میں اس حالت میں قتل کیا جب وہ سو رہا تھا ۔
(بخاری جلد ۳ صفحہ ۱۰۰ طبع المکتبۃ السلفیّہ، اس کے علاوہ اختلاف الفاظ کے ساتھ یہ واقعہ تمام کتب سیرت اور مغازی میں موجود ہے،چشتی)
عن ابن عباس ھجت اِمرأۃ من خطمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال (من لی بھا؟) فقال رجل من قومھا ’’أنا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فنھض فقتلھا، فأخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال (لا ینطح فیھا عنزانٌ) ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما خطمۃ قبیلے کی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجو بکا کرتی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس عورت سے کون نمٹے گا ؟ اسی قبیلے کے ایک آدمی نے کہا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پس اس نے جا کر اسے قتل کردیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اس معاملے میں دو بکریا ں اپنے سینگ نہ ٹکرائے(یعنی دو شخص آپس میں بحث و تکرار کرے کہ آیا اس نے درست کیا یا غلط ۔ اس نے بلکل صحیح کیا) ۔(الکامل لابن عدی جلد ۶ صفحہ ۲۱۵۶، تاریخ خطیب جلد ۱۳ صفحہ ۹۹ الصارم المسلول جلد ۲ صفحہ ۱۹۵ طبع)
بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے ۔عصماءبنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاءو تکلیف دیا کرتی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی ۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا ۔ تو کہنے لگا ۔ اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے ۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے ۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی ۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا ۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی ۔ پھر نماز فجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عمیر کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا ۔ کہنے لگے ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے ؟ فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں ۔ پس یہ کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی مرتبہ سنا گیا عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد دیکھا پھر فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو ۔ ( الصارم المسلول 130،چشتی)
محترم قارئین آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ملاحظہ کیا کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاتمین کو قتل کروایا کرتے تھے ۔ اب حضرت علی کرم اللہ وجھہ کی روایت ملاحظہ فرمائیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گستاخ رسول کو قتل کرنے کا حکم فرمایا ہے : عن علی بن ابی طالب قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔( مَنْ سَبَّ نَبِیًّا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ)
ترجمہ : حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جو نبیوں پر سب و شتم کرے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ (رضی اللہ عنہم) پر سب و شتم کرے اُسے کوڑے لگائے جائے ۔ (المعجم طبرانی حدیث ۶۵۹، مجمع الزوائد جلد۶ صفحہ ۲۶۳، الصارم المسلول جلد۲ صفحہ ۱۸۹)
یہاں ایک اور بات واضح ہوئی کہ صرف گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی سزا موت نہیں بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی نبی علیہ السلام کی گستاخی کرنے بھی مستحق قتل ہے ۔ جیسا کہ تمام علماء کا اتفاق ہے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ : کنت عند ابی بکر رضی اللہ عنہ ، فتغیظ علیٰ رجل ، فاشتد علیہ ، فقلت : ائذن لی یا خلیفۃرسول اللّٰہ اضرب عنقہ قال : فاذھبت کلمتی غضبہ ، فقام فدخل ، فارسل الی فقال : ما الذی قلت آنفا ؟ قلت : ائذن لی اضرب عنقہ ، قال : اکنت فاعلا لو امرتک ؟ قلت : نعم قال : لا واللّٰہ ما کانت لبشر بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
ترجمہ : میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا ۔ میں نے عرض کیا ۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ۔ مجھے اجازت دیں ۔ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا ۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے ۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا ۔ میں نے کہا ۔ کہا تھا ۔ کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا ۔ تو تم یہ کام کرتے ؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اللہ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ نہیں ۔ اللہ کی قسم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی ۔ ( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم،چشتی)
ابوعفک یہودی کا قتل
علامہ ابن تیمیہ مؤرخین کے حوالے سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوعفک یہودی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ : ان شیخا من بنی عمرو بن عوف یقال لہ ابوعفک وکان شیخا کبیرا قد بلغ عشرین ومایة سنة حین قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینة ، کان یحرض علیٰ عداوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ولم یدخل فی الاسلام ، فلما خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی بدر ظفرہ اللہ بما ظفرہ ، فحسدہوبغی فقال ، وذکر قصیدۃ تتضمن ھجو النبی صلی اللہ علیہ وسلم وذم من اتبعہ ۔ (الصارم المسلول 138)
ترجمہ : بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابوعفک کہتے تھے وہ نہایت بوڑھا آدمی تھا اس کی عمر 120 سال تھی جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے غزوہ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطاءفرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور بغاوت و سرکشی پر اتر آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا ۔ اس قصیدے کو سن کر سالم بن عمیر نے نذر مان لی کہ میں ابوعفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود مرجاؤں گا ۔ سالم موقع کی تلاش میں تھا ۔ موسم گرما کی ایک رات ابوعفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا ۔ لوگ اس کی طرف آئے جو اس کے اس قول میں ہم خیال تھے وہ اسے اس کے گھر لے گئے ۔ جس کے بعد اسے قبر میں دفن کر دیا اور کہنے لگے اس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ اللہ کی قسم اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے تو ہم اس کو ضرور قتل کر دیں گے ۔
انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی : انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی اس کو قبیلہ خزاعہ کے ایک بچے نے سن لیا اس نے انس پر حملہ کر دیا انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آ کر دکھایا ۔
واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدد طلب کرنے کیلئے گیا انہوں نے آ کر اس واقع کا تذکرہ کیا جو انہیں پیش آیا تھا جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انس بن زنیم الدیلمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا ۔ ( الصارم المسلول139،چشتی)
ایک گستاخِ رسول عورت
ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من یکفینی عدوی میری دشمن کی خبر کون لےگا ؟ تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ ( الصارم المسلول163)
مشرک گستاخ رسول کا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ان رجلا من المشرکین شتم ر سول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم من یکفینی عدوی ؟ فقام الزبیر بن العوام فقال : انا فبارزہ ، فاعطاہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلمسلبہ ۔
ترجمہ : مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ ( الصارم المسلول : 177 )
محترم قارئین : ان دلائل سے معلوم ہوا کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کا مرتکب ہو اور یہ حرکت قصدا کی ہو تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے نکل کر شرعا مرتد ہوجاتا ہے اگر وہ اس قبیح اور شنیع حرکت پر ندامت کے ساتھ بصدق دل توبہ و استغفار کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہو جائے تو بہتر ورنہ اسے قتل کر دیا جائے اور یہی اس کی سزا ہے مگر قتل کرنے کا اختیار عام عوام کو ہرگز نہیں بلکہ مسلمان حاکم اور قاضی کو ہے اور عوام صرف اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں اور کورٹ واقعہ کی مکمل تحقیق کے بعد اسے سزا دے تاکہ دوسروں کے لئے نشان عبرت بنے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment