مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا غیر مسلموں سے حُسنِ سلوک
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر رحمت تمام جہانوں کے لیے
حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں ۔ آپ پر اللہ نے شریعت کامل کی اور آپ کو خاتم النبیین کا خطاب دے کر تمام جہانوں کی طرف مبعوث کیا۔جب اللہ تعالی نے آپ کو تمام نبیوں سے افضل قرار دیا تو آپ کے اخلاق عادات شمائل بھی تمام نبیوں سے افضل بنائے اور ایسی عمدگی کے ساتھ پھر حضورﷺ سے ان کا ظہور ہوا کہ اس کی نظیر نہ آج تک نظر آئی ہے اور نہ آئندہ آسکتی ہے ۔
خود قرآن نے آپ کے اخلاق عالیہ پر مہر تصدیق ثبت فرمائی ہے اور گواہی دی ہے کہ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (سورۃ القلم:5)کہ بے شک تو عظیم الشان اخلاق پر قائم ہے۔
حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی گواہی
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا ام المؤمنین جنہیں سب سے زیادہ آپ ﷺ کی صحبت مبارک میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی جب آپ سے صحابہ نے حضور ﷺ کے اخلاق کی جھلک دکھلانے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایاکیا تم قرآن نہیں پڑھتے کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنَ کہ آپ کے اخلاق تو قرآنی تعلیمات کی عملی تفسیر تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل مسند عائشۃحدیث 25108جلد 8صفحہ144،چشتی)
گویا اگر قرآن کو سمجھنا ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے تو نمونہ جو حضور ﷺ نے پیش کردیا ہے وہ بہترین ہے ۔ اگر کوئی سمجھناچاہتا ہے قرآن کو تو حضور ﷺ کی زندگی ہی اس کی بہترین رہنما ہے۔
ہر لحاظ سے بے مثل وجود
ذاتی زندگی سے لے کے گھریلو ازدواجی زندگی اور پھر معاشرتی زندگی اور پھربحیثیت نبی اللہ اور پھر بحیثیت داعی الی اللہ اور پھر بحیثیت پیامبر امن اور پھر بحیثیت ایک فوجی جرنیل اور پھر بحیثیت سربراہ مملکت کیا آپ کی امانت و دیانت کیا آپ کا حسن سلوک بچوں بڑوں پڑوسیوں رشتہ داروں سے عزیروں دشمنوں غلاموں لاچاروں سے پھر کیا آپ کی شجاعت بہادری جوانمردی اور پھر وہیں آپ کی نرمی مسکراہٹ اور چشم پوشی۔
غرض جس پہلو سے بھی دیکھیں کسی خلق میں حضورﷺ کا کوئی ثانی کہیں ہمیں نظر نہیں آتا۔ کسی ایک خلق میں بھی۔
غیر مسلموں سے حسن سلوک کی جھلکیاں
حضور ﷺ کے یہ اخلاق صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہ تھے بلکہ خدا تعالی نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا جیسا کہ قرآن میں فرمایا وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔(سورۃ الانبیاء:108) کہ اے نبی ﷺ ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اوراس حسن کے پیکر نے اپنے عملی نمونہ سے خود کو رحمۃ للعالمین ثابت بھی کیا۔ آئیں میں آپ کے سامنے اس رحمۃ للعالمین کے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے نمونے پیش کروں۔
قرآن کی گواہی
غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا اس سے بہترنمونہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں تباہی سے بچا لیا جائے اور یہی فکر تھی جو آنحضور ﷺ کو شب و روز رہتی تھی۔ آپ کی اس حالت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے : فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا (سورۃ الکہف:7)
پس کیا تُو شدتِ غم کے باعث اُن کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کردے گا اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں ۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمایا : لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (سورۃ الشعراء:4)
کہ کیا توُ اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔
السلام علیکم کہنے کی ہدایت
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ االلہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَجُلًا سَاَلَ النَّبِیَّﷺ: اَیُّ الْاِسْلَامِ خَیْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَ تَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَ مَنْ لَمْ تَعْرِفْ ۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث نمبر 12)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا تم کھانا کھلایا کرو اور ہر کسی کو سلام کیا کرو خواہ تم اسے جانتےہو یا نہیں جانتے۔
السَّامُ عَلَیْکُمْ کے جواب میں بھی نرمی کی تلقین
یہود حضور ﷺ کی مخالفت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور اپنے شاطر دماغوں سے کوئی نہ کوئی طریقہ آپ ﷺ یا مسلمانوں کو تکلیف دینے کا ڈھونڈتے رہتے تھے۔ لیکن آنحضورﷺ نے ہمیشہ ان کو نرمی سے جواب دیا اور اپنے اصحاب کو بھی نرمی کی تلقین فرمائی۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : ایک دفعہ ایک یہودی گروہ آنحضور کی خدمت میں آیا اور انہوں نے شرارتاً اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کی بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکِمْ (یعنی تم پر ہلاکت ہو) کہا مجھے سمجھ لگ گئی میں نے انہیں کہا کہ ہلاکت تم پر ہو اور انہیں ملامت کی لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ عائشہ ٹھہرو ‘‘اِنَ اللہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ’’ کہ اللہ تعالی ہر معاملہ میں نرمی پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے انہیں جواب میں کہہ دیا تھا کہ ‘‘وَعَلَیْکُمْ’’ یعنی تم پر بھی ۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب الرفق فی الامر کلہ حدیث6024،چشتی)
عیادت مریض
آپ ﷺ کو سب کے درد کا احساس تھا اس لیے اگر کوئی غیر مسلم بھی بیمار ہوتا تو آپ اس کی تیماداری کے لیے تشریف لے جاتے۔حضرت انس ؓ بیان فرماتے ہیں : ‘‘أَنَّ غُلَامًا لِیَھُوْدَ،کَانَ یَخْدُمُ النَّبِیَّ ﷺ،فَمَرِضَ فَأَتَاہُ النَّبِیُّﷺیَعُوْدُہُ۔ ’’ (صحیح البخاری کتاب المرض باب عیادۃ المشرک حدیث نمبر 5657)
کہ رسول کریم ﷺ کا ایک خادم یہودی تھا جو بیمار ہو گیا۔ رسول کریم ﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔
کافر کی حد درجہ مہمان نوازی
ایک حدیث میں خاص طور پیش کرنا چاہتاہوں جس سے حسن سلوک ایک جاذب پہلو ‘‘مہمان نوازی’’ سامنے آتا ہے۔
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺضَافَہُ ضَیْفٌ کَافِرٌ،فَأَمَرَلَہُ رَسُوْلُ اللہِ ﷺبِشَاۃٍفَحُلِبَتْ فَشَرِبَ،ثُمَّ اُخْرَی فَشَرِبَہُ،ثُمَّ أُخْرَی فَشَرِبَہُ حَتَّی شَرِبَ حِلَابَ سَبْعِ شِیَاہٍ،ثُمَّ أَصْبَحَ مِنَ الْغَدِ فَأَسْلَمَ،فَأَمَرَ لَہُ رَسُوْلُ اللہِ ﷺبِشَاۃٍ فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ حِلَابَھَا،ثُمَّ أَمَرَلہ بِاُخْری فَلَمْ یَسْتَتِمَّھَا۔(سنن الترمذی کتاب الأطعمۃ بابما جاء أن المؤمن یأکل فی معی واحد…حدیث نمبر1819)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک کافر کی مہمان نوازی کی۔نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے ایک بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ وہ اس کا دودھ پی گیا۔ پھر ایک دوسری منگوائی گئی اور اس کا دودھ دوہا گیا تو اس نے اس کا دودھ بھی پی لیا۔ پھر ایک تیسری بکری منگوائی گئی تو وہ اس کا دودھ بھی پی گیا۔ حتیٰ کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ اگلے دن صبح کے وقت اس نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر رسول کریم ﷺ نے بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ پس اس نے دودھ پی لیا پھر نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے ایک اور بکری منگوائی مگر وہ اس کا دودھ مکمل طور پر نہ پی سکا۔
سبحان اللہ !ایسے اخلاق ذات مصطفیٰ ﷺ کے علاوہ اور کہاں نظر آسکتے ہیں! ایک کافر ہے آپ کے محبوب خدا کا انکار کرنے والا اسکی مہمان نوازی فرما رہے ہیں اور اس درجہ بڑھ گئے ہیں اس خلق میں کہ وہ دودھ پیتا جا رہا ہے اور آپ اس کے لیے دودھ منگواتے جارہے ہیں۔
جنگ میں دشمنوں سے حسن سلوک:۔عین حالت جنگ میں پانی سے نہ روکنا
حضور ﷺ سے غیر مسلموں سے اعلی حسن سلوک کا ظہور صرف عام حالات میں ہی نہیں تھا بلکہ جنگ کی حالت میں جس میں آج بھی قومیں ہر طرح کی فریب دہی جائز سمجھتی ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے دشمن کو پسپا کرنے کا نہیں جانے دیتیں اس جنگی حالت میں بھی حضور ﷺ نے حسن سلوک کی ایسی علیٰ مثالیں قائم کیں کہ عقل جنہیں دیکھ کے دنگ رہ جاتی ہےچنانچہ جنگ بدر کے موقع پر جب مسلمانوں نے پانی کے چشمہ پر حوض بنا کے وہاں پڑاؤ کر لیا تو باوجود حالت جنگ کے جب دشمن پانی لینے آیا تو آپؐ نے فرمایا انہیں پانی لے لینے دو۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ424ذکر رؤیا عاتکۃ بنت عبد المطلب۔اسلام ابن حزام)
جنگ میں دشمنوں سے حسن سلوک:۔ وَلَا تَمْثُلُوْا
عربوں میں مثلہ کی رسم عام تھی۔ یعنی جنگ میں دشمن کی لاشوں کے ناک کان وغیرہ کاٹ کر ان کامنہ بگاڑ دینا۔ لیکن آپ ؐ نے بڑی تاکیدی ہدایت اپنے پیروؤں کو دی کہ وَلَا تَمْثُلُوْا کہ تم مثلہ نہ کرو۔اور اس طرح غیر مسلموں کے مُردوں کی بھی عزت قائم فرمائی۔(سنن ابن ماجہ کتاب الجھاد باب وصیۃ الامام حدیث 2857)
شام کے عیسائیوں کا مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر ان کے غلبہ کی دعا کرنا : جب شام فتح ہوا تو مسلمانوں نے شام کے لوگوں سے جو عیسائی تھے ٹیکس وصول کیالیکن اس کے تھوڑے عرصے بعد رومی سلطنت کی طرف سے پھر جنگ کا اندیشہ پیدا ہو گیا جس پر شام کے اسلامی امیر حضرت ابو عبیدہ ؓ نے تمام وصول شدہ ٹیکس عیسائی آبادی کو واپس کر دیا اور کہا کہ جنگ کی وجہ سے جب ہم تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ ٹیکس اپنے پا س رکھیں۔ عیسائیوں نے یہ دیکھ کر بے اختیار مسلمانوں کو دعا دی اور کہا خدا کرے تم رومیوں پر فتح پاؤ اور پھر اس ملک کے حاکم بنو۔(کتاب الخراج ابویوسف صفحہ 80تا82، فتوح البلدان بلاذری صفحہ 146،چشتی)
یہود خیبر سے محاصل کی وصولی کا بے نظیر طریق
جب حضورﷺ نے خیبر فتح کیاتویہود خیبر کی درخواست پر انہیں کاشتکاری کی اجازت دی۔ جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو حضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کو وصولی کے لیے بھیجا تو آپ نے اس وقت کی فصل جو کہ کھجوریں تھیں دو حصوں میں برابر تقسیم فرمائیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں ہمارے حصہ سے زیادہ تقسیم فرمارہے ہیں کیوں کہ ان کے اپنے اصول کے مطابق ان کا حصہ آدھا نہیں بنتا تھا لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے فرمایا تمہیں ضرور آدھی ہی ملیں گی کیوں کہ تم سے معاہدہ اسی طرح ہوا تھا۔ اس پر وہ بے اختیار بول اٹھے کہ ‘‘ھٰذَا الْحَقُّ وَبِہٖ تَقُوْمُ السَّمَاءُ وَالْارْضُ’’ کہ یہی حق ہے اور اسی سے آسمان و زمین قائم ہیں۔(سنن ابی داؤد کتاب البیوع باب فی المساقاۃ حدیث 3410)
غیر مسلوں سے حسن سلوک کا بے مثل پہلوان کے لیے دعائیں
حضور ﷺ کا غیر مسلموں کے لیے دعائیں کرنا ثابت کرتا ہے کہ آپﷺ کو ان سے سچی ہمدردی تھی اور آپ ﷺ کی حد درجہ خواہش تھی کہ خدا کا پیغام وہ سنیں اور اس کے احکام وہ مانیں۔اس لیے مسلسل ان کے لیے دعائیں آپ کیا کرتے تھے اور بخشش مانگا کرتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ کی غیر مسلم والدہ کے لیے دعا اور ان کا ایمان لے آنا
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا تھا۔ ایک دن میں نے انہیں تبلیغ کی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بارہ میں ناپسندیدہ باتیں کیں۔ میں رسول کریم ﷺ کے پاس روتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا تھا تو وہ انکار کرتی تھیں۔ آج میں نے دعوت دی تو انہوں نے آپ کے متعلق نازیبا باتیں کیں جنہیں میں ناپسند کرتا ہوں۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری والدہ کو ہدایت دے۔ رسول کریم ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے۔ میں رسول کریم ﷺ کی دعا سے خوش خوش واپس ہوا۔ جب میں گھر کے دروازہ کے پاس آیا تو وہ بند تھا۔ میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سنی تو کہا اے ابو ہریرہ ادھر ہی ٹھہر جاؤ۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی۔ ابو ہریرہکہتے ہیں کہ انہوں نے غسل کیا اور کپڑے زیب تن کیے۔ دوپٹہ اوڑھا اور دروازہ کھول دیا۔ پھر انہوں نے کہا اے ابو ہریرہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر6396)
قبیلہ دوس کے اسلام سے انکار پر بھی ان کے لیے ہدایت کی دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمرو الدوسی اور ان کے ساتھی نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ا ور عرض کی ۔یا رسول اللہ!دوس قبیلے نے ا سلام کی دعوت کا انکا رکر دیا ہے۔اس لئے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں ۔کسی نے کہا کہ اب تو دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا۔نبی کریم ﷺ نے اس طرح دعا کی کہ اے اللہ!تُو دوس قبیلے کو ہدایت دے اور ان کو لےآ ۔(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب الدعا للمشرکین بالھزیمۃ و زلزلۃ حدیث نمبر 2937)
قبیلہ ثقیف کے لیے ہدایت کی دعا
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمیں ثقیب کے تیروں نے چھلنی کر چھوڑا ہے۔ اس لئے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں۔ آپ ﷺ نے اس طرح دعا فرمائی : ‘‘اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا ’’کہ اے اللہ تُو ثقیف قبیلہ کو ہدایت دے۔(سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب فی ثقیف و بنی حنیف حدیث نمبر 3942)
غیر مسلموں کے حق میں بارش کی دعا
حضرت عبداللہ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ جب قریش نے اسلام کی مخالفت کی اور اس کو قبول کرنے میں تاخیر سے کام لیا تو اس وقت آنحضورﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں ان کو قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ اور وہ بھوک کی وجہ سے مرنے لگ گئے اور مردار اور ہڈیاں کھانے تک نوبت آگئی۔ اس پر ابوسفیان آنحضور ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور کہا اے محمد ﷺ! آپ صلہ رحمی کرنے کا حکم لے کرآئے ہیں۔ آپ کی قوم ہلاک ہورہی ہے۔ ان کے واسطے اپنے مولا سے دعا کریں۔ اس پر آنحضور ﷺ نے دعا کی اور مسلسل سات دنوں تک ابررحمت ان پر اس قدر برسا کہ لوگوں نے بارش کی زیادتی کی وجہ تکلیف سے آپ کو آگاہ کیا اس پر آپ نے یہ دعا کی ‘‘اَلّٰلھُمَّ حَوْالَیْنا وَلَاعَلَیْنَا۔’’کہ اے خدا! ہمارے اردگرد برسا اور ہم پر نہ برسا۔‘‘ اس پر بادل آپ کے سر چھٹ گئے اور اردگرد کے علاقوں کو سیراب کرنے لگے۔(صحیح البخاری کتاب الاستسقاء باب اذا استشفع المشرکون بالمسلمین حدیث1020،چشتی)
پتھر برسانے والوں کے حق میں دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ پر احدکے دن سے بھی زیادہ کوئی سخت دن آیا ہے؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جو تمہاری قوم کی طرف سے پہنچا وہ تو پہنچا ہی لیکن ان کی جانب سے سب سے تکلیف دہ عَرَفَہ کا دن تھاجب میں ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے پاس گیا ۔ جس چیز کا میں نے ارادہ کیا ہوا تھا اس کا انہوں نے جواب نہ دیا۔ میں واپس اس حال میں لوٹا کہ میرے چہرے پر غم کے آثار تھے ۔ میں مسلسل چلتا رہا یہاں تک کہ قرن الثعالب مقام پر آپہنچا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس جگہ آکرمیں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے۔ اور اس میں جبرائیل ہے۔ جبرائیل نے مجھے پکارا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں قوم کی باتیں سن لیں اور ان کا ردعمل دیکھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجاہے کہ آپ ان (طائف والوں) کے بارہ میں جو چاہیں اس کو حکم دیں۔ چنانچہ پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے پکارا ، مجھ پر سلامتی بھیجی اور عرض کی کہ آپ حکم فرمائیں۔ وہی ہوگا جو آپ چاہیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان پر دونوں پہاڑ گرادوں۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا کردے گا جو کہ خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔(صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم آمین والملائکہ…حدیث 3231)
زہر دینے والی عورت کو معاف فرمادیا
حضرت انس بن حارث بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نے نبی کریم ﷺ کو بکری کا گوشت دیا جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ آپ نے اس میں سے کچھ کھایا جب اس عورت کو حضورﷺ کے پاس لایا گیا تو صحابہ نے عرض کیا کَیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟ فرمایا کہ نہیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ آپ کے تالو میں اس زہر کا اثر ہمیشہ باقی رہا۔(صحیح البخاری کتاب الھبۃ وفقلھا باب قبول الھدیۃ من المشرکین حدیث نمبر 2617)
غیر مسلموں کے جنازہ کا احترام
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ سھل بن حُنَیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو وہ دونوں کھڑے ہوگئے جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ذمیوں میں سے ہے تو ان دونوں نے کہا کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ (احتراماً) کھڑے ہوگئے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘اَلَیْسَتْ نَفْسًا’’ کیا وہ انسان نہیں تھا ؟ ۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازۃ یہودی حدیث1312)
فتح مکہ کے موقع پر عظیم الشان عفو کا نمونہ
فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا : اے قریش کے گروہ تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا خیر کی۔ آپ ہمارے معزز بھائی ہیں اور ایک معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ733 دخول الرسول ﷺ الحرم)
غیر مسلموں کو مسجد میں اپنے طریق پر عبادت کی اجازت دینا
جب نجران کے عیسائی مدینہ میں حضرت رسول کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت آپ مسجد نبوی میں نماز عصر سے فارغ ہوئے تھے۔ یہ لوگ نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے۔ جب ان کی نماز کا وقت ہوا تو وہ مسجدمیں ہی نماز ادا کرنے لگے۔ اس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں نماز پڑھنے دو۔ انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔(السیرۃ النبویۃلابن ہشام صفحہ396 امر السید والعاقب وذکر المباھلۃ،چشتی)
مستشرقین کا خراج تحسین
حضور ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کی حقانیت اور آپ کاغیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک ہی ہے جس نے مستشرقین کو بھی آپ کی مدح کرنے پر مجبور کردیا ذیل میں اسکے دو نمونے پیش کر کے اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں ۔ وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم
ولیم میور(Willian Muir) کا خراج تحسین
ایک مشہور مستشرق ولیم میور(Willian Muir) جس نے کئی غلط باتیں بھی حضورﷺ کے بارہ میں لکھیں ہیں اس کے باوجود وہ آپ کے اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور لکھتاہے:۔
“And what have been the effects of the system which established by such instrumentality, Mahomet has left behind him? We may freely concede that it banished for ever many of the darker elements of superstition for ages shrouding the Penisula. Idolatry vanished before the battle-cry of Islam; the doctrine of the unity and infinite perfections of God, and of special all-prevading Providence, became a living principle in the hearts and lives of the followers of Mahomet, even as in his own. An absolute surrender and submission to the divin will (the idea conveyed by the very name of Islam ) was demanded as the first requirment of the religion. Nor are social virtues wanting. Brotherly love is inculcated towards all within the circle of the faith; infanticide is proscribed; orphans are to be protected, and slaves treated with consideration; intoxicating drinks are prohibited, Mahometanism many boast of a degree of temprance unknow to any other creed” ۔ (The Life of Mahomet page:534 Benifits of Mahometanism)
یعنی اس بات کو بلا تامل تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ محمد ﷺ نے سالہا سال سے قائم شدہ توہمات کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم کردیاجس کی تاریکی مدتوں سے جزیرہ نما عرب پر چھائی ہوئی تھی۔آپ نے بت پرستی کا خاتمہ کر کے خدا کا ازلی ابدی ہونا اور اسکی توحید کو قائم کیا۔ معاشرتی لحاظ سے بھی اسلام کی خوبیوں کا انکار نہیں ہوسکتا۔خدا تعالیٰ سے اخلاص کا پورا تعلق ،آپس میں بھائی چارہ، غلاموں سےحسن سلوک ، شراب سے اجتناب۔ یہ ساری ایسی باتیںہیں کہ جن سے دوسرے ناواقف ہیں۔
لیمرٹین (Lamartine)کا خراج عقید
“Philosopher, orator, apostle, legislator, warrior, conqueror of ideas, restorer of rational dogmas; the founder of twenty terrestrial empires and of one spiritual empire, that is Muhammad. As regards all standards by which human greatness may be measured, we may ask, is there any man greater than he?” ۔ (Lamartine, History of Turky, Page:276)
(بحوالہ اسوہ انسان کامل صفحہ 676-677 ۔ نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی)
‘‘فلاسفر،مقرر،رسول،قانون دان،جنگجو ،ذہنوں کو فتح کرنے والا،حکمت کے اُصول قائم کرنے والا،بیس دنیوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کا بانی یہ سب کچھ تھا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)۔ وہ تمام معیارجن سے انسانی عظمت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے، ان کے لحاظ سے ہم بجاطور پریہ سوال کرسکتے ہیں کیا اس (محمدؐ) سے عظیم تر کوئی انسان (دنیا میں) ہے ۔’’ ( اسوہ انسان کامل صفحہ 676-677)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment