قائد محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ، روحانی و مذہبی پہلو
قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا شمار عالم اسلام کی ان برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے،جن کے کارنامے اپنی انفرادیت اور تنوع کے باعث دنیا بھر میں رشک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ،کچھ احباب کا خیال ہے کہ قائد اعظم محض ایک سیاستدان تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف ایک سیاستدان ہی نہیںبلکہ ایک ایسی بااصول کراماتی شخصیت تھے ،جنھوں نے غیر متزلزل اصولوں اور موقفات کے چراغوں کو اپنے خون جگر اور خون تمنا کے روغن نایاب سے روشن رکھا،کہا جاتا ہے کہ سیاست اور اصول دو متضاد چیزیں ہیں اور ان کا آپس میں کوئی میل نہیں،لیکن یہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی باکرامت شخصیت کا کمال تھا کہ انہوں نے سیاست کو بھی اصولوں کے تابع بنانے کیلئے نادر الوقوع کرشمے سے دنیا کو متعارف کروایا۔حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان اور وجود پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ایک روح کا درجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں پہلے دن سے آج تک قائد اعظم کی ذات پر مختلف حوالوں سے کیچڑ اچھال کر پہلے تحریک پاکستان اور بعد میںوجود پاکستان کو کمزور کرنے کی ناپاک کوششیں کرتی رہی ہیں ۔
لیکن یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک سچے راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ان میں مصور پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ،،مرد مومن،، کی تمام خصوصیات موجود تھیں،ان کا کردار بے داغ اور شخصیت بے عیب تھی،وہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ایسے عظیم قائد تھے جنھوں نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے پیش نظر رکھا،ان کے خطبات اور زندگی کے واقعات اس امر پر شاہد ہیں،لیکن اس کے باوجود شکست خوردہ عناصر اور ان کی ذریعت نے قائد اعظم محمد علی جناح کو بدنام کرنے کیلئے طرح طرح کے الزامات لگائے اور ان کی بے داغ شخصیت کو داغدار کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا ،قائد اعظم کے کردار و عمل پر رکیک حملے کئے گئے ،سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے اس بطل عظیم کی ذات اور عقائد کو بھی وجہ اعتراض بنایا گیااور ذاتی بغض و عناد میں انہیں (معاذ اللہ)کافر اعظم تک کہا گیا ، ہوسکتا ہے کہ عملی اعتبار سے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا اسلام ضعیف ہو لیکن برصغیر پاک و ہند کے کروڑوں مسلمانوں میں کتنے ہیں جو عملی اعتبار سے اسلام کی ہر تعلیم کا مکمل نمونہ ہوں،یقینا یہ کوتاہی بھی افسوسناک ہے اور اس کا استیصال بھی ضروری ہے لیکن یہ کوتاہی اگر نگاہ تعمق سے دیکھی جائے تو خانقاہوں میں بھی موجود ہے اور حجروں میں بھی،حقیقت یہ ہے کہ عمل کا درجہ عقیدے اور اعتقاد کے بعد آتا ہے ،کافر وہی ہے جو سرے سے اعتقاد اور عمل کا ہی منکر ہو لیکن اگر کسی شخص کا عمل کمزور ہے اور اعتقاد میں کوئی خامی نہیں تو اس کے کفر کا فتوی کوئی نہیں دے سکتا ۔ ہوسکتا ہے کہ دیکھنے والوں کے نزدیک قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ذات عملی طور پر مسلمان نہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اعتقادی نقطہ نظر سے قائد اعظم کی ذات،،پختہ مسلمان،،ہی ہے،ان کا دل اسلام کی عظمت سے مالا مال تھا اور ان کا دماغ ایک مسلمان ہونے کے فخر سے معمور تھا ۔(چشتی)
گو کہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کا تعلق شیعہ اسماعیلی فرقے سے تھا مگر وہ خود اس نظریئے اور عقائد سے عملی طور کوسوں دور تھے،کوئٹہ میں ایک شیعہ وفد سے دوران ملاقات جب وفد نے یہ استحقاق ظاہر کیا اور آپ سے کہا کہ ،،آپ ہمارے فرقے سے ہیں ،،تو قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پوری جرأت کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا،،No I am Muslim،، قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ فرقہ وارنہ امتیاز کو قطعی پسند نہیں کرتے تھے ، وہ ہمیشہ مسنون طریقے سے نماز پڑھتے تھے اور انہیں جب کبھی باجماعت نماز پڑھنے ادا کرنے کا موقع ملتا تو وہ سواد اعظم کی مسجد میں مسنون طریقے سے نماز ادا کرنے کو ترجیح دیتے تھے اگرچہ قائد اعظم کی سیرت و کردار اور آپ کی ذات پر کئے گئے اعتراضات کے دفاع میں کئی حضرات نے قلم اٹھایا اور آپ کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر لکھا مگر کسی نے بھی قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک ، مذہبی عقیدے اور اسلامی کردار پر سوائے جزوی گفتگو کرنے کے سیر حاصل بحث نہیں کی،جس کی وجہ سے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت و کردار کا ایمان افروز پہلو ہمیشہ ہی تشنہ رہا،اگر قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تابناک سیرت کا یہ روشن پہلو اجاگر کردیا جاتا تو کسی کو بھی آپ کے ایمان و عقائد کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کا موقع نہیں ملتا ۔
مگر افسوس کہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے دفاع میں لکھنے والے بھی مصلحت کا شکار نظر آئے،جس کی وجہ سے اصل حقیقت جھوٹ کے دبیز پردوں میں چھپی رہی اورآج کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مذہبی عقیدے کے بارے شکوک و شبہات کا شکار نظر آتا ہے،اس میں قصور ان کا نہیں بلکہ اس تعلیمی نصاب کا ہے جس میں قائد اعظم کے کردار کو صرف ایک سیاسی رہنماء کے طور پر پیش کیا گیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی کردار کے ساتھ ساتھ ان کا اسلامی کردار، اسلام سے محبت ،خلفائے راشدین اور صحابہ کرام سے لگاؤ اور اولیائے عظام سے عقیدت کو بھی زیر بحث لایا جاتا،تو آج کسی کو بھی آپ کی شخصیت پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔ضلع اٹک کے ایک پسماندہ علاقے برہان شریف کے غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید صابر حسین شاہ بخاری صاحب اس لحاظ سے منفرد مقام رکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک دور افتادہ ویرانے میں بیٹھ کر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے اس اہم پہلو پر توجہ دی اور اس کمی کو480 صفحات اور گیارہ ابواب جن میں،،قرآن کریم اور قائد اعظم،فریضہ نماز اور قائد اعظم،صوم رمضان اور قائد اعظم،فریضہ حج اور قائد اعظم،عیدمیلادالنبی اور قائد اعظم،خلفائے راشدین اور قائد اعظم،سادات کرام اور قائد اعظم،مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور قائد اعظم،مسلمانان ہند کا عظیم قائد،سواد اعظم کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ اورقائد اعظم کا بے غبار مسلک، ، پر سیر حاصل گفتگو شامل ہے پر مشتمل،،قائداعظم کا مسلک،،نامی ضخیم کتاب لکھ کر پورا کیا ہے،فاضل مصنف نے اس حساس موضوع پر قلم اٹھاکر اورحقائق اورناقابل تردید شواہد کی روشنی میں ثابت کردیا ہے کہ قائداعظم کا مسلک و عقیدہ اور مذہب وہی تھا جو سواد اعظم اہلسنّت کا ہے اور آپ کی اس تحقیق و جستجو اور معتبر حوالوں نے اس پروپیگنڈے اور بے بنیاد فکر کے سارے تار و پود بکھیر کر رکھ دیئے جس کے ذریعے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب و عقیدے پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں،جناب صابر حسین شاہ بخاری کی یہ کتاب قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے مذہبی ، ایمانی اورروحانی گوشوں کو اجاگر کرتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ قائد اعظم ایک راسخ العقیدہ ،سچے اور پکے مسلمان تھے، درحقیقت ،،قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ،،ایک ایسی قومی ،ملی،تحقیقی اور تاریخی دستاویز ہے جس سے عقیدت مندان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اکثریت آج تک لاعلم تھی،یہ کتاب ثابت کرتی ہے کہ :
قائد اعظم کا عقیدہ، کردار و عمل اور نظریات وہی تھے جو اس خطے کے سواد اعظم اہلسنّت کے ہیں،پہلی بار مصنف نے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شخصت کے روحانی پہلووں کو دریافت کیا ہے اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے خفیہ گوشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کثیر حوالہ جات کی مدد سے ظاہر کیا ہے کہ قائد اعظم کو برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ منشاء ایزدی تھا،اس کتاب کی مندرجات کی رو سے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک روحانی شخصیت تھے اور قیام پاکستان ایک روحانی عمل کا نتیجہ ہے،موصوف نے اس کتاب میں انتہائی جامعیت کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے مذہبی و روحانی پہلووں کو اجاگرکیا ہے ،انہوں نے یہ کتاب لکھ کر قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے لاکھوں عقیدت مندوں کیلئے تسکین کا سامان مہیا کیا ہے،اعلی پیپر اور عمدہ سرورق میں ملبوس مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی،محقق وقت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہما الرّحمہ ،مولانا محمد منشا تابش قصوری ،جناب گل محمد فیضی،پروفیسر ڈاکٹر محمد انعام الحق کوثر،مشہور صحافی جناب حامد میر،پیرزادہ اقبال احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ،جناب جسٹس میاں نذیر اختر صاحب وغیرہ کی گرانقدر تقاریظ سے مزین اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی نادرو نایاب اور نابغہ روزگار کتاب ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment