مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قرآن کی روشنی میں
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بہت سے مقامات پر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قدر و منزلت انتہائی خوبصورت انداز میں واضح فرمائی ہے۔ جس سے ہمارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیہ میں کمال شانِ محبوبیت آشکار ہوتی ہے ۔ لیکن خارجی فکر سے متاثر گمراہ کن اذہان اور چند دیگر سادہ لوح مسلمان جوقرآن و حدیث کے سطحی معانی بنا تحقیق اور برخلاف تعلیماتِ صحابہ کرام ، اہلبیت اطہار و آئمہ اسلام رضی اللہ عنہم اجمعین سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو محبت و ادبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، محبت و عقیدت اولیائے کرام علیہم الرّحمہ کے سچے عقیدے پر کفر وشرک کے فتوے ان آیات سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو آیات اللہ پاک نے کفار و مشرکین کو توحید و شرک کا فرق سمجھانے کی کوشش میں نازل فرمائیں ۔
لیکن قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے کم و بیش 89 مقامات پر یا ایھا الذین آمنو ۔۔ اے ایمان والو! فرما کر براہ راست مومنین سے خطاب فرما کر جتنا بھی قرآن اتار ا ان میں کثرت سے مقام، شان، ادب و تعظیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سکھائی ہیں ۔ تو گویا قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے ایک فلسفہ تبلیغ اور اصول دین اپنی سنت بنا کر سمجھا دیا کہ دین کے مبلغین جب کفار و مشرکین سے بات کریں تو انہیں توحید و شرک کا فرق سمجھائیں ۔ لیکن جب انکے مخاطب کلمہ گو مسلمان ہوں تو انہیں توحید تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کلمہ پڑھنے سے سمجھ آچکی ۔ اب انہیں فضیلت ، محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات سے آگہی دو ۔
ہمارے کچھ مخصوص فکر کے حامل کلمہ گو مسلمان جو بالعموم خارجی “گستاخان کی نسل” سے متاثر شدہ ہوتے ہیں اور عام طور پر اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کو جدا جدا سمجھتے پھرتے ہیں ۔ بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نعت خوانی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و ثنا پر ُ ُ غلو اور حد سے بڑھ جانے بلکہ شرک‘‘ تک کا فتوی لگا دیتے ہیں ۔ اور الزام لگایا جاتا ہے کہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تعریف و ثنائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرنے والے ، اور رفعت و علوِ مقامِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے والے ، معاذاللہ ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب تعالی سے ملا دیتے ہیں ۔ ایسے متوسوس و متذبذب ذہنوں کے لیے اللہ رب العزت نے یہاں مقام ِ فکر دیا ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کوئی تعلق باللہ تعالی کے خلاف یا جدا چیز نہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ، کوئی اللہ کا غیر یا معاذاللہ مخالف نہیں ہے ۔ بلکہ قرآن حکیم کے اس مقام سمیت متعدد مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی بھی معاملے کو اللہ رب العزت نے خود اپنے ساتھ معاملہ قرار دے کر یہ واضح کیا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ محبوبیت یہ ہے کہ اے لوگو ! جو معاملہ تم میرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کرتے ہو ۔ میں اسے اپنے ساتھ معاملہ قرار دیتا ہوں ۔ اے میرے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ ! تم نے بیعت میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی ۔ لیکن میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرنا دراصل خود اللہ سے بیعت کرنا ہے ۔ میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد و پیمان کرنا خود اللہ رب العزت سے عہد و پیمان کرنا ہوا ۔(چشتی)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامِ بندگی پر عاجزی کا اظہار اور ایک غلط فہمی کا ازالہ : اہم نکتہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف محبوبِ خدا ہی نہیں ہیں ۔ بلکہ امت کے لیئے اسوہء کامل بھی ہیں ۔ اور اسوہ کامل اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بندگی کی انتہا تک نہ پہنچتے ۔ اور بندگی کی انتہا بارگاہ الہیہ میں عاجزی کی انتہا سے ظاہر ہوتی ہے ۔ اس لیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے مقام بندگی پر فائز ہوتے ہیں تو عجز و انکساری کی انتہا ظاہر فرماتے ہیں ۔ کہ مولا ! میں تو کچھ بھی نہیں ۔ نہ میرا علم ، نہ میری دانش ، نہ میرا ادراک ، اے اللہ کریم سب کچھ تیری عطا ہے ۔ مولا ! میں تو تیرا عاجز عبادت گذار بندہ ہوں ۔ مجھے تو کوئی طاقت و اختیار نہیں ، جو کچھ ہے تو ہی قادرِ مطلق ہے “او کما قال “ ۔
ہمیں بطور امتی ، عبادات، مناجات ، بارگاہ الہی میں خود کو پیش کرنے کے طریقے سکھانے کے لیئے یہ ساری تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حق ہیں اور ہمیں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں خود کو بھی اسی عاجزی کا مظہر بننا چاہیے۔ بلاشبہ تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق کے لیے ذاتِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہی پہلو اہمیت کا حامل ہے ۔
مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس عاجزی کو " مقام و عظمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم" ہرگز نہیں سمجھنا چاہیئے۔ جب ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت و رفعت کو سمجھنے کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلقِ غلامی قائم کرنا پیش نظر ہو اور ایمان کی اصل حلاوت حاصل کرنا مقصود ہو ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات پرایمان و عقیدہ قائم کرنے کا وقت آئے تو پھر ہمیں ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلو دیکھنا ہوگا جو اللہ رب العزت ہمیں قرآن حکیم میں دکھاتا ہے ۔ مثال کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں ۔ یہ بندگی کی انتہا ہے ۔ ہمیں بطور امتی جب بارگاہ الہی میں آداب بندگی بجا لانا ہو تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اسی اسوہ کامل کی پیروی کرنا ہے ۔ لیکن جب مقام اور شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعین کرنا ہو اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قلب و روح میں جانگزیں کرنے کا مرحلہ ہو تو پھر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قدمین شریفین متورم ہونے پر بارگاہ الہیہ سے کیا جواب اور رد عمل آتا ہے ۔
قرآن مجید کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور مقام شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں ۔ اس پر بارگاہ الہیہ سے حضرت جبریل علیہ السلام کو اتارا جاتا ہے ۔ قرآن بنایا جاتا ہے کہ : مَا اَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى ۔ (القرآن ۔ ۲۰:۲)
ترجمہ : اے محبوبِ مکرّم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ( ہم نے آپ پر قرآن ) اس لئے( نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں ۔
قربان جائیں ۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان محبوبیت کو کتنے خوبصورت اور محبت بھرے انداز میں واضح فرمایا ہے ۔ اللہ رب العزت کو اپنے حبیب کا مقام بندگی بھی پسند ہے لیکن اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مشقت میں پڑنا اور طبیعت مقدسہ پر بوجھ پڑنا بھی گوارا نہیں فرماتا اور فوراً قرآن نازل فرما دیا کہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رات کی عبادت اتنی ہی فرمایا کریں کہ جتنا طبعیت مبارکہ پر بوجھ نہ بنے ۔ایسا ہی اظہار محبت کا مضمون قرآن مجید کی سورہ مزمل میں بھی ہمیں ملتا ہے ۔ یہ تخصص بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے ۔
اللہ حکیم و خبیر نے اپنے حبیب مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقامِ قرب و وصل اپنی بارگاہ میں یوں واضح فرما دیا , سورۃ الفتح کی آیت نمبر 10 میں اللہ تعالی نے فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِم ۔
ترجمہ : (اے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر) آپ کے ہاتھ کی صورت میں) ﷲ کا ہاتھ ہے۔ ,,,,,,,,,,, اے لوگو تمہارے ہاتھوں کے اوپر جو ہاتھ بظاہر تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہاتھ دیکھ رہے تھے ۔ مگر سنو ! وہ اللہ کا ہاتھ تھا ۔
اب عقل پرست ۔ علم پرست ۔۔ اپنے علم و عقل کے گھوڑے دوڑاتے پھریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ ، اللہ کا ہاتھ کیسے ہوگیا ؟ اگر علم و عقل کی وادی میں رہے تو گمراہی مقدر ہوجائے گی ۔ اور معرفت حق کبھی نصیب نہ ہوگی ۔
اگر قرب و عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنا ہے تو محبت و معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بارگاہ الہی میں التجا کرنا ہوگی۔ دل میں محبت و عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چراغ جلانا ہوگا۔ اور ذکر و ثنائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا ۔
اور یہ معرفت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نظر سے دیکھو ۔ جس سے اللہ تعالی اپنے محبوب کو ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس جس شان سے اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ہمیں کرواتا ہے ۔
کبھی شہرِ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مکہ کی قسم اٹھا کر، لا اقسم بھذالبلد ۔ القرآن ۔ کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عمر مبارک کی قسم اٹھا کرلعمرک ۔ القرآن ۔ بلکہ اللہ رب العزت تو اپنی قسم بھی خود کو ربِ مصطفیٰ کہہ کر اٹھاتا ہے ۔ فلاوربک لا یومنون حتیٰ یحکموک ، القرآن ، کبھی مقام قاب قوسین او ادنیٰ پر بٹھا کر ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی ۔ القرآن ، تو کبھی ذکرِ محبوب کو انتہائی بلندی دے کر ورفعنالک ذکرک ۔ القرآن ، کبھی کائناتِ ارض و سما کی ہر کثرت عطا کرکے انا اعطینٰک الکوثر ۔ القرآن ، کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دے کر یداللہ فوق ایدیھم ۔ القرآن ۔ کبھی حضور اکرم پر سبقت لےجانے کو خود پر سبقت لےجانا قرار دے کر ۔ لا تقدمو بین یدی اللہ ورسولہ ۔ القرآن ۔
کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت کو اپنی (اللہ کی) اطاعت قرار دے کر ، ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔ القرآن ۔
کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رضا کو اپنی (اللہ کی) رضا قرار دے کر ، واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ ۔ القرآن ۔
کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دھوکہ دینے کو خود (اللہ کو) دھوکہ دینا قرار دے کر ۔ یخدعون اللہ والذین امنو۔ القرآن ۔
کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اذیت دینے کو خود اللہ کو اذیت دینا قرار دے کر ۔ ومن یشاقق اللہ ورسولہ ۔۔۔۔ وفی المقام الآخر۔۔۔ والذین یوذون اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن ۔
کہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عطا کردہ دائمی علم الہٰی کے فیض کا ذکر فرمایا : سنقرئک فلا تنسیٰ ۔ القرآن ۔
کہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عطائے الہی کے فیض سے علم غیب کی وسعتوں کا ذکر فرمایا : وما ھو علی الغیب بضنین ۔ القرآن ۔
کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو روز قیامت ، بعد از خدا سب سے اعلی مقام و منصب " مقام محمود " کا وعدہ دینا ۔ “عسیٰ ان یبعثک ربک مقام محمودا ۔۔ القرآن”
بلکہ اللہ رب العزت تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہر وقت نگاہِ الہی میں رکھنے کی بات بھی قرآن میں فرماتا ہے ۔
اللہ پاک نے فرمایا ۔۔ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔۔ “الطُّوْر ، 52 : 48”
اور “اے حبیبِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں” آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ “ہر وقت” ہماری آنکھوں کے سامنے “رہتے” ہیں ۔(چشتی)
گویا اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ کو ہی تکتے رہتے ہیں ۔
اور پھر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو مقامِ رفعت کی اس انتہا پر پہنچا دیا کہ جس پر اور کوئی نبی ، کوئی پیغمبر، کوئی رسول نہ پہنچا ، نہ پہنچ پائے گا۔ وہ مقام ہے ۔ رضائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بذریعہ عطائے الہی ۔
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے خطاب فرماتے ہوئے وعدہ فرمایا : ولسوف یعطیک ربک فترضی ٰ “القرآن ۔۔ سورۃ الضحا “
اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عنقریب یقیناً آپکا رب آپکو اتنا عطا کرے گا حتیٰ کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
ذرا سوچنے کی بات ہے۔ ہم عام مسلمان ہی کیا۔ ساری دنیا، ساری کائنات، سارے اولیا، سارے صالحین، سارے اتقیا و اصفیا ، سارے انبیاء و رسولانِ مکرم “علیھم السلام” ، رضائے الہی کے متلاشی ہیں۔
اور خود اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رضا کے لیے اپنی عطائیں نچھاور فرمانے کے وعدے فرما رہا ہے ۔ سچ کہا امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے کہ :
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
اور پھر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمندرِ معرفت کو کوزے میں سمیٹا تھا کہ :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں
شان و فضیلت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ذکرِ شرک و اصنام کی وجہ
آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا کہ کچھ لوگ ہر بات میں عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، عظمتِ اہلبیت اطہار، تعظیم و اکرامِ صحابہ کبار رضوان اللہ عنھم اور مقامات و شانِ اولیاءاللہ کا ذکر کرتے نظر آئیں گے ۔ ان کی گفتگو، ان کی تحریر سے ہمہ وقت یہی خوشبو پھوٹتی نظر آئےگی ۔
جبکہ اس کے برعکس کچھ طبقات، کچھ افراد ایسے ہوں گے جو ہمیشہ اپنی بات کا موضوع کفار کے بت، شرک کے مقامات، گمراہی کے فتوی، شیطان وغیرہ ہی کو موضوع بنا کر ہمہ وقت ہر کلمہ گو مسلمان کو یہی کچھ بتانے کی فکر میں سرگرداں نظر آئیں گے۔
اس کی ایک وجہ بہت سادہ ہے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی سے سمجھ آجاتی ہے۔
محبت کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کا کثرت سے ذکر کرتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ کہ جس کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے وہ اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے ۔ (زرقانی علی المواہب ص314 ج6،چشتی)
پس جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جتنی زیادہ محبت ہوگئی وہ اتنا ہی کثرت سے آپ کا ذکر کرے گا۔ جس کو اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دلی لگن ہوگی وہ انکا ذکر کرتا نظر آئے گا ۔ جس کو اللہ عزّ و جل اور اس کے ولیوں علیہم الرّحمہ سے محبت ہوگی وہ انہی کی شان میں رطب اللسّان نظر آئے گا ۔ اب یہی قاعدہ شرک، اصنام، بت، فتوی، گمراہی، شیطنت وغیرہ کا شور مچانے والوں پر بھی اپنا لیجئے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں اپنے حبیب کریم کی سچی و پختہ محبت کا ایسا بیج بوئے جس سے ایمان کامل کا پودا اگے، پھر ہمیں اتباعِ مصطفیٰ کی دولت عطا کرے جس سے ایمان کا پودا تناور شجر بن جائے ۔ جس کے سایہ پربہار سے نہ صرف ہم خود بلکہ اور لوگ بھی فیضیاب ہوں ۔ پھر اس پر معرفتِ مقام ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ایسا پھل لگے کہ ہمیں اللہ رب العزت کی رضا نصیب ہوجائے ۔ قبر میں پہچانِ چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نصیب ہو اور روز قیامت شفاعتِ مصطفیٰ کا سایہ نصیب ہو جائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment