فضائل اہلبیت رضی اللہ عنہم قرآن و حدیث کی روشنی میں
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔ قُلْ لاَ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًََا اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی(سورة الشورٰی پارہ ٢٥آیت٢٣)فرمادیجیے اے لوگو!میں تم سے اس (ہدایت وتبلیغ)کے بدلے کچھ اجرت وغیرہ نہیں مانگتاسوائے قرابت کی محبت کے ۔
جگر گوشہ رسول مقبول سیدالسادات امام المسلمین امام عاشقاں شہید دشت کربلا سیدنا ومولانا امام ناحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل ومناقب محاسن ومحامد بے شمارہیں اور کیوں نہ ہوں جبکہ فضائل وکمالات برکات وحسنات کامخزن ومعدن انہی کا گھرانہ ہے جس کسی کو بھی کوئی نعمت ملی ان ہی کاصدقہ اوران ہی کی بدولت ہے ۔
لاَ وَرَبِّ الْعَرْش جس کوملاجوملاان سے مِلا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ آقا نے ارشادفرمایا”لوگومیں تم سے اس (ہدایت وتبلیغ) کے بدلے کچھ اجرت نہیں مانگتاسوائے قرابت کی محبت کے اوریہ کہ تم میری حفاظت کرومیرے اہل بیت کے معاملے میں اورمیری وجہ سے ان سے محبت کرو۔(درمنثور)انہی سے روایت ہے کہ جب یہ آیت کریمہ قُلْ لاَ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًََا اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی نازل ہوئی توصحابہ کرام نے عرض کیایارسول اللہ وہ آپ کے قرابت دارکون ہیں جن کی محبت ہم پرواجب کی گئی ہے ؟قَالَ عَلی” وفَاطِمَہُ وولداھُمَا،علی وفاطمہ اوران کے دونوں بیٹے (یعنی سیدناحضرت امام حسن وسیدنا حضرت امام حسین)۔( بحوالہ زرقانی علی المواہب ص٢٠جلد٧صواعق محرقہ ص١٦٨،چشتی)
حضرت امام حسن نے اپنے ایک خطبہ میں ارشادفرمایا۔”جومجھے پہچانتاہے تووہ مجھے پہچانتاہی ہے اورجونہیں پہچانتاوہ جان لے کہ میں حسین ہوں فرزندرسول ۖپھریہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَایء اِبْرَاھِیْمَ الی الاخرتک پھر فرمایا میں بشیر ونذیرکا،فرزندہوںاورمیں اہل بیت نبوت سے ہوں جن کی محبت ودوستی اللہ عزوجل نے تم پرفرض فرمائی ہے اوراس بارے میں اس نے اپنے نبی محمدۖ پریہ آیت نازل فرمائی قُلْ لاَ اَسْئَلُکُم ْ عَلَیْہِ اَجْرًََا اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ۔ (الصواعق المحرقہ،المستدرک)
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی توحضرت سعیدبن جبیر نے فرمایااِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰیسے مراد اہل بیت نبوت ہیں یہ سن کرحضرت ابن عباس نے فرمایاکہ تم نے عجلت سے کام لیاہے سنوقریش میں کوئی قبیلہ ایسانہ تھاجس میں رسول اللہۖ کی قرابت نہ ہوتومطلب یہ ہے کہ مجھ میں اورتم میں قرابت ہے اس کالحاظ رکھواورظلم واذیت سے بازرہو۔دونوںجلیل القدرحضرات کے اقوال ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں عموم خصوص میں فرق ہے ابن عباس نے عموم مرادلیاہے اور ابن جبیر نے خصوص یعنی ابن عباس نے فی القربیٰ سے مرادحضورۖاورقریش کے درمیان جوقرابت تھی اس کولیاکہ اس کاحق پہچانو اورمجھ سے محبت کرو نہ کہ عداوت اورابن جُبیر نے فی القربیٰ سے مرادقرابت رسولۖلی ہے ۔مطلب یہ ہواکہ میرے اورتمہارے درمیان جو قرابت ہے اسکی وجہ سے مجھ سے محبت رکھواور میرے اورمیری اولادکے درمیان جو قرابت ہے اسکی وجہ سے میری اولادسے محبت رکھویہ بھی میری محبت ہے۔
بعض مفسرین نے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت رکھو اور حق قرابت کو پہچانو۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ آقاۖ نے ارشادفرمایا”کوئی بندہ اسوقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اسکی جان سے بھی محبوب ترنہ ہوجائوں اورمیرے اہل بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب ترنہ ہوجائیں اورمیری اولاداسے اپنی اولاد سے بڑھ کرمحبوب نہ ہوجائے اورمیری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب ترنہ ہوجائے ”۔(طبرانی فی المعجم الکبیر)حضرت عباس بن عبدالمطلب بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اوروہ باہم گفتگوکررہے ہوتے توگفتگوروک دیتے ہم نے حضورنبی اکرم ۖ کی بارگاہ میں اس امرکی شکایت کی توآپۖ نے فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کودیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں ؟اللہ رب العزت کی قسم ! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگاجب تک ان (یعنی میرے اہل بیت)سے اللہ تعالیٰ کے لئے اورمیری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے”۔(ابن ماجہ)۔
قرآن پاک کی سورہ الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 24 ہے '' و قفوھم انھم مسؤلون" (اور انھیں ٹھہراؤ ان سے پوچھنا ہے)۔
امام واحدی تفسیر اور ابو بکر ابن مردویہ اور دیلمی نے فردوس الاخبار میں تحریر کیا ہے کہ : " ابنِ عباس اور ابو سعید نے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں لوگوں سے فرمایا کہ روزِ قیامت وہ ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم اور محبت اہل بیتؓکے متعلق سوال کرے گا" ۔
صواعقِ محرقہ میں ہے کہ " چونکہ اللہ تعالیٰ کا رسول اکرمﷺ سے ارشاد ہوا تھا کہ آپﷺ لوگوں سے کہیں کہ اس تبلیغِ رسالت کا میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت کرو۔ چنانچہ لوگوں سے سوال ہوگا کہ رسول اکرمﷺ نے اپنے قرابت داروں سے محبت کی جو وصیّت کی تھی اس پر تم نے کہاں تک عمل کیا؟ جن لوگوں نے اس وصّیت پر عمل کیا ہوگا انہیں ثواب دے گا اور جنہوں نے وصیت پر عمل نہیں کیا ان کی گرفت ہوگی"۔
رسول اکرمﷺ نے ایک حدیث پاک میں فرمایا: اذکرکم اللہ فی اھلبیتی" (میں اپنے اہل بیت میں تم کو خدا کی یاد دلاتا ہوں) اس جملہ کو آپﷺ نے تین مرتبہ دہرایا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ کو اپنے اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین کا کس قدر خیال تھا۔
میرے پیرومرشد حضرت نصیر ملت، نصیر المشائخ، وارث علومِ مہرِ علی رحمتہ اللہِ علیہ، تصویر بابو جی رحمتہ اللہِ علیہ حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ اللہِ علیہ گیلانی چشتی نظامی فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں سورۃ کوثر کی پہلی آیت " انا اعطینک الکوثر" میں کوثر سے مراد حسنین کریمین و طاہرین کی ذات مبارکہ ہے۔
قرآنی آیات کے بعد ذکر اُن احادیث مبارکہ کا جو فضائل اہل بیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگرچہ اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین کے فضائل و مناقب میں احادیث تواتر کے ساتھ موجود ہیں مگر طوالت کے باعث یہاں چند احادیث مبارکہ کا ذکر کروں گا۔
انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی ما ان تمسکم بھا لن تضلوا بعدی۔(میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑنے والا ہوں کلام مجید اور اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین۔ اگر ان سے تمسک کرو گے تو میرے بعد گمراہ نہ ہو گے۔ ) اس حدیث پاک کو رسول اکرمﷺ نے ہجرت کے دسویں سال ۱۰ ہجری میں غدیر خم کے مقام پر جب آپﷺ حجۃالوداع سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ واپس آ رہے تھے ارشاد فرمایا۔ اکابر محدثین نے، مفسرین، متکلمین، گروہِ متقدمین و متاخرین نے اپنے اپنے صحاح، مسانید، سُنن، معاجم، اجزا و مناقب وغیرہ میں بالتصریح روایت کیا اور تصحیح فرمائی۔
عامر بن ابی لیلیٰ بن حمزہ، حذیفہؓ بن اُسید اور زید بن ارقم سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ حجۃالوداع سے تشریف لائے اور حجفہ میں فروکش ہوئے ۔ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو کنکریلی زمین پر اور خار دار درختوں کے نیچے اترنے سے منع کیا پھر جب لوگ اپنی اپنی جگہوں پر اترے۔ درختوں کو کاٹ کر زمین برابر کی اور کانٹوں کو صاف کیا اور نماز پڑھی تو رسول اکرمﷺنے کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا " مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ کسی نبی نے عمر نہیں پائی مگر اپنے ما سبق نبی کی عمر سے نصف۔ میں گمان کرتا ہوں کہ میں طلب کیا جاؤں گا لہٰذا میں خدا کی دعوت کو مان لوں گا اور میں پوچھا جاؤں گا اور تم بھی پوچھے جاؤ گے کہ آیا میں نے خدا کا پیغام پہنچا دے تو تم کیا کہو گے؟ سب نے عرض کی ہم کہیں گے کہ آپﷺ نے پہنچا دیا اور نہایت کوشش کی اور نصیحت فرمائی اللہ عزوجل آپ ﷺ کو اجر دے" آپﷺ نے دریافت فرمایا" کیا تم گواہی دیتے ہو کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور محمد ﷺ بے شک اسکا بندہ اور رسول ہے، بے شک جنت اور دوزخ حق ہیں ۔ موت کے بعد اُٹھنا حق ہے" لوگوں نے عرض کیا" ہاں ہم گواہی دیتے ہیں" پھر فرمایا رسول اکرمﷺ نے " اے لوگوں! میں تمھارے سامنے جانے والا ہوں اور تم حوضِ کوثر پر وارد ہونے والے ہو جس کا عرض میری نظر میں بصرہ سے صفا تک ہے اور اس میں آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر پیالے ہیں اور جب تم میرے پاس آؤ گے تو میں تم سے دو بھاری چیزوں کے متعلق پوچھوں گا میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہو، مجھ سے ملاقات کے وقت تک" لوگوں نے دریافت کیا کہ " وہ دو بھاری چیزیں کیا ہیں ؟" فرمایا رسول اکرمﷺ نے " ثقلِ اکبر اللہ کی کتاب ہے اس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں، اس سے تمسک کرو گے تو گمراہ نہ ہو گے۔ اسکو بدلنا مت۔
اور ثقلِ اصغر میری عترت یعنی اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین ہیں۔ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک تم مجھ سے ملو گے نہیں۔ یہی بات میں نے خدا سے طلب کی، اس نے مجھے عطا فرمائی۔ لہٰذا تم میری عترت پر سبقت مت کرنا کہ ہلاک ہو جاؤ گے اور ان کو مت سکھانا کہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں"۔
الحمدللہ الذی جعل فبناالحکمۃ اہل بیت " (خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہم اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین کو حکمت عطا فرمائی)۔ حمید بن عبداللہ بن یزید مدنی کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ کی خدمت میں جناب علی المرتضٰی رضی اللہِ اجمعین کے ایک فیصلہ کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا" خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہم اہل بیت کو حکمت عطا فرمائی" (مسند امام احمد،چشتی)
حضرت اُمِ سلمی رضی اللہِ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔ " میری یہ مسجد ہر حائضہ عورت اور جنب مرد پر حرام ہے مگر محمد ﷺ اور اسکے اہلِ بیت رضوانُ اللہِ اجمعین علی، فاطمہ ، اور حسینین رضوانُ اللہِ اجمعین پر حرام نہیں " (بیہقی ، طبرانی)۔
جناب حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا
" نجوم اہل آسمان کے لئے باعثِ امن ہیں جب نجوم جاتے رہیں گے تو آسمان والے بھی جاتے رہیں گے اور میرے اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین زمین والوں کے لئے باعثِ امن ہیں۔ جب میرے اہل بیت کے لوگ جاتے رہیں گے تو زمین والے بھی جاتے رہیں گے" یعنی قیامت آجائے گی۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین قیامت تک زندہ رہیں گے اور لوگوں کے امن کا باعث ہونگے۔ (مسند و مناقب احمد ، مستدرک حاکم ، مسند ابو یعلی، طبرانی)۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جنت میں ایک درجہ ہے اس کا نام وسیلہ ہے جب اللہ سے تم کسی چیز کو مانگو تو میرے وسیلے سے مانگو" لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کے ساتھ اس درجہ میں کون رہے گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا " علیؓ ، فاطمہ ؓ اور حسنینؓ" (کنزالعمال ۔ اسعف الراغبین)
حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہُ سے مروی ہے کہ رسولِ خداﷺ نے فرمایا "خدا سے محبت کرو اس لیے کہ وہ تمھیں اپنی نعمتوں سے نہال کرتا ہے اور مجھ سے محبت کرو خدا کے لئے اور میرے اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین سے محبت کرو میری وجہ سے" (ترمذی ، مستدرک حاکم)
طبرانی و حاکم میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول کائنات ﷺنے فرمایا " لو ان رجلا صعد بین الرکن والمقام فصلیّٰ و صام ثم مات وھو مبغض لاھل بیت محمد(ﷺ) دخل النار" یعنی اگر کوئی شخص بیت اللہ شریف کے ایک گوشہ اور مقامِ ابراہیم کے درمیان چلا جائے اور نماز پڑھے اور روزے رکھے پھر وہ اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین کی دشمنی پر مر جائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ (الشرف الموید)
اکابرین سلف و خلف رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین اہل بیت رضوانُ اللہِ اجمعین کی تعریف و توصیف میں ہمیشہ رطب اللسان رہے۔ لوگوں کو ان سے محبت رکھنے کی تاکید فرماتے رہے اور خود ان سے بے انتہا محبت رکھتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہِ عنہُ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا " قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ دوست ہے اسکی رعایت اور صلہ رحم کو میں اپنی قرابت سے زیادہ جانتا ہوں"
حضر ت عمر فاروق رضی اللہُ عنہُ دعا کیا کرتے تھے" اے اللہ ! ایسا وقت نہ ہو کہ کوئی مشکل مسئلہ پیش آئے اور ابو الحسن رضی اللہُ عنہُ (علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہُ ) موجود نہ ہوں۔ "
حضر ت عمر فاروق رضی اللہُ عنہُ نے ایک بار حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہُ عنہُا سے فرمایا" آدمیوں میں آپ کے والد(صلی اللہُ علیہ وسلم) سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہیں اور اُن کے بعد مجھے آپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں "
حضرت عثمان رضی اللہُ عنہُ، اہل بیت رضوانُ اللہِ تعالی علیہم اجمعین کا خاص طور پر پاس و لحاظ رکھتے تھے۔ اپنے عہد خلافت میں جب اصحاب کے لئے رمضان کے روزینے مقرر کئے تو اہل بیت رضوانُ اللہِ تعالیٰ علیہم اجمعین و ازواج مطہرین رضوانُ اللہِ تعالی علیہم اجمعین کا روزینہ دوگنا مقرر فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہُ جو جلیل القدر صحابی اور سابقین اولین میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں " حب آل محمد ﷺ خیر من عبادۃ سنۃ" یعنی آلِ رسولﷺ کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ سبحان اللہ صحابی رسولﷺ کے اس قول سے معلوم ہوا کہ اہل بیت رضوانُ اللہِ تعالی علیہم اجمعین کی محبت میں زندگی گزارنے والا بروزِ حشرِعظیم خوبیوں والا ہو گا۔
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ رضی اللہُ عنہُ بن حسین رضی اللہُ عنہُ بن علی رضی اللہُ عنہُ ابن ابی طالب رضی اللہُ عنہُ ، کسی ضرورت سے حضرت عمربن عبدالعزیز رحمتہ اللہِ علیہ کے پاس آئے جناب عمربن عبد العزیز رضی اللہُ عنہُ نے اُنھیں دیکھ کر فرمایا کہ " آ پ کو کوئی ضرورت ہو تو کہلا بھیجا کیجئے۔ مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ آپ ضرورت کے لئے خود آیا کریں ۔ "
حضرت علامہ یوسف بن اسمعیل نبہانی(رحمتہ اللہ علیہ) تحریر فرمانے ہیں کہ حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ(رحمتہ اللہ علیہ) نے حضرت ابراہیم بن عبداللہ محض بن حسن مثنّٰی بن حضرت امام حسین( رضی اللہُ عنہ) کی حمایت کی اور لوگوں کو فتویٰ دیا کہ لازمی طور پر اُن کے ساتھ اور اُن کے بھائی محمد کے ساتھ رہیں ۔ کہتے ہیں کہ امام اعظم(رحمتہ اللہ علیہ)کی قید و بند اصل میں اسی بنا پر تھی۔ اگرچہ ظاہر میں سبب یہ تھا کہ انہوں نے قاضی کی منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ایک اور جگہ حضرت علامہ انبہانی (رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ حضرت امام شافعی(رحمتہ اللہ علیہ) سرکارِ اقدس(صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وسلم) کی آل پاک سے بہت محبت کرنے کے سبب اس حال میں بغداد لے جائے گئے کہ ان کے پیروں میں بیڑیاں پڑی تھیں ۔ بلکہ اہلِ بیت (رضوان اللہ اجمعین) سے اُن کی محبت یہاں تک پہنچی کہ کچھ لوگوں نے انہیں رافضی کہہ دیا تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا۔
لو کان رفضا حب آل محمد
فلیشھد الثقلان انی رافضی
" یعنی اگر آل رسول (رضوان اللہ اجمعین) کی محبت ہی کا نام رافضی ہونا ہے تو جن و انسان گواہ ہو جائیں کہ اس معنیٰ میں بے شک میں "رافضی"ہوں۔ "
ایک اور جگہ امام شافعی(رحمتہ اللہ علیہ) شعر میں فرماتے ہیں جسکا ترجمہ و مفہوم ہے کہ : تمھارے مرتبہ کی بزرگی کے لئے یہی کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اُس کی نماز نہ ہو گی۔
اے اہل بیت رسول اللہ (رضوان اللہ اجمعین) ! تمھاری محبت اللہ نے فرض کی اور اس کو قرآن میں بیان کیا۔
جب ہم علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہُ) کی فضیلت بیان کرتے ہیں تو جاہل ہمیں رافضی کہتے ہیں اور جب ہم حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیؤ عنہُ) کے فضائل بیان کرتے ہیں تو ہمیں ناصبی کہنے لگتے ہیں ہم دونوں سے محبت ہونے کی وجہ سے رافضی اور ناصبی بننا قبول کرتے ہیں جب تک ہم قبر میں نہ پہنچ جائیں ۔
محترم قارئین : قرآنی آیات و احادیث مبارکہ اور ائمہ کرام کے ارشادات کی روشنی میں مناقب و فضائل اہل بیت (رضوان اللہ اجمعین) بیان کئے گئے ہیں ۔ اور اہل بیت (رضوان اللہ اجمعین) کی محبت و تعظیم ہی دراصل ایمان ہے۔ اور محبت اہل بیت (رضوان اللہ اجمعین) کو حرزِ جاں بنا لیجیے کہ بقول شاعر
خواہ میری یہ فراست ہے کہ نادانی ہے
حُبِ اولاد نبی شرطِ مسلمانی ہے
بارگاہِ ربُ العزت میں التجا ہے کہ اہل بیتِ اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت ہمیشہ ہمارے دلوں میں جا گزیں رہے۔اور دمِ آخر بھی محبت اہل بیت میں ہی نکلے ۔ اللہ تعالیٰ پنجتن پاک (رضوان اللہ اجمعین) کی نسبت تا قیامت قائم و دائم رکھے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment