Saturday, 8 September 2018

حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم


حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

اِس بزمِ ہستی میں وہ مبارک شخصیت جس میں حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کے تمام محامد و محاسن بدرجۂ اَتمّ سمو دیئے گئے، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ اگر تمام ظاہری و باطنی محاسن کو ایک وُجود میں مجتمع کر دیا جائے اور شخصی حُسن و جمال کے تمام مظاہر جو جہانِ آب و گِل میں ہر سُو منتشر دِکھائی دیتے ہیں، ایک پیکر میں اِس طرح یکجا دِکھائی دیں کہ اُس سے بہتر ترکیب و تشکیل ناممکن ہو تو وہ حُسن و جمال کا پیکرِ اَتمّ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں ڈھلتا نظر آتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ عالمِ اِنسانیت میں سرورِ کائنات فخرِ موجودات نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیتِ عبدِ کامل ظاہری و باطنی حسن و جمال کے اُس مرتبۂ کمال پر فائز ہیں جہاں سے ہر حسین کو خیراتِ حُسن مل رہی ہے۔ حُسن و جمال کے سب نقش و نگار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورتِ اَقدس میں بدرجۂ اَتمّ اِس خوبی سے مجتمع کر دیئے گئے ہیں کہ ازل تا اَبد اِس خاکدانِ ہستی میں ایسی مثال ملنا ناممکن ہے۔ گویا عالمِ بشریت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات جامعِ کمالات بن کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ شاہکار قرار پائے جسے دیکھ کر دِل و نگاہ پکار اُٹھتے ہیں :

زِ فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست

چہروں کی کائنات میں سب سے زیادہ حسین چہرہ اُس مقدس ہستی کا ہے جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ آپؐ کا چہرۂ مبارک صورتِ حق کا آئینہ ہے۔ آپؐ کا روے اَنور اتنی حقیقت ہے کہ خواب میں بھی نظر آئے تو عین حقیقت ہے۔ جس نے آپؐ کے چہرے کو دیکھا اُس نے چہرۂ حق دیکھا۔

نہ اُس چہرے سے بہتر کوئی چہرہ ہے، نہ اُس چشم حق بیں سے بہتر کوئی آنکھ۔ آپؐ نے چہرۂ حق دیکھا اور چشمِ حق میں بس آپؐ ہی محبوب ہیں۔ پس سلام و درود ہو والضحیٰ والے چہرے کے لیے، اور تعظیم و سجدہ آپؐ کے بنانے اور چاہنے والے احسن الخالقین کے لیے۔

وصف رخِ اَنور اور توصیفِ حسن پیغمبر کے حوالے سے سب سے اچھی اور فیصلہ کن بات حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کی ہے، مگر پھر بھی حق تو یہ ہے کہ حق اَدانہ ہوا :
وَ أحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ ٭ وَ أجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائٗ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ ٭ کَأنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَائٗ
یعنی آپ سے زیادہ حسن و کشش رکھنے والا پیکر کبھی میری آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں۔ آپ سے بڑھ کرحسین و جمیل مولود کبھی کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔ آپ ہر عیب و نقص سے پاک ہیں، گویا آپ اپنی من چاہی صورت میں پیدا کیے گئے ۔ اِس مفہوم کو حسان الہند محدثِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب نباہا ہے :

وہ کمالِ حسن حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اُس عبدِ کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اَقدس کو جملہ اَوصافِ سیرت سے مالا مال کر دینے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ظاہری حُسن کا وہ لازوال جوہر عطا کر دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا ایک باب بن گیا تھا۔ سرورِکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سراپا کا ایک لفظی مرقع صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا ۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۔ (یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں) ، آپ اُن کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں) ۔ (القرآن، الانعام، 6 : 90)

آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء علیھم السلام کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے ۔ اِمام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر آیتِ مذکورہ کا مفہوم اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے نبی مکرم! ہم نے آپ کو انبیاء و رُسل کے اَحوال اور سیرت و کردار سے آگاہ کر دیا۔ اَب آپ ان تمام (انبیاء و رُسل) کی سیرت و کردار کو اپنی ذات میں جمع فرما لیں۔‘‘ اِسی آیت سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ تمام اَخلاقِ حسنہ اور اَوصاف حمیدہ جو متفرق طور پر انبیاء و رُسل میں موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ میں اپنے شباب و کمال کے ساتھ جمع ہیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل ماننا لازمی ہے ۔ (التفسير الکبير، 6 : 196)

رسولِ اوّل و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن کے ضمن میں شیخ عبدالحق محدث دِہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل اِس طرح جامعیت کے مظہر ہیں کہ کسی بھی تقابل کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کو ہی ترجیح حاصل ہو گی ۔ (محدث دهلوي، شرح سفر السعادت : 442،چشتی)
اِس کائناتی سچائی کے بارے میں کوئی دُوسری رائے ہی نہیں کہ جملہ محامد و محاسن اور فضائل و خصائل جس شان اور اِعزاز کے ساتھ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں ہیں اِس شان اور اِعزاز کے ساتھ کسی دُوسرے نبی یا رسول کی ذات میں موجود نہ تھے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر رقمطراز ہیں
خلائق درکمالاتِ انبیاء علیھم الصلٰوۃ و السلام حیران، و انبیاء ہمہ در ذاتِ وے۔ کمالاتِ انبیاءِ دیگر محدود و معین است، اما ایں جا تعین و تحدید نگنجد و خیال و قیاس را بدرکِ کمالِ وے را نہ بود.
(اللہ رب العزت کی) تمام مخلوقات کمالاتِ انبیاء علیہم السلام میں اور تمام انبیاء و رُسل حضور صلی اللہ علیہ) وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں متحیر ہیں۔ دِیگر انبیاء و رُسل کے کمالات محدُود اور متعین ہیں، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کی کوئی حد ہی نہیں، بلکہ ان تک کسی کے خیال کی پرواز ہی ممکن نہیں ۔ (محدث دهلوي، مرج البحرين)

حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات حسن و کمال کا سرچشمہ ہے۔ کائناتِ حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنیٰ سا بھکاری ہے۔ چمنِ دہر کی تمام رعنائیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے دم قدم سے ہیں۔ ربِ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اُس کا ظہورِ کامل ہو جاتا تو اِنسانی آنکھ اُس کے جلووں کی تاب نہ لا سکتی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالِ حسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت اَنداز میں بیان کیا ہے۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت أنظر إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و إلي القمر، و عليه حلة حمراء، فإذا هو عندي أحسن من القمر ۔
ترجمہ : ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہا کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 118، ابواب الأدب، رقم : 2811،چشتی)

حضرت براء بن عازب صفرماتے ہیں : ما رأيتُ من ذي لمة أحسن في حلّة حمراء من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ۔ ترجمہ : میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے پوچھا : أکان وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مثل السيف ؟ ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا ؟ تو اُنہوں نے کہا ۔ لا، بل مثل القمر ۔ نہیں‘‘، بلکہ مثلِ ماہتاب تھا ۔ (ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب ما جاء في خلق رسول اﷲ)

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعداز وِلادت پہلی زیارت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا پس میں آہستہ سے ان کے قریب ہو گئی۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے سینہ مبارک پر رکھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا کر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا ۔ (الانوار المحمديه : 29)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ دلرُبا کو چاندی سے ڈھال کر بنائی گئی دِیدہ زیب اشیاء سے تشبیہ دیتے ہوئے حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مجموعی جسمانی حسن کے لحاظ سے) یوں معلوم ہوتے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں ۔ (بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 241،چشتی)

کسی آنکھ میں مشاہدۂ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب نہ تھی ربِ کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کر سکے۔ اَنوارِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لئے پردوں میں رکھا گیا کہ اِنسانی آنکھ جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب ہی نہیں لا سکتی۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی حسن و جمال مخلوق سے مخفی رکھا ۔

اِمام زرقانی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب میں امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ایمان افروز قول نقل کیا ہے : حضور کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں ۔ (زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 241)

نبی بے مثال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا ذکرِ جمیل حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں : میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا ۔ (مسلم، الصحيح، 1 : 112، کتاب الإيمان، رقم : 121)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرِ انور سے لے کر قدمِ پاک تک نور ہی نور تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اَطہر چاند اور سورج کی طرح منوّر و تاباں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوہ ہائے حسن لباس بشری میں مستور نہ ہوتے تو رُوئے منوّر کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہو جاتا ۔(مدارج النبوة، 1 : 137،چشتی)

شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ : میرے والدِ ماجد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اﷲ علیہ کو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو اُنہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! زنانِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بعض لوگ اُنہیں دیکھ کر بیہوش بھی ہو جاتے تھے، لیکن کیا سبب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ایسی کیفیات طاری نہیں ہوتیں۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے اللہ نے غیرت کی وجہ سے میرا جمال لوگوں سے مخفی رکھا ہے، اگر وہ کما حقہ آشکار ہو جاتا تو لوگوں پر محوِیت وبے خودی کا عالم اِس سے کہیں بڑھ کر طاری ہوتا جو حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر ہوا کرتا تھا ۔ (الدرّ الثمين : 39)

حسنِ سراپا کے بارے میں حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کا قول : سرخیلِ قافلۂ عشق حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں رِوایت منقول ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت گزاری کے باعث زندگی بھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بالمشافہ زیارت کے لئے حاضر نہ ہو سکے، لیکن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ والہانہ عشق و محبت اور وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین سے اپنے اُس عاشقِ زار کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ میرے وِصال کے بعد اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر اُسے یہ خرقہ دے دینا اور اُسے میری اُمت کے لئے دعائے مغفرت کے لئے کہنا ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے اُن کے آبائی وطن ’قرن‘ پہنچے اور اُنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان سنایا۔ اثنائے گفتگو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے دونوں جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِیدار بھی کیا ہے؟ اُنہوں نے اِثبات میں جواب دِیا تو مسکرا کر کہنے لگے ۔ لَمْ تَرَيَا مِن رسولِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اِلَّا ظِلَّه ۔ ترجمہ : تم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا محض پرتو دیکھا ہے ۔ (جواهر البحار، 3 : 67)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...