Tuesday, 18 September 2018

سیرت شمائل و خصائل حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا


سیرت شمائل و خصائل حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت سیدہ ، طیبہ ، طاہرہ ، زاہدہ ، کاملہ ، اکملہ ، عابدہ ، ساجدہ ، عالمہ ، خا تون جنّت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں ۔ ان کی والدہ کا نام بھی حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بعثت نبوی کے بعد جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں ۔بعض سیرت نگاروں کے نزدیک حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت جس زمانہ میں قریش کعبہ کی تعمیرکر رہے تھے اس وقت ہوئی ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال تھی ۔ (طبقات ابن سعد ج۸ ص۱۱، الاصابہ لابن حجر ج۴ ص۵۶۳،الاصابہ فی تمیزالصاحبہ ج۴ ص۵۶۳ )

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحزادیوں میں سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں ۔ ان کا اسم گرامی : حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا : اور ان کے القاب میں زہرا ، بتول ، زکیہ ، راضیہ ، طاہرہ ، بضعۃالرسول خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی پرورش اور تربیت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ۔

حدیث شریف کی کی کتابوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق ان کی سیرت اور طرز طریق کو محدثین اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ : فاقبلت فاطمہ تمشی ۔ ماتخطئی مشیۃالرسول صلی اللہ علیہ وسلم شیاَ ۔ یعنی جس وقت حضرت فاطمہرضی اللہ تعالیٰ عنہاچلتی تھیں تو آپرضی اللہ تعالیٰ عنہا کی چال ڈھال اپنے والد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بلکل مشابہ ہوتی تھی ۔ام المو’منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں قیام وقعود ،نشست و برخاست ،عادات واطوار میںحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ مشابہ کسی کو نہیں دیکھا ۔ (مسلم شریف ج۲ص ۰۹۲ ، الاستیعاب ج۴ص۳۶۳،حلیۃالاولیا لابی نعیم الصفہانی ج۲ص۹۳،چشتی)

شعب ابی طالب میں محصوری : اسلام کا راستہ روکنے کے لیئے کفار مکہ نے نبی کریم صلی اللہ ولیہ وسلم کے خاندان ،صحابہ کرام ، ازواج مطہرات : اوربنات رضی اللہ عنہم : کو تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور کر دیا ۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے یہ صبر آزما لمحات اپنے اعزہ واقارب اور عظیم والدین کے ہمراہ صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیں ۔

حضور نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم ہجرت فرما کے مدینہ تشریف لے گئے ۔اس وقت حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہامکہ میں تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لانے کے لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومتعین فرمایا اور دو اونٹ دیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانچ درہم زاد راہ کے لیئے دیے ۔ یہ دونوں بنات طیبات ان کے ہمراہ مدینہ تشریف لائیں ۔(البدایۃلابن کثیر ج۳ ص۲۰۲)

ماہ رجب 2 ہجری میں حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا نکاح کے وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اکیس یا چوبیس برس اورسیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر پندرہ یا اٹھارہ برس تھی ۔ (تفسیر القرطبی ج۴۱ ص۱۴۲) ۔ اس نکاح کے گواہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ (خائرالعبقعی المحب الطبری )

نبی کریم صلی اللہ علی وسلم نے اپنی لخت جگر کی رخصتی کے لیے تمام تیاری سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد فرمائی ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ۔اس موقع پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابھی اس کام میں ان کی معاون تھیں۔ کہ ہم نے وادی بطحا سے اچھی قسم کی مٹی منگوائی ۔جس سے اس مکان کو لیپا پونچا اور صاف کیا ۔پھر ہم نے اپنے ہاتھوں سے کھجور کی چھال درست کر کے دو گدے تیار کیے ۔اوع خرمااور منقی سے خوراک تیار کی اور پینے کے لیے شیریں پانی مہیا کیا ۔پھر اس مکان کے ایک کونے میں لکڑی گاڈ دی تاکہ اس پر کپڑے اور مشکیزہ لٹکایا جاسکی۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ : فمارایناعرسا احسن من عر س فا طمہ ۔ یعنی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی سے بہتر ہم نے کوئی شادی نہیں دیکھی ۔ (سنن ابن ماجہ ص۹۳۱،مسند احمد ج۱ ص۴۰۱)

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا جہیز : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر کو جو جہیز دیا مختلف روائتوں کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے : (1) ایک بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھری ہوئی تھی ۔ (2) ایک چمڑے کاتکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ (3) ایک مشکیزہ ۔ (4) دو مٹی کے گھڑی ۔ (5) ایک چکی ۔ (6) ایک پیالہ ۔ (7) دو چادریں ۔ (8) ایک جا نماز ۔ (مسند احمدج۱ ص104،چشتی)

فضائل حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا بزبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الفاطمۃ سیدۃنساء اھل الجنۃ ۔ ترجمہ : فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہے ۔ (البدایۃ والنہایہ)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خواتین امت کی سردا ر ہے ۔ فاطمہ میرے جگر کا تکڑا ہے ۔ جس نے اسے تنگ کیا اس نے مجھے تنگ کیا اور جس نے مجھے تنگ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو تنگ کیا ۔جس نے اللہ تعالیٰ کہ تنگ کیا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ کرے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری تقلید کے لیئے تمام دنیا کی عورتوں میں مریم علیہ اسلام ، خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت آسیہ کافی ہیں ۔ (ترمزی شریف)

اولاد حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا : سید فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کواللہ تعالیٰ نے پانچ اولادیں عطا فرمائیں ۔تین لڑکے اور دو لڑکیاں جن کے نام یہ ہیں ۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔حضرت ام کلثوم ر رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ حضرت محسن ر رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔:حضرت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ صغر سنی میں فوت ہو گئے تھے ۔حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 71 ہجری میں ہوا ۔ اور دوسری بیٹی حضرت زینب بنت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نکاح حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا ۔ (نسب قریش ص۵۲،چشتی)

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی عبادت و شب بیداری

سیدنا حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںمیں اپنی والدہ (گھر کے کام دھندوں سے فرصت پانے کے بعد)صبح سے شام تک محراب عبادت میں اللہ کے آگے گریہ وزار ی کر تی،خشوع وخضوع کے ساتھ اس کی حمد وثنا کرتے ، دعائیںمانگتے دیکھا کرتا ، یہ دعائیںوہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمان مردوں اورعورتوں کے لیے مانگتی تھی ۔

ایثار و سخاوت : ایک مرتبہ کسی نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا چالیس اونٹوں کی زکوۃ کیا ہو گی؟ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ۔ تمہارے لیے صرف ا یک اونٹ اور اگرمیرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو میں سارے کے سارے ہی راہ خدا میں دے دوں ۔

انتقال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا اظہار غم

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرمرض کی شدت نے اضافہ کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پریشانی عالم میں فرمانے لگیں ۔ذاکرب ابا۔افسوس ہمارے والد کی تکلیف ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ۔ آج کے بعد تیرے والد کو کوئی تکلیف نہیں ۔پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتحال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دار فانی سے دار بقا کی طرف انتقال فرما گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت پرنہایت درد و سوز کے عالم میں فرمایاتھا ۔

صبت علی مصائب لوانھا۔صبت علی الایام سرن لیا لیا۔
ترجمہ : مجھ پر مصیبتوں کے اس قدر پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں کہ اگر یہی مصیبتوں کے پہاڑ دنوں پر ٹوٹے تو دن رات بن جاتے ۔

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی مرض الوفات اور ان کی تیمارداری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہایت مغموم رہتی تھی اور یہ ایام انہوں نے صبر اور سکون کیساتھ پورے کیے ۔ آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر اٹھائیس یا انتیس برس تھی ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمار ہو گیں۔ان بیماری کے ایام میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری اور خدما ت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سر انجام دیتی تھی ۔

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا انتقال : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہیں ۔پھر تین رمضان گیارہ ہجری منگل کی شب اٹھا ئیس یا انتیس برس کی عمر مبارک میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوا ۔ (البدا یۃ والنھایۃ ج۶ ص۴۳۳،چشتی)

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا غسل اور اسما بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمات : حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وفات سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت اسما بنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو وصیت کی تھی کہ آپ مجھے بعد از وفات غسل دیں ۔اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ معاون ہوں ۔چناچہ حضرت اسما بنت عمیس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غسل کا انتظام کیا ۔اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا شریک تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سارے انتظام کی نگرانی فرمانے والے تھے ۔ (اسدالغابہ ج۵ص۸۷۴،البدایۃ والنھایۃ ج۶ص۳۳۳ ،حلیۃالاولیاج۳ص۳۴)

جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ پڑھنے کا مرحلہ پیش آیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا ور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو اس موقعہ پر موجود تھے تشریف لائے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں ۔ جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں جنازہ پڑھانے کے لیئے پیش قدمی نہیں کر سکتا ۔ نماز جنازہ پڑھانا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کا حق ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائیں اورجنازہ پڑھائیں ۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جنازہ پڑھایا ۔ (طبقات ابن سعد ج۸ص۹۱،کنزالعمال ج۶ص۸۱۳) ۔ نماز جنازہ کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رات کو ہی جنت البقیع میں دفن کیا گیا ، اور دفن کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما قبر میں اترے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...