یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کہنا احادیث مبارکہ کی روشنی میں
پہلے اِسے پڑھیں : حکیم الامتِ دیوبند نے پکارا:یارسول اللہ میری مدد کیجیے آپ کے سوا کہاں میری پناہ،مشکل میں آپ ہی تو ہیں،یارسول للہ مد کیجیے ۔ (نشر الطیب صفحہ نمبر ۱۹۴ علامہ اشرف علی تھانوی)
فیس بک کے مفتیان دیوبند سے سادہ سا سوال اس طرح پکار کر حکیم الامتِ دیوبند مشرک ہوے کہ نہیں ؟
اگر نہیں تو کیوں ؟
اگر مشرک ہوے تو آج تک کتنے دیوبند علماء تھانوی صاحب اور ان کی اس کتاب پر شرک کے فتوے لگاے ہیں ؟ کوی ایک فتویٰ بطور ثبوت دیجیے ؟
یا پھر مان لیجیے اپنے لیے فتوے اور ہیں اور مسلمانان اہلسنت کےلیے اور ہیں اور اس طرح کے دہرے معیار سے آپ لوگ امتِ مسلمہ پر شرک کے فتوے لگار فتنہ و انتشار پھیلاتے ہیں ۔
آیے احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں :
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقُلْتُ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا لِرِجْلِکَ؟ قَالَ : اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. فَقُلْتُ : اُدْعُ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، فَانْبَسَطَتْ.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَابْنُ السُّنِّيِّ وَاللَّفْظُ لَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کا ذکر کریں، تو انہوں نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے ۔ اِس حدیث کو امام بخاری نے الآدب المفرد میں اور ابن السنی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ (بخاري في الأدب المفرد / 335، الرقم : 964، وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم : 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 154، وابن السني في عمل اليوم والليلة / 141.142، الرقم : 168.170،172)
وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَمْشِي مَعْ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدَاه، فَقَامَ فَمَشٰی. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ ۔
ترجمہ : ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ چل رہا تھا کہ اُن کی ٹانگ سن ہو گئی اور وہ بیٹھ گئے، پھر اُنہیں کسی نے کہا کہ لوگوں میں سے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کرو. تو انہوں نے کہا : یا محمداہ! (اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم!) اُن کا یہ کہنا تھا کہ وہ (ٹھیک ہو گئے اور) اُٹھ کر چلنے لگ گئے ۔ اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے ۔
وفي رواية : خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : مُحَّمَدٌ صلی الله عليه وآله وسلم، فَذَهَبَ خَدِرُهُ. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.
وفي رواية : عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ صلی اﷲ عليک وسلم، فَقَالَ : فَقَامَ فَکَأَنَّمَا نُشِّطَ مِنْ عِقَالٍ. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.
ترجمہ : ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو اُنہوں نے اس شخص سے فرمایا : لوگوں میں سے جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کرو، تو اُس شخص نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ لگایا تو اُسی وقت اُس کے پاؤں کا سن ہونا جاتا رہا ۔ اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے ۔
اور ایک روایت میں حضرت ہیثم بن حنش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اُنہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے پاس تھے کہ ایک آدمی کی ٹانگ سن ہوگئی، تو اس سے کسی شخص نے کہا : لوگوں میں سے جو شخص تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کر، تو اس نے کہا : یا محمد صلی اﷲ علیک وسلم. راوی بیان کرتے ہیں : پس وہ شخص یوں اُٹھ کھڑا ہوا گویا باندھی ہوئی رسی سے آزاد ہو کر مستعد ہو گیا ہو.‘‘ اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے ۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا کَانَ يَخْتَلِفُ إِلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه فِي حَاجَةٍ لَهُ، فَکَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ، وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ، فَلَقِيَ ابْنَ حُنَيْفٍ، فَشَکٰی ذَالِکَ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ : اِئْتِ الْمِيْضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ، فَصَلِّ فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ : اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِکَ إِلٰی رَبِّي، فَتَقْضِي لِي حَاجَتِي، وَتَذَکَّرْ حَاجَتَکَ، وَرُحْ حَتّٰی أَرُوْحَ مَعَکَ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ، ثُمَّ أَتٰی بَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ص، فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتّٰی أَخَذَ بِيَدِهِ، فَأَدْخَلَهُ عَلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ص، فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَی الطُّنْفُسَةِ، فَقَالَ : حَاجَتُکَ؟ فَذَکَرَ حَاجَتَهُ وَقَضَاهَا لَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ : مَا ذَکَرْتَ حَاجَتَکَ، حَتّٰی کَانَ السَّاعَةَ وَقَالَ : مَا کَانَتْ لَکَ مِنْ حَاجَةٍ فَاذْکُرْهَا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ، فَقَالَ لَهُ : جَزَاکَ اﷲُ خَيْرًا، مَا کَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي، وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتّٰی کَلَّمْتَهُ فِيَّ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ : وَاﷲِ مَا کَلَّمْتُهُ، وَلٰـکِنِّي شَهِدْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَأَتَاهُ ضَرِيْرٌ، فَشَکٰی إِلَيْهِ ذِهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَتَصْبِرُ. فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَيْسَ لِي قَاءِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اِئْتِ الْمِيْضَأَةَ، فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ اُدْعُ بِهٰذِهِ الدَّعَوَاتِ. قَالَ ابْنُ حُنَيْفٍ : فَوَاﷲِ، مَا تَفَرَّقْنَا، وَطَالَ بِنَا الْحَدِيْثُ، حَتّٰی دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ کَأَنَّهُ لَمْ يَکُنْ بِهِ ضَرٌّ قَطُّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : وَالْحَدِيْثُ صَحِيْحٌ .
ترجمہ : حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اپنے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ضرورت سے آتا رہا لیکن حضرت عثمان صاُس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی حاجت پر غور نہ فرماتے تھے۔ وہ شخص (عثمان) بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اپنے مسئلہ کی بابت شکایت کی۔ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ اور وضو کرو، اس کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر (یہ دعا) پڑھو : اے اﷲ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، یا محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔ اور پھر اپنی حاجت کو یاد کرو۔ (اور یہ دعا پڑھ کر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ) یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ آ جاؤں۔ پس وہ آدمی گیا اور اس نے وہی کیا جو اسے کہا گیا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان نے اس کا ہاتھ تھاما اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان صنے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور پوچھا : تیری کیا حاجت ہے؟ تو اس نے اپنی حاجت بیان کی اور انہوں نے اسے پورا کر دیا۔ پھر اُنہوں نے اُس سے کہا : تو نے اپنی اس حاجت کے بارے میں آج تک بتایا کیوں نہیں؟ آئندہ تمہاری جو بھی ضرورت ہو مجھے بیان کرو۔ پھر وہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلا گیا اور حضرت عثمان بن حنیف سے ملا اور ان سے کہا : اﷲ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرمائے، اگر آپ میرے مسئلہ کے بارے میں حضرت عثمان سے بات نہ کرتے تو وہ میری حاجت پر غور کرتے نہ میری طرف متوجہ ہوتے۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا میں نے ان سے تمہارے بارے میں بات نہیں کی۔ بلکہ میں نے اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ ایک نابینا آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بینائی ختم ہو جانے کا شکوہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تو صبر کر. اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرا کوئی خادم نہیں اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوٹا لے کر آؤ اور وضو کرو (اور اسے یہی عمل تلقین فرمایا)، حضرت ابن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : خدا کی قسم! ہم لوگ نہ تو ابھی مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان لمبی گفتگو ہوئی، حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں) آیا کہ گویا اُسے کبھی اندھا پن تھا ہی نہیں ۔ اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے ۔ ( طبراني في المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 183، الرقم : 508، وأيضًا في الدعائ / 320، الرقم : 1050، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 167، والمنذري في الترغيب والترهيب،1 / 32، 274، الرقم : 1018، والسبکي في شفاء السقام / 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 201 ،چشتی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه … وَحَمَلَ خَالِدُ بْنُ وَلِيْدٍ رضی الله عنه حَتّٰی جَاوَزَهُمْ وَسَارَ لِجِبَالِ مُسَيْلَمَةَ وَجَعَلَ يَتَرَقَّبُ أَنْ يَصِلَ إِلَيْهِ فَيَقْتُلَهُ ثُمَّ رَجَعَ ثُمَّ وَقَفَ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ وَدَعَا الْبِرَازَ. وَقاَلَ : أَنَا ابْنُ الْوَلِيْدِ الْعُوْدِ، أَنَا ابْنُ عَامِرٍ وَزَيْدٍ. ثُمَّ نَادٰی بِشِعَارِ الْمُسْلِمِيْنَ، وَکَانَ شِعَارُهُم يُوْمَءِذٍ ’’يَا مُحَمَّدَاه‘‘. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (طویل روایت میں) بیان کرتے ہیں کہ ’’(جنگ یمامہ کے موقع پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد) حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے (اسلامی لشکر کا) عَلم سنبھالا اور لشکر سے گزر کر مسیلمہ کذاب کے مستقر پہاڑ کی طرف چل دیئے اور وہ اِس انتظار میں تھے کہ مسیلمہ تک پہنچ کر اُسے قتل کر دیں. پھر وہ لوٹ آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان کھڑے ہو کر دعوتِ مبارزت دی اور بلند آواز سے پکارا : میں ولید کا بیٹا ہوں، میں عامر و زید کا بیٹا ہوں. پھر اُنہوں نے مسلمانوں کا مروجہ نعرہ بلند کیا اور اُن دنوں اُن کا جنگی نعرہ ’’یا محمداہ صلی اﷲ علیک وسلم‘‘ ( یا محمد! مدد فرمائیے) تھا ۔
اِس حدیث کو امام طبری اور ابن کثیر نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ ( طبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 281، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 324)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment