Monday, 3 September 2018

الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کہنے کا جواز

الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کہنے کا جواز

سب سے پہلے یہ پڑھیں : تمام اکابرین دیوبند کے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بعض لوگ الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ بصیغہ خطاب میں کلام کرتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے قرب و بعد نہیں ہے پس اس کے جواز میں شک نہیں ہے ۔ (امداد المشاق صفحہ۶۰) ۔ (فیس بکی مفتیان دیوبند کے لیے دعوت فکر)

عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں اُسے منظور بڑھانا تیرا
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
یا رسول اللہ کی کثرت کیجئے ( صلی اللہ علیہ وسلم )

الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کے صیغے سے حضورنبی کریم رؤف الرحیم علیہ التحیۃ والتسلیم پردورو سلام پڑھنا جائزومستحسن ہے جس طرح دیگر درود شریف کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالی کے اس فرمان پاک سے ثابت ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔
ترجم : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (سورۃ الاحزاب اٰیۃ نمبر ۵۶)

اس آیت کریمہ میں لفظ " صلاة" اورلفظ "سلام" ہے اور "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" میں بھی لفظ "صلاۃ" اورلفظ "سلام" دونوں ہیں ۔

مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے : (عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول : السلام علیک یا رسول اللہ)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا ۔ (مراقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۱۱،ص:۶۵،حدیث:۵۹۱۹، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)

اس حدیث پاک میں "اسلام علیک یا رسول اللہ" ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دونوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" اس میں "صلوا" اور "وسلموا" دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔

اگر کوئی یہ کہے کہ یہی الفاظ کیوں ہیں ؟ احادیث پاک میں کثرت سے دوردو سلام کے صیغے موجود ہیں ان میں سے ہی پڑھا جانا چاہئے تو اس کے لئے جواب یہ ہے کہ وہ دورد پاک جواحادیث میں وارد ہیں ان میں حصر نہیں کہ صرف وہی پڑھے جائیں اس کے علاوہ نہیں پڑھ سکتے بلکہ علماء نے صراحت کی ہے کہ جتنے اچھے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہو سکیں اس کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پردورد اور سلام بھیجا جائے اس کی ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں جن میں قصیدہ بردہ شریف ، اور دورد تاج ، دلائل الخیرات شریف اس کے علاوہ بھی بہت سارے دورد وسلام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے موجود ہیں ۔ اگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کا کیا جواب دیں گے ؟

ہاں بعض لوگوں کو یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ ہضم نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ اس طرح کہنا شرک ہے ، میرا ان سے ایک سوال یہ ہے کہ جو شرک ہو تا ہے وہ ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر لحاظ سے شرک ہو تا ہے تو پھر یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین علیہم الرحمہ کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکو مخاطب کیا اور خود اللہ تعالی کے بارے میں ان لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب اللہ تعالی قرآن کریم میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی "یاایھا المزمل" کے خطاب سے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی "یاایھا المدثر" کے لقب سے اور کبھی "یاایھا النبي" کے مبارک الفاظ سے ۔ کیا نعوذباللہ ، اللہ تعالی خود شرک کی تعلیم دیتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں اور عقلوں پر اللہ تعالی نے مہر لگا دی ہے ان کو حقیقت بات بھی الٹی سمجھ آتی ہے ۔

بلکہ حقیقت بات یہ ہے کہ ندائے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاء بَعْضِکُم بَعْضاً ۔
ترجمہ : یعنی’’ رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے - ( النور:63)

اس آیت کے تحت تفسیر روح المعانی میں اور تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے تحت مذکور ہے : والفظ لہ :قال الضحاک عن ابن عباس ،کانو یقولون یامحمد یااباالقاسم فنہاھم اللہ عزوجل عن ذلک اعظاما لنبیہ ﷺ قال فقولو ایانبی اللہ ،یارسول اللہ ھکذا قال مجاہد وسعید بن جبیر ،وقال قتادۃ ۔
ترجمہ : ‘‘یعنی،’’ حضرت ضحاک علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے یامحمد ،یااباالقاسم ،تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب ﷺکی عزت اورتوقیر کے لئے اس سے منع فرمادیااور فرمایا کہو’یانبی اللہ ،’یارسول اللہ ،اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنھم نے اسی طرح روایت کیا - (تفسیر ابن کثیر :ج،6ص81مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
اسی سے ملتاجلتا مضمون تفسیر درمنثور : جلد نمبر8 صفحہ نمبر 230 پر بھی موجود ہے اور تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ لا تنادو ہ کما ینادی بعضکم بعضا یامحمد ولکن قولوا یا رسول اللہ ،یانبی اللہ ‘‘یعنی ان (حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ندا اس طرح نہ دیں جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکار تے ہو(یعنی یامحمد کہہ کرنہ پکارو لیکن یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو ۔ (تفسیر کبیر:ج،8ص 425مطبوعہ دار الا حیاء بیروت)

حدیث پاک میں ہے کہ جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یارسول اللہ کے نعرے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا استقبال کیا : ’’فصعد الرجال والنساء فوق البیو ت وتفرق الغلمان والخد ام فی الطرق ینادون یامحمد ،یارسول اللہ ،یامحمد ،یارسول اللہ‘‘ ۔
ترجمہ : یعنی،’’ پس مرد اور عورتیں مکان کی چھتوں پر چڑھ کر اور بچے اور خدام بازاروں کے راستوں میں پھیل کر یا محمد ،یارسول اللہ ،یامحمد ،یارسول اللہ ،کا نعرہ لگاتے تھے ۔ (صحیح مسلم شریف :ج،1ص419مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی،چشتی)

امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں : الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ،السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی،’’ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اپنی حاجت (ضرورت )میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کووسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے جاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ۔ (فتاوی رضویہ :ج،۲۳،ص۶۸۰مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور)

علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ،السلام علیک یا حبیب اللہ ،السلام علیک یا نبی الرحمۃ‘‘(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،صفحہ نمبر 747، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں : یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ : صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا :قرت عینی بک یارسول اللہ ۔
ترجمہ : یعنی’’مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت( اشھد ان محمد رسول اللہ ) سنے تو کہے۔صلی اللہ علیک یارسول اللہ ۔اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ ( اشھد ان محمد رسول اللہ )سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں)‘‘۔ (ردلمحتار ،ج:۲،ص:۶۸،مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان)

حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں آیا ہے '' یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی ''یعنی یا محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ بیہقی اور جزری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ ( ہدیۃ المہدی ص ٢٤ (عربی) ، نشر الطیب ص ٢٧٦ ) ، ایک روایت میں ہے یا رسول اللہ انی توجہت بک الی ربی یعنی یا رسول اللہ ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ''۔ (ہدیۃ المہدی (عربی) ص ٢٤، مولوی وحید الزمان وہابی)

حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آسمان سے میں نے یہ آواز سنی ''یا محمداہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ( الشمامۃ العنبریہ ص ١١٣ ، صدیق حسن بھوپالوی غیر مقلد وہابی)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو اتنا ہی کہتے تھے ''السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا ابابکر ، السلام علیک یا ابتاہ ''۔ (فضائل حج ص ٩١٧ ، ذکریا سہارنپوری' دیوبندی)

جو عوام الناس کہتے ہیں یعنی یا رسول اللہ، یا علی ، یا غوث تو اکیلی نداء سے ان پر شرک کا حکم نہیں دیا جائے گا اور کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ حضور ؐ نے بدر کے مقتولوں کو فلاں بن فلاں کہتے ہوئے پکارا تھا ۔ اور حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ بھی آئے ہیں اور ایک حدیث میں یا رسول اللہ کا لفظ بھی ہے ''۔ (ہدیۃ المہدی (اُردو) ص ٥١،٥٠)

صلوٰۃ و سلام کے الفاظ میں تنگی نہیں ہے ادب شرط ہے ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر شریف پر سلام اس طرح پڑھاہے ''السلام علیک یا رسول اللہ، السلام علیک یا نبی اللہ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا احمد ؐ ، السلام علیک یا محمد ؐ ۔(الصلوٰ ۃ والسلام ص ١٢٦ ، فردوس شاہ قصوری وہابی)

تفسیر ابن کثیر و مدارک میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے بعد ایک اعرابی آیا اور اپنے کو روتے اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے قبر شریف پر گرا دیا اور کہا ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں ۔ قبر مبارک سے آواز آئی ''کہ تجھ کو بخش دیا گیا ہے''۔ (نشر الطیب ص ٢٧٩ ، فضائل حج ص ٢٥٣،چشتی)

حکیم الات دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی نے کہا : اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستغیث ہو کر اور اُمید کی چیزوں کا اُمید وار ہو کر پکارا ہے ۔ (نشر الطیب صفحہ نمبر ٢٧٩ )

نواب وحید الزمان حیدر آبادی غیر مقلد وہابی نے لکھا : جب روم کے بادشاہ نے مجاہدین اسلام کو عیسائیت کی ترغیب دی تو انہوں نے بوقت شہادت ''یا محمداہ'' صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرہ لگایا جیسا کہ ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے روایت کیا ۔ (ہدیۃ المہدی )

علامہ احتشام الحسن کاندھلوی دیوبندی نے لکھا : غوث پاک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد ١٠٠ مرتبہ درود غوثیہ پڑھ کر ١١ بار یہ درود و سلام پڑھو اغثنی یا ر سو ل ا للہ علیک ا لصلو ٰۃ و ا لسلام ۔ (کتاب غوث اعظم ص٣٢)

ایک اور دیوبندی عالم اپنی کتاب یا حرف محبت میں لکھتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور ؐ کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا ر سو ل اللہ جا ہ ''(یا حرف محبت ص ٩٤)

ایک اور دیوبندی عالم اپنی کتاب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور ؐ کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا ر سو ل اللہ جا ہ ''(یا حرف محبت ص ٩٤)

علامہ محمد علی جانباز غیر مقلد وہابی لکھتے ہیں : حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ(علیہم السلام ) نے آپ کو بایں الفاظ سلام کیا : ا لسلام علیک یا ا وّل ، ا لسلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حا شر ''۔ ( کتاب معراج مصطفےٰ ص ١٢)

مذکوہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ ‘‘کہنا جائز اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ منکرین کو ہدایت عطاء فرماے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...