نماز میں پکارتے ہیں یارسول صلی اللہ علیہ وسلّم ہیں عجب منکر غرّانے والے
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ اے نمازی اتحیات میں السلام علیک ایھاالنبی پڑھنے کے وقت حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے دل میں حاضر کر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صورت کا تصور اپنے دل میں جما کر السلام علیک ایھاالنبی عرض کر اور یقین جان کہ یہ سلام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو پہنچ رہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس کا جواب اپنی شان کریمی کے لائق فرماتے ہیں ۔ (احیا العلوم الدین جلد اول ص 107)
علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔ تشہد کے الفاظ سے اس کے معانی اپنی مراد ہونے کا ارادہ کرے انشا کے طور پر ۔ اخبار کا ارادہ نہ کرے ۔ (یعنی صرف حکایت کا ارادہ نہ کرے) (درمختار شرح تنویر الابصار جلد اول باب رحمتہ الصلوتہ)
مجدد اسلام اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ندا کرنے کے عمدہ دلائل سے اتحیات ہے جسے ہر نمازی ہر نماز کی دو رکعت پر پڑھتا ہے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کرتا ہے ۔ "السلام علیک ایھاالنبی و رحمتہ اللہ و برکاتہ" اگر ندا معاذاللہ شرک ہے تو یہ عجب شرک ہے جو عین نماز میں شریک و داخل ہے ۔ ولاحولا ولا قوتہ اللہ بااللہ العلی العظیم ، اور یہ جاہلانہ خیال محض باطل کہ اتحیات زمانہ اقدس سے ویسی ہی چلی آئی ہے تو مقصود ان لفظوں کی ادا ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نداء ۔
حاشا و کلا شریعت مطہرہ نے نماز میں کوئی ذکر ایسا نہیں رکھا ہے جس میں زبان سے صرف لفظ نکالے جائیں اور معنی مراد نہ ہوں ۔ نہیں نہیں بلکہ قطعاً یہی درکار ہے کہ "اتحیات للہ والصلوتہ والطیبات" سے حمد الہی کا قصد رکھے اور " السلام علیک ایھاالنبی و رحمتہ اللہ و برکاتہ" سے یہ ارادہ کرے کہ اس وقت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سلام کرتا اور حضور سے بالقصد عرض کر رہا ہوں کہ سلام حضور پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ۔ فتاوی عالمگیری میں شرح قدوری سے بھی یہی معنی بیان ہوے ۔ (فتاوی علمگیری 72/2) ۔ تنویر الابصار اور اس کی شرح درمختار میں بھی یہی ہے ۔ (تنویر الابصار , بیروت 342/1) ۔ علامہ حسن شرنبلالی مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں بھی یہی فرماتے ہیں ۔(مراقی الفلاح, الاظہر مصر 165،چشتی)
غیر مقلد نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ۔ ''نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر حال اور ہر آن میں مومنین کے مرکز نگاہ اور عابدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ، خصوصیات کی حالت میں انکشاف اور نورانیت ذیادہ قوی اور شدید ہوتی ہے ، بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں ''اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ ( مسک الختام شرح بلوغ المرام، صفحہ 244)
علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے فتح الملھم جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 227 میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی احیاالعلوم کی عبارت لکھی اور کہا کہ باالقصد اپنی توجہ کو ادھر مبذول کرے اور مشہور دیوبندی عالم علامہ اعزاز علی صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں کہ : نمازی تشہد میں ان الفاظ کے انشاء کا قصد کرے اور اپنی طرف سے ان الفاظ کے معنی کا ارادہ کرے جو ان کی مراد ہیں ۔ خلاف اس قول کے جو بعض لوگوں نے کہا کہ وہ اللہ کے سلام کی حکایت ہے نمازی کی طرف سے سلام کی ابتدا نہیں ۔ (الاصباح حاشیہ نورالایضاح ص ٧)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment