Tuesday, 6 March 2018

حلال و حرام کرنے کا اختیار مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ

حلال و حرام کرنے کا اختیار مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ

قٰتِلُوا الَّذِیۡنَ لَایُؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَلَابِالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَ لَایُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ وَلَایَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنۡ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوۡنَ ۔ ﴿سورہ توبہ آیت نمبر 29)
ترجمہ : لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر ۔

قٰتِلُوا الَّذِیۡنَ لَایُؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَلَابِالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ : ان سے جہاد کرتے رہو جو اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس کی ذات اور جملہ صِفات وتنزیہات کو مانے اور جو اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت نہ کرے اور بعض مفسرین نے رسولوں پر ایمان لانا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے میں داخل قرار دیا ہے تو یہودی اور عیسائی اگرچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہودی تجسیم وتَشْبِیہ (اللہ عَزَّوَجَلَّ کا جسم ماننا اور اسے مخلوق کے مشابہ ماننا) کے اور عیسائی حلول کے معتقد ہیں تو وہ کس طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والے ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی یہودیوں میں سے جو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائی حضرت مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہ ہوا۔ اسی طرح جو ایک رسول کی تکذیب کرے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہیں ،یہودی اور عیسائی بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے ہیں لہٰذا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والوں میں نہیں۔ شانِ نزول : مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو روم سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی کے نازل ہونے کے بعد غزوۂ تبوک ہوا۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے حق میں نازل ہوئی ،سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان سے صلح منظور فرمائی اور یہی پہلا جزیہ ہے جو اہلِ اسلام کو ملا اوریہی پہلی ذلت ہے جو اِن کفار کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچی ۔ (تفسیر خازن خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ،۲۹،۲/۲۲۹،چشتی)

وَ لَایُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ : اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حدیث میں جن چیزوں کو حرام کیا ہے یہ انہیں حرام قرار نہیں دیتے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ توریت و انجیل کے مطابق عمل نہیں کرتے ان کی تحریف کرتے ہیں اور احکام اپنے دل سے گڑھتے ہیں۔ (تفسیر خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲/۲۲۹،چشتی)

سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں حضرت مقدام بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:سن لو ! مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل ملا یعنی حدیث، دیکھو! کوئی پیٹ بھرا اپنے تخت پر بیٹھے یہ نہ کہے کہ یہی قرآن لئے رہو جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو،جو اس میں حرام ہے اسے حرام مانو۔ (حالانکہ) ’’وَاِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللہُ‘‘جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حرام کیا وہ بھی اس کی مثل ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حرام کیا ۔ (سنن ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی لزوم السنّۃ، ۴/۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۴، وابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۱/۱۵، الحدیث: ۱۲)

احکامِ شریعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے سپرد ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ائمۂ محققین علیہم الرّحمہ تصریح فرماتے ہیں کہ احکامِ شریعت حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو سپرد ہیں جو بات چاہیں واجب کردیں جو چاہیں ناجائز فرما دیں ، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم سے چاہیں مُسْتَثنیٰ فرما دیں ۔ (فتاویٰ رضویہ، ۳۰/۵۱۸)

اس مضمون پر چند اَحادیث کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں

(1) حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عرض کرنے پر حرم میں اِذخِر گھاس کاٹ لینا جائز فرما دیا ۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الاذخر والحشیش فی القبر، ۱/۴۵۳، الحدیث: ۱۳۴۹،چشتی)

(2) حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فرما دی ۔ (بخاری، کتاب الاضاحی، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی بردۃ۔۔۔ الخ، ۳/۵۷۵، الحدیث: ۵۵۵۷)

(3) اکیلے حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دے دیا ۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔ الخ، ۳/۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷)

(4) ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُک و اس کے روزے کا کفارہ اپنے پاس سے عطا فرما کر اسے اپنی ہی ذات اور اہلِ خانہ پر خرچ کرنے کی اجازت عطا فرما دی ۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان۔۔۔ الخ، ۱/۶۳۸، الحدیث: ۱۹۳۶)

(5) حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے لئے حالتِ جنابت میں مسجد میں داخل ہونا حلال فرما دیا ۔ (جامع ترمذی، کتاب المناقب، ۲۰-باب، ۵/۴۰۸، الحدیث: ۳۷۴۸)

مزید تفصیلی معلومات کے لئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...