Saturday 12 September 2015

فضائل مکّۃُ المکرمہ

مکہ مکرمہ اس پوری کائناتِ ارضی میں وہ بابرکت جگہ اور رحمتوں والا مقام ہے جسے اﷲتعالیٰ نے دنیا بھر کے شہروں سے بڑھ کر اعلیٰ و مقدس شہر کی حیثیت عطا کی ہےاﷲ رب العزت نے اس شہر دلنواز اور اس مرکزِ بخشش کو خلعتِ انوار میں لپیٹے ہوئے اپنے برگزیدہ بندے، اور عالم خلق میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہستی امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کے لئے منتخب کیااپنے دین کی اشاعت اور ترویج و فروغ اور اپنے گھر بیت اﷲ شریف کا حج کرنے کے لئے اس شہر بے مثال کو منتخب فرمایا، اسی وجہ سے اس ارض مقدس کو دنیا بھر کے شہروں پر فضلیت و برتری عطا کی سرزمین مکہ وہی جگہ ہے جسے خود رب العزت نے لوگوں کے دلوں میں محبت کے لئے منتخب فرمایا اور پھر انہیں یہاں حج کرنے کا حکم دیا چنانچہ ارشاد ہوا :

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِo

(البقرة، 2 : 125)

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم رضی اللہ عنہ کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں او راعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔‘‘

دنیا کا یہ واحد بابرکت شہر ہے جس کو امن کی جگہ بنانے اور اسے نوع بہ نوع پھلوں سے نوازنے کے لئے جد الانبیاء خلیل اللہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوئےقرآن حکیم میں حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی اس التجا کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُo

(البقرة، 2 : 126)

’’اور جب ابراہیم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لیے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘

یہ شہر خوباں نزول وحی و ملائکہ کا مرکز، انبیاء و اولیاء کا ٹھکانہ و مدفن، ہر چیز کی پیدائش کا موجب و سبب اور ہر انعامِ خداوندی کی بنیاد ہےیہاں اﷲتعالیٰ کی واضح اور کھلی نشانیاں ہیں جن کی زیارت سے جہاں ایمان کو حلاوت اور چاشنی ملتی ہے وہاں استقرار و استحکام بھی میسر آتا ہےان ہی میں سے مقام ابراہیم ہے، صفا و مروہ ہے، آب زم زم و حجرِ اسود ہے، حتیٰ کہ یہی وہ شہر ہے جس میں اﷲ کا گھر ’’بیت اﷲ‘‘ ہےجس میں ادا کی جانے والی ایک نماز اپنے دامن میں ایک لاکھ نماز کا اجر و ثواب رکھتی ہےاس کے ارد گرد تین سو انبیاء علیھم السلام کے مزارات ہیں، اس شہر امن میں داخل ہونے والے کو امن و امان مل جاتا ہےخونریزی و سفاکی کی یہاں ممانعت ہےکسی بھی انسان کا حق و ناحق خون نہیں بہایا جاسکتااس عظمت و بزرگی والے شہر میں حلال تو درکنار حرام جانور کا شکار بھی گناہ ہےاس کے درختوں اور شاخوں کا کاٹنا بھی حرام ہے یہ اس قدر امن والا شہر ہے کہ ہر ذی روح اور غیر ذی روح اس کے سائے میں محفوظ و مامون ہےیہاں قدم قدم پر عافیت کے شامیانے نصب ہیںامن سکون اور رحمتوں کا بحر بے کنار،یہ وہ عظیم الشان شہر ہے جس کی عظمت اور فضلیت کی خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں قسمیں کھائی ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے :

لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبًَلَدِ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo

(البلد، 90 : 1-2)

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں(اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔‘‘

اسی طرح مکہ مکرمہ کی فضیلت حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے اظہارِ محبت یوں فرمایا :

’’تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا عزیز ہے اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔‘‘

(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فی فضل مکة، 5 : 679-680، رقم : 3926)
سوال 79 : کعبۃ اﷲ کی فضیلت کیا ہے؟

جواب : کعبۃ اﷲ کی فضیلت کی اس سے بڑی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے اس گھر سے محبت فرماتا ہے جس کا ذکر سورہِ حج کی درج ذیل آیت کریمہ میں ہے جہاں جد الانبیاء حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ میرا گھر حج اور طواف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو :

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِo

(الحج، 22 : 26)

’’اور (وہ وقت یاد کیجیے) جب ہم نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے لیے بیت اﷲ (یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر) کی جگہ کا تعین کر دیا (اور انہیں حکم فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو (تعمیر کرنے کے بعد) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھنا۔‘‘

اس سے اگلی آیت کریمہ میں یہ مضمون محبت Climax پر پہنچ گیا ہے جب حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے فرمایا گیا کہ اب تمام لوگوں کو بآواز بلند میرے گھر کے حج (اور طواف) کے لئے بلاؤ (سبحان اﷲ) پھر خود ہی اﷲ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھنا پھر میرے بندے دور و نزدیک سے کیسے کھنچے چلے آتے ہیں :

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍo

(الحج، 22 : 27)

’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ میں بھی کعبۃ اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے بیت اللہ کی زیارت کی پھر یہاں کسی سے جھگڑا، بد زبانی اور فساد نہ کیا تو :

’’وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا۔‘‘

(بخاری، الصحيح، أبواب الإحصاد وجزاء الصّيد، باب قول اﷲ تعالی فلا رفث، 2 : 645، رقم : 1723-1764)

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ دن رات کعبۃ اللہ پر ایک سو بیس رحمتوں کا نزول فرماتا ہےان میں ساٹھ طواف کرنے والوں کیلئے، چالیس نماز پڑھنے والوں کیلئے

’’اور بیس ان لوگوں کیلئے جو کعبۃ اللہ کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘

(ابن جوزی، العلل المتناهيه، 2 : 82)

حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلنَّظَرُ إلَی الْبَيْتِ الْحَرَامِ عِبَادَةٌ.

(تالی تلخيص، 2 : 365، رقم : 221)

’’اس عزت والے گھر کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔‘‘

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

هَذَا الْبَيْتُ دَعَامَةُ الإِْسْلَامِ.

(ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 332، رقم : 6964)

’’یہ گھر اسلام کا ستون ہے‘‘

جو شخص اس کی زیارت کے ارادہ سے نکلا خواہ وہ حج کی نیت کرنے والا ہو یا عمرہ کی تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے اگر وہ فوت ہوگیا تو اسے جنت میں داخلہ نصیب ہو گا۔

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...