Tuesday 15 September 2015

قربانی کے جانور ، بھینس اور وھابی غیر مقلدین

قربانی کے جانور : ۔

قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِاثْنَیْنِ … الایۃ۔وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ …الایۃ

(سورۃ الانعام)

ترجمہ: آٹھ نر مادہ ہیں دو بھیڑوں میں سے،دوبکریوں میں سے،دو اونٹوں میں سے اوردو گایوں میں سے ۔

نوٹ: بھینس گائے کے حکم میں ہے اور بھینس کی قربانی جائز ہے۔

بھینس کی قربانی جائز ہے

وَاجْمَعُوْا عَلٰی اَنَّ حُکْمَ الْجَوَامِیْسَ حُکْمُ الْبَقَرَۃِ ۔

(کتاب الاجماع امام ابن منذر ص37)

ترجمہ: أئمہ حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔(یعنی دونوں کا حکم ایک ہے) .

قاضی محمد عبداللہ ایم اے ایل ایل بی (خانپوری )کا فتویٰ:تمام علماء کا اس مسئلہ میں اجماع ہے کہ سب بہیمۃ الانعام (چرنے چگنے والے چوپایوں) کی قربانی جائز ہے کم از کم بھینس کی قربانی میں کوئی شک نہیں ہے۔

 ہفت روزہ الاعتصام لاہور ج20 شمارہ42،43ص9) بھینس کی قربانی غ

 غیرمقلدین علماء کی نظر میں

 مولوی ثناء اللہ امرتسری کا فتویٰ

جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں

قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا‘‘ (سورۃ الانعام)

ان چیزوں کے سواء جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے بھینس ان میں نہیں اس کے علاوہ عرب لوگ بھینس کو بقرہ (گائے )میں داخل سمجھتے ہیں ۔

تشریح: ہاں! اگر اس (بھینس )کو جنس بقر(گائے کی جنس)سے مانا جائے یا عموم بہیمۃ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے۔



(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص807اخباراہل حدیث ص11 دہلی)

حافظ محمد گوندلوی کا فتوی

بھینس بھی بقر میں شامل ہے اس کی قربانی جائز ہے۔

(ہفت روزہ الاعتصام ج20 شمارہ9،10،ص 29 ) 5.

 عبدالقادر حصاروی ساہیوال کا فتویٰ

خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری گائے کی(قربانی ) مسنون ہے اور بھینس بھینسا کی قربانی جائز اور مشروع ہے اور ناجائز لکھنے والے کا مسلک واضح نہیں ہے ۔

(اخبار الاعتصام ج26 شمارہ150 بحوالہ فتوی علمائے حدیث ج13 ص71 ) 6.

ابوعمر عبدالعزیز نورستانی کافتویٰ

مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر میری ناقص رائے میں ان علماء کا مؤقف درست اور صحیح ہے جو(بھینس کی قربانی کے)قائل ہیں۔

 (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ،از حافظ نعیم الحق ملتانی ص154) 7.

حافظ عبدالقہار نائب مفتی جماعت غرباء اہلحدیث کراچی کا فتویٰ

واضح ہو کہ شرعاً بھینس چوپایہ جانوروں میں سے ہے اور اس کی قربانی کرنا درست ہے ۔کیونکہ گائے کی جنس سے ہے گائے کی قربانی جائز ہے اس لیے بھینس کی قربانی جائز و درست ہے اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کا گوشت کے حلال ہونے کی بھی دلیل مشکوک ہو جائے گی۔

(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص156) 8.

حافظ احمداللہ فیصل آبادی کا فتویٰ

میری کئی سالوں کی تحقیق ہے کہ بھینسے کی قربانی جائز ہے لہٰذا میں آپ کے ساتھ بھینسے کی قربانی کرنے میں متفق ہوں۔

(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص159) 9.

:پروفیسر سعد مجتبیٰ السعیدی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

آخر میں لکھتے ہیں کہ لہٰذا گائے کی مانند بھینس کی قربانی بلا تردد جائز ہے

(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص18 ) 10.

:مولوی محمد رفیق الاثری پیش لفظ میں لکھتے ہیں

یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جاسکتی ہے یا نہیں ۔سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے ۔جبکہ ایسے مسئلہ میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص19

نوٹ : ۔ جن غیر مقلد وھابیوں نے بھینس کی قربانی کو جائز لکھا ہے ان کے ماننے والے موجودہ غیر مقلدین کےلیئیے سوچنے کی بات ہے فقیر ایک سوال کر رہا ہے کہ غیر مقلد علماء نے کس حیثیت سے بھینس کی قربانی جائز لکھی ہے ؟
ہے کوئ غیر مقلد وہابی جو اس فقیر کو دلیل سے جواب دے کر مطمئن کرے ؟

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...