۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کس طرح پروانہ وار موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبرکًا حاصل کرتے تھے اس حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَالْحَلَّاقُ يَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِيْ يَدِ رَجُلٍ.
’’میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے ان کی شدید خواہش تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب : قرب النبي صلي الله عليه وآله وسلم من الناس وتبرکهم به، 4 : 1812، رقم : 2325
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12386 - 12423
3. ابن کثير، البداية والنهاية، 5 : 189
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12386 - 12423
3. ابن کثير، البداية والنهاية، 5 : 189
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کو تبرکًا حاصل کیا بعد میں خصوصی اہتمام کے ساتھ انہیں محفوظ کیا اور نسلاً بعد نسلٍ اُمت میں موئے مبارک محفوظ چلے آ رہے ہیں۔
2۔ حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَرْسَلًنِي أَهْلِي إِلَي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ، وَقَبَضَ إِسْرَائِيْلُ ثَلَاثَ أَصَابِعَ مِنْ قُصَّةٍ فِيْهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيئٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ فَاطَّلَعْتُ فِي الْجُلْجُلِ فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.
’’مجھے میرے گھر والوں نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس (چاندی سے بنا ہوا) پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ حضرت اُم سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب اللباس، باب : ما يذکر في الثيب، 5 : 2210، رقم : 5557
2. ابن راهويه، المسند، 1 : 173، رقم : 145
3. ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 21
2. ابن راهويه، المسند، 1 : 173، رقم : 145
3. ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 21
حافظ ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
والمراد أنه کان من اشتکي أرسل إناء إلي أم سلمة فتجعل فيه تلک الشعرات وتغسلها فيه وتعيره فبشربه صاحب الإناء أو يغسل بهِ استشفاء بها فتحصل له برکتها.
’’اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ کوئی برتن حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں بھیجتا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں کو اس میں رکھ دیتیں اور اس میں بار بار دھوتیں پھر وہ بیمار شخص اپنے اس برتن سے پانی پیتا یا مرض کی شفاء کے لئے غسل کرتا اور اسے ان موئے مبارک کی برکت حاصل ہو جاتی (یعنی وہ شفایاب ہو جاتا)۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 10 : 353
علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں :
أنّ أم سلمة کان عندها شعرات من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم حمر في شئ مثل الجلجل وکان الناس عند مرضهم يتبرکون بها ويستشفون من برکتها.
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے تبرک حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے۔‘‘
عيني، عمدة القاري، 22 : 49
3۔ حضرت یحییٰ بن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
کان لنا جلجل من ذهب فکان الناس يغسلونه، وفيه شعر رسول اﷲ، قال : فتخرج منه شعرات قد غيرت بالحناء والکتم.
’’ہمارے پاس سونے کا ایک برتن (جلجل) تھا جس کو لوگ دھوتے تھے، اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک تھے۔ چند بال نکالے جاتے تھے جن کا رنگ حنا اور نیل سے بدل دیا گیا تھا۔‘‘
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 437
No comments:
Post a Comment