جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام قدم مبارک رکھ کر کعبہ تعمیر کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر نرم ہوگیا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَنّ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ إذَا مَشَي عَلَي الصَّخر غَاصَتْ قَدَمَاهُ فِيْهِ وَأَثرت.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔‘‘
1. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 482
2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 27، رقم : 9
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آکر اپنی اُونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه لَقَدْ رَأَيْتُهَا تسبق القَائِد.
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔‘‘
1. أبو عوانة، المسند، 3 : 45، رقم : 4145
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 235، رقم : 14132
3. حاکم، المستدرک، 2 : 193، رقم : 2729
3۔ غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کی برکت سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اُونٹ بھی تیز رفتار ہو گیا تھا۔ حدیث پاک میں ہے :
فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَ دَعَا لَهُ، فَسَارَ سَيْراً لَمْ يَسْرِمِثْلَهُ.
’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 299
2. مسلم، الصحيح، کتاب المساقاة، باب : بيع البعير واستثناء رکوبه، 3 : 1221، رقم : 715
3. نسائي، السنن، کتاب البيوع، باب : البيع يکون فيه الشرطُ فَيَصِحُّ البيعُ والشرطُ، 7 : 297، رقم : 4637
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا سے جو فائدہ ملتا اسے خاص الفاظ برکت کے ساتھ منسوب کرتے ہوئے کبھی بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذہنوں میں یہ بات نہ آتی تھی کہ برکت تو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ معاذ اللہ کہیں خلاف توحید نہیں بلکہ اپنے قول و عمل سے اس چیز کا برملا اظہار ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے فلاں فائدہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنے اس صحابی سے اونٹ کے بارے میں دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا :
بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ.
’’بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی برکت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب : استئْذان الرجل الإمام، 3 : 1083، رقم : 2805
2. مسلم، الصحيح، کتاب المساقاة، باب : بيع البعير واستثناء رکوبه، 3 : 1221، رقم : 715
3. أبو عوانه، المسند، 3 : 249، رقم : 4843
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا
فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا محترم قارئین کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو آگاہ فرمایا کہ اللہ کی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment