Saturday, 19 September 2015

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کا آثارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تبرک حاصل کرنے کا معمول

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کا آثارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تبرک حاصل کرنے کا معمول
ہر صحابیء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوشش ہوتی کہ ہر اس چیز سے نسبت جوڑی جائے جس کا کسی نہ کسی طرح آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق رہا ہو۔ ائمہِ حدیث نے اس حوالے سے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا ہے کہ وہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اداؤں کو اپناتے تھے۔ انہیں تو بس اتنی سی بات معلوم ہونے کی دیر ہوتی کہ یہ عمل پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے پھر وہ عمر بھر یہی عمل بار بار دھراتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ مقامِ ذو الحلیفہ میں بجریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھایا اور پھر نماز ادا کی۔ حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے بھی تبرکاً یہی دو عمل اپنا معمول بنا لیئے۔ چند روایات درجہ ذیل ہیں۔

1۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں :

أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَاخَ بِالْبَطْحَآءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَصَلّٰي بِهَا، قَالَ : وَکَانَ عَبْدُاﷲِ بْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يَفْعَلُ ذَلِکَ.

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی کنکریلی (بجریلی) زمین میں اپنا اونٹ بٹھایا اور وہاں نماز پڑھی حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عمر رضی اﷲ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب : استحباب نزول ببطحاء ذي الحليفة والصلاة بها. . . ، 2 : 981، رقم : 1347
2. أبوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب : زيارة القبور، 2 : 219، رقم : 2044

2۔ حضرت نافع سے صحیح مسلم کی دوسری روایت اس طرح مروی ہے :

کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يُنِيْخُ بِالْبَطْحَآءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ الَّتِي کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُنِيْخُ بِهَا وَيُصَلِّي بِهَا.

’’حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما ذوالحلیفہ کی اس کنکریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھاتے تھے جہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا اونٹ بٹھاتے تھے اور اسی جگہ نماز پڑھتے تھے (جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی تھی)۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب : استحباب نزول ببطحاء ذي الحليفة والصلاة بها. . . ، 2 : 981، رقم : 1347

امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

قال القاضي والنزول بالبطحاء بذي الحليفة في رجوع الحاج ليس من مناسک الحج وإنما فعله من فعله من أهل المدينة تبرّکاً بآثار النبي صلي الله عليه وآله وسلم ولأنها بطحاء مبارکة.

’’قاضی نے کہا حاجیوں کا ذوالحلیفہ پر ٹھہرنا مناسکِ حج میں سے نہیں یہ بعض اہلِ مدینہ کا عمل ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارک سے تبرک حاصل کرتے ہوئے کیا کیونکہ یہ مبارک وادی ہے۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 9 : 114

3۔ حضرت محمد بن عمران انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا :

عَدَلَ إِلَيَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَمَرَ وَأَنَا نَازِلٌ تَحْتَ سَرْحَةٍ بِطَرِيْقِ مَکَّةَ فَقَالَ : مَا أَنْزَلَکَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَقُلْةُ أَنْزَلَنِي ظِلُّهَا قَالَ عَبْدُاﷲِ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِذَا کُنْتَ بَيْنَ الْأَخْشَبَيْنِ مِنْ مِنًي وَنَفَخَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَإِنَّ هُنَاکَ وَادِيًا يُقَالُ لَه السُّرَّبَةُ وَفِي حَدِيْثِ الْحَارِثِ يُقَالُ لَهُ السُّرَرُ بِهِ سَرْحَةٌ سُرَّ تَحْتَهَا سَبْعُوْنَ نَبِيًّا.

’’میں مکۃ المکرمہ کے راستے میں ایک بڑے درخت کے نیچے ٹھہر گیا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر مجھ سے مخاطب ہوئے آپ نے دریافت فرمایا آپ اس درخت کے نیچے کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس کے سایہ کی وجہ سے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب آپ منیٰ کے ان دو پہاڑوں کے درمیان ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا تو وہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی ہے جس کو سُرَّبَہ یا سُرَرْ کہتے ہیں وہاں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر انبیاء علیہم السلام کی ناف کاٹی گئی (یعنی وہاں ان کی ولادت باسعادت ہوئی)۔‘‘

1. نسائي، السنن، کتاب مناسب الحج، باب : ما ذکر في مني، 5 : 248، رقم : 2995
2. مالک، الموطأ، 1 : 423، رقم : 949
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 138، رقم : 6232

1۔ اس حدیث کے تحت ابنِ عبدالبر نے شرح مؤطا التمہید میں لکھا ہے :

وفي هذا الحديث دليل علي التّبرّک بمواضع الأنبياء والصّالحين ومقامهم ومساکنهم.

’’اس حدیث میں انبیاء اور صالحین کے رہنے والی جگہوں، مقامات اور ان کی رہائش گاہوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

ابن عبدالبر، التمهيد، 13 : 66

2۔ اسی طرح شارحِ مؤطا محمد بن عبدالباقی بن یوسف الزرقانی (م 1122ھ) نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے :

وفيه التّبرّک بمواضع النبيّين.

’’پس اس حدیث میں انبیاء کے قیام گاہوں سے تبرک کا ثبوت بھی ہے۔‘‘

زرقاني، شرح الزرقاني، 2 : 530

3۔ امام سیوطی نے نسائی کی شرح میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے :

يعني أنهم ولدوا تحتها فهو يصف برکتها.

’’اس سے مراد یہ ہے کہ اس درخت کے نیچے انبیاء کی ولادتِ مبارکہ ہوئی پس انہوں نے اس درخت کی برکت کو بیان کیا۔‘‘

سيوطي، شرح السيوطي، 5 : 249

4۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں :

رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاﷲِ يَتَحَرَّي أَمَاکِنَ مِنَ الطَّرِيْقِ فَيُصَلِّي فِيْهَا وَيُحَدِّثُ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يُصَلِّي فِيْهَا وَأنَّهٌ رَأَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي فِي تِلْکَ الْأَمْکِنَةِ.

’’میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ (حرمین کے) راستے میں کچھ جگہوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہاں نماز پڑھا کرتے تھے اور وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ان کے والدِ گرامی (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما) ان مقامات میں نمازیں پڑھا کرتے تھے اور انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان مقامات پر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة، باب : المساجد التي علي طرق المدينة والمواضع التي صلي فيها النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 183، رقم : 469

اس روایت میں اماکنِ مقدسہ سے تبرک کا ثبوت ہے۔ شارحِ صحیح بخاری حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

ومحصل ذلک أن ابن عمر کان يتبرّک بتلک الأماکن.

’’اس روایت کا ماحصل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمران اماکنِ مقدسہ سے تبرک حاصل کرتے تھے۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 1 : 569

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...