Monday 14 September 2015

شیعہ مذہب کاتعارف مستند حوالہ جات کی روشنی میں حصّہ چہارم


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مسئلہ خلافت میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ

خلافت راشدہ کا زمانہ حضرت محمدﷺ کی پیش گوئی کے مطابق تیس سال ہے اور اﷲ تعالیٰ نے حسب وعدہ اس عرصہ میں خلفائے راشدین کے مراتب کے اعتبار سے مسند خلافت پر فائز فرمایا۔ نیز آیت ’’استخلاف‘‘ جو رب العزت نے وعدے فرمائے تھے، وہ سب اس مدت میں پورے فرمادیئے۔ امامت، خلافت سے کوئی الگ چیز نہیں ہے اور امامت ’’اصول دین‘‘ میں سے نہیں ہے۔

مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا عقیدہ

نبی کریمﷺ کے رحلت شریفہ کے بعد حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہ خلیفہ بلا فصل تھے اور ان کی خلافت منصوص من اﷲ تھی۔ خلفائے ثلاثہ نے اسے جبراً چھینے رکھا۔

اس لئے ان تینوں کا زمانہ جو روصفا کا زمانہ تھا، عدل و احسان کا وہی دور تھا جس میں حضرت علی کرم اﷲ تعالی وجہ مسند خلافت پر فائز رہے۔ امامت اور چیز ہے اور خلافت اس سے علیحدہ منصب ہے کیونکہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔ اور خلافت کے منصب پر متمکن ہونے والے کے لئے عصمت کوئی شرط نہیں۔

(خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلائل)

(خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو برحق نہ سمجھنے والا حضرت علی کے نزدیک لعنتی ہے)

قال امیر المومنین و من لوقل انی رابع الخلفآء فعلیہ لعنۃ اﷲ

(مناقب علامہ ابن شہر آشوب سوم، 63)

ترجمہ ’’حضرت امیر المومنین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جو مجھے ’’رابع الخلفائ‘‘ نہ کہے اس پر لعنت ہے۔

وضاحت:

حضرت علی کرم اﷲ وجہ نے اپنے اس کلام میں صاف صاف فیصلہ فرمایا کہ میں چوتھے نمبر پر خلیفہ ہوں اور جس کویہ عقیدہ معلوم نہ ہو اس پر اﷲ کی پھٹکار ہو، حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس قول سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:

1: آپ کو خلیفہ بلافصل کہنا باطل ہے اور ایسا کہنے والے پر لعنت ہے۔

2: آپ خلفائے اربعہ میں سے چوتھے نمبر پر خلیفہ ہیں اور یہی عقیدہ ضروری بھی ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس کلام پر عمل کرنا اور اسے درست تسلیم کرنا اس وقت تک محال ہوگا جب تک خلیفہ ’’بلافصل‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو نہ مانا جائے۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ اور تیسرے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو تسلیم نہ کرلیا جائے۔ ان تینوں کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت کو مانا جائے ورنہ اس کے بغیر ’’اﷲ کی لعنت‘‘ سے بقول حضرت علی رضی اﷲ عنہ بچنا محال ہوجائے گا۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے

 اﷲ تعالیٰ کا انکار

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت بلافصل کا ایک سو بیس مرتبہ حکم آسمان پر اور تین دفعہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر اگر بزعم اہل تشیع درست تسلیم کرلیا جائے اور بقول ان کے آخری مرتبہ

فان لم تفعل فما بلغت رسالۃ

کے تو بیخانہ انداز سے حضورﷺ کو اس کے اعلان پرزور دیا گیا ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ سب دعاوی درست ہے تو ’’فرات بن ابراہیم اسکوفی‘‘ نے حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ کے حوالے سے اپنی تفسیر ’’رات اسکوفی‘‘ میں یہ الفاظ کیوں اور کس وجہ سے تحریر کئے جاتے ہیں۔

فرات

حدثنی جعفر بن محمدن الفزاری محنحنا عن جابر قال قرأت عن ابی جعفر علیہ السلام لیس لک من الامر شیٔ قال فقال ابو جعفر بلی واﷲ لقد کان لہ من الامر شی فقتلہ جعلت فداک فما تاویل قولہ لیس لک من الامر شی ء قال ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرص ان یکون الامر لا امیر المومنین (ع) من بعدہ فابی اﷲ ثم قال کیف لایخون لرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم من الامرشی ء وقد فوض الیہ فما احل کان حلالاً الا الیوم القیامۃ وما حرم کان حراماً الی یوم القیٰمۃ

(تفسیر قرات اسکوفی مطبوعہ صدریہ نجف اشرف ص 19)

جعفر ابن محمد فزاری حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں اور حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ کے سامنے ’’لیس لک من المامر شیئ‘‘ آیت کا حصہ تلاوت کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں (اے پیغمبر) کسی معاملہ کا قطعاً کوئی اختیار نہیں (چونکہ اس آیت کے حصے میں حضورﷺ کے اختیار کی عام اور مطلق نفی ہے حالانکہ آپ مختار ہیں) تو اس پر جناب امام باقر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ ہاں! خدا کی قسم نبی کریمﷺ کو اختیار تھا۔ امام موصوف کے کہنے کے بعد میں نے عرض کی۔ آپ پر اے امام میرے ماں باپ قربان (اگر آپ کا فرمانا درست ہے) تو اﷲ کے اس ارشاد کا کیا مفہوم ہے ’’لیس لک من الامر شی ئ‘‘ اور اس کی کیا تاویل ہوگی، حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ حضورﷺ اس امر کے شدید متمنی ہیں کہ اﷲ  تعالیٰ حضرت علی المرتضیٰ کے لئے ’’خلافت بلافصل‘‘ کا حکم عطا فرمائے لیکن اﷲ نے اس خواہش کو پورا کرنے سے انکار فرمادیا۔ پھر امام موصوف نے فرمایا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ رسولﷺ کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہ ہو۔ حالانکہ اﷲ نے آپ کو اس کی تفویض فرمادی تو اﷲ کی تفویض کی وجہ سے جس کو آپ نے حلال فرمایا۔ وہ قیامت تک حلال ہوئی اور جس کی حرمت فرمادی وہ تاقیامت حرام ہوئی۔

توضیح

اس روایت میں اہل بیت کے سردار جناب حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ نے فیصلہ ہی کردیا کہ نبیﷺ کے اﷲ رب العزت سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی ’’خلافت بلافصل‘‘ کا سوال تو کیا تھا لیکن اﷲ نے اس کا انکار کردیا۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے

نبی پاکﷺ کا انکار

’’شیخ مفید‘‘ اپنی مشہور اور معتبر کتاب ’’ارشاد شیخ‘‘ میں حدیث قرطاس کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں۔

الارشاد

فنہضوا وبقی عندہ العباس والفضل بن عباس و علی بن ابی طالب واہل بیتہ خاصۃ فقال لہ العباس یارسول اﷲ ان یکن ہذہ الامر فنا مستقراً من بعدہ فبشرنا وان کنت تعلم انا نغلب علیہ فاقض بنا فقال انتم المسضعفون من بعدی واصمت فتھض القوم وہم یبکون قد یلئسومن النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ

1۔ الارشاد الشیخ المفید ص 99 باب فی طلب رسول اﷲ بداوۃ وکتف

2۔ اعلام الوریٰ مصنفہ ابی الفضل ابی الحسن الطبرسی ص 142 بالفاظ مختلفہ

3۔ تہذیب المتین فی تاریخ امیر المومنین مطبوعہ یوسی دہلی جلد اول ص 236

ترجمہ:

(قلم دوات لانے کے متعلق جب صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا تو نبی پاکﷺ نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا) جب سب اٹھ کر چلے گئے وہاں باقی ماندہ اشخاص میں حضرت عباس، فضل بن عباس، علی بن ابی طالب اور صرف اہل بیت تھے۔ تو حضرت عباس نے عرض کی یارسول اﷲ! اگر امر خلافت ہم بنی ہاشم میں ہی مستقل طور پر رہے تو پھر اس کی بشارت دیجئے اور اگر آپ کے علم میں ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں گے تو ہمارے حق میں فیصلہ فرمادیجئے۔ اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ میرے بعد تمہیں بے بس کردیا جائے گا۔ بس اسی قدر الفاظ فرما کر سکوت فرمالیا۔ اورحالت یہ تھی کہ جناب عباس، علی ابن طالب اور دیگر موجود اہل بیت رو رہے تھے اور روتے روتے آپﷺ سے ناامید ہوکر اٹھ گئے۔

مذکورہ حدیث میں اس بات کی بالکل وضاحت ہے کہ حضورﷺ نے زندگی کے آخری وقت تک کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرمایا تھا۔ اگر حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ ’’خم غدیر‘‘ کے مقام پر ہوچکا ہوتا اور وہ بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے تو قلم دوات لانے پر اختلاف لانے کے موقع پر حضرت عباس کی گزارش مذکورہ الفاظ کی بجائے یوں ہونی چاہئے تھی۔ ’’یارسول اﷲﷺ اگر خلافت علی رضی اﷲ عنہ (جیسا کہ آپ خم غدیر پر فیصلہ فرما چکے ہیں) قائم و دائم رہے گی تو ہمیں خوشخبری سنا دیجئے۔

واذا سری النبی الی بعض ازواجہ حدیثا

جب نبیﷺ نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز کی بات کی۔

اس کی تفسیر میں ’’صاحب تفسیر صافی‘‘ اور صاحب تفسیر قمی نے اس کا سبب نزول یوں لکھا ہے کہ:

نبی پاکﷺ جس دن سیدہ حفصہ کی باری تھی، ان کے گھر اس وقت وہاں ’’ماریہ قبطیہ‘‘ بھی موجود تھیں۔ اتفاقاًسیدہ حفصہ کسی کام سے باہر گئیں تو حضور پاکﷺ نے ’’ماریہ قبطیہ‘‘ سے صحبت فرمائی۔ تو جب سیدہ حفصہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ناراضگی فرماتے ہوئے آپﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یارسول اﷲﷺ آپ کے میرے گھر میں اور پھر میری باری میں ماریہ قبطیہ سے صحبت کیوں فرمائی۔ اس کے جواب میں حضورﷺ نے سیدہ حفصہ کو راضی کرنے کے لئے یہ فرمایا۔ ایک تو میں نے ماریہ قبطیہ کو اپنے نفس پر حرام کیا اور آئندہ اس سے کبھی صحبت نہیں کروں گا اور دوسرا میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ سیدہ حفصہ نے  عرض کی ٹھیک ہے۔

فقال انی ابابکر یلی الخلافۃ بعدی ثمہ بعدہ ابوی فقالت من انبای ہذا قال نبانی العلیم الخبیر

ترجمہ: (راز کی بات ارشاد فرماتے ہوئے) آپﷺ نے فرمایا: میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے۔ پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ حضورﷺ یہ خبر آپ کو کس نے دی؟ آپﷺ نے فرمایا مجھے اﷲ علیم وخبیر نے خبر دی (تفسیر صافی ص 714، تفسیر قمی ص 457، سورہ تحریم)

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت بلافصل ثابت کرنے کی دھن میں توہین رسول علیہ السلام

شیعہ حضرات کو تو اپنا مقصد بیان کرنا ہے۔ خواہ اس کے لئے من گھڑت روایات، غلط استدلال اور لچر تاویلات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔ اس اندھے پن میں اپنا الو سیدھا کرتے ہوئے انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ ہمارے اس طرز استدلال سے انبیاء کرام اور خصوصا نبی کی شان اقدس پر کیا کیا اتہام و بتہان اور الزام تراشی کی جارہی ہے۔ اگر اعتبار نہ آئے تو ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔

اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے۔

لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکوتن من الخٰسرین

ترجمہ : ’’بفرض محال آپﷺ نے شرک کیا تو یقینا آپ کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ لازما خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اس آیتہ کی تفسیر میں ’’صاحب تفسیر قمی اور صاحب تفسیر صافی‘‘ یوں گویا ہیں۔

تفسیر صافی و تفسیر قمی

عن الباقر علیہ السلام انہ سئل عن ہذہ المایۃ فقال تفسیر ہالمان امرت بولمایۃ احدح ولایۃ علی السلام من بعدی لیحبطن عملک ولتکوتن من الخٰسرین

ترجمہ: ’’حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ (لئن اشرکت) کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کی تفسیریہ ہے کہ آپ نے اگر اپنی وفات کے بعد حضرت علی کی خلافت کے ساتھ کسی اور کو اس امر میں شریک کار کیا تو اس جرم کی پاداش میں آپ کے تمام اعمال حسنہ ضائع ہوجائیں گے اور نتیجتاً آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

شیعوں کی خبر متواتر، عقل و نقل سے باطل

سید ابن طائوس و ابن شہر آشوب و دیگر ان روایت کردہ اندر کہ عامر بن طفیل و ازید بن قیس بقصد قتل آنحضرت آمدند، چوں داخل مسجد شدید، عامر بزدیک آنحضرت آمدند گفت، یامحمد، اگر من مسلمان شوم، برائے من چہ خوابدبو، حضرت فرمودکہ برائے تو خواہد بود آنچہ برائے ہمہ مسلمانان ہست، گفت میخو اہم بعد از خودمرا خلیفہ گردانی، حضرت فرمود، اختیار ایں امر بدست خدا است و بدعت من تونیست

(حیاۃ القلوب، ج 2، ص 72، 44 باب بستم بیان معجزات کفایت از شردشمنان مطبوعہ نامیع نولکشود)

ترجمہ ’’سید ابن طائوس ابن شہر آشوب اور دیگر حضرات نے روایت کیا کہ عامر بن طفیل اور ازید بن قیس جب حضورﷺ کے قتل کرنے کی نیت سے آئے اور مسجد میں داخل ہوئے تو ’’عامر بن طفیل‘‘ آپ کے نزدیک گیا اور کہا: یامحمد اگر میں مسلمان ہوجائوں تو میرے لئے کیا انعام ہوگا اور مجھے اس سے کیا فائدہ ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا تمہیں بھی وہی ملے گا جو تمام مسلمانوں کو ملتا ہے۔ (یعنی تمہارا فائدہ اور نقصان سب کے ساتھ مشترکہ ہوگا۔ اس نے کہا میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ بنادیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا۔ یہ تو اﷲ کے اختیار میں ہے مجھے اور تجھے اس میں کوئی دخل نہیں۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت کو اپنے پر لازم قرار دیا

الدلیل عندی عزیز حتی اخذ الحق لہ والقوی عندی ضعف حتی اخذا الحق منہ رضینا عن اﷲ فضاء ہ و سلمنا ﷲ امرہ التدا فی اکذب علی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم واﷲ لمانا اول من صدقہ فلا اکون اول من کذب علیہ فنظرت فی ابدی فاذا طباعتی قد سبقت بیعنی واذا لمیثاق فی عنقی لغیری

ترجمہ: ہر ذلیل میرے نزدیک باعزت ہے۔ جب تک اس کا دوسرے سے حق نہ لے لوں اور قوی میرے لئے کمزور ہے۔ یہاں تک کہ میں مستحق کا حق اسے دلادوں۔ ہم اﷲ کی قضا پر راضی ہوئے اور اس کے امر کو اسی کے سپرد کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نبیﷺ پر بہتان باندھوں گا۔ خدا کی قسم! میں نے ہی سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلا جھٹلانے والا ہوں۔ میں نے اپنا معاملہ میں غوروفکر کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا ابوبکر کی اطاعت کرنا اور ان کی بیعت میں داخل ہونا اپنے لئے بیعت لینے سے بہتر ہے اور میری گردن میں غیر کی بیعت کرنے کا عہد بندھا ہوا ہے۔ اس روایات کے کچھ الفاظ کی ’’ابن میثم‘‘ اس طرح شرح کرتا ہے۔

شرح ابن میثم: فقولہ فنظرت فاز طاعتی قد سبقت بیعتی ای طاعتی لرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فیما امرنی بہ من ترک القتال قد سبقت بیعتی للقوم فلا سبیل اﷲ الی المامتناع منہا وقولہ واذا المیثاق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وعہدہ الی بعدم المشاقہ وقیل المیثاق مالزمہ من بیعۃ ابی بکر بعد ابقائھا ای فاذ میثاق القوم قد لذہنی فلم یمکنی المخالفۃ بعدہ

’’پس میں نے غور وفکر کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرا اطاعت کرنا بیعت لینے سے سبقت لے گیا یعنی حضورﷺ نے مجھے جو ترک قتال کا حکم لیا تھا وہ اس بات پر سبقت لے گیا ہے کہ میں قوم سے بیعت لوں… فاذا المیثاق فی عنقی لغیری سے مراد سے رسولﷺ کا مجھ سے عہد لینا مجھے اس کا پابند رہنا لازم ہے۔ جب لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت لے لیں تو میں بھی بیعت کرلوں۔ پس جب قوم کا وعدہ مجھ پر لازم ہوا یعنی ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت مجھ پر لازم ہوئی تو اس کے بعد میرے لئے ناممکن تھا کہ میں اس کی مخالفت کرتا۔

مذکورہ خطبہ اور اس کی شرح سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے۔

1: حضرت علی کرم اﷲ وجہ کے اپنے فرمان کے مطابق آپ کے نزدیک قوی اور ضعیف برابر تھے۔ کیونکہ آپ ہر قوی سے قوی ہیں اس لئے آپ ہر کمزور کو حق دلا سکتے ہیں۔

2: جب اﷲ نے متقضائے کے مطابق صدیق اکبر کی خلافت کا فیصلہ کردیا تو ہم نے اسے تسلیم کرتے ہوئے اسے اﷲ کے سپرد کیا۔

3: جب ایمان لانے میں مجھے اولیت حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے میں (تقیہ کی آڑ لے کر) حضورﷺ پر جھوٹ بولوں۔

4: حضورﷺ کا حکم تھا کہ میرے بعد مسئلہ خلافت میں کسی سے لڑائی نہ کرنا

5: مسئلہ خلافت پر غوروفکر سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرے لئے ابوبکر صدیق کی بیعت کرلینا اپنی بیعت لینے سے زیادہ راجح ہے۔

6: میری گردن میں حضورﷺ کا یہ عہد بندھا ہوا ہے کہ جب لوگ ابوبکر صدیق کی بیعت کرلیں تو میں بھی بیعت کرلوں۔

ان تمام امور بالا سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کسی طرح بھی حضرت ابوبکر صدیق سے اعراض نہ کرسکے تھے کیونکہ اﷲ کی رضا اس کے محبوبﷺ کا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے عہد اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا فیصلہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے خلیفہ برحق ہونے کا بین ثبوت ہیں تو اس امر بیعت کو حضرت علی کرم اﷲ وجہ اس قدر اہم سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے اتنی جلدی کہ پورا لباس بھی زیب تن نہ کرسکے، صاحب روضۃ الصفاء نے اس کو یوں نقل کیا ہے۔

روضۃ الصفائ: امیر المومنین علی چوں استماع نمود کہ مسلماناں پر بیعت ابوبکر اتفاق نمودند بتعجیل ازفاتہ بیروں آمد چنانچہ ہیچ وربرنداشت بغیر ازپیرہن نہ ازا رونہ راہچناں نزد صدیق رفتہ ہاد بیعت نمود بعد ازاں فرستا ندتدہ جامعہ بمجلس آورند۔ ودربعفی روایات و اردشدہ کہ ابو سفیان پیش از بیعت یاامیر المومنین علی گفت کہ تو راضی مشوی کہ شخصی از نہی تمیم متصد ٹی کاری حکومتشود بخدا سو گند کہ اگر تو خواسی ایں وادی پراز سوارو پیادہ گردانم علی گفت اے ابو عفیان تو ہمیشہ ورہام جاہلیت فتنہ می انگیختی ومالا نیزمی خواہما کہ فتنہ در اسلام ابوبکر راسائستہ امیں کارمیداتم

ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جب سنا کہ تمام مسلمانوں نے ابوبکر صدیق کی بیعت پر اتفاق کرلیا ہے تو اس قدر جلدی در دولت سے باہر تشریف لائے کہ چادر اور تہبند بھی نہ اوڑھ سکے صرف پیرہن میں ملبوستھے۔ اس حالت میں ابوبکر صدیق کے ہاں پہنچے اور بیعت کی بیعت سے فراغت کے بعد چند آدمی کپڑے لینے کے لئے بھیجے تاکہ مجلس میں کپڑے لے آئیں بعض روایات میں اس قدر مذکور ہے کہ ابو سفیان نے بیعت سے قبل حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ اے علی! کیا تو بنو تمیم کے ایک آدمی کو حکومت کا والی بنانے پر راضی ہوگیا ہے۔ اﷲ کی قسم! اگر تم چاہو تو میں اس کی وادی کو سنواروں اور پیادوں سے بھردوں۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا اے ابو سفیان! دور جاہلیت میں بھی فتنہ پرداز رہا ہے۔ اور اب بھی چاہتا ہے کہ اسلام میں فتنہ بپا کردے۔ میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اس کاروبار حکومت کے لئے نہایت اچھا آدمی سمجھتا ہوں۔

نوٹ: واذا المیثاق فی عنقی لغیری … جملہ کی تشریح ’’ابن میثم‘‘ اور اس کے بعد ’’روضۃ الصفا‘‘ سے آپ پڑھ چکے ہیں ان دونوں شیعوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس جملہ کی جو شرح کی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ بخوشی اور بسرعت حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے لئے چل پڑے۔ کوئی مجبور نہ تھے اور نہ زبردستی بیعت کرنے پر ان کو آمادہ کیا گیا۔ اگر خوشی و رضا نہ تھی تو ابو سفیان کی خواہش بڑی برمحل تھی۔ اسے نہ ٹھکراتے خود بھی قوی تھے اور ابو سفیان کی طرف سے سواروں اور پیادوں سے میدان بھر دینا ایسے میں مجبوری کب ٹھہر سکتی ہے۔ کتنے بے وقوف وہ لوگ ہیں جو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی اس بیعت کو ’’بیعت مکرہ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے نزدیک شیخین عادل اور برحق خلیفہ تھے اور ان کے وصال سے اسلام کو سخت نقصان

واقعہ صفین: ثم قال اما بعد فان اﷲ بعث النبی صلی اﷲ علیہ وسلم علیہ وآلہ فانقذ بہ من الضلالۃ والغش بہ من لہلکیۃ وجمع بہ بعد الفرقۃ ثم قبضۃ اﷲ علیہ وقد ادی ماعلیہ ثم استخلف الناس ابا بکر عمرو واحنا التیرۃ وعدلمافی للامۃ وقد وجدنا علیہا ان تولیا الامر دوننا ونحن ال الرسول واحقق بالامر فخفرنا فاذا الک لہما

اس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے لکھا ہے کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضورﷺ کو بھیج کر لوگوں کو گمراہی اور ہلاکت سے آپ کی وجہ سے بچایا اور منتشرلوگوں کو آپ کی بدولت جمع کیا۔ پھر آپ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ آپ نے اپنی ذمہ داری کا صحیح بنا فرمایا۔ پھر لوگوں نے آپ کے بعد ابوبکر خلیفہ بنایا اور انہوں نے لوگوں میں خوب انصاف کیا اور ہمیں افسوس تھا کہ ہم آل رسولﷺ کے ہوئے وہ امر خلافت کے بانی بن گئے حالانکہ اسے ہم زیادہ حقدار تھے سو ہم نے انہیں معاف کردیا کیونکہ عدل وانصاف اور اچھی سیرت کے حامل تھے۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی طرف خط لکھا

انہ بایعنی القوم الذی بایعوا ابابکر وعمر و عثمان علی مابایعوھم علیہ فلم یکن للشاہد ان یختار ولا للقائب ان یردو النماالشوری

للمہاجرین والانصار فان اجتمعوا علی رجل وسموہ اما کا کان ذلک ﷲ رضی فان خرج عن امربہم خارج بطعن اور بدعۃ ردوۃ الی فخرج منہ فان ابی قاتلوہ علی اتباعہ غیرسبیل المومنین ولاہ اﷲ فاتونی

(نہج البلاغہ خط نمبر 6 ص 366)

خلاصہ کلام: حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی طرف خط لکھا اور فرمایا:

بات یہ ہے کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی کی تھی اور مقصد بیعت بھی وہی تھا جو ان سے تھا لہذا موجودہ حضرات میں سے کسی کو علیحدگی کا اختیار نہیں اور نہ غائب لوگوں کو اس کی تردید کی اجازت ہے۔ مشورہ مہاجرین اور انصار کو ہی شایان شان ہے تو اگر یہ سب کسی شخص کے خلیفہ بنانے پر متفق ہوجائیں تو یہ اﷲ کی رضا ہوگی اور اگر ان کے حکم سے کسی نے بوجہ طعن یا بدعت کے خروج کیا تو اسے واپس لوٹا دو اور اگر واپسی سے انکار کردے تو اس سے قتال کرو کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کے اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانے والا ہے اور اﷲ نے اسے متوجہ کردیا جدھر وہ خود جاتا ہے۔

توضیح درج ذیل ثابت ہوئے۔

1۔ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی بیعت کی تھی۔ ان ہی لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کی۔

2۔ ان تمام کا کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلینا اتنا اہم ہے کہ اس کے بعد حاضرین یا نائبین لوگوں میں سے کسی کو اس کے خلاف اختیار نہیں رہ جاتا۔

3۔ شوریٰ کا استحقاق صرف مہاجرین و انصار کو ہے۔

4۔ مہاجرین و انصار کا باہمی مشورہ سے کسی کو امام یا خلیفہ پسند کرلینا دراصل خوشنودی خدا ہوتا ہے۔

5۔ ان کے متفقہ طور پر کسی کو منتخب کرلینے کے بعد اگر کوئی بوجہ طعن بیعت نہ کرنے کی کوشش کرے تو اسے زبردستی واپس لایا جائے اور اگر انکار کردے تو اسے قتل کیا جائے۔ کیونکہ وہ اس طرح جمیع مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتا ہے۔

اگر مرض باقی ہے تو ایک خوراک اور

شارح ابن میثم شیعہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے خطبے کی علم منطق کے ذریعے خلافت حقہ کے لئے جو ترتیب دی ہے اس کا خلاصہ:

صغریٰ: میری بیعت ان لوگوں نے کی جنہوں نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی تھی۔

کبریٰ: جس آدمی کی بیعت وہی لوگ بیعت کرلیں تو اس کے بعد کسی غائب یا حاضر کو بیعت نہ کرنے یا اس کے رد کا اختیار نہیں۔

نتیجہ: چونکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی بیعت بھی انہی لوگوں نے کرلی ہے لہذا کسی کو اس کے رد کا اختیار نہیں۔

شرح ابن میثم جلد نمبر 4 ص 353:

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس خط میں انما الشوریٰ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے۔

وحصر للشوری والاجماع فی المہاجرین والانصار یدنھم اہل الحل والعقد من امۃ محمدﷺ الفقت کلمتھم علی حکم الاحکام کاجماعتھم علی بیعتہ وتسمیتہ اماماً کان ذلک اجماعاً حقاً ہو رضی اﷲ عی مرضی لہ و سبیل المومنین الذی یجب اتباعہ

ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے شوری کو صرف مہاجرین اور انصار کے لئے مخصوص فرمایا کیونکہ حضورﷺ کی امت کے اہل حل و عقد و ارباب بست و کشادہ وہی ہیں اور جب وہ کسی معاملہ پر متفق ہوجائیں جس طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی امامت و بصیرت پر متفق ہوئے تو ان کا یہ اجماع و اتفاق حق ہوگا اور وہ اجماع اﷲ کا پسندیدہ ہوگا اور مومنین کا ایسا راستہ ہوگا جس کی اتباع واجب ہے۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے حب داروں کو دعوت فکر

اجماع حقہ وہی ہے جو مہاجرین و انصار کا ہو، یہ دونوں غزوہ بدر اور بیت رضوان میں شامل تھے، ان کے متعلق آپﷺ نے جنتی ہونے کی خوشخبری فرمائی۔

ان کا اجماع اﷲ کا پسندیدہ ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اجماع جنتیوں کا اجماع ہے۔ معلوم ہوا کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت حق تھی۔

شیعہ حضرات کو چاہئے کہ باطل اور جہل مرکب عقیدے سے تائب ہوکر مسلک حق اہلسنت والجماعت میں شامل ہوجائیں۔

خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل نہم

کتب شیعہ میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت بغیر جبر و اکراہ کے بطریق رضا کی ہے جیسا کہ شیعوں کے امام الاکبر محمد الحسینی آل کاشف الفطا نے اپنی مشہور کتاب اصل الشیعہ واصولہا میں اس طرح تصدیق اور توثیق کی ہے۔

اصل الشیعہ و اصولہا

وحین دایٰ ان المتخلفین اعنی الخلیفۃ الاول والثانی بذلا اقصیٰ الجہد فی نشہ کلمۃ التوحید وتجہیز الجنود وتوضیح الفتوح ولم یستاتدوا ولم یستبدوا ابیع وسالم و اغضی عمایداہ حقاً لہ محامحافظۃ علی الاسلام ان تصدع وحدتہ وتتفدق کلمتہ ویعود الناس الی جاہلیتھم الاولیٰ وبقی شیعتہ منفسدین تحت جناحہ ومستنیدین بمصابحہ ولم یکن للشیعۃ والتشیع یومئذ مجال للظہور لان الاسلام سحان یجدی علی منہ ہجرہ القویمۃ حتی اذ تمیذا الحق من الباطل وتبین الرشد من الغنی وامتنع معاویۃ عن الییعۃ لکلی وحادبہ فی (صیفین) انفم بقیۃ الصحابۃ الی علی حتی الحثدھم تحت رایتہ وکان معہ من عظماء اصحٰب النبی ثمانون بعلا کلہم بدری عقبی لحصمار بن یاسدوخذیمۃ ذی الشہادتین وابی ایوب الانصاری ونظر ائھم ثم نما قتل علی علیہ السلام وائتقبا الامہ لمکاویۃ وانقضی دور الخلفآء الدشدین ساد مکاویۃ بسیدۃ الجبا برۃ فی المسلمین

(اصل الشیعہ واصولہا صفحہ 115 تذکرہ صرف القوم الخلافتہ عن علی مطبوعہ قاہرہ طبع جدید)

ترجمہ: جب دیکھا حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے کلمہ توحید کی نشرواشاعت میں اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کو کسی معاملے میں ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کرلی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ کیونکہ اس میں اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت تھی تاکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں اور باقی شیعہ کمزوری کی وجہ سے آپ کے زیر دست رہے۔ آپ کے چراغ سے روشنی حاصل کرتے رہے  اور شیعہ اور ان کے مذہب کے لئے ان ایام میں ظہور کی مجال نہیں تھی۔ کیونکہ اسلام مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی اور معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی بیعت سے انکار کیا اور صفینمیں ان سے جنگ کی تو اس وقت جتنے صحابہ کرام موجود تھے انہوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ساتھ دیا حتی کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے جھنڈے کے نیچے اکثر صحابہ کرام شہید ہوئے اور آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرام میں سے 80 وہی صحابہ تھے جو کل کے کل بدری تھے۔ مثلاً عمار یاسر اور حضرت خزیمہ جن کی شہادت دو شہادتوں کے برابر تھی اور ایوب انصاری اور اسی مدینے کے اور صحابہ اور پھر جب حضرت علی شہید ہوئے اور امرِ خلافت امیر معاویہ کی طرف لوٹا تو اس کے ساتھ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا اور امیر معاویہ نے مسلمانوں میں جبارین دین کی سیرت کو اپنایا۔

مذکورہ عبارت سے مندرجہ ذیل امور صراحتاً ثابت ہوئے

1: حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا مقصود خلافت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ کلمہ توحید کی نشرواشاعت اور لشکروں کی تیاری کے ساتھ فتوحات میں توسیع دینا تھا۔ اسی لئے جب انہوں نے دیکھا کہ جو اسلام کے مقاصد تھے وہ سب کے سب شیخین نے پور کردیئے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے رضامندی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کرلی۔

2: شیخین کے زمانہ میں شیعہ اور ان کے مذہب کا اس لئے ظہور نہیں ہوا کہ اسلام اپنے صحیح اور مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک کہ حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی۔

3: جنگ صفین کے زمانہ تک بدری صحابی موجود تھے جو 80 کی تعداد میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے لشکر میں شامل ہوئے۔

4: خلفاء ثلاثہ خلفاء راشدین تھے نہ کہ ظالم فاسق اور فاجر

5: نبی پاکﷺ کے وصال پر صحابہ کرام کے ارتداد کا مسئلہ (معاذ اﷲ) شیعہ حضرات کا خود ساختہ ہے کیونکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے زمانہ تک بدری صحابہ موجود ہے جوکہ قطعی جنتی تھی اور جوکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے لشکر میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلیل دہم

فرمان علی رضی اﷲ عنہ: اﷲ تعالیٰ نے نبی پاکﷺ کے بعد لوگوں کے لئے بہترین شخص کا انتخاب فرمایا۔

ان فی الخبر المدوی عن امیرالمومنین علیہ السلام لماقیل لہ الا توصی فقال مااوصیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاوصی ولٰکن ان اراد اﷲ بالناس خید استجمعھم علی خیرہم کما جمعہم بعد نبیہم علی خیرہم قتضمن لما یکاد یعلم بطلانہ مندورۃ لان فیہ التصدیح القوی بفضل ابی بکر علیہ وانہ خیر منہ والظاہر من احوال امیر المومنین علیہ السلام والمشہود من اقوالہ واحوالہ جملۃ وتفصیلاً یقتصی انہ کان یصدم نفسہ علی ابی بکروغیرہ

(تلخیص الشافی تالیف شیخ الطائفہ ابی جعفر طوسی جلد دوم ص 237، دلیل آخر علی امامتہ علیہ السلام مطبوعہ قم طبع جدید)

ترجمہ: امیر المومنین حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ سے کہاگیا کہ آپ وصیت کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کیا حضورﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ میں وصیت کروں لیکن اگر اﷲ  تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا تو ان کو ان میں سے ناشرین شخص پر جمع کردے گا جیسا کہ اس نے نبی پاکﷺ کے بعد انہیں بہترین شخص پر جمع کیا۔ یہ اس چیز کو متضمن ہے کہ قریب ہے کہ اس کا بطلان ہدایۃ معلوم ہوجائے کیونکہ اس میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی اﷲ عنہ پر تقریح قوی ہے اور یہ کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے بہتر ہیں۔ لیکن امیرالمومنین کے احوال اور ان کے اقوال و احوال سے اجمالاً اور تفصیلاً جو ظاہرا اور مشہور ہے اس کا متقضی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ وغیرہ پر مقدم جانتے ہیں۔

الحاصل

مذکورہ عبارت سے دو اہم مسائل ثابت ہوئے:

نبی پاکﷺ نے اپنے بعد کسی کو وصی نہیں بنایا۔

نبی پاکﷺ کے بعد اﷲ تعالیٰ نے امت کے سب سے بہترین شخص کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا جیسا کہ اس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بعد امت کے بہترین شخص حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ کو امت کے لئے منتخب فرمایا۔

خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلیل یادہم

نبی پاکﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے متعلق اپنے بعد خلیفہ اور جنتی ہونے کی پیش گوئی فرمائی۔

تلخیص الشافی

روی عن انس ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم امرہ عند اقبال ابی بکر ان یسبشرہ بالجنۃ وبالخلافۃ بعدہ وان یستبشرہ عم بالجنۃ وبالخلافہ بعد النبی بکر و روی عن جبیربن مطعم ان امراۃ اتت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ فکلمتہ فی شیٔ فامر بہا ان ترجع الیہ فقالت یارسول اﷲ ارایت ان رجعت فلم اجدک (یعنی الموت) قال ان لم تجدنبی فات ابابکر

(تلخیص الشافی جلد سوم ص 39، فصل فی ابطال قول من حالت فی امامۃ امیر المومنین بعد النبی علیہما السلام بلا فصل مطبوعہ قم، طبع جدید)

ترجمہ: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے انہیں ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے مجلس میں آنے کے وقت ارشاد فرمایا کہ انہیں (ابوبکر صدیق) کو جنت اور میرے بعد خلافت کی خوشخبری سنادو اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو جنت اور ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے بعد خلافت کی بشارت دو اور حضرت جبیربن مطعم رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور کسی معاملہ میں آپ سے بات چیت کی۔ حضور ﷺنے اسے حکم دیا کہ پھر میرے پاس آنا، عورت نے عرض کی کہ اگر میں دوبارہ آئوں اور آپ کو نہ پائوں تو؟ (یعنی اس وقت تک اگر آپ وصال کرجائیں تو پھر کیا کروں؟) آپﷺ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس چلی جانا (اور ان سے اپنا مسئلہ حل کروالینا)

الحاصل

مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ نبی پاکﷺ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اور دوسرا یہ جنتی بھی ہیں اور یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی پاکﷺ نے مذکورہ عورت کو اسی لئے اپنے بعد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی وصیت فرمائی کیونکہ آپ من جانب اﷲ جانتے تھے کہ میرے بعد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...