جواب : لغت میں عید ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، اور کیونکہ یہ دونوں مذہبی تہوار ہر سال آتے ہیں اس لیے ان کو عید کہتے ہیں، پھر مجازاً اسے خوشی کے موقع کے لیے بھی استعمال کرنے لگے۔
آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خوشی کے ان دو اَیام کے علاوہ کسی دوسرے دن کو عید کہنا جائز ہے یا نہیں ؟
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو ضرور عید مناتے، فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے آیت ''الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ''[المائدۃ:03] پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔(صحيح بخاري، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه)
آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے
ترمذی شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔(سنن الترمذي، کتاب تفسيرآن، باب ومن سورة المائدة)
یوں عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ سال میں 53 عیدیں ہوئیں، 52جمعہ اور 1یوم عرفہ،تو ان 53عیدوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عیدمنانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن حکیم میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا، اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے"۔[سورۃ البقرۃ:91]
معلوم ہوا کہ نزول نعمت کے دن عید اور جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے ّطالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment