تاریخ وفات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم 12 ربیع الاوّل ھرگز نھیں ھے
ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 11۔ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 662۔
ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 420۔ﺟﺎﻣﻊ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺟﻠﺪ 2
ﺻﻔﺤﮧ 129 ( ﺣﺴﻦ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ )ﮐﮧ ﺣﺠﺘﮧ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﮯ ﺳﺎﻝ
ﯾﻮﻡِ ﻋﺮﻓﮧ ( 9 ﺫﻭﻟﺤﺠﮧ ) ﺟﻤﻌﮧ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ
ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 93,94 ﭘﺮ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﺻﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﯿﺮ
ﮐﮯ ﺩﻥ ﮨﻮﺍ ﻟﮩﺬﺍ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﯾﮑﻢ ﯾﺎ ﺩﻭ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﻮ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ
ﯾﮩﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ۔ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﭘﯿﺮ ﮐﺎ ﺩﻥ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ
ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ۔ﺧﻮﺍﮦ ﺫﻭﺍﻟﺤﺠﮧ ، ﻣﺤﺮﻡ ﺍﻭﺭ
ﺻﻔﺮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻣﮩﯿﻨﮯ 30,30 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎ 29,29 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎﺩﻭ
ﻣﮩﯿﻨﮯ 30,30 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ 29 ﺩﻥ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ
29,29 ﺩﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮧ 30ﺩﻥ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ۔
ﺩﻭ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀﺍﺳﻼﻡ
ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻣﺘﻮﻓﯽ 230 ﮪ۔ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ﺟﻠﺪ
2 ﺻﻔﺤﮧ 208,209 ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﯿﮩﻘﯽ 458 ﮪ۔
ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﮦ ﺟﻠﺪ 7 ﺻﻔﺤﮧ 235
ﺣﺎﻓﻆ ﻣﻐﻠﻄﺎﺋﯽ 762 ﮪ۔ ﺍﻻﺷﺎﺭﮦ ﺍﻟﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻤﺼﻄﻔﯽ
ﺻﻔﺤﮧ 351 ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ (ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮ ) 774 ﮪ۔
ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ ﺟﻠﺪ 4ﺻﻔﺤﮧ 228
ﺣﺎﻓﻆ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ (ﺍﺑﻦِ ﺣﺠﺮ ) 852 ﮪ۔ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 8
ﺻﻔﺤﮧ 473 ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﯾﻮﺳﻒ ﺍﻟﺼﺎﻟﺤﯽ 942 ﮪ۔
ﺳﺒﻞ ﺍﻟﮭﺪﯼ ﻭﺍﻟﺮﺷﺎﺩ ﺟﻠﺪ 12 ﺻﻔﺤﮧ 305
ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﺩﮨﻠﻮﯼ 1052 ﮪ۔ﺍﺷﻌﺘﮧ ﺍﻟﻠﻤﻌﺎﺕ ﺟﻠﺪ 4
ﺻﻔﺤﮧ 604 ﻋﻼﻣﮧ ﺑﺪﺭ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﯿﻨﯽ 855 ﮪ۔ﻋﻤﺪﺓ
ﺍﻟﻘﺎﺭﯼ ﺟﺰ 18 ﺻﻔﺤﮧ 60
ﻋﻼﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻟﻘﺎﺭ ﯼ 1014 ﮪ۔ﺍﻟﻤﺮﻗﺎﺕ ﺟﻠﺪ 11
ﺻﻔﺤﮧ 238 ﻋﻼﻣﮧ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺳﮩﯿﻠﯽ 581 ﮪ۔ﺍﻟﺮﻭﺽ
ﺍﻻﻧﻒ ﻣﻊ ﺍﻟﺴﯿﺮﺓ ﺍﻟﻨﺒﻮﯾﮧ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ440
ﯾﮑﻢ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀ
ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ 571 ﮪ۔ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺗﺎﺭﯾﺦ
ﺩﻣﺸﻖ ﺟﻠﺪ2 ﺻﻔﺤﮧ 387 ﻋﻼﻣﮧ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﯿﻮﻃﯽ
911 ﮪ۔ﺍﻟﺘﻮﺷﯿﺢ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ 143
ﻋﻼﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺣﺒﻠﯽ 1044 ﮪ۔ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﯿﻮﻥ ﺟﻠﺪ3 ﺻﻔﺤﮧ
473 ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺒﻠﯽ ﻧﻌﻤﺎﻧﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺟﻠﺪ
2 ﺻﻔﺤﮧ 106,107
ﻋﻼﻣﮧ ﻧﻮﺭ ﺑﺨﺶ ﺗﻮﮐﻠﯽ1367 ﮪ۔ ﺳﯿﺮﺕ ﺭﺳﻮﻝ ﻋﺮﺑﯽ
226 ﻋﻼﻣﮧ ﻏﻼﻡ ﺭﺳﻮﻝ ﺳﻌﯿﺪﯼ ﺗﺒﯿﺎﻥ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﺟﻠﺪ
7 ﺻﻔﺤﮧ 576
ﺷﯿﺦ ﺍﺷﺮﻑ ﻋﻠﯽ
ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ 1364 ﮪ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺟﻮ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺣﺴﺎﺏ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﯽ ﻧﻮﯾﮟ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﺩﻭ ﺷﻨﺒﮧ (ﭘﯿﺮ ) ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ۔ﭘﺲ ﺟﻤﻌﮧ ﻧﻮﯾﮟ
ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺩﻭ ﺷﻨﺒﮧ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ
ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ۔ﻧﺸﺮﺍﻟﻄﯿﺐ ﺻﻔﺤﮧ 241۔
ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﯾﮧ ﮨﻮﺋﯽ
ﮐﮧ ﺛﺎﻧﯽ ( 2 ) ﮐﻮ ﺛﺎﻧﯽ ﻋﺸﺮ ( 12 ) ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ۔ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ۔ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 8 ﺻﻔﺤﮧ
473,474)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ﺍﮨﻞِ ﺳﻨﺖ ﭘﺮ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات شریف کے بارے میں ایک استفتا کے جواب میں رقم طراز ہیں:
"قول مشہور و معتمد جمہور دواز دہم ربیع الاول شریف ہے۔" (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 415)
اس گروہ نے اِس قول کو بھی اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہہ دیا حالانکہ اعلیٰ حضرت یہ فرمارہے ہیں کہ یہ قول مشہور ہے اور جمہور یعنی اکثر علما نے اِسی قول پر اعتماد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اقدس 12ربیع الاول ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے نزدیک 13ربیع الاول ہے اور جمہور کے قول 12 ربیع الاول کی 13 ربیع الاول کے ساتھ یوں تطبیق فرماتے ہیں:"اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقتاً بحسب رؤیتِ مکۂ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی۔ مدینۂ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی (یعنی چاند نظر نہیں آیا) لہٰذا اُن کے حساب سے بارہویں ٹھہری وہی رُواۃ (یعنی روایت کرنے والوں) نے اپنے حساب کی بناہ پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ و غیرھم محدثین و محققین ہے۔" (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 417)۔ اعلیٰ حضرت نے اِس اقتباس میں امام بارزی، امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ وغیرھم ایسے بڑے محدثین و محققین کی تحقیق کا حاصل یہ بتایا کہ مکۂ معظمہ میں مدینۂ طیبہ سے ایک دن پہلے چاند نظر آگیا تھا لہٰذا مکۂ معظمہ میں چاند نظر آنے کے اعتبار سے تیرہ تاریخ تھی اور مدینۂ طیبہ میں چونکہ ایک دن بعد میں چاند نظر آیا اِس لحاظ سے راویوں نے اپنے حساب کی بناء پر بارہ ربیع الاول کی روایت کردی اور اِس طرح سے وفات اقدس کی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہوگئی اور جمہور نے اِن مشہور روایت پر اعتماد کر لیا لیکن حقیقت میں ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی اور اِسی کے لیے اعلیٰ حضرت نے فرمایا "اور تحقیق یہ ہے۔" وہ حضرات جو یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی تحقیق یہ ہے کہ وفات شریف کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہے اب ذرا اعلیٰ حضرت کی درج ذیل واقعی اور حقیقی تحقیق ملاحظہ فرمائیں کہ وفات شریف بارہ ربیع الاول کو نہیں ہوئی۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:"تفصیل و مقام توضیح مرام یہ ہے کہ وفاتِ اقدس ماہِ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ میں واقع ہوئی اِس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے جس میں اصلاً جائے نزاع نہیں۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 418)۔ یعنی وفات شریف ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن ہوئی اِس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں (حتّٰی کے دیوبندی اور وہابی بھی اس سے متفق ہیں)۔
آگے چل کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"ادھر یہ بلاشبہ ثابت ہے کہ اِس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی روز پنجشنبہ تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالا جماع روزِ جمعہ ہے۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26، صفحہ،418)
یعنی جس ربیع الاول شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اُس سے تین مہینے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کیونکہ حجۃ الوداع شریف کے روز جمعہ (جمعہ کا دن) ہونے پر اجماع (یعنی سب کا اتفاق) ہے، یعنی 9ذی الحجہ کو جمعہ کا دن تھا لازمًا ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو تھی۔
(اس حساب سے 29 ذی الحجہ کو جمعرات ہوئی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "اور جب ذی الحجہ 10ھء کی 29 روز پنجشنبہ تھی تو ربیع الاول 11ھ ء کی 12 کسی طرح روز ِ دو شنبہ نہیں آتی) کہ اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے 30کے لیے جائیں تو غرّہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہوتا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرھویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں تو غرّہ اور روزِ یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں، اور اگر اُن میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجیے تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں اور چوھویں، اور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے تو پہلی پیر کی ہوتی ہے پھر پیر کی آٹھویں اور پندرھویں، غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی، اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں، قولِ جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لاحل سمجھ کر انھوں نے قول یکم اور امام ابن حجر عسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحات 418تا 419)
خلاصہ یہ ہے کہ دو باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے پہلی بات یہ کہ وصال مبارک سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کہ وقوف، عرفہ (9ذی الحجہ) بروز جمعہ ہونے پر سب متفق ہیں دوسری بات یہ کہ وفات اقدس ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی۔ تو ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ حساب لگانا ہوگا کہ آنے والے ربیع الاول شریف میں پیر کس کس تاریخ میں آیا۔ تو اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے تیس کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ بدھ کو ہوگی اور پیر کو 6، 13، 20 اور 27 تاریخیں ہوں گی اگر تینوں مہینے 29 کے لیے جائیں تو یکم ربیع الاول اتوار کو ہوگی اور پیر کے دن 2، 9، 16، 23 (اور 30 بھی ممکن ہے) تاریخیں ہوں گی اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا ایک مہینہ 29 کا اور باقی دو مہینے 30 کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ منگل کی ہوگی اور پیر کو 7، 14، 21، 28 اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا بھی ایک 30 کا لیجیے اور باقی دو 29 کے سمجھیں تو یکم ربیع الاول پیر کو ہوگی اوراِس طرح پیر کے دن 1، 8، 15، 29 تاریخیں ہوں گی یعنی چاروں صورتوں میں پیر کے دن ممکنہ تاریخیں یہ ہوئیں: 1، 2، 6، 7، 8، 9، 13، 14، 15، 16، 20، 22، 23، 27، 28، 29 اور 30۔ اِن چاروں صورتوں میں ربیع الاول کی 12تاریخ پیر کے دن کسی حساب سے نہیں آتی اور ان چار کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ اِن ممکنہ تاریخوں میں سے یکم ربیع الاول اور 2ربیع الاول کے اقوال بھی ملتے ہیں اور اعلیٰ حضرت اِن دونوں اقوال کو علم ہیات وزیجات کے حساب سے غلط ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں، "وہ دونوں قول (یکم اور دوم ربیع الاول کے) قطعاً باطل ہیں اور حق و صواب وہی قولِ جمہور بمعنی مذکو رہے یعنی واقع میں تیرھویں اور بوجہ مسطور تعبیر میں بارہویں۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 426)
یعنی مدینۂ طیبہ میں چاند نظر نہیں آیا تو اُن کے حساب سے بارہ ہوئی۔ اور راویوں نے وہی مشہور کردی لیکن چونکہ مکۂ معظمہ میں چاند نظر آگیا تھا واقع میں (یعنی حقیقت میں) تیرہ ربیع الاول۔ اور حقیقتاً 12ربیع الاول کسی حساب سے نہیں آتی، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
یہ ہے اعلیٰ حضرت کی تحقیق۔ علم ہیاٴت و زیج کے حساب بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی تحقیق یہی ہے کہ وفات شریف 12 نہیں بلکہ 13 تاریخ کو ہے چنانچہ میلاد شریف پر ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اگر ہیاٴت و زیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخِ وفات شریف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ ربیع الاول (ہے) کَمَا حَقَّقْنَاہُ فِیْ فَتَاوٰ نَا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کردی ہے۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 428)
اور اگر بارہ ربیع الاول ہی تاریخِ وفات شریف ہو تو بھی میلاد شریف منانے سے روکنے کی کوئی دلیل نہیں۔ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف بیوہ کو شوہر کے لیے چار ماہ دس دن سوگ کرنے کا حکم ہے۔ غم پر صبر کرنا اور نعمت کا چرچا کرنا ہی مومن کی شان ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ کے دن ہے اور وفات شریف بھی لیکن حدیث شریف میں جمعہ کے دن کو عید کا دن قرار دیا گیا ہے بلکہ مشکوٰۃ شریف باب الجمعۃ مین ابن ماجہ کے حوالے سے ایک حدیث روایت کی جس میں جمعہ کو عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی عظیم دن فرمایاگیا۔ حالانکہ اسی دن ایک نبی کی وفات بھی ہے، تو معلوم ہوا کہ غم پر صبر کرنا چاہیے اور پیدائش کا اعتبار کرتے ہوئے اس دن عید (خوشی) منانا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ ہے ہمیں شریعت نے نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا، لہٰذا اس تاریخ کو روزِ ماتمِ وفات (وفات کے ماتم کا دن) نہ کیا روزِ سُرورِ ولادتِ شریفہ (ولادت شریف کی خوشی کا دن) کیا۔ کما فی مجمع البحار الانوار (جیسا کہ مجمع البحار الانوار میں ہے)۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 428)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment