Wednesday, 2 September 2015

مسلمان کسے کہتے ؟

اسلام کے کیا معانی ہیں اور جب کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔لغت کی رو سے اسلام کے معانی:اسلام کا مادہ یا روٹ سَلِمَ ہے (المنجد)سَلِمَ۔ سَلَامَۃً وَ سَلَامًا کے معانی ہیں کسی عیب سے یا آفت سے نجات پانا۔ چھٹکارا پانا۔ بری ہونا۔سَلَّمَ بِالْاَمْرِ۔ راضی ہونا۔ فرمانبردار ہونا۔ کسی کا کسی کو کوئی شئے سپرد کرنا اور اس کا اس کو قبول کر لینا۔

سَالَمَہُ۔ مصالحت کرنا۔ اَسْلَمَ: مطیع و فرمانبردار ہونا۔ مذہب اسلام قبول کرنا ۔

اَسْلَمَ الْعَدُوَّ۔ دشمن کو چھوڑ دینا۔ اَمْرَہٗ اِلَی اللّٰہِ۔ معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دینا۔

تَسَالَمَ الْقَوْمُ۔ مصالحت کرنا۔ آپس میں اتفاق و اتحاد کرنا۔

اِسْتَسْلَمَ۔ تابعدار ہونا۔ اَلسِّلْمُ: سلامتی، تابعداری۔ دَارُالسَّلَامِ۔ جنت۔ اَلسَّلَامَۃُ: عیوب و آفات سے پاکی اور بریت۔

یہ تمام معانی لغت کی مشہور کتاب المنجد سے لئے گئے ہیں۔ (زیر لفظ سلم صفحہ488)

لغت کی رو سے اسلام کے معانی یہ بنے جو اپنے آپ کو بیچ دے۔ کسی کے سپرد کر دے۔ تابعدار اور فرمانبردار بن جائے، صلح آتشی، دشمن کو چھوڑ دے۔ آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنے والے کو اور مصالحت کرنے اور کرانے والے کو مسلمان کہیں گے یا جانیں گے۔ اور یہ سارے معانی اسلام قبول کر لینے کے بعد ہر مسلمان کہلانے والے میں پائے جانے ضروری ہیں۔ وہ امن پیدا کرنے والا ہو، امن مہیا کرنے والا ہو، امن دینے والا ہو، صلح و آتشی سے رہنے والا ہو، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنے والا ہو اور جب اس کے اختیار میں ہو تو اپنے دشمن کو بھی چھوڑ دینے والا ہو۔ جس طرح ایک جنگ میں حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے ایک دشمن کو زیر کر لیا اور قریب تھا کہ آپ اسے قتل کر دیتے اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا آپ نے اسی وقت اسے چھوڑ دیا۔ اور فرمایا کہ اب اگر میں تجھے قتل کرتا ہوں تو اس میں مرا نفس شامل ہو جائے گا اور خدا کی رضا ختم ہو جائے گی۔

نبی کریم ﷺ کے نزدیک ایک مسلمان کی تعریف

1۔ حضرت جبریل علیہ السلام آدمی کے بھیس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور حضور ﷺ سے پوچھا:۔

کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اسلام کے بارے میں مطلع فرمائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں نیز یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگر راستہ کی توفیق ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ اس شخص نے کہا کہ حضورب ﷺ نے بجا فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب آیا کہ سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اس شخص نے پوچھا کہ مجھے ایمان کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ پر ایمان لائیں۔ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں پر ایمان لائیں۔ نیز یومِ آخر پر ایمان لائیں اور قضاء و قدر کے بارے میں خیرو شر پر بھی ایمان لائیں۔ اس شخص نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان )

2۔ اہلِ نجد میں سے ایک شخص پراگندہ بالوں والا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنتے تھے مگر اس کی باتوں کو نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ شخص زیادہ قریب ہو گیا تو معلوم ہوا کہ وہ حضورؐ سے اسلام کے بارے میں دریافت کر رہا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ دن اور رات میں پانچ نمازیں مقرر ہیں۔ اس نے کہا کہ ان پانچ کے علاوہ اور بھی نمازیں ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ نہیں بجز اس کے کہ تم بطور نفل ادا کرنا چاہو۔ حضور نے پھر فرمایا کہ رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے پوچھا کہ رمضان کے روزوں کے علاوہ اور بھی روزے فرض ہیں؟ حضور نے فرمایا نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل رکھنا چاہو۔ پھر حضور ﷺ نے اس کے سامنے زکوٰۃ کا ذکر فرمایا۔ اس نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی اور ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل زیادہ ادا کرنا چاہو ۔ وہ شخص مجلس سے اٹھ کر چل پڑا اور یہ کہہ رہا تھا کہ بخدا میں ان احکام پر نہ زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں گا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایاکہ اگر یہ اپنے اس قول میں سچا ثابت ہوا تو ضرور کامیاب ہو جائے گا ۔

(صحیح بخاری کتاب الایمان )

3۔ جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم کرتے ہیں ۔ اس قبلہ کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے۔ پس تم اللہ کے دیئے ہوئے ذمے میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو ۔

(بخاری باب فضل استقبال القبلۃ)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...