Tuesday 22 September 2015

فلسفہ حج و قربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسلامی عبادات کی روح۔۔۔ قومی نظم

نماز کی فرضیت سے صرف یہ مقصد ہوتا کہ بندے اور رب میں، عبد اور معبود میں ایک روحانی رشتہ قائم رہے جس کا باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو، تو اس کے لئے نہ مساجد کی ضرورت تھی، نہ اذان کی بلکہ ہر بندہ گھر سے باہر یا گھر کے اندر کسی گوشہ عزلت کا مکین بن جاتا۔ کاروبار، اہل و عیال سے الگ تھلگ اللہ کی عبادت کرتا۔ نہ دکھلاوا اور نہ ریاء کاری کا شائبہ، مگر ایسا نہیں۔ دور اول میں دین کا مرکز مسجد تھی جس میں صرف نماز ہی ادا نہیں کی جاتی تھی بلکہ زکوٰۃ، عشر، مال غنیمت، فئی، جزیہ و خراج سے حاصل ہونے والا مال بھی جمع کیا جاتا تھا۔ یہی بیت المال اور قومی خزانہ تھا۔۔۔ یہیں مقدمات و تنازعات سنے جاتے اور ان کے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے ہوتے۔۔۔ جرائم اور مجرم کی یہیں تحقیق و شنید ہوتی۔۔۔ صلح و جنگ، حدود و قصاص کے احکام پر عمل درآمد بھی یہیں کیا جاتا۔۔۔ حتی کہ مسجد میں ہی جنگی مہمات کی منصوبہ بندی ہوتی اور یہیں سے فوجوں کی تیاری اور اطراف و اکناف میں روانگی ہوتی۔

اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مسجدیں تعمیر ہوئیں۔نماز کے اوقات مقرر ہوئے۔ اذان کا حکم دیا گیا۔ بستی چھوٹی ہو یا بڑی مگر مسجد کی تعمیر سب سے پہلے۔ یہ مسلم تنظیم کا پہلا یونٹ اور دینی سرگرمیوں کا مرکز قرار پائی۔ جہاں ہر مسلمان عورت و مرد اور بچوں، بچیوں کو دن میں پانچ مرتبہ حاضر ہونا ضروری قرار دیا گیا۔ جہاں دن میں پانچ مرتبہ ایک تنظیم کے ممبر جمع ہوں گے اور ان کا حاکم ان کو نماز کی امامت کروائے گا۔ عوام بلا روک ٹوک اس سے مل سکیں گے، کسی ایجنڈے اور پروگرام کی پیشگی اطلاع کی کوئی ضرورت نہیں۔ لوگ آپس میں ملاقات کریں گے اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ سے آگاہ ہوں گے۔

پھر ایک بڑا حلقہ تشکیل پاگیا جس میں قریب قریب کی کئی مساجد کے نمازی ایک بڑی مسجد میں نماز جمعہ کے لئے جمع ہوتے گئے اور معلومات و بھائی چارے کا حلقہ مزید وسیع ہوتا چلا گیا۔ آگے بڑھیں تو عیدین کی نماز کھلے میدانوں میں بڑے بڑے اجتماعات کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ عہدِ رسالت و خلافت میں ان تمام نمازوں میں جہاں کوئی بڑا عہدیدار ہوتا وہاں نمازوں کی امامت وہی کرواتا تھا۔ یہ ممکن نہ تھا کہ کسی سطح کے بڑے حاکم و عہدیدار کی موجودگی میں کوئی شخص بلا اجازت نماز کی امامت کروائے۔ وہی حکمران، وہی فوجی افسران اور وہی نمازوں میں عوام کے امام ہوتے تھے۔ اور یہ منصبِ امامت عزت و عظمت کی علامت ہوتا تھا۔
حج۔۔۔ وحدتِ امت کا سرمایہ و ذریعہ

پھر حج کی صورت میں مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع مقرر ہوا تاکہ دور دراز کے مسلمان، عوام و خواص مختلف رنگوں، نسلوں، زبانوں کے بولنے والے، مختلف الانواع تہذیب و ثقافت، تمدن کے حامل مگر ایک دین کے پیروکار اس عالمی اجتماع میں ایک دوسرے سے ملیں۔ باہمی تعارف ہو، ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات سے آگاہ ہوں اور یہی ان کا بین الاقوامی مرکز قرار پائے۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی رابطے مضبوط ہوں۔۔۔ ان کے حکمران علاقائی مسائل کو زیر بحث لائیں۔۔۔ مظلوم جہاں کہیں ہوں ان کی سیاسی، مالی اور اخلاقی مدد کریں۔۔۔ حوادث، سانحات، قحط، سیلابوں، زلزلوں اور مظالم کا شکار بھائیوں کے مصائب کا ادراک و احساس کریں۔۔۔ ان کے ازالہ کی تدبیریں اور عملی جدوجہد کریں۔۔۔ اپنے قدرتی وسائل کو غیروں کے تسلط سے واگذار کروائیں۔۔۔ ان وسائل پر جن کا حق ہے ان پر خرچ کریں۔۔۔ اپنی معیشت کو مضبوط کریں۔۔۔ اپنے عوام کی تعلیم، صحت، صنعت، حرفت، زراعت کو ترقی دیں۔۔۔ اپنا دفاع، اپنی آزادی، اپنی عزت اور عظمت رفتہ کی بحالی پر اپنے وسائل خرچ کریں۔

قرآن مجید میں کس فصاحت و بلاغت سے یہ بات بتائی گئی اور ان مقاصد کے حصول کا حکم دیا۔ ارشاد ہوا:

لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ

’’(مسلمان حج کے موقع پر) اپنے فوائد و مفادات حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوں‘‘۔ (الحج:28)

حضرت صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’دینی بھی، دنیوی بھی، جو اس عبادت (حج) کے ساتھ خاص ہیں۔ دوسری عبادات میں نہیں پائے جاتے‘‘۔

علامہ اقبال نے حج کی کتنی خوبصورت ترجمانی کی ہے:

طاعتے، سرمایہ جمعیتے
ربطِ اوراق کتاب ملتے

’’(حج) اللہ تعالیٰ اور رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہے، وحدت امت کا سرمایہ و ذریعہ ہے، کتاب ملت کے منتشر اوراق (یعنی افراد امت) کی جلد بندی ہے‘‘۔
اسلامی عبادات کے ثمرات سے محرومی کیوں؟

افسوس صد افسوس کہ ہم غیروں کی غلامی کے شکنجے میں اتنے جکڑے ہوئے ہیں کہ گویا قرآن کریم نے کسی اور کا نہیں ہمارا ہی نقشہ کھینچا ہے:

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ کَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ صل لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ز وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَاز وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَاط اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ط اُولٰئِکَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ

’’اور بے شک ہم نے جہنم کے لیے جنوں اور انسانوں میں سے بہت سے (افراد) کو پیدا فرمایا وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیں‘‘۔

(الاعراف: 179)

یہ ہمارا نظام ملوکیت ہے جو سامراج کے نسلی جدی پشتی غلاموں نے ہم پر مسلط کررکھا ہے۔ یہ اُن کے لئے غلام جبکہ عوام کے لئے بادشاہ بنے بیٹھے ہیں۔ یہ بادشاہی بھی داؤد و سلیمان علیہما الصلاۃ والسلام کی نہیں بلکہ فراعنہ، نماردہ اور قیصر و کسریٰ کی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:

خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
خود سرتخت ملوکیت نشست

’’مسلمانوں نے اپنے ہاتھوں سے قیصر و کسری کی شعبدہ بازی پارہ پارہ کی اور خود ہی تخت ملوکیت پر براجمان ہوگئے‘‘۔

آج مسلمانوں پر آمریت، ملوکیت اور جمہوری قباء میں شہنشاہیت کی بدترین شیطانی قوتیں مسلط ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں:

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر

مزید فرماتے ہیں:

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

اسی نظام ظلم کی حفاظت میں ہمارے ملا و صوفی (الاماشاءاللہ) بھی کمر بستہ ہیں۔ صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام

امتے بر امتے دیگر چردد
دانہ ایں می کاشت، او ر حاصل برد

’’ایک طبقہ دوسرے کی فصل چگ رہا ہے۔ یہ دانہ کاشت کرتا ہے، وہ فصل لے جاتا ہے‘‘۔

ملا و صوفی اور بادشاہوں کی طرح ظالم حکمرانوں کے علاوہ ان ظالم حکمرانوں کے خود ساختہ آئین و قوانین بھی مسلمانوں کے عروج و کمال اور عبادات کے ثمرات کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

حاصل آئین و دستور ملوک
دہ خدایاں فربہ و دہقاں چو دوک

’’بادشاہوں کے آئین و دستور کا مقصد و نتیجہ یہ ہے کہ جاگیر دار موٹے و شکم سیر ہیں اور ہاری، کسان، مزدور ایسے ہے جیسے چرخے کا تکلا‘‘۔

تاتہہ و بالا نہ گردد ایں نظام
شوکتِ دنیا و دیں سودائے خام

’’جب تک یہ ظالمانہ نظام سیاست (ملوکیت) الٹ پلـٹ نہ ہوجائے، دنیا و دین اور شوکت و دانش خام خیالی ہے‘‘۔

دور ملوکیت کی یہ شب تاریک جو صدیوں سے ہم پر مسلط ہے جب تک قائم رہے گی، نہ اس امت کی تقدیر بدلے گی اور نہ ظلمت و ظلم کافور ہوگی اور نہ انسانیت غیر عادلانہ شکنجوں سے آزاد ہوگی۔
کیا وہ گھڑیاں لوٹ کر آئیں گی۔۔۔؟

حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں اتحاد، یقین اور نظم کے فوائد نہ صرف امت مسلمہ کے لئے بلکہ تمام دنیا کے لئے پنہاں ہیں۔ اس سے یقینِ محکم، عملِ پیہم، محبت فاتح عالم کے انوار کی خیرات بٹتی ہے مگر ہم پر ایسے اندھے و بہرے حکمران اور شیطانی سائے مسلط ہیں، جن سے ہم ان انوار و برکات سے خود ہی محروم ہیں، دوسروں کو کیا دیں گے۔ آج امت کہاں کہاں کس حال میں ہے۔ ہمارے حاکم ہمارے خادم ہیں یا خدام۔۔۔؟ دور و نزدیک سے عوام کی آواز بااختیار لوگوں تک پہنچتی ہے یا راہوں میں ہی بھٹکتی ہے۔۔۔؟ مظلوم کی ہر سطح پر داد رسی ہورہی ہے یا ظالم کو تحفظ اور مظلوم کو دھتکارا جاتا ہے۔۔۔؟ کیا حکمرانوں اور بااثر طبقات کی زیادتی اور مظلوم کی فریاد کو دیکھا سنا اور موقع پر بدلہ دیا جاتا ہے یا مظلوم کو دھتکار دیا جاتا ہے۔۔۔؟ ناحق قتل و غارت کرنے والوں کو فوراً سرعام سزا ملتی ہے یا شیطانی آنت کی طرح عمر بھر کے لئے انکوائری کمیٹیاں ہی بنتی رہتی ہیں۔۔۔؟

ذرا چشم تصور میں دور اول کی برکات لے کر آئیں۔ جب ہر ذی استطاعت مسلمان اپنے مرکز میں حاضر ہوتا تھا اور اُسے عدل و انصاف ملتا تھا۔۔۔ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اُسے دھکے نہیں کھانے پڑتے تھے۔۔۔ حج کے اس عظیم اجتماع عام میں جرائم کی فوری شنوائی، سزاؤں کا فوری نفاذ اور چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے اور ان پر عملدرآمد ہوتا تھا۔۔۔ علاقائی و مرکزی حکام کونماز پنجگانہ، نماز جمعہ و عیدین اور حج کے موقع پر عوام کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔۔۔ وہ پنجگانہ نمازیں خود پڑھاتے تھے۔۔۔ جس جگہ حکومت کا جو بھی جس درجہ کا حاکم ہوتا وہاں کے مصلیٰ امامت پر وہی کھڑا ہوسکتا تھا۔ اوپر سے نیچے تک حکومتی ارکان سولین ہوں یا فوجی، ان کے فرائض منصبی میں پہلا فریضہ یہی تھاکہ وہ مسجد میں پانچوں نمازیں، جمعہ، عیدین اور پھر حکمران اعلیٰ حج کی ادائیگی میں یہ ذمہ داری نبھائے۔ نہیں نبھاسکتا تو حق حکمرانی سے الگ ہوجائے اور اہل لوگوں کو عوامی انتخاب کے ذریعے یہ ذمہ داری سونپ دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ.

’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے‘‘۔ (الحج:41)

دعا کیجئے کہ یہ نظام ہمارے جیتے قائم ہوجائے اور دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو اور مساجد و حج و دیگر احکام شرع کے نتائج و ثمرات سے عوام کی قسمت چمک اٹھے اور رنجیدہ چہروں پر خوشی کے انوار و رونق نمودار ہو۔
فلسفہ قربانی

قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔ شرع میں قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔ قربانی کے لئے قرآن کریم میں عموماً تین لفظ استعمال ہوئے ہیں:

قربانی: اذقربا قربانا۔ ’’جب دونوں نے قربانی کی‘‘۔
منسک:اللہ ر ب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّيَذْکُرُوْ اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَارَزَقَهُمُ اللّٰهُ مِنْ م بٰهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ

اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے ز بان چوپائیوں پر۔ (الحج ، 22: 34)

نحر: اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ. ’’تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربان کرو‘‘۔

ان المراد وانحر البدن ۔ مراد جانور کی قربانی ہے۔

(تفسير کبير ، 32: 129)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

قربانی کی تفصیلات ہمیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین سے واضح انداز میں حاصل ہوتی ہیں۔ آیئے ان احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں:

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

ضحی رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم بکبشين املحين اقرنين، ذبحهما بيده وسمي وکبر قال رايته واضعا قدمه علی صغاحهما ويقول بسم الله والله اکبر

’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاہ و سفید رنگوں والے، سینگدار مینڈھے اپنے ہاتھ مبارک سے ذبح فرمائے، بسم اللہ اور تکبیر پڑھی، کہا کہ میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے پہلوؤں پر پاؤں مبارک رکھ کر یہ فرماتے ہوئے سنا بسم اللہ (اللہ کے نام سے) واللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے)‘‘۔ (بخاری و مسلم وغيرهما)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگدار ایسا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی اس کے پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہو) وہ لایا گیا۔پھر فرمایا:

عائشہ! ھلمی المدیۃ۔ ’’چھری لاؤ‘‘! پھر فرمایا: اشحذیہا بحجر۔ ’’اسے پتھر پر تیز کرو‘‘، ’’ففعلت‘‘ ’’میں نے تیز کردی‘‘۔ آپ نے مینڈھے کو پہلو کے بل لٹایا اور ذبح کیا اور پھر فرمایا:

اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن امة محمد

’’باری تعالیٰ! محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی طرف سے قبول فرما۔ (مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاتذبحوا الا مسنة الا ان يعسر عليکم فتذبحوا جذعة من الضان

’’مسنہ کے سوا قربانی کے لئے کوئی جانور ذبح نہ کرو۔ ہاں اگر مسنہ نہ ملے تو بھیڑ کا جذعہ، ذبح کرو‘‘۔ (مسلم)

خوب جان لیں کہ قربانی صرف اونٹ، بیل، بکری، بھیڑ، بھینس۔ ان میں سے ہر جانور کی مذکر ہو یا مونث جائز ہے۔ بشرطیکہ عمر کے لحاظ سے مُسِنَّہ یا ثِنِّی ہو۔ اونٹ ثنی یا مسنہ کہلاتا ہے جب اس کی عمر مکمل پانچ سال ہو اور چھٹے میں داخل ہوجائے۔ گائے، بیل، بھینس، بھینسا جب دو سال کا ہو۔ بکری، دنبہ، بھیڑ، مذکر ہو یا مونث کم سے کم ایک سال کا۔ ہاں بھیڑ یا دنبے کا بچہ سال سے کم ہو اور صحت کے لحاظ سے سال بھر کا لگے تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے:

کان النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم يذبح وينحر بالمصلّٰی

’’نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم قربانی کے جانور عیدگاہ میں ذبح فرماتے تھے‘‘۔ (بخاری)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

البقرة عن سبعة و الجزور عن سبعة

’’گائے (بیل) سات آدمیوں کی طرف سے جائز ہے اور یوں ہی اونٹ کی قربانی بھی سات آدمیوں کی طرف سے جائز ہے‘‘۔
(مسلم، ابواداؤد)

ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اذا دخل العشر واراد بعضکم ان يضحی فلا ياخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا

’’جب ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آئے (عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے) اور تم میں کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مامن ايام العمل الصالح فيهن احب الی الله من هذه الايام العشرة قالوا يارسول الله ولا الجهاد في سبيل الله، قال ولا الجهاد في سبيل الله الا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلک بشئی

’’ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں، فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا‘‘۔ (بخاری)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ

ذبح النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم کبشين اقرنين املحين موجوئين فلما وجههما قال اني وجهت وجهي للذي فطر السموات والارض علی ملة ابراهيم حنيفا وما انا من المشرکين. ان صلوٰتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العلمين لاشريک له وبذلک وامرت وانا من المسلمين اللهم منک ولک عن محمد و امته بسم الله، والله اکبر ثم ذبح

’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگ دار، سیاہ و سفید رنگ والے (چتکبرے) خصی مینڈھے اپنے مبارک ہاتھوں سے ذبح کئے، بسم اللہ اور اللہ اکبر پڑھا، جب ان کو قبلہ رخ گرایا تو پڑھا: بے شک میں نے اپنا رخ کرلیا اس ذات کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔ دین ابراہیم پر، ہر باطل سے رخ موڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوکر اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری موت و زندگی، اللہ کے لئے ہے جو سب جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اے اللہ یہ تیری طرف سے اور تیرے لئے ہے، محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کی طرف سے۔ اللہ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑا ہے پھر آپ ذبح فرمایا‘‘۔

(احمد، ابوداؤد، ابن ماجه، دارمی، امام احمد، ابوداؤد)

ایک روایت میں ہے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

بسم الله، والله اکبر، اللهم هذا عنی وعمن لم يضح من امتی

’’یہ میری طرف سے اور میری امت میں سے جو قربانی نہیں کرسکا اس کی طرف سے‘‘۔

حنش سے روایت ہے:

رايت عليا يضحی بکبشين فقلت له ماهذا؟ فقال ان رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم اوصاني ان اضحي عنه

’’میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا۔ میں نے عرض کی، یہ کیا ہے؟ فرمایا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میری طرف سے قربانی کرنا۔ پس میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے قربانی کرتا ہوں‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی وغيرهما)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

امرنا رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم ان نستشرف العين والاذن وان لا نضحي بمقابلة ولا مدابرة ولاشرقآء ولا خرقآئ

’’ہم کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم جانور کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھیں، اگلی طرف سے اور پچھلی طرف سے کان کٹے کی قربانی نہ کریں۔ نہ کان چیرے کی اور نہ جس کے کان میں سوراخ ہو۔
(ترمذی، ابوداؤد، نسائی، دارمی، ابن ماجه)

انہی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو اس جانور کی قربانی سے منع فرمادیا جس کا سینگ اوپر والے خول کے نیچے والی میخ (مینگ) سمیت ٹوٹ جائے۔ نیچے والی کلی اگر محفوظ ہو، صرف سینگ کا خول (کوّر) ٹوٹ جائے تو قربانی جائز ہے‘‘۔ (ابن ماجه)

حضرت براء بن عازب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا، کن جانوروں کی قربانی سے بچا جائے۔ آپ نے دست اقدس سے اشارہ سے بتایا چار سے:

 العرجاء: بہت کمزور، جو قربان گاہ تک چل کرنہ جاسکے۔ لاغر، ہڈیوں پر گوشت نہ ہو۔
    العوراء: اندھا، جس کا اندھا پن ایک آنکھ سے یا دونوں سے واضح ہو۔
المریضۃ: بیمار۔ جس کی بیماری واضح ہو۔
العجفآء: بہت کمزور جس کی ہڈیوں میں مخ نہ ہو یعنی ہڈیوں کا ڈھانچہ۔

(مالک، احمد، ترمذی، ابوداؤ، نسائی، ابن ماجه، دارمی)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ، طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما عمل ابن ادم من عمل يوم النحراحب الی الله من اهراق الدم، وانه لياتي يوم القيمة بقرونها واشعارها واظلافها وان الدم ليقع من الله بمکان قبل ان يقع بالارض فطيبوا بها نفسا

’’قربانی کے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے حضور خون بہانے (قربانی) سے بڑھ کر محبوب نہیں اور بے شک یہ قربانی قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں، کھروں کے ساتھ آئے گی (اور میزان میں تلے گی) اور بے شک قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے بارگاہ خدا میں قبول ہوجاتا ہے۔ سو قربانی خوشدلی سے دیا کرو‘‘۔
(ترمذی، ابن ماجه)

عشرہ ذوالحجہ میں نیکیوں کا ثواب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما من ايام احب الی الله ان يتعبدله فيها من عشر ذی الحجة، يعدل صيام کل يوم منها بصيام سنة وقيام کل ليلة منها بقيام ليلة القدر

’’اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت بجائے دوسرے اوقات و ایام میں کرنے کے عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام، لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجه)

ایک روایت میں ہے کہ

صلی النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم يوم النحر ثم خطب ثم ذبح وقال من کان ذبح قبل ان يصلی فليذبح اخری مکانها ومن لم يذبح فليذبح باسم الله

’’نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن نماز عید ادا فرمائی پھر خطبہ ارشا فرمایا پھر قربانی کی اور فرمایا جس نے نماز سے پہلے جانور ذبح کیا، اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا، اللہ کا نام لے کر ذبح کرے‘‘۔ (متفق علية)

حضرت نافع نے عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انہوں نے فرمایا :

لاضحی يومان بعد يوم الاضحی

’’قربانی عید قربان کے بعد دو دن اور ہیں‘‘ اسے امام مالک نے روایت کیا اور انہوں نے فرمایا کہ ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی ایسی ہی خبر پہنچی ہے۔ قربانی کے کل تین دن ہیں۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

اقام رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم بالمدينة عشر سنين يضحی

’’ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے‘‘۔ (ترمذی)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کی:

يارسول الله ماهذه الاضاحی قال سنة ابيکم ابراهيم عليه السلام، قالوا فمالنا فيها يارسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم؟ قال بکل شعرة حسنة، قالوا فالصوف يارسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم؟ قال لکل شعرة من الصوف حسنة

’’ یارسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے ابا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت۔ عرض کی یارسول اللہ ان میں ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی۔ عرض کی اون؟ فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے نیکی‘‘۔ (احمد، ابن ماجه)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...