احسان کا مفہوم احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام بخاری اور امام مسلم کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز جبریل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کے لیے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أن تؤمن باﷲ و ملائکته و کتبه و رسله واليوم الآخر و تؤمن بالقدر خيره و شره.
’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔‘‘
انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أن تشهد أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمدا رسول اﷲ، و تقيم الصلاة، و تؤتی الزکاة، و تصوم رمضان، و تحج البيت إن استطعت إليه سبيلا.
’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے، اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے۔‘‘
اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ.
1. بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان و وجوب الايمان
2. مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة
’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ الغرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں۔
نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الايمان و السلام و الاحسان
Wednesday, 30 September 2015
احسان کا مفہوم قرآن پاک کی روشنی میں
احسان کا مفہوم قرآن پاک کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ’’احسان‘‘ کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَO
’’پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
المائده، 5 : 93
پھر فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَOالتوبه، 9 : 119
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔‘‘
ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے تقویٰ کیا ہے؟ یہ دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے ’امنوا‘ میں عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آ گیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ’’احسان‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جو طریقت و تصوف کی طرف اشارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں بلکہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کر لیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان و تصوف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں جو اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشاندہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔ ارشاد ہوتا ہے۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.الفاتحه، 1 : 5، 6
’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام فرمایا۔‘‘
یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے :
فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًاOالنساء، 4 : 69
’’تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ’’احسان‘‘ کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَO
’’پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
المائده، 5 : 93
پھر فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَOالتوبه، 9 : 119
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔‘‘
ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے تقویٰ کیا ہے؟ یہ دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے ’امنوا‘ میں عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آ گیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ’’احسان‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جو طریقت و تصوف کی طرف اشارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں بلکہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کر لیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان و تصوف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں جو اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشاندہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔ ارشاد ہوتا ہے۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.الفاتحه، 1 : 5، 6
’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام فرمایا۔‘‘
یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے :
فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًاOالنساء، 4 : 69
’’تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔
احسان کا لغوی معنیٰ و مفہوم
احسان کا لغوی معنیٰ و مفہوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لفظِ احسان کا مادہ ’’حسن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔
امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور تیسرا یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے پر کشش ہو ۔ مفردات القرآن : 119
اسی سے باب افعال کا مصدر ’’احسان‘‘ ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوف و سلوک کہلاتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لفظِ احسان کا مادہ ’’حسن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔
امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور تیسرا یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے پر کشش ہو ۔ مفردات القرآن : 119
اسی سے باب افعال کا مصدر ’’احسان‘‘ ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوف و سلوک کہلاتا تھا۔
کفار پر نعت مصطفیٰ ﷺ پر مشتمل اشعار تیروں کی طرح برستے ہیں
کفار پر نعت مصطفیٰ ﷺ پر مشتمل اشعار تیروں کی طرح برستے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (کفار و مشرکین کی اپنے) اشعار کے ذریعے مذمت کیا کرو، بے شک مومن اپنی جان اور مال (اور زبان) کے ساتھ جہاد کرتا ہے، گویا (مدحت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر مشتمل) یہ اشعار ان پر تیروں کی طرح برستے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں مجھ محمد مصطفی( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جان ہے، گویا تم ان (کفار و مشرکین) پر اپنے کہے ہوئے (نعت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے) اشعار کی شکل میں تیر برساتے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 456، 460، الرقم: 15824، 15834، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 632، الرقم: 932، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 74، الرقم: 209، وفي المعجم الکبير، 19/ 76، الرقم: 152.153، وفي مسند الشامين، 4/ 245، الرقم: 3196، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، الرقم: 20899، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 1/ 190.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (کفار و مشرکین کی اپنے) اشعار کے ذریعے مذمت کیا کرو، بے شک مومن اپنی جان اور مال (اور زبان) کے ساتھ جہاد کرتا ہے، گویا (مدحت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر مشتمل) یہ اشعار ان پر تیروں کی طرح برستے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں مجھ محمد مصطفی( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جان ہے، گویا تم ان (کفار و مشرکین) پر اپنے کہے ہوئے (نعت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے) اشعار کی شکل میں تیر برساتے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 456، 460، الرقم: 15824، 15834، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 632، الرقم: 932، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 74، الرقم: 209، وفي المعجم الکبير، 19/ 76، الرقم: 152.153، وفي مسند الشامين، 4/ 245، الرقم: 3196، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، الرقم: 20899، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 1/ 190.
اﷲ پاک اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مدح خواں بن گئے
اﷲ پاک اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مدح خواں بن گئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو الحسن مولی بنی نوفل سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (طسم الشعراء) نازل ہوئی حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ وہ زار و قطار رو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے: ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آیت کے اس حصہ: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم ان میں سے ہو جن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اﷲ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مدح خواں بن گئے)۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (آیت کا اگلا حصہ تلاوت) فرمایا: ’’اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعہ اسلام اور مظلوموں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کا جوش بھی بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان سے فرمایا: اس آیت سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
’’ایک اور روایت میں حضرت سدَّی سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’سوائے اُن (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ کے بارے میں فرمایا: یہ آیت حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور شعرائے انصار کی شان میں اتری ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے، جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا۔
’’اور ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت مجاہد علیہ الرحمہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک {اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعہ اسلام اور مظلوموں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کا حوصلہ بھی بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)} اس سے مراد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے اصحاب ہیں۔‘‘اِسے امام طبری نے روایت کیا ہے۔
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 556، الرقم: 6064، والطبري في جامع البيان، 19/ 130، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 334. 336.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو الحسن مولی بنی نوفل سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (طسم الشعراء) نازل ہوئی حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ وہ زار و قطار رو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے: ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آیت کے اس حصہ: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم ان میں سے ہو جن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اﷲ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مدح خواں بن گئے)۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (آیت کا اگلا حصہ تلاوت) فرمایا: ’’اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعہ اسلام اور مظلوموں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کا جوش بھی بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان سے فرمایا: اس آیت سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
’’ایک اور روایت میں حضرت سدَّی سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’سوائے اُن (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ کے بارے میں فرمایا: یہ آیت حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور شعرائے انصار کی شان میں اتری ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے، جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا۔
’’اور ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت مجاہد علیہ الرحمہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک {اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعہ اسلام اور مظلوموں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کا حوصلہ بھی بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)} اس سے مراد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے اصحاب ہیں۔‘‘اِسے امام طبری نے روایت کیا ہے۔
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 556، الرقم: 6064، والطبري في جامع البيان، 19/ 130، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 334. 336.
یارسول اللہﷺاللہ تعالیٰ نےشعراء کےبارےمیں یہ آیت نازل فرمائی ہے
یارسول اللہﷺاللہ تعالیٰ نےشعراء کےبارےمیں یہ آیت نازل فرمائی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حسن براد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ تو حضرت عبد اللہ بن ابی رواحہ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت تینوں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ وہ گریہ کناں تھے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے (شعراء کے بارے میں) یہ آیت نازل فرمائی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی شاعر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اسکے بعد والی آیت پڑھو کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس آیت سے مراد تم لوگ ہو اور پھر (آیت کے اگلے حصہ): ’’اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا۔‘‘ تلاوت کر کے فرمایا: اس سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 277، الرقم: 26051، وابن أبي حاتم في تفسيره، 9/ 2834.2835، والطبري في جامع البيان، 19/ 129.130، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 334، والعسقلاني في فتح الباری، 10/ 539، والعيني في عمدة القاري، 22/ 181، والعظيم آبادي في عون المعبود، 13/ 244.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حسن براد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ تو حضرت عبد اللہ بن ابی رواحہ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت تینوں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ وہ گریہ کناں تھے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے (شعراء کے بارے میں) یہ آیت نازل فرمائی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی شاعر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اسکے بعد والی آیت پڑھو کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس آیت سے مراد تم لوگ ہو اور پھر (آیت کے اگلے حصہ): ’’اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا۔‘‘ تلاوت کر کے فرمایا: اس سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 277، الرقم: 26051، وابن أبي حاتم في تفسيره، 9/ 2834.2835، والطبري في جامع البيان، 19/ 129.130، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 334، والعسقلاني في فتح الباری، 10/ 539، والعيني في عمدة القاري، 22/ 181، والعظيم آبادي في عون المعبود، 13/ 244.
شعر گوئی میں اللہ تعالیٰ جبرئیل امین علیہ السّلام کے ذریعہ سے حسان کی مدد فرماتا ہے
شعر گوئی میں اللہ تعالیٰ جبرئیل امین علیہ السّلام کے ذریعہ سے حسان کی مدد فرماتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنِ الشَّعْبِيِّ عليه الرحمة قَالَ: ذُکِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها حَسَّانُ فَقِيْلَ لَهَا: إِنَّهُ قَدْ أَعَانَ عَلَيْکِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ، فَقَالَتْ: مَهْـلًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اﷲَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ فِي شِعْرِهِ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.
امام شعبی علیہ الرحمہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوا کہ وہ (یعنی حضرت حسان ص) سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے خلاف لوگوں کی مدد کرتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ (حضرت حسان کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل اچھی طرح سے) سوچ لیا کرو کیونکہ میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شعر گوئی میں اللہ تعالیٰ جبرئیل امین ں کے ذریعہ سے حسان کی مدد فرماتا ہے۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26019، وفي کتاب الأدب، 1/ 357، الرقم: 382.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنِ الشَّعْبِيِّ عليه الرحمة قَالَ: ذُکِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها حَسَّانُ فَقِيْلَ لَهَا: إِنَّهُ قَدْ أَعَانَ عَلَيْکِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ، فَقَالَتْ: مَهْـلًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اﷲَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ فِي شِعْرِهِ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.
امام شعبی علیہ الرحمہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوا کہ وہ (یعنی حضرت حسان ص) سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے خلاف لوگوں کی مدد کرتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ (حضرت حسان کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل اچھی طرح سے) سوچ لیا کرو کیونکہ میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شعر گوئی میں اللہ تعالیٰ جبرئیل امین ں کے ذریعہ سے حسان کی مدد فرماتا ہے۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26019، وفي کتاب الأدب، 1/ 357، الرقم: 382.
بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے
بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ اﷲَ قَدْ أَنْزَلَ فِي الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ، فَقَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَکَأَنَّ مَا تَرْمُوْنَهُمْ بِهِ نَضْحُ النَّبْلِ.
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: بیشک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے شعر کے بارے میں نازل کیا جو نازل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! گویا جو الفاظ تم ان (کفار و مشرکین)کی مذمت میں کہتے ہو وہ (ان کے لئے) بمنزلہ تیر برسانے کے ہیں۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 387، الرقم: 27218، 3/ 456، وابن حبان في الصحيح، 13/ 102، الرقم: 5786، 11/ 5، الرقم: 4707، والبخاري في التاريخ الکبير، 5/ 304، والطبراني في المعجم الکبير، 19/ 75، الرقم: 151.153، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، والبغوي في شرح السنة، 12/ 378، الرقم: 3409، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3/ 1325، والمزي في تهذيب الکمال، 24/ 195، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 216، الرقم: 566.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ اﷲَ قَدْ أَنْزَلَ فِي الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ، فَقَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَکَأَنَّ مَا تَرْمُوْنَهُمْ بِهِ نَضْحُ النَّبْلِ.
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: بیشک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے شعر کے بارے میں نازل کیا جو نازل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! گویا جو الفاظ تم ان (کفار و مشرکین)کی مذمت میں کہتے ہو وہ (ان کے لئے) بمنزلہ تیر برسانے کے ہیں۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 387، الرقم: 27218، 3/ 456، وابن حبان في الصحيح، 13/ 102، الرقم: 5786، 11/ 5، الرقم: 4707، والبخاري في التاريخ الکبير، 5/ 304، والطبراني في المعجم الکبير، 19/ 75، الرقم: 151.153، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، والبغوي في شرح السنة، 12/ 378، الرقم: 3409، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3/ 1325، والمزي في تهذيب الکمال، 24/ 195، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 216، الرقم: 566.
سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے
سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} ]الشعراء، 26:224[ فَنَسَخَ مِنْ ذَلِکَ وَاسْتَثْنَی فَقَالَ: {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُوا اﷲَ کَثِيْرًا} ]الشعراء، 26: 227[. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس آیت مبارکہ: ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے حکم کو بعد والی آیت میں نسخ فرمایا اور استثناء کیا اور فرمایا: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 304، الرقم: 5016، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، الرقم: 20900، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 335.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} ]الشعراء، 26:224[ فَنَسَخَ مِنْ ذَلِکَ وَاسْتَثْنَی فَقَالَ: {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُوا اﷲَ کَثِيْرًا} ]الشعراء، 26: 227[. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس آیت مبارکہ: ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے حکم کو بعد والی آیت میں نسخ فرمایا اور استثناء کیا اور فرمایا: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 304، الرقم: 5016، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، الرقم: 20900، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 335.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھتے تھے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھتے تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھتے تھے جس پر وہ کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے (مشرکین کے مقابلہ میں) فخر یا دفاع کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے: بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا رہے گا۔ جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے فخر یا دفاع کرتا رہے گا۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في إنشاد الشعر، 5/ 138، الرقم: 2846، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 72، الرقم: 24481، والحاکم في المستدرک، 3/ 554. 555، الرقم: 6058.6059، والطحاوي في شرح معاني الاثار، 4/ 298، وأبو يعلی في المسند، 8/ 189، الرقم: 4746، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 37، الرقم: 3580، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 2/ 423، الرقم: 427، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 123.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھتے تھے جس پر وہ کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے (مشرکین کے مقابلہ میں) فخر یا دفاع کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے: بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا رہے گا۔ جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے فخر یا دفاع کرتا رہے گا۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في إنشاد الشعر، 5/ 138، الرقم: 2846، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 72، الرقم: 24481، والحاکم في المستدرک، 3/ 554. 555، الرقم: 6058.6059، والطحاوي في شرح معاني الاثار، 4/ 298، وأبو يعلی في المسند، 8/ 189، الرقم: 4746، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 37، الرقم: 3580، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 2/ 423، الرقم: 427، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 123.
میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود ظاہرًا بھی) موجود تھے
میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود ظاہرًا بھی) موجود تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه مَرَّ بِحَسَّانَ رضی الله عنه وَهُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ فَقَالَ: قَدْ کُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيْهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْکَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ: أَنْشُدُکَ اﷲَ أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: أَجِبْ عَنِّي اَللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قَالَ: اَللَّهُمَّ نَعَمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، درآنحالیکہ وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھور کر ان کی طرف دیکھا تو حضرت حسان نے کہا: میں مسجد میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود ظاہرًا بھی) موجود تھے، پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف مڑ کر دیکھا (جو کہ وہاں موجود تھے) اور کہا: (اے ابوہریرہ!) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: (اے حسان!) میری طرف سے (مشرکین کو) جواب دو۔ اے اللہ! اس کی روح القدس (حضرت جبریل) کے ذریعہ سے تائید فرما؟ تو انہوں نے کہا: ہاں اﷲ کی قسم! سنا ہے۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت، 4/ 1932، الرقم: 2485، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ماجاء في الشعر، 4/ 303، الرقم: 5013، والنسائي في السنن، کتاب: المساجد،باب: الرخصة في إنشاد الشعر الحسن في المسجد، 2/ 48، الرقم: 716، وفي السنن الکبری، 1/ 262، الرقم: 795، 6/ 51، الرقم: 9999، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 222، الرقم: 21986، وابن خزيمة في الصحيح، 2/ 275، الرقم: 1307، وأبو يعلی في المسند، 10/ 290، الرقم: 5885.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه مَرَّ بِحَسَّانَ رضی الله عنه وَهُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ فَقَالَ: قَدْ کُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيْهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْکَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ: أَنْشُدُکَ اﷲَ أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: أَجِبْ عَنِّي اَللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قَالَ: اَللَّهُمَّ نَعَمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، درآنحالیکہ وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھور کر ان کی طرف دیکھا تو حضرت حسان نے کہا: میں مسجد میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود ظاہرًا بھی) موجود تھے، پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف مڑ کر دیکھا (جو کہ وہاں موجود تھے) اور کہا: (اے ابوہریرہ!) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: (اے حسان!) میری طرف سے (مشرکین کو) جواب دو۔ اے اللہ! اس کی روح القدس (حضرت جبریل) کے ذریعہ سے تائید فرما؟ تو انہوں نے کہا: ہاں اﷲ کی قسم! سنا ہے۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت، 4/ 1932، الرقم: 2485، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ماجاء في الشعر، 4/ 303، الرقم: 5013، والنسائي في السنن، کتاب: المساجد،باب: الرخصة في إنشاد الشعر الحسن في المسجد، 2/ 48، الرقم: 716، وفي السنن الکبری، 1/ 262، الرقم: 795، 6/ 51، الرقم: 9999، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 222، الرقم: 21986، وابن خزيمة في الصحيح، 2/ 275، الرقم: 1307، وأبو يعلی في المسند، 10/ 290، الرقم: 5885.
اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا
اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابن مسیّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے حلقہ میں جہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، ان سے دریافت کیا: اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: (اے حسان! ) میری طرف سے (کفار و مشرکین کو) جواب دو، اللہ تعالیٰ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل) کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں، اللہ کی قسم! میں نے سنا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’اور اسی معنی کی ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پس انہیں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو) خدشہ لاحق ہوا کہ یہ (یعنی حضرت حسان رضی اللہ عنہ) انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حوالہ دے دیں گے۔ اس لئے انہوں نے اجازت دے دی (کیونکہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی موجودگی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اشعار پڑھا کرتے تھے)۔‘‘
اس روایت کو امام ابو داود، احمد، عبد الرزاق، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا: اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے (کفار و مشرکین کی ہجو کا) جواب دو، (اور پھر دعا فرمائی) اے اللہ! روح القدس (جبریل امین) کے ذریعے اس کی مدد فرما۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جی ہاں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4/ 1933، الرقم: 2485، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 304، الرقم: 5014، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 269، الرقم: 7632، 5/ 222، الرقم: 21989، وعبد الرزاق في المصنف، 1/ 439، الرقم: 1716، 11/ 267، الرقم: 20510، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 40.41، الرقم: 3584.3586، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 448، الرقم: 4145، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 384.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابن مسیّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے حلقہ میں جہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، ان سے دریافت کیا: اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: (اے حسان! ) میری طرف سے (کفار و مشرکین کو) جواب دو، اللہ تعالیٰ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل) کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں، اللہ کی قسم! میں نے سنا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’اور اسی معنی کی ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پس انہیں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو) خدشہ لاحق ہوا کہ یہ (یعنی حضرت حسان رضی اللہ عنہ) انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حوالہ دے دیں گے۔ اس لئے انہوں نے اجازت دے دی (کیونکہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی موجودگی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اشعار پڑھا کرتے تھے)۔‘‘
اس روایت کو امام ابو داود، احمد، عبد الرزاق، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا: اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے (کفار و مشرکین کی ہجو کا) جواب دو، (اور پھر دعا فرمائی) اے اللہ! روح القدس (جبریل امین) کے ذریعے اس کی مدد فرما۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جی ہاں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4/ 1933، الرقم: 2485، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 304، الرقم: 5014، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 269، الرقم: 7632، 5/ 222، الرقم: 21989، وعبد الرزاق في المصنف، 1/ 439، الرقم: 1716، 11/ 267، الرقم: 20510، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 40.41، الرقم: 3584.3586، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 448، الرقم: 4145، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 384.
حضور نبی اکرم ﷺ نےفرمایا بے شک بعض شعر دانائی والےہوتے ہیں
حضور نبی اکرم ﷺ نےفرمایا بے شک بعض شعر دانائی والےہوتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کسی شعر میں دانائی بھی ہوتی ہے۔‘‘
اسے امام بخاری ، ترمذی، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک اعرابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کوئی بات عرض کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک بعض بیانات جادو ہوتے ہیں اور بے شک بعض شعر دانائی والے ہوتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5/ 2276، الرقم: 5793، والترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء إن من الشعر حکمة، 5/ 137، الرقم: 2844، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 303، الرقم: 5010. 5011، وابن ماجه في السنن کتاب: الأدب، باب: الشعر، 2/ 1235، الرقم: 3755، والدارمي في السنن، 2/ 383، الرقم: 2704، والشافعي في المسند، 1/ 366، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 456، الرقم: 15824.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کسی شعر میں دانائی بھی ہوتی ہے۔‘‘
اسے امام بخاری ، ترمذی، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک اعرابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کوئی بات عرض کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک بعض بیانات جادو ہوتے ہیں اور بے شک بعض شعر دانائی والے ہوتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5/ 2276، الرقم: 5793، والترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء إن من الشعر حکمة، 5/ 137، الرقم: 2844، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 303، الرقم: 5010. 5011، وابن ماجه في السنن کتاب: الأدب، باب: الشعر، 2/ 1235، الرقم: 3755، والدارمي في السنن، 2/ 383، الرقم: 2704، والشافعي في المسند، 1/ 366، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 456، الرقم: 15824.
رسول اللہ ﷺ کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے
رسول اللہ ﷺ کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ هِشَامٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، فَقَالَتْ: لَا تَسُبَّهُ، فَإِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم .
حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہما) سے راویت کیا کہ انہوں نے فرمایا: میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: انہیں برا بھلا نہ کہو وہ (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب، حديث الإفک، 4/ 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5/ 2278، الرقم: 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت، 4/ 1933، الرقم: 2487، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 299، الرقم: 863، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6063، وقال: هذا حديث صحيح، والطبراني في المعجم الکبير، 23/ 107، الرقم: 149.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ هِشَامٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، فَقَالَتْ: لَا تَسُبَّهُ، فَإِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم .
حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہما) سے راویت کیا کہ انہوں نے فرمایا: میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: انہیں برا بھلا نہ کہو وہ (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب، حديث الإفک، 4/ 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5/ 2278، الرقم: 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت، 4/ 1933، الرقم: 2487، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 299، الرقم: 863، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6063، وقال: هذا حديث صحيح، والطبراني في المعجم الکبير، 23/ 107، الرقم: 149.
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا مت کہو
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا مت کہو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ عُرْوَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ رضياﷲ عنها تَکْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ: فَإِنَّهُ قَالَ:
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے فرماتی تھیں (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے:
’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4/ 1518، الرقم: 3910، ومسلم في الصحيح، کتاب: التوبة، باب: في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4/ 2137، الرقم: 2770، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 296، الرقم: 8931، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 197، وأبو يعلی في المسند، 8/ 341، الرقم: 4933، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6060.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ عُرْوَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ رضياﷲ عنها تَکْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ: فَإِنَّهُ قَالَ:
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے فرماتی تھیں (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے:
’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4/ 1518، الرقم: 3910، ومسلم في الصحيح، کتاب: التوبة، باب: في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4/ 2137، الرقم: 2770، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 296، الرقم: 8931، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 197، وأبو يعلی في المسند، 8/ 341، الرقم: 4933، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6060.
اے حسان) جب تک تم اﷲ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل) تمہاری تائید کرتے رہیں گے
(اے حسان) جب تک تم اﷲ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل) تمہاری تائید کرتے رہیں گے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: (اے حسان) جب تک تم اﷲ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل) تمہاری تائید کرتے رہیں گے، نیز حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کردیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا دل ٹھنڈا کیا) حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا:
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اﷲِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
هَجَوْتَ مُحمَّدًا بَرًّا حَنِيْفً
رَسُوْلَ اﷲِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَ وَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو کی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اﷲ ہی کے پاس ہے۔‘‘
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اﷲ کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔‘‘
’’بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: من أحب أن لا يسب نسبه، 3/ 1299، الرقم: 3338، وفي کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4/ 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5/ 2278، الرقم: 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت ص، 4/ 1934. 1935، الرقم: 2489.2490، وابن حبان في الصحيح، 13/ 103، الرقم: 5787، وأبو يعلی في المسند، 7/ 341، الرقم: 4377، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26021، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6063، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 238، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 38، الرقم: 3582، والبغوي في شرح السنة، 12/ 377، الرقم: 3408.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: (اے حسان) جب تک تم اﷲ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل) تمہاری تائید کرتے رہیں گے، نیز حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کردیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا دل ٹھنڈا کیا) حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا:
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اﷲِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
هَجَوْتَ مُحمَّدًا بَرًّا حَنِيْفً
رَسُوْلَ اﷲِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَ وَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو کی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اﷲ ہی کے پاس ہے۔‘‘
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اﷲ کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔‘‘
’’بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: من أحب أن لا يسب نسبه، 3/ 1299، الرقم: 3338، وفي کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4/ 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5/ 2278، الرقم: 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت ص، 4/ 1934. 1935، الرقم: 2489.2490، وابن حبان في الصحيح، 13/ 103، الرقم: 5787، وأبو يعلی في المسند، 7/ 341، الرقم: 4377، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26021، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6063، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 238، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 38، الرقم: 3582، والبغوي في شرح السنة، 12/ 377، الرقم: 3408.
جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فضیلت کا انکار کیا، میرے نزدیک وہ زندیق (ومرتد) ہے
جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فضیلت کا انکار کیا، میرے نزدیک وہ زندیق (ومرتد) ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وَقَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ هَارُوْنُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: مَنْ رَدَّ فَضْلَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَهُوَ عِنْدِي زِنْدِيْقٌ لَا يُسْتَتَابُ، وَيُقْتَلُ لِأَنَّ اﷲَ قَدْ فَضَّلَهُ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام وَقَدْ رُوِيَ عَنِ اﷲِ ل قَالَ: لَا أُذْکَرُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي، وَيَرْوِي فِي قَوْلِهِ: {لَعَمْرُکَ}، ]الحجر، 15: 72[، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لَوْلَاکَ، مَا خَلَقْتُ آدَمَ.
رَوَاهُ ابْنُ يَزِيْدَ الْخَـلَالُ (234.311ه) وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
حضرت ابو عباس ہارون بن العباس الہاشمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فضیلت کا انکار کیا، میرے نزدیک وہ زندیق (ومرتد) ہے، اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی، اور اسے قتل کیا جائے گا، کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام انبیائِ کرام علیہم السلام پر فضیلت عطا فرمائی، اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’(اے محبوب!) میرا ذکر کبھی آپ کے ذکر کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور اس فرمانِ الٰہی: (اے حبیب مکرم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قسم!‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد مصطفی! اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں حضرت آدم کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اسے امام ابن یزید خلال (234۔ 311ھ) نے ذکر کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ أخرجه الخلال في السنة، 1/ 273، الرقم: 273.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وَقَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ هَارُوْنُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: مَنْ رَدَّ فَضْلَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَهُوَ عِنْدِي زِنْدِيْقٌ لَا يُسْتَتَابُ، وَيُقْتَلُ لِأَنَّ اﷲَ قَدْ فَضَّلَهُ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام وَقَدْ رُوِيَ عَنِ اﷲِ ل قَالَ: لَا أُذْکَرُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي، وَيَرْوِي فِي قَوْلِهِ: {لَعَمْرُکَ}، ]الحجر، 15: 72[، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لَوْلَاکَ، مَا خَلَقْتُ آدَمَ.
رَوَاهُ ابْنُ يَزِيْدَ الْخَـلَالُ (234.311ه) وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
حضرت ابو عباس ہارون بن العباس الہاشمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فضیلت کا انکار کیا، میرے نزدیک وہ زندیق (ومرتد) ہے، اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی، اور اسے قتل کیا جائے گا، کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام انبیائِ کرام علیہم السلام پر فضیلت عطا فرمائی، اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’(اے محبوب!) میرا ذکر کبھی آپ کے ذکر کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور اس فرمانِ الٰہی: (اے حبیب مکرم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قسم!‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد مصطفی! اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں حضرت آدم کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اسے امام ابن یزید خلال (234۔ 311ھ) نے ذکر کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ أخرجه الخلال في السنة، 1/ 273، الرقم: 273.
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ : ۔ لَا ذُکِرْتُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي فِي الْأَذَانِ
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ : ۔ لَا ذُکِرْتُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي فِي الْأَذَانِ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرمایا: (اے حبیب!) اذان میں، اقامت میں، تشہد میں، جمعہ کے دن منبروں پر، عیدالفطر کے دن، (خطبوں میں) ایام تشریق میں، عرفہ کے دن، مقام جمرہ پر، صفا و مروہ پر، خطبہ نکاح میں (الغرض) مشرق و مغرب میں جب بھی میرا ذکر کیا جائے گا تو تیرا ذکر بھی میرے ذکر کے ساتھ شامل ہو گا اور اﷲ تعالیٰ (نے فرمایا کہ اس) کا کوئی بندہ (رات دن) اگر اس کی حمد و ثنا بیان کرے اور جنت و دوزخ کے ساتھ ساتھ (باقی ہر ایک ارکان اسلام کی بھی) گواہی دے مگر یہ اقرار نہ کرے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ کے رسول ہیں تو وہ ہرگز ذرہ برابر بھی نفع نہیں پائے گا اور مطلق کافر (کا کافر) ہی رہے گا۔
أخرجه القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 20/ 106، والبغوي في معالم التنزيل، 4/ 502، والطبري في جامع البيان، 30/ 235، والشافعي في أحکام القرآن، 1/ 58، والسيوطي في الدر المنثور، 8/ 547.549، والصنعاني في تفسير القرآن، 3/ 380، والثعلبي في الجواهر الحسان، 4/ 424، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 525، وابن الجوزي في زاد المسير، 9/ 163، والشوکاني في فتح القدير، 5/ 463، والواحدي في الوجيز في تفسير الکتاب العزيز، 2/ 1212، والالوسي في روح المعاني، 30/ 169، والسيوطي في الإتقان، 1/ 128، 2/ 536.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرمایا: (اے حبیب!) اذان میں، اقامت میں، تشہد میں، جمعہ کے دن منبروں پر، عیدالفطر کے دن، (خطبوں میں) ایام تشریق میں، عرفہ کے دن، مقام جمرہ پر، صفا و مروہ پر، خطبہ نکاح میں (الغرض) مشرق و مغرب میں جب بھی میرا ذکر کیا جائے گا تو تیرا ذکر بھی میرے ذکر کے ساتھ شامل ہو گا اور اﷲ تعالیٰ (نے فرمایا کہ اس) کا کوئی بندہ (رات دن) اگر اس کی حمد و ثنا بیان کرے اور جنت و دوزخ کے ساتھ ساتھ (باقی ہر ایک ارکان اسلام کی بھی) گواہی دے مگر یہ اقرار نہ کرے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ کے رسول ہیں تو وہ ہرگز ذرہ برابر بھی نفع نہیں پائے گا اور مطلق کافر (کا کافر) ہی رہے گا۔
أخرجه القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 20/ 106، والبغوي في معالم التنزيل، 4/ 502، والطبري في جامع البيان، 30/ 235، والشافعي في أحکام القرآن، 1/ 58، والسيوطي في الدر المنثور، 8/ 547.549، والصنعاني في تفسير القرآن، 3/ 380، والثعلبي في الجواهر الحسان، 4/ 424، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 525، وابن الجوزي في زاد المسير، 9/ 163، والشوکاني في فتح القدير، 5/ 463، والواحدي في الوجيز في تفسير الکتاب العزيز، 2/ 1212، والالوسي في روح المعاني، 30/ 169، والسيوطي في الإتقان، 1/ 128، 2/ 536.
حضرت آدم علیہ السّلام نے فرمایا آسمانوں میں کوئ ایسی جگہ نہ پائی جہاں میں نے اسم ’’محمد ﷺ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو
حضرت آدم علیہ السّلام نے فرمایا آسمانوں میں کوئ ایسی جگہ نہ پائی جہاں میں نے اسم ’’محمد ﷺ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم نے فرمایا: اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کا بھی ذکر کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسم گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ (روح پھونکے جانے کے بعد) میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جہاں میں نے اسم ’’محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ‘‘ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں حورعین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبیٰ درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان بھی اسم ’’محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔
أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23/ 281، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 12.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم نے فرمایا: اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کا بھی ذکر کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسم گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ (روح پھونکے جانے کے بعد) میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جہاں میں نے اسم ’’محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ‘‘ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں حورعین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبیٰ درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان بھی اسم ’’محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔
أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23/ 281، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 12.
آپ ﷺ اس وقت کہاں تھےجب حضرت آدم علیہ السّلام جنت میں تھے
آپ ﷺ اس وقت کہاں تھےجب حضرت آدم علیہ السّلام جنت میں تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ اس وقت کہاں تھے، جب حضرت آدم جنت میں تھے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تبسم کناں ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے پھر فرمایا: میں ان (یعنی حضرت آدم ں) کی پشت میں تھا، اور اپنے باپ حضرت نوح کی پشت میں مجھے کشتی پر سوار کیا گیا، اور حضرت ابراہیم ں کی پشت میں (میرا نور) ڈالا گیا۔ میرے والدین (آباء و اجداد) کبھی بھی بغیر نکاح کے نہیں ملے۔ اﷲ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا۔ تورات و انجیل میں میرے ذکر کی خوشخبری سنائی گئی۔ ہر نبی نے میری صفات بیان کیں۔ میرے نور کی وجہ سے صبح روشن ہوئی، اور بادل میری وجہ سے سایہ فگن ہیں، اور اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنے اسماء حسنیٰ میں سے نام عطا کیا، سو وہ عرش والا محمود ہے اور میں محمد ہوں، اور (اﷲ تعالیٰ نے) حوض کوثر کا میرے لئے وعدہ فرمایا، اور یہ کہ مجھے سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بنایا، اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پھر یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنی امت کے بہترین زمانے میں پیدا فرمایا، میری امت کے لوگ اﷲ کی ثناء بیان کرنے والے ہیں۔ وہ نیکی کا حکم اور بدی سے روکنے والے ہیں۔
أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 408، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 332، وابن کثير في البداية والنهاية، 2/ 258، والمناوي في فيض القدير، 3/ 437.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ اس وقت کہاں تھے، جب حضرت آدم جنت میں تھے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تبسم کناں ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے پھر فرمایا: میں ان (یعنی حضرت آدم ں) کی پشت میں تھا، اور اپنے باپ حضرت نوح کی پشت میں مجھے کشتی پر سوار کیا گیا، اور حضرت ابراہیم ں کی پشت میں (میرا نور) ڈالا گیا۔ میرے والدین (آباء و اجداد) کبھی بھی بغیر نکاح کے نہیں ملے۔ اﷲ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا۔ تورات و انجیل میں میرے ذکر کی خوشخبری سنائی گئی۔ ہر نبی نے میری صفات بیان کیں۔ میرے نور کی وجہ سے صبح روشن ہوئی، اور بادل میری وجہ سے سایہ فگن ہیں، اور اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنے اسماء حسنیٰ میں سے نام عطا کیا، سو وہ عرش والا محمود ہے اور میں محمد ہوں، اور (اﷲ تعالیٰ نے) حوض کوثر کا میرے لئے وعدہ فرمایا، اور یہ کہ مجھے سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بنایا، اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پھر یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنی امت کے بہترین زمانے میں پیدا فرمایا، میری امت کے لوگ اﷲ کی ثناء بیان کرنے والے ہیں۔ وہ نیکی کا حکم اور بدی سے روکنے والے ہیں۔
أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 408، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 332، وابن کثير في البداية والنهاية، 2/ 258، والمناوي في فيض القدير، 3/ 437.
جبرائیل علیہ السّلام نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ
جبرائیل علیہ السّلام نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ: اﷲُ أَکْبَرُ اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: حضرت آدمں ہند میں نازل ہوئے اور (نزول کے بعد) انہوں نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت و تنہائی دور کرنے کے لئے) جبرائیلں نازل ہوئے اور اذان دی: اَﷲُ أَکْبَرُ، اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدمں نے دریافت کیا: محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔
أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4/ 271، الرقم: 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7/ 437.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ: اﷲُ أَکْبَرُ اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: حضرت آدمں ہند میں نازل ہوئے اور (نزول کے بعد) انہوں نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت و تنہائی دور کرنے کے لئے) جبرائیلں نازل ہوئے اور اذان دی: اَﷲُ أَکْبَرُ، اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدمں نے دریافت کیا: محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔
أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4/ 271، الرقم: 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7/ 437.
میں نے عرش پر ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا
میں نے عرش پر ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے (بغیر ارادہ کے) لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے: (یا اﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: (اے آدم!) محمد مصطفی کون ہیں؟ حضرت آدم ں نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی عظیم المرتبت ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہاری نسل میں سے آخری نبی ہیں، اور ان کی امت بھی تمہاری نسل کی آخری امت ہو گی، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے (نادانستگی میں) خطا سرزد ہوگئی، تو انہوں نے (توبہ کے لیے) اپنا سر اٹھایا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے توسل سے تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری خطاء معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی طرف وحی کی: محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا ہیں؟ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کون ہیں؟ حضرت آدم نے عرض کی: مولا! جب تو نے میری تخلیق کو مکمل کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا تھا: ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ ;تو میں جان گیا بے شک وہ تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر عزت و مرتبہ والے ہیں۔ تبھی تو، تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں اور میں نے (اُن کے وسیلے سے بخشش مانگنے پر) تمہاری مغفرت فرما دی ہے اور وہ تمہاری نسل سے آخری نبی ہوں گے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2/ 182، الرقم: 992، وفي المعجم الأوسط، 6/ 313، الرقم: 6502، ابن تيمية في مجموع الفتاوی، 2/ 151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 253، والسيوطي في جامع الأحاديث، 11/ 94.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے (بغیر ارادہ کے) لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے: (یا اﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: (اے آدم!) محمد مصطفی کون ہیں؟ حضرت آدم ں نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی عظیم المرتبت ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہاری نسل میں سے آخری نبی ہیں، اور ان کی امت بھی تمہاری نسل کی آخری امت ہو گی، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے (نادانستگی میں) خطا سرزد ہوگئی، تو انہوں نے (توبہ کے لیے) اپنا سر اٹھایا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے توسل سے تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری خطاء معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی طرف وحی کی: محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا ہیں؟ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کون ہیں؟ حضرت آدم نے عرض کی: مولا! جب تو نے میری تخلیق کو مکمل کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا تھا: ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ ;تو میں جان گیا بے شک وہ تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر عزت و مرتبہ والے ہیں۔ تبھی تو، تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں اور میں نے (اُن کے وسیلے سے بخشش مانگنے پر) تمہاری مغفرت فرما دی ہے اور وہ تمہاری نسل سے آخری نبی ہوں گے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2/ 182، الرقم: 992، وفي المعجم الأوسط، 6/ 313، الرقم: 6502، ابن تيمية في مجموع الفتاوی، 2/ 151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 253، والسيوطي في جامع الأحاديث، 11/ 94.
میں تجھ سے محمد ﷺ کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں
میں تجھ سے محمد ﷺ کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاہ الٰہی میں ) عرض کیا: اے پروردگار! میں تجھ سے محمد( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما، اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک تو میں نے انہیں (ظاہراً) پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم ں نے عرض کیا: اے پروردگار! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے محبوب ہے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم تو نے سچ کہا ہے کہ مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اب جبکہ تم نے ان کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف فرما دیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کو نبوت کب ملی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے اسے سات آسمانوں میں تقسیم کر دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے عرش کو تخلیق کیا اور اس کی پیشانی پر لکھا: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، ’’محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو تخلیق کیا کہ جہاں اس نے حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کوبسایا تھا، تو جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر میرا نام لکھا۔ اس وقت تک حضرت آدم ں ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تو انہوں نے عرش پر میرا نام لکھا ہوا دیکھا، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ (اے آدم!) محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تیری اولاد کے سردار ہیں۔ اس لیے جب شیطان نے انہیں بہکایا تو انہوں نے توبہ کی اورمعافی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے نام کا وسیلہ اختیار کیا۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 672، الرقم: 4228، والبيهقي في دلائل النبوة، 5/ 489، والقاضي عياض في الشفا، 1/ 227، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7/ 437، وابن تيمية في مجموع الفتاوی، 2/ 150، وفي قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة: 84، وابن کثير في البداية والنهاية، 1/ 131، 2/ 291، 1/ 6، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 6، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1/ 130، الرقم: 206.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاہ الٰہی میں ) عرض کیا: اے پروردگار! میں تجھ سے محمد( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما، اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک تو میں نے انہیں (ظاہراً) پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم ں نے عرض کیا: اے پروردگار! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے محبوب ہے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم تو نے سچ کہا ہے کہ مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اب جبکہ تم نے ان کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف فرما دیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کو نبوت کب ملی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے اسے سات آسمانوں میں تقسیم کر دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے عرش کو تخلیق کیا اور اس کی پیشانی پر لکھا: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، ’’محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو تخلیق کیا کہ جہاں اس نے حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کوبسایا تھا، تو جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر میرا نام لکھا۔ اس وقت تک حضرت آدم ں ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تو انہوں نے عرش پر میرا نام لکھا ہوا دیکھا، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ (اے آدم!) محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تیری اولاد کے سردار ہیں۔ اس لیے جب شیطان نے انہیں بہکایا تو انہوں نے توبہ کی اورمعافی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے نام کا وسیلہ اختیار کیا۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 672، الرقم: 4228، والبيهقي في دلائل النبوة، 5/ 489، والقاضي عياض في الشفا، 1/ 227، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7/ 437، وابن تيمية في مجموع الفتاوی، 2/ 150، وفي قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة: 84، وابن کثير في البداية والنهاية، 1/ 131، 2/ 291، 1/ 6، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 6، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1/ 130، الرقم: 206.
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا نام اپنے نام سے نکالا ہے
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا نام اپنے نام سے نکالا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَبُوْ طَالِبٍ إِذَا رَأَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ:
وَشَقَّ لَهُ مِنِ اسْمِهِ لِيُجِلَّهُ
فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَهَذَا مُحَمَّدٌ
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّغِيْرِ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
حضرت علی بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکتے تو یہ شعر گنگناتے:
’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تکریم کی خاطر آپ کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، پس عرش والا(اللہ تعالیٰ) محمود اور یہ (حبیب) محمد مصطفی ہیں۔
اس حدیث کو امام بخاری نے ’التاریخ الصغیر‘ میں، امام ابن حبان، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في التاريخ الصغير، 1/ 13، الرقم: 31، وابن حبان في الثقات، 1/ 42، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 41، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/ 160، وابن عبد البر في الاستيعاب، 9/ 154، والعسقلاني في الإصابة، 7/ 235، وفي فتح الباري، 6/ 555، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 32.33، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 1/ 133، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 526، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 134، والزرقاني في شرحه علي الموطأ، 4/ 557، والعظيم آبادي في عون المعبود، 3/ 189.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَبُوْ طَالِبٍ إِذَا رَأَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ:
وَشَقَّ لَهُ مِنِ اسْمِهِ لِيُجِلَّهُ
فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَهَذَا مُحَمَّدٌ
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّغِيْرِ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
حضرت علی بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکتے تو یہ شعر گنگناتے:
’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تکریم کی خاطر آپ کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، پس عرش والا(اللہ تعالیٰ) محمود اور یہ (حبیب) محمد مصطفی ہیں۔
اس حدیث کو امام بخاری نے ’التاریخ الصغیر‘ میں، امام ابن حبان، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في التاريخ الصغير، 1/ 13، الرقم: 31، وابن حبان في الثقات، 1/ 42، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 41، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/ 160، وابن عبد البر في الاستيعاب، 9/ 154، والعسقلاني في الإصابة، 7/ 235، وفي فتح الباري، 6/ 555، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 32.33، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 1/ 133، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 526، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 134، والزرقاني في شرحه علي الموطأ، 4/ 557، والعظيم آبادي في عون المعبود، 3/ 189.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر ہو گا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر ہو گا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيْلُ، فَقَالَ: إِنَّ رَبِّي وَرَبَّکَ يَقُوْلُ لَکَ: کَيْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ؟ قَالَ: اﷲُ أَعْلَمُ. قَالَ: إِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِي.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلَی وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جبریل میرے پاس آئے اور عرض کیا: تحقیق میرے اور آپ کے رب نے آپ کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے تو جبریل نے عرض کیا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حبیب!) جب بھی میرا ذکر ہو گا تو (ہمیشہ) میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر ہو گا۔
اسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس کی اسناد حسن ہیں۔
أخرجه ابن حبان في الصحيح، 8/ 175، الرقم: 3382، وأبو يعلی في المسند، 2/ 522، الرقم: 1380، والخلال في السنة، 1/ 262، الرقم: 318، والديلمي في مسند الفردوس، 4/ 405، الرقم: 7176، والطبري في جامع البيان، 30/ 235، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 525، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 439، وفي مجمع الزوائد، 8/ 254، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 712، والمناوي في فيض القدير، 1/ 98، والأندلسي في تحفة المحتاج، 1/ 306، والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي، 2/ 70، الرقم: 1211، والسمعاني في أدب الاملا والاستملاء، 1/ 52، والهندي في کنز العمال، 1/ 2278، الرقم: 31891.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيْلُ، فَقَالَ: إِنَّ رَبِّي وَرَبَّکَ يَقُوْلُ لَکَ: کَيْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ؟ قَالَ: اﷲُ أَعْلَمُ. قَالَ: إِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِي.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلَی وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جبریل میرے پاس آئے اور عرض کیا: تحقیق میرے اور آپ کے رب نے آپ کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے تو جبریل نے عرض کیا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حبیب!) جب بھی میرا ذکر ہو گا تو (ہمیشہ) میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر ہو گا۔
اسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس کی اسناد حسن ہیں۔
أخرجه ابن حبان في الصحيح، 8/ 175، الرقم: 3382، وأبو يعلی في المسند، 2/ 522، الرقم: 1380، والخلال في السنة، 1/ 262، الرقم: 318، والديلمي في مسند الفردوس، 4/ 405، الرقم: 7176، والطبري في جامع البيان، 30/ 235، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 525، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 439، وفي مجمع الزوائد، 8/ 254، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 712، والمناوي في فيض القدير، 1/ 98، والأندلسي في تحفة المحتاج، 1/ 306، والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي، 2/ 70، الرقم: 1211، والسمعاني في أدب الاملا والاستملاء، 1/ 52، والهندي في کنز العمال، 1/ 2278، الرقم: 31891.
جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سلام بھیجے
جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سلام بھیجے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو حمید الساعدی یا ابو حمید الانصاری رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سلام بھیجے پھر کہے: اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے: اے اﷲ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔
اس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام ابو حاتم الرازی نے بیان کیا کہ امام ابو زرعہ نے فرمایا: حضرت ابو حمید اور ابو اسید رضی اﷲ عنہما دونوں سے مروی روایات صحیح تر ہوتی ہیں۔ اور امام مناوی نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے استحبابًا، تاکیدًا اور وجوبًا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا چاہئے کیونکہ مساجد ذکر کرنے کی جگہ ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا بھی ذکر الٰہی ہی ہے۔
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: فيما يقوله الرجل عند دخوله المسجد، 1/ 126، الرقم: 465، وابن ماجه في السنن، کتاب: المساجد والجماعات، باب: الدعاء عند دخول المسجد، 1/ 254، الرقم: 772، والدارمي في السنن، 1/ 377، الرقم: 1394، وابن حبان في الصحيح، 5/ 397، الرقم: 2048، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 441. 442، الرقم: 4115، 4117، وفي السنن الصغری، 1/ 302، الرقم: 508. 509، والحاکم في شعار أصحاب الحديث، 1/ 59، الرقم: 76، والطبراني في الدعاء، 1/ 150، الرقم: 426، وأبو عوانة في المسند، 1/ 414، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 301، الرقم: 1188، والمناوي في فيض القدير، 1/ 336، والرازي في علل الحديث، 1/ 178، الرقم: 509.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو حمید الساعدی یا ابو حمید الانصاری رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سلام بھیجے پھر کہے: اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے: اے اﷲ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔
اس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام ابو حاتم الرازی نے بیان کیا کہ امام ابو زرعہ نے فرمایا: حضرت ابو حمید اور ابو اسید رضی اﷲ عنہما دونوں سے مروی روایات صحیح تر ہوتی ہیں۔ اور امام مناوی نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے استحبابًا، تاکیدًا اور وجوبًا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا چاہئے کیونکہ مساجد ذکر کرنے کی جگہ ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا بھی ذکر الٰہی ہی ہے۔
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: فيما يقوله الرجل عند دخوله المسجد، 1/ 126، الرقم: 465، وابن ماجه في السنن، کتاب: المساجد والجماعات، باب: الدعاء عند دخول المسجد، 1/ 254، الرقم: 772، والدارمي في السنن، 1/ 377، الرقم: 1394، وابن حبان في الصحيح، 5/ 397، الرقم: 2048، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 441. 442، الرقم: 4115، 4117، وفي السنن الصغری، 1/ 302، الرقم: 508. 509، والحاکم في شعار أصحاب الحديث، 1/ 59، الرقم: 76، والطبراني في الدعاء، 1/ 150، الرقم: 426، وأبو عوانة في المسند، 1/ 414، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 301، الرقم: 1188، والمناوي في فيض القدير، 1/ 336، والرازي في علل الحديث، 1/ 178، الرقم: 509.
ایک شخص آیا اور اس نے نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی
ایک شخص آیا اور اس نے نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی: ’’اے اﷲ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے نمازی! تو نے جلدی کی جب نماز پڑھ چکو تو (سکون سے) بیٹھ جایا کرو، پھر اللہ تعالیٰ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا کرو، اور پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو اور پھر دعا مانگو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر ایک اور شخص نے نماز ادا کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود و سلام بھیجا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے نمازی! (اپنے رب) سے مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اور امام منذری نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں رشدین بن سعد ہیں جن کی روایات رقاق میں مقبول ہیں اور بقیہ تمام رجال بھی ثقہ ہیں۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في جامع الدعوات عن النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 516، الرقم: 3476، والنسائي في السنن، کتاب: السهو، باب: التمجيد والصلاة علی النبي صلی الله عليه واله وسلم في الصلاة، 3/ 44، الرقم: 1284، وفي السنن الکبری، 1/ 380، الرقم: 1207، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 351، الرقم: 709، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 307، الرقم: 792، 794.795، وفي الدعاء، 1/ 46، الرقم: 89.90، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 319، الرقم: 2544، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 155.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی: ’’اے اﷲ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے نمازی! تو نے جلدی کی جب نماز پڑھ چکو تو (سکون سے) بیٹھ جایا کرو، پھر اللہ تعالیٰ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا کرو، اور پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو اور پھر دعا مانگو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر ایک اور شخص نے نماز ادا کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود و سلام بھیجا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے نمازی! (اپنے رب) سے مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اور امام منذری نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں رشدین بن سعد ہیں جن کی روایات رقاق میں مقبول ہیں اور بقیہ تمام رجال بھی ثقہ ہیں۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في جامع الدعوات عن النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 516، الرقم: 3476، والنسائي في السنن، کتاب: السهو، باب: التمجيد والصلاة علی النبي صلی الله عليه واله وسلم في الصلاة، 3/ 44، الرقم: 1284، وفي السنن الکبری، 1/ 380، الرقم: 1207، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 351، الرقم: 709، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 307، الرقم: 792، 794.795، وفي الدعاء، 1/ 46، الرقم: 89.90، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 319، الرقم: 2544، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 155.
اس نے اپنی دعا میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجا
اس نے اپنی دعا میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک آدمی کو دورانِ نماز اس طرح دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اس نے اپنی دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود نہ بھیجا، اس پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے عجلت سے کام لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے یا اس کے علاوہ کسی اور کو (ازرہِ تلقین) فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے، تو اس کی دعا قبول ہوگی۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور ہم نے اس حدیث کی سند میں کوئی علت نہیں دیکھی۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في جامع الدعوات عن النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 517، الرقم: 3477، وأبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: الدعاء، 2/ 76، الرقم: 1481، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 18، الرقم: 23982، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 351، الرقم: 709.710، وابن حبان في الصحيح، 5/ 290، الرقم: 1960، والحاکم في المستدرک، 1/ 401، الرقم: 989، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 307، الرقم: 791، 793، وابن عبد البر في الاستذکار، 2/ 320.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک آدمی کو دورانِ نماز اس طرح دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اس نے اپنی دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود نہ بھیجا، اس پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے عجلت سے کام لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے یا اس کے علاوہ کسی اور کو (ازرہِ تلقین) فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے، تو اس کی دعا قبول ہوگی۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور ہم نے اس حدیث کی سند میں کوئی علت نہیں دیکھی۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في جامع الدعوات عن النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 517، الرقم: 3477، وأبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: الدعاء، 2/ 76، الرقم: 1481، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 18، الرقم: 23982، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 351، الرقم: 709.710، وابن حبان في الصحيح، 5/ 290، الرقم: 1960، والحاکم في المستدرک، 1/ 401، الرقم: 989، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 307، الرقم: 791، 793، وابن عبد البر في الاستذکار، 2/ 320.
اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے
اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو پس جو بھی شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بے شک وسیلہ جنت میں ایک منزل ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک کوملے گی اور مجھے امیدہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا پس جس نے اس وسیلہ کو میرے لئے طلب کیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلي علی النبي صلی الله عليه واله وسلم ثم يسأل اﷲ له الوسيلة، 1/ 288، الرقم: 384، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: في فضل النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 586، الرقم: 3614، وأبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: مايقول إذا سمع المؤذن، 1/ 144، الرقم: 523، والنسائي في السنن، کتاب: الأذان، باب: الصلاة علی النبي صلی الله عليه واله وسلم بعد الأذان، 2/ 25، الرقم: 678، وفي السنن الکبری، 1/ 510، الرقم: 1642، 6/ 16، الرقم: 9873، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 168، الرقم: 6568، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 218، الرقم: 418، وابن حبان في الصحيح، 4/ 588، 590، الرقم: 1690، 1692.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو پس جو بھی شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بے شک وسیلہ جنت میں ایک منزل ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک کوملے گی اور مجھے امیدہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا پس جس نے اس وسیلہ کو میرے لئے طلب کیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلي علی النبي صلی الله عليه واله وسلم ثم يسأل اﷲ له الوسيلة، 1/ 288، الرقم: 384، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: في فضل النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 586، الرقم: 3614، وأبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: مايقول إذا سمع المؤذن، 1/ 144، الرقم: 523، والنسائي في السنن، کتاب: الأذان، باب: الصلاة علی النبي صلی الله عليه واله وسلم بعد الأذان، 2/ 25، الرقم: 678، وفي السنن الکبری، 1/ 510، الرقم: 1642، 6/ 16، الرقم: 9873، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 168، الرقم: 6568، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 218، الرقم: 418، وابن حبان في الصحيح، 4/ 588، 590، الرقم: 1690، 1692.
Tuesday, 29 September 2015
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 23
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 23
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
58. اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَo الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ o وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَoالم نشرح، 94: 1-4
’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیاo اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
59. اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُo
الکوثر، 108: 1-3
’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے o پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّہے) o بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گاo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
58. اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَo الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ o وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَoالم نشرح، 94: 1-4
’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیاo اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
59. اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُo
الکوثر، 108: 1-3
’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے o پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّہے) o بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گاo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 22
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 22
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
55. وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍoالتکوير، 81: 24
’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)o‘‘
البلد
56. لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِo وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَo
البلد، 90: 1-3
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘
57. وَالضُّحٰیo وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیo وَ لَـلْاٰخِرَة خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo اَلَمْ يَجِدْکَ يَتِيْمًا فَاٰوٰیo وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَهَدٰیo وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰیo فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَـلَا تَقْهَرْo وَاَمَّا السَّآئِلَ فَـلَا تَنْهَرْo وَاَمَّا بِنِعْمَة رَبِّکَ فَحَدِّثْoالضحی، 93: 1-11
’’ قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)o اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائےo آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہےo اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گےo (اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیاo اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیاo اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لیے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیاo سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo اور (اپنے در کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیںo اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
55. وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍoالتکوير، 81: 24
’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)o‘‘
البلد
56. لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِo وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَo
البلد، 90: 1-3
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘
57. وَالضُّحٰیo وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیo وَ لَـلْاٰخِرَة خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo اَلَمْ يَجِدْکَ يَتِيْمًا فَاٰوٰیo وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَهَدٰیo وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰیo فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَـلَا تَقْهَرْo وَاَمَّا السَّآئِلَ فَـلَا تَنْهَرْo وَاَمَّا بِنِعْمَة رَبِّکَ فَحَدِّثْoالضحی، 93: 1-11
’’ قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)o اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائےo آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہےo اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گےo (اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیاo اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیاo اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لیے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیاo سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo اور (اپنے در کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیںo اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 21
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 21
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
52. عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاoالجن، 72: 26،27
’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتاo سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیوں کہ یہ خاصہ نبوت اور معجزہ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہےo‘‘
53. يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًاo نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًاo أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًاoالمزمل، 73: 1-4
’’اے کملی کی جھرمٹ والے(حبیب!)o آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)o آدھی رات یا اِس سے تھوڑا کم کر دیںo یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریںo‘‘
54. إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًاoالمزمل، 73: 15
’’بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھیجا ہے جو تم پر (اَحوال کا مشاہدہ فرما کر) گواہی دینے والا ہے، جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول کو بھیجا تھاo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
52. عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاoالجن، 72: 26،27
’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتاo سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیوں کہ یہ خاصہ نبوت اور معجزہ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہےo‘‘
53. يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًاo نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًاo أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًاoالمزمل، 73: 1-4
’’اے کملی کی جھرمٹ والے(حبیب!)o آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)o آدھی رات یا اِس سے تھوڑا کم کر دیںo یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریںo‘‘
54. إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًاoالمزمل، 73: 15
’’بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھیجا ہے جو تم پر (اَحوال کا مشاہدہ فرما کر) گواہی دینے والا ہے، جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول کو بھیجا تھاo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 20
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 20
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
49. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍo
الجمعة، 62: 2
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
50. ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَo مَا اَنْتَ بِنِعْمَة رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍo وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍo وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍoالقلم، 68: 1-4
’’نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) قلم کی قسم اور اُس (مضمون) کی قسم جو (فرشتے) لکھتے ہیںo (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیںo اور بے شک آپ کے لیے ایسا اَجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگاo اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)o‘‘
51. وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍo هَمَّازٍ مَّشَّآئٍم بِنَمِيْمٍo مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍo عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِيْمٍo اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِيْنَoالقلم، 68: 10-14
’’اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہےo (جو) طعنہ زَن، عیب جو (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لیے چغل خوری کرتا پھرتا ہےo (جو) بھلائی کے کام سے بہت روکنے والا بخیل، حد سے بڑھنے والا سرکش (اور) سخت گنہگار ہےo (جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہےo اِس لیے (اس کی بات کو اہمیت نہ دیں) کہ وہ مال دار اور صاحبِ اَولاد ہےo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
49. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍo
الجمعة، 62: 2
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
50. ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَo مَا اَنْتَ بِنِعْمَة رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍo وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍo وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍoالقلم، 68: 1-4
’’نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) قلم کی قسم اور اُس (مضمون) کی قسم جو (فرشتے) لکھتے ہیںo (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیںo اور بے شک آپ کے لیے ایسا اَجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگاo اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)o‘‘
51. وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍo هَمَّازٍ مَّشَّآئٍم بِنَمِيْمٍo مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍo عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِيْمٍo اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِيْنَoالقلم، 68: 10-14
’’اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہےo (جو) طعنہ زَن، عیب جو (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لیے چغل خوری کرتا پھرتا ہےo (جو) بھلائی کے کام سے بہت روکنے والا بخیل، حد سے بڑھنے والا سرکش (اور) سخت گنہگار ہےo (جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہےo اِس لیے (اس کی بات کو اہمیت نہ دیں) کہ وہ مال دار اور صاحبِ اَولاد ہےo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 19
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 19
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
47. وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىo مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىo وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰیo عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىo ذُوْ مِرَّةط فَاسْتَوٰیo وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰیo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىo مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَىo وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَة اُخْرٰیo عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَىo عِنْدَهَا جَنَّة الْمَاْوٰیoإِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىo مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰیo لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىoالنجم، 53 :1-18
’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیںاپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo ان کو بڑی قوّتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازاo جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوہ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایاo اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)o پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیاo پھر (جلوہ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)o پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائیo (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھاo اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوہ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)o سِدرۃ المنتھیٰ کے قریبo اسی کے پاس جنت المآْویٰ ہےo جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہیٰ) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیںo اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)o بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیںo‘‘
48. وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌoالصف، 61: 6
’’اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسیٰ بن مریم (علیھما السلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہے، پھر جب وہ (رسولِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہےo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
47. وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىo مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىo وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰیo عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىo ذُوْ مِرَّةط فَاسْتَوٰیo وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰیo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىo مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَىo وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَة اُخْرٰیo عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَىo عِنْدَهَا جَنَّة الْمَاْوٰیoإِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىo مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰیo لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىoالنجم، 53 :1-18
’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیںاپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo ان کو بڑی قوّتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازاo جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوہ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایاo اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)o پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیاo پھر (جلوہ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)o پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائیo (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھاo اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوہ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)o سِدرۃ المنتھیٰ کے قریبo اسی کے پاس جنت المآْویٰ ہےo جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہیٰ) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیںo اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)o بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیںo‘‘
48. وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌoالصف، 61: 6
’’اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسیٰ بن مریم (علیھما السلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہے، پھر جب وہ (رسولِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہےo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 18
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 18
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
45. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌo يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَo إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌo إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَoوَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ o الحجرات، 49: 1-5
’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بے شک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہےo اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo بے شک جو لوگ رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہےo بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
46. وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُo وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ o الطور، 52: 48، 49
’’اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں۔ اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوںo اور رات کے اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور (پچھلی رات بھی) جب ستارے چھپتے ہیںo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
45. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌo يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَo إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌo إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَoوَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ o الحجرات، 49: 1-5
’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بے شک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہےo اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo بے شک جو لوگ رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہےo بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
46. وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُo وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ o الطور، 52: 48، 49
’’اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں۔ اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوںo اور رات کے اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور (پچھلی رات بھی) جب ستارے چھپتے ہیںo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 17
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 17
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
43. إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًاo لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًاo وَيَنصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًاo
الفتح، 48: 1-3
’’(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرمادیا۔ (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہوجائے)oتاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امّت (کے اُن تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کئے اور قربانیاں دیں) اور (یوں اسلام کی فتح اور امّت کی بخشش کی صورت میں) آپ پر اپنی نعمت (ظاہراً و باطناً) پوری فرما دے اور آپ (کے واسطہ سے آپ کی امّت) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھےo اور اﷲ آپ کو نہایت باعزت مدد و نصرت سے نوازےo‘‘
44. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاo إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاoالفتح، 48 :8-10
’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کروo (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
43. إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًاo لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًاo وَيَنصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًاo
الفتح، 48: 1-3
’’(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرمادیا۔ (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہوجائے)oتاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امّت (کے اُن تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کئے اور قربانیاں دیں) اور (یوں اسلام کی فتح اور امّت کی بخشش کی صورت میں) آپ پر اپنی نعمت (ظاہراً و باطناً) پوری فرما دے اور آپ (کے واسطہ سے آپ کی امّت) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھےo اور اﷲ آپ کو نہایت باعزت مدد و نصرت سے نوازےo‘‘
44. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاo إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاoالفتح، 48 :8-10
’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کروo (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 16
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 16
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
38. يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاoالاحزاب، 33: 45، 46
’’اے نبِیّ (مکرّم) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)o‘‘
39. إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاoالاحزاب، 33: 56
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo۔‘‘
40. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَoسبا، 34: 28
’’اور (اے حبیبِ مکرّم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo‘‘
41. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِيهَا نَذِيرٌo
فاطر، 35: 24
’’بے شک ہم نے آپ کو حق و ہدایت کے ساتھ، خوشخبری سنانے والا اور (آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور کوئی امّت (ایسی) نہیں مگر اُس میں کوئی (نہ کوئی) ڈر سنانے والا (ضرور) گزرا ہےo‘‘
42 يٰس وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ o إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَo يٰس، 36: 1-3
’’یا سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o حکمت سے معمور قرآن کی قَسمo بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں o
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
38. يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاoالاحزاب، 33: 45، 46
’’اے نبِیّ (مکرّم) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)o‘‘
39. إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاoالاحزاب، 33: 56
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo۔‘‘
40. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَoسبا، 34: 28
’’اور (اے حبیبِ مکرّم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo‘‘
41. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِيهَا نَذِيرٌo
فاطر، 35: 24
’’بے شک ہم نے آپ کو حق و ہدایت کے ساتھ، خوشخبری سنانے والا اور (آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور کوئی امّت (ایسی) نہیں مگر اُس میں کوئی (نہ کوئی) ڈر سنانے والا (ضرور) گزرا ہےo‘‘
42 يٰس وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ o إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَo يٰس، 36: 1-3
’’یا سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o حکمت سے معمور قرآن کی قَسمo بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں o
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 15
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 15
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
35. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًاoالاحزاب، 33: 21
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے ہر شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘
36. مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاoالاحزاب، 33: 40
’’محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں (یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) اور اﷲ تعالیٰ سب چیزوں کا جاننے والا ہے (اسے علم ہے کہ ختم رسالت اور ختم نبوت کا وقت آگیا ہے)o‘‘
37. هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًاoالاحزاب، 33: 43
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہےo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
35. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًاoالاحزاب، 33: 21
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے ہر شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘
36. مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاoالاحزاب، 33: 40
’’محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں (یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) اور اﷲ تعالیٰ سب چیزوں کا جاننے والا ہے (اسے علم ہے کہ ختم رسالت اور ختم نبوت کا وقت آگیا ہے)o‘‘
37. هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًاoالاحزاب، 33: 43
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہےo
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 14
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 14
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
33. الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُo وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ o
الشعراء، 26: 218.219
’’جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لیے) قیام کرتے ہیںo اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہےo‘‘
34. النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُوْلُواْ الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًاo
الاحزاب، 33: 6
’’یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔ اور خونی رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (دیگر) مومنین اور مہاجرین کی نسبت (تقسیمِ وراثت میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتابِ (الٰہی) میں لکھا ہوا ہےo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
33. الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُo وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ o
الشعراء، 26: 218.219
’’جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لیے) قیام کرتے ہیںo اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہےo‘‘
34. النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُوْلُواْ الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًاo
الاحزاب، 33: 6
’’یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔ اور خونی رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (دیگر) مومنین اور مہاجرین کی نسبت (تقسیمِ وراثت میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتابِ (الٰہی) میں لکھا ہوا ہےo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 13
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 13
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
31. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ o الانبياء، 21: 107
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
32. لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ o النور، 24: 63
’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گاo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
31. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ o الانبياء، 21: 107
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
32. لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ o النور، 24: 63
’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گاo
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 12
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 12
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
29. قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًاo
الکهف، 18: 110
’’فرمادیجئے: میں تو صرف (بخلقتِ ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلامِ الٰہی اتر سکے) وہ یہ کہ تمہارا معبود ، معبود یکتا ہی ہے پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرےo‘‘
30. طٰهٰo مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى o طه، 20: 1، 2
’’طا ھا، (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیںo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
29. قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًاo
الکهف، 18: 110
’’فرمادیجئے: میں تو صرف (بخلقتِ ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلامِ الٰہی اتر سکے) وہ یہ کہ تمہارا معبود ، معبود یکتا ہی ہے پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرےo‘‘
30. طٰهٰo مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى o طه، 20: 1، 2
’’طا ھا، (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیںo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 11
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 11
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
26. لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ o الحجر، 15: 72
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیںo‘‘
27. سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُo
الإسراء، 17: 1
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
28. وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًاo
الإسراء، 17: 79
’’اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی قرآن کے ساتھ شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لیے زیادہ (کی گئی) ہے، یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
26. لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ o الحجر، 15: 72
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیںo‘‘
27. سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُo
الإسراء، 17: 1
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
28. وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًاo
الإسراء، 17: 79
’’اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی قرآن کے ساتھ شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لیے زیادہ (کی گئی) ہے، یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 10
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 10
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
22. خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌoالتوبة، 9: 103
’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
23. لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌoالتوبة، 9: 128
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
24. قُل لَّوْ شَاءَ اللّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَدْرَاكُم بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَoيونس، 10: 16
’’فرما دیجئے: اگر اللہ چاہتا تو نہ ہی میں اس (قرآن) کو تمہارے اوپر تلاوت کرتااور نہ وہ (خود) تمہیں اس سے باخبر فرماتا، بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo‘‘
25. قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَo
يونس، 10: 58
’’فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
22. خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌoالتوبة، 9: 103
’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
23. لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌoالتوبة، 9: 128
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
24. قُل لَّوْ شَاءَ اللّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَدْرَاكُم بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَoيونس، 10: 16
’’فرما دیجئے: اگر اللہ چاہتا تو نہ ہی میں اس (قرآن) کو تمہارے اوپر تلاوت کرتااور نہ وہ (خود) تمہیں اس سے باخبر فرماتا، بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo‘‘
25. قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَo
يونس، 10: 58
’’فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 9
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 9
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
20. وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ o التوبة، 9: 59
’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا) o‘‘
21. يَحْلِفُونَ بِاللّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُواْ مُؤْمِنِينَ o التوبة، 9: 62
’’مسلمانو! (یہ منافقین) تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالاں کہ اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو راضی کرتے، رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی رضا ایک ہے)o
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
20. وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ o التوبة، 9: 59
’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا) o‘‘
21. يَحْلِفُونَ بِاللّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُواْ مُؤْمِنِينَ o التوبة، 9: 62
’’مسلمانو! (یہ منافقین) تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالاں کہ اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو راضی کرتے، رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی رضا ایک ہے)o
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 8
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 8
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
18. وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَoالانفال، 8: 33
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوںo‘‘
19. قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَo التوبة، 9: 24
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
18. وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَoالانفال، 8: 33
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوںo‘‘
19. قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَo التوبة، 9: 24
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 7
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 7
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
16. فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاَءً حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌoالانفال، 8: 17
’’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے اور یہ (اس لیے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بے شک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo‘‘
17. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَo
الانفال، 8: 24
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گےo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
16. فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاَءً حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌoالانفال، 8: 17
’’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے اور یہ (اس لیے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بے شک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo‘‘
17. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَo
الانفال، 8: 24
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گےo
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 6
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 6
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
14. قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَoالأنعام، 6: 33
’’(اے حبیب!) بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ (بات)یقینا آپ کو رنجیدہ کررہی ہے کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں۔ پس یہ آپ کو نہیں جھٹلارہے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ظالم لوگ اﷲ کی آیتوں سے ہی انکار کررہے ہیںo‘‘
15. الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَoالأعراف، 7: 157
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
14. قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَoالأنعام، 6: 33
’’(اے حبیب!) بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ (بات)یقینا آپ کو رنجیدہ کررہی ہے کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں۔ پس یہ آپ کو نہیں جھٹلارہے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ظالم لوگ اﷲ کی آیتوں سے ہی انکار کررہے ہیںo‘‘
15. الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَoالأعراف، 7: 157
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 5
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 5
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
11. وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاoالنساء، 4: 64
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
12. يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًاo
النساء، 4: 174
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور (بھی) اتار دیا ہےo‘
13. يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌo يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍoالمائدة، 5: 15، 16
’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)o اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہےo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
11. وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاoالنساء، 4: 64
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
12. يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًاo
النساء، 4: 174
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور (بھی) اتار دیا ہےo‘
13. يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌo يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍoالمائدة، 5: 15، 16
’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)o اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہےo
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 4
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 4
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
8. لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍoآل عمران، 3: 164
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
9. وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo
آل عمران، 3: 179
’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آئو، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہےo‘‘
10. فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاo
النساء، 4: 41
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
8. لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍoآل عمران، 3: 164
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
9. وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo
آل عمران، 3: 179
’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آئو، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہےo‘‘
10. فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاo
النساء، 4: 41
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 3
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 3
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
6. تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَـكِنِ اخْتَلَفُواْ فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ o البقرة، 2: 253
’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براهِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)، اور ہم نے مریم کے فرزند عیسیٰ (ں) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان رسولوں کے پیچھے آنے والے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آ جانے کے بعد آپس میں کبھی بھی نہ لڑتے جھگڑتے مگر انہوں نے (اس آزادانہ توفیق کے باعث جو انہیں اپنے کیے پر اﷲ کے حضور جوابدہ ہونے کے لیے دی گئی تھی) اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا، (اور یہ بات یاد رکھو کہ) اگر اﷲ چاہتا (یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے o
7. وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَo
آل عمران، 3: 81
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
6. تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَـكِنِ اخْتَلَفُواْ فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ o البقرة، 2: 253
’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براهِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)، اور ہم نے مریم کے فرزند عیسیٰ (ں) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان رسولوں کے پیچھے آنے والے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آ جانے کے بعد آپس میں کبھی بھی نہ لڑتے جھگڑتے مگر انہوں نے (اس آزادانہ توفیق کے باعث جو انہیں اپنے کیے پر اﷲ کے حضور جوابدہ ہونے کے لیے دی گئی تھی) اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا، (اور یہ بات یاد رکھو کہ) اگر اﷲ چاہتا (یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے o
7. وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَo
آل عمران، 3: 81
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 2
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 2
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
4. وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌقَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ o البقرة، 2: 143، 144
’’اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے، بے شک اﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہےo (اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیںo‘‘
5. كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ o البقرة، 2: 151
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے o
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
4. وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌقَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ o البقرة، 2: 143، 144
’’اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے، بے شک اﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہےo (اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیںo‘‘
5. كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ o البقرة، 2: 151
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے o
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 1
قرآن کریم اور نعت مصطفیٰ ﷺ پوسٹ نمبر 1
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ o البقره، 2: 104
’’اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا
(ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
2. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ o
البقرة، 2: 119
’’(اے محبوبِ مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہلِ دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گیo‘‘
3. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ o البقرة، 2: 129
’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہےo
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ o البقره، 2: 104
’’اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا
(ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
2. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ o
البقرة، 2: 119
’’(اے محبوبِ مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہلِ دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گیo‘‘
3. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ o البقرة، 2: 129
’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہےo
Sunday, 27 September 2015
علوم کی اِصلاح کا رُخ
علوم کی اِصلاح کا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس صورت حال کی اصلاح علم بِالوحی کی روشنی میں یوں ہو سکتی ہے کہ نصب العین اور اس کے حصول کے لائحہ عمل اور اس لائحہ عمل میں کامیابی سے سازگار تصورِ کائنات کی جستجو کر کے فلسفیانہ فکر کی نشوونما کی تکمیل کا رخ پھر سے متعین کیا جائے اور اس طرح حتماً اور یقیناً کامیاب ہونے کا اعتماد بحال کیا جائے اور قدیم اور جدید فلسفے سے پیدا ہونے والی مایوسی و نااُمیدی کو اُمید و یقین اور وثوق و اعتماد میں بدل دیا جائے۔
اِنسانی اِستعداد کی زائیدہ اَخلاقیات (ethics) کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ یوں متعین کیا جائے کہ فضائلِ اَخلاق، اس کے معیار اور ان کی مابعد الطبیعی اَساس کی جستجو سے پہلے اَخلاقیات کا مسئلہ یہ قرار پائے کہ زندگی اَخلاق کے نمونہ کمال پر کیسے ڈھلے؟ اور جب یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل ہو جائے تو پھر اَخلاقی فضائل کے نمونہ کمال پر ڈھلی ہوئی زندگی کے مشاہدے سے اس کے مضمرات اور معیار کو متعین کیا جائے۔
اسی طرح عمرانیات (sociology) کی صحیح نشو و نما کی تکمیل کا رُخ اُس وقت متعین ہو گا جب پہلے علم بِالوحی کی روشنی میں یہ مسئلہ حل کیا جائے کہ نوعِ انسانی کی وحدت کے تصور پر مبنی اَخلاقی جدّ و جہد کرنے اور رُوحانیت پر یقین رکھنے والے اَفراد پر مشتمل ایسا معاشرہ وجود میں کیسے لایا جائے جس میں فرد اور معاشرہ ہر قسم کے خوف و غم سے محفوظ رہیں۔ جب یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل ہو جائے تو پھر یہ جستجو کی جائے کہ مثالی معاشرہ کیا ہوتا ہے؟ کیسے وجود میں آتا ہے؟ اور کس طرح ترقی کرتا ہے؟ کیسے زوال پذیر ہوتا ہے؟ اور پھر اس کے زوال کو عروج میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟
اسی طرح معاشیات (economics) سے جو مسئلہ حل نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ عادلانہ معیشت کیسے پیدا ہو گی؟ جب علم بِالوحی کی روشنی میں عادلانہ معیشت پیدا کرنے کا طریق دریافت ہو جائے تو پھر یہ مسئلہ بھی حل ہو گا کہ غیر منصفانہ معیشت کا میلان کیسے پیدا ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟
تاکہ علم معاشیات میں اس معاشی عدل کے میسر آنے کی ضمانت مل جائے جو اَفراد کی معاشی تخلیق کی جد و جہد میں تعطل کو حتمی طور پر رفع کر دے۔
اِسی طرح سیاست کامسئلہ یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور ان کا وظیفہ کیا ہے؟ مگر اب تک جس سیاسی فکر کی نشو و نما ہوئی ہے اس سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا کہ سیاسی تناقض سے پاک ریاست یعنی ایک فلاحی ریاست کیسے وجود میں آئے جس میں ظلم و اِستبداد راہ نہ پا سکے؟ اور سیاسی کام ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر نہیں بلکہ دوسروں کی بہتری کے لیے ہو۔ یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل کر کے اس کے بعد ریاست کی ماہیت اور اس کے کردار کو سمجھنے کی صحیح کوشش کی جائے، جس کی شرائط یہ ہوں گی کہ سیاسی زندگی میں پہلے اصلاح طلب پہلو کو متعین کیا جائے، پھر اس نصب العین کو واضح کیا جائے جس کے حوالے سے سیاسی زندگی اصلاح پذیر ہو گی۔ اس کے بعد اس کی عملی اساس مہیا کی جائے۔ پھر نمونہ کمال فراہم کیا جائے۔ پھر اس محرک کی جستجو کی جائے جو استقامت دلا دے اور انحراف نہ کرنے دے۔
اس کے بعد مثالی ریاست کو سمجھنے کی شرائط پیدا ہوں گی کیوں کہ فلاحی ریاست وجود میں آ چکی ہو گی اور اس فلاحی ریاست میں حاکم اور محکوم دونوں میں سے کسی ایک کا بھی محرکِ عمل مطالبہ حقوق (demand of right) نہیں ہو گا بلکہ ان کی تمام تر جد و جہد اِیتائے حقوق یعنی فرائض کی انجام دہی کے لیے ہو گی۔ کیوں کہ مطالبہ حقوق کے طرزِ عمل سے حقوق کا تصادم کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور طبقاتی منافرت سے پاک معاشرہ کبھی وجود میں نہیں آ سکتا۔
اس لیے مذہبی علوم کی اصلاح کا امکان بھی صرف اس صورت میں ہے کہ ان کی نشو و نما کا رُخ اقدام و خطا سے متعین ہونے کی بجائے علم بِالوحی سے متعین کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس صورت حال کی اصلاح علم بِالوحی کی روشنی میں یوں ہو سکتی ہے کہ نصب العین اور اس کے حصول کے لائحہ عمل اور اس لائحہ عمل میں کامیابی سے سازگار تصورِ کائنات کی جستجو کر کے فلسفیانہ فکر کی نشوونما کی تکمیل کا رخ پھر سے متعین کیا جائے اور اس طرح حتماً اور یقیناً کامیاب ہونے کا اعتماد بحال کیا جائے اور قدیم اور جدید فلسفے سے پیدا ہونے والی مایوسی و نااُمیدی کو اُمید و یقین اور وثوق و اعتماد میں بدل دیا جائے۔
اِنسانی اِستعداد کی زائیدہ اَخلاقیات (ethics) کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ یوں متعین کیا جائے کہ فضائلِ اَخلاق، اس کے معیار اور ان کی مابعد الطبیعی اَساس کی جستجو سے پہلے اَخلاقیات کا مسئلہ یہ قرار پائے کہ زندگی اَخلاق کے نمونہ کمال پر کیسے ڈھلے؟ اور جب یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل ہو جائے تو پھر اَخلاقی فضائل کے نمونہ کمال پر ڈھلی ہوئی زندگی کے مشاہدے سے اس کے مضمرات اور معیار کو متعین کیا جائے۔
اسی طرح عمرانیات (sociology) کی صحیح نشو و نما کی تکمیل کا رُخ اُس وقت متعین ہو گا جب پہلے علم بِالوحی کی روشنی میں یہ مسئلہ حل کیا جائے کہ نوعِ انسانی کی وحدت کے تصور پر مبنی اَخلاقی جدّ و جہد کرنے اور رُوحانیت پر یقین رکھنے والے اَفراد پر مشتمل ایسا معاشرہ وجود میں کیسے لایا جائے جس میں فرد اور معاشرہ ہر قسم کے خوف و غم سے محفوظ رہیں۔ جب یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل ہو جائے تو پھر یہ جستجو کی جائے کہ مثالی معاشرہ کیا ہوتا ہے؟ کیسے وجود میں آتا ہے؟ اور کس طرح ترقی کرتا ہے؟ کیسے زوال پذیر ہوتا ہے؟ اور پھر اس کے زوال کو عروج میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟
اسی طرح معاشیات (economics) سے جو مسئلہ حل نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ عادلانہ معیشت کیسے پیدا ہو گی؟ جب علم بِالوحی کی روشنی میں عادلانہ معیشت پیدا کرنے کا طریق دریافت ہو جائے تو پھر یہ مسئلہ بھی حل ہو گا کہ غیر منصفانہ معیشت کا میلان کیسے پیدا ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟
تاکہ علم معاشیات میں اس معاشی عدل کے میسر آنے کی ضمانت مل جائے جو اَفراد کی معاشی تخلیق کی جد و جہد میں تعطل کو حتمی طور پر رفع کر دے۔
اِسی طرح سیاست کامسئلہ یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور ان کا وظیفہ کیا ہے؟ مگر اب تک جس سیاسی فکر کی نشو و نما ہوئی ہے اس سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا کہ سیاسی تناقض سے پاک ریاست یعنی ایک فلاحی ریاست کیسے وجود میں آئے جس میں ظلم و اِستبداد راہ نہ پا سکے؟ اور سیاسی کام ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر نہیں بلکہ دوسروں کی بہتری کے لیے ہو۔ یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل کر کے اس کے بعد ریاست کی ماہیت اور اس کے کردار کو سمجھنے کی صحیح کوشش کی جائے، جس کی شرائط یہ ہوں گی کہ سیاسی زندگی میں پہلے اصلاح طلب پہلو کو متعین کیا جائے، پھر اس نصب العین کو واضح کیا جائے جس کے حوالے سے سیاسی زندگی اصلاح پذیر ہو گی۔ اس کے بعد اس کی عملی اساس مہیا کی جائے۔ پھر نمونہ کمال فراہم کیا جائے۔ پھر اس محرک کی جستجو کی جائے جو استقامت دلا دے اور انحراف نہ کرنے دے۔
اس کے بعد مثالی ریاست کو سمجھنے کی شرائط پیدا ہوں گی کیوں کہ فلاحی ریاست وجود میں آ چکی ہو گی اور اس فلاحی ریاست میں حاکم اور محکوم دونوں میں سے کسی ایک کا بھی محرکِ عمل مطالبہ حقوق (demand of right) نہیں ہو گا بلکہ ان کی تمام تر جد و جہد اِیتائے حقوق یعنی فرائض کی انجام دہی کے لیے ہو گی۔ کیوں کہ مطالبہ حقوق کے طرزِ عمل سے حقوق کا تصادم کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور طبقاتی منافرت سے پاک معاشرہ کبھی وجود میں نہیں آ سکتا۔
اس لیے مذہبی علوم کی اصلاح کا امکان بھی صرف اس صورت میں ہے کہ ان کی نشو و نما کا رُخ اقدام و خطا سے متعین ہونے کی بجائے علم بِالوحی سے متعین کیا جائے۔
اِنسانی علوم کے اِصلاح طلب پہلو
اِنسانی علوم کے اِصلاح طلب پہلو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر ہم انسانی علوم (human sciences) کے اِصلاح طلب پہلو کی طرف توجہ کر یں تو واضح ہو گا کہ یہ پہلو فلسفہ اقدام و خطا کے انداز میں نشو و نما پانے کی وجہ سے تضادات میں الجھ گیا ہے۔ اس کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ اس وقت تک متعین نہیں ہو سکتا جب تک علم بِالوحی سے ہدایت حاصل نہ کی جائے۔ مثلاً سب سے پہلے فلسفے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عقلیت (rationalism) کا منہاج اختیار کیا گیا کہ صرف اور صرف عقل ہی ذریعہ علمِ حقیقت ہے۔ یہ عقل کے ذریعے علمِ حقیقت ہونے کے بارے میں لامحدود یقین کا موقف تھا، جس سے متضاد نتائج برآمد ہوئے اور یہ یقین متزلزل ہو گیا۔ اس کی بجائے حسیت (impericism) کا موقف اختیار کیا گیا تو اس کا اصول یہ تھا کہ حواس ہی ذریعہ علمِ حقیقت ہیں۔ یہ موقف عقل کے باب میں لامحدود بے یقینی کا موقف تھا، جس نے انجامِ کار فلاسفہ کو تشکیک میں مبتلا کر دیا۔ چوں کہ ذہنِ انسانی دیر تک تشکیک میں مبتلا نہیں رہ سکتا اس لیے تنقیدکا اصول سامنے آیا اورفلسفے میں دورِ تنقید (critical era) کی ابتدا ہوئی اور ذہنِ انسانی اس نتیجہ پر پہنچا کہ علمِ یقینی محسوسات تک محدود ہے اور ماورا محسوسات کا نہ تو انکار جائز ہے اور نہ اس کا علمِ یقینی ممکن ہے۔ اس لیے عملی شعور (practical consciousness) کا تقاضا ابھرا کہ انسان کا نصب العین متعین کیا جائے۔ اس مرحلے پر فلسفے کا مسئلہ یہ ہو گیا کہ انسان اس طرح سوچے کہ میں کیا ہوں؟ اور اس کائنات میں میرا مقام و منصب کیا ہے؟ اور اس کے لحاظ سے میرا نصب العین کیا ہے؟ یعنی فلسفے میں جستجو کا رُخ منظور سے ناظر کی جانب پھر گیا۔ اس میں کانٹ (Kant) اور بعد کے فلسفے میں ہیگل (Hegal) اور مارکس (Marx) شامل ہیں جنہوں نے متضاد نصب العین پیش کیے۔ جن کے نظریات کو مختلف قسم کی اِرادیت (volunteerism) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان سب کی معذوری یہ ہے کہ نصب العین تو بیان کرتے ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کا حتمی ، قطعی اور یقینی طور پر نتیجہ خیز لائحہ عمل بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں اور کسی کی جد و جہد میں کامیابی کی ضمانت میسر نہیں آتی۔ یہ سب کچھ اقدام وخطا (trial & error) کے انداز میں غور کرنے کا نتیجہ ہے ۔ یہاں پہنچ کر انسانیت تضادات میں الجھ گئی ہے اور پورا عالم نظریاتی بحران میں مبتلا ہے۔ ان تضادات نے عالمِ اِنسانیت کو نہایت مہلک قسم کے تضادات کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر ہم انسانی علوم (human sciences) کے اِصلاح طلب پہلو کی طرف توجہ کر یں تو واضح ہو گا کہ یہ پہلو فلسفہ اقدام و خطا کے انداز میں نشو و نما پانے کی وجہ سے تضادات میں الجھ گیا ہے۔ اس کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ اس وقت تک متعین نہیں ہو سکتا جب تک علم بِالوحی سے ہدایت حاصل نہ کی جائے۔ مثلاً سب سے پہلے فلسفے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عقلیت (rationalism) کا منہاج اختیار کیا گیا کہ صرف اور صرف عقل ہی ذریعہ علمِ حقیقت ہے۔ یہ عقل کے ذریعے علمِ حقیقت ہونے کے بارے میں لامحدود یقین کا موقف تھا، جس سے متضاد نتائج برآمد ہوئے اور یہ یقین متزلزل ہو گیا۔ اس کی بجائے حسیت (impericism) کا موقف اختیار کیا گیا تو اس کا اصول یہ تھا کہ حواس ہی ذریعہ علمِ حقیقت ہیں۔ یہ موقف عقل کے باب میں لامحدود بے یقینی کا موقف تھا، جس نے انجامِ کار فلاسفہ کو تشکیک میں مبتلا کر دیا۔ چوں کہ ذہنِ انسانی دیر تک تشکیک میں مبتلا نہیں رہ سکتا اس لیے تنقیدکا اصول سامنے آیا اورفلسفے میں دورِ تنقید (critical era) کی ابتدا ہوئی اور ذہنِ انسانی اس نتیجہ پر پہنچا کہ علمِ یقینی محسوسات تک محدود ہے اور ماورا محسوسات کا نہ تو انکار جائز ہے اور نہ اس کا علمِ یقینی ممکن ہے۔ اس لیے عملی شعور (practical consciousness) کا تقاضا ابھرا کہ انسان کا نصب العین متعین کیا جائے۔ اس مرحلے پر فلسفے کا مسئلہ یہ ہو گیا کہ انسان اس طرح سوچے کہ میں کیا ہوں؟ اور اس کائنات میں میرا مقام و منصب کیا ہے؟ اور اس کے لحاظ سے میرا نصب العین کیا ہے؟ یعنی فلسفے میں جستجو کا رُخ منظور سے ناظر کی جانب پھر گیا۔ اس میں کانٹ (Kant) اور بعد کے فلسفے میں ہیگل (Hegal) اور مارکس (Marx) شامل ہیں جنہوں نے متضاد نصب العین پیش کیے۔ جن کے نظریات کو مختلف قسم کی اِرادیت (volunteerism) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان سب کی معذوری یہ ہے کہ نصب العین تو بیان کرتے ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کا حتمی ، قطعی اور یقینی طور پر نتیجہ خیز لائحہ عمل بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں اور کسی کی جد و جہد میں کامیابی کی ضمانت میسر نہیں آتی۔ یہ سب کچھ اقدام وخطا (trial & error) کے انداز میں غور کرنے کا نتیجہ ہے ۔ یہاں پہنچ کر انسانیت تضادات میں الجھ گئی ہے اور پورا عالم نظریاتی بحران میں مبتلا ہے۔ ان تضادات نے عالمِ اِنسانیت کو نہایت مہلک قسم کے تضادات کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔
فطری علوم میں طبیعات، حیاتیات اور نفسیات شامل ہیں
فطری علوم میں طبیعات، حیاتیات اور نفسیات شامل ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ا۔ طبیعات کا موضوع مظاہرِ طبیعی (physical phenomena) ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مظاہر طبیعی میں حرکت کیسے واقع ہوتی ہے؟
ب۔ حیاتیات کا موضوع مظاہرِ حیاتیات (biological phenomena) ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عالمِ نامی (organic world) میں تغیرات کیسے رُونما ہوتے ہیں؟
ج۔ نفسیات کاموضوع شعور کی کیفیات ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف اَعمالِ شعوری (conscious process) کیا ہیں؟ اور کیوں کر وجود میں آتے ہیں؟
فطری علوم اور اُن کی ضروریات
اِن میں سے سب سے پہلے طبیعات وجود میں آئی جو اِبتدا میں فلسفے کا حصہ تھی۔ مگر اس کی نشو و نما کے لیے ضروری تھا کہ وہ فلسفے سے اپنا رشتہ منقطع کر لے۔ اِسی طرح حیاتیات بھی پہلے فلسفے کا جزو تھی۔ جب علومِ فطرت مدوّن ہو گئے تو اِنسان کی توجہ کیفیاتِ شعور کی طرف منعطف ہوئی جس کا مطالعہ نفسیات قرار پایا۔ ان میں سے ہر سائنس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک موضوع (subject matter) ہو، ایک مسئلہ (problem) ہو، منہاج یعنی طریقہ تحقیق (research methodology) ہو، کچھ مسلمات (postulates) ہوں، ایک وظیفہ (function) ہو اور وظیفہ توجیہ و تعلیل (causal explanation) ہے۔ توجیہ کے لیے ضروری ہے کہ کچھ بنیادی تصورات یا مقولات (categories) ہوں جن کے تحت مشاہدے (observation) سے جمع کیے ہوئے مدلولات (data) کو منظم کیا جائے اور ایک مفروضہ یعنی (hypothesis) ہو جس کے تحت ان مدلولات کی توجیہ کی جا سکے۔
اِن تمام غیرمذہبی علوم (secular sciences) کی نشو و نما اِقدام و خطا (trial & error method) کے انداز میں ہو رہی ہے۔ اس لیے آج تک ان کی نشوونما کی تکمیل کا رُخ متعین نہیں ہو سکا اور اِقدام و خطا کے انداز میں نشو و نما کا اثر یہ ہے کہ ان علوم کے مقولات اور مفروضات کی صحت کی حدود کو متعین بھی نہیں کیا جا سکا جس کے نتیجے میں طبیعات، حیاتیات اور نفسیات کے درمیان اِلتباس پیدا ہو گیا ہے۔ اِس اِلتباس کو رفع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سائنس کے اپنے اپنے مقولات اور مفروضات کو اسی مخصوص سائنس کے دائرے میں صحیح سمجھا جائے اور ایک علم کے مقولات (categories) کو دوسرے علم کے مقولات و مفروضات کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔
علمِ طبیعات کے مقولات
علمِ طبیعات کے مقولات یہ ہیں:
مادہ بحیثیت جوہر (matter as substance)
کمیت (quantity)
علت ومعلول (cause & effect)
حرکت (movement)
مکان، زمان اور قوت (space, time & force)
عدد (number)
وحدت (unity)
اِسی طرح طبیعات کا مفروضہ جو عالم طبیعی میں واقع ہونے والی حرکت کی توجیہ کے لیے اختیار کیا جا سکتا ہے وہ میکانی علت کا مفروضہ ہے۔ اسے hypothesis of mechanical causation کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی بے جان وجود میں اُس وقت تک حرکت پیدا نہیں ہوتی جب تک کوئی بیرونی مؤثر اسے ایک نقطہ مکانی سے دوسرے نقطہ مکانی اور ایک لمحہ زمانی سے دوسرے لمحہ زمانی تک منتقل نہ کر دے۔ حالانکہ عالمِ نامی (organic world) میں جو حرکت واقع ہوتی ہے وہ اَز خود حرکت ہے یعنی وہ spontaneous movement ہے۔ یہ ہرگز کسی بیرونی محرک کا نتیجہ نہیں۔ جو لوگ نامی حرکت کی توجیہ مفروضہ اِرتقاء (hypothesis of evolution) کی بجائے میکانی علت کے مفروضے سے کرتے ہیں وہ نامی (organic) اور غیرنامی (inorganic) کے درمیان اِلتباس پیدا کر دیتے ہیں۔
اِسی طرح نفسیات میں جو حرکت شعوری طور پر واقع ہوتی ہے، وہ علت غائی (purposive causality) کا نتیجہ ہے۔ اس کی توجیہ میکانی علت یا مفروضہ اِرتقا سے کرنا شعور اور زندگی کے مظاہر کے درمیان اِلتباس پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ توجیہ میں یہ اِلتباس ڈاروِن (Darwin) نے اپنی Theory of Evolutionمیں میکانی علیت کے مفروضے کو اِختیار کر کے غیر نامی سے نامی کی توجیہ کرنے میں پیدا کیا ہے اور نامی اور غیر نامی کے درمیان اِمتیازات ملحوظ نہیں رکھے۔ اس طرح جب ماہرینِ نفسیات نفسیاتی کردار کی توجیہ میکانی علت کے مفروضے سے کرتے ہیں, جیسے واٹسن (Watson) نے behaviourism کے اِستدلال میں شعوری کردار کی توجیہ میکانی علت سے کرنا چاہی تو شعوری اور غیر شعوری حرکت کو انداز نظر انداز کر دیا۔ اِسی طرح مغربی ماہرینِ جرمیات نے جرائم کے اِرتکاب کے اَسباب ومحرکات پر بحث کرتے ہوئے جو مختلف مکاتبِ فکر وضع کیے ہیں۔ مثلاً Socialogical School، Positivistic School، Psychological School، Psychiatic School، Ecological School؛ اور یہ سب اپنے اپنے مظاہر کی توجیہ کے لیے غلط مفروضے کے استعمال اور تحقیق میں التباس کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پوری تحقیق نے جرم کی ذمہ داری سے ہر مجرم کو بری ثابت کر دیا ہے اور یہ سوچ بڑے اخلاقی بگاڑ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ا۔ طبیعات کا موضوع مظاہرِ طبیعی (physical phenomena) ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مظاہر طبیعی میں حرکت کیسے واقع ہوتی ہے؟
ب۔ حیاتیات کا موضوع مظاہرِ حیاتیات (biological phenomena) ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عالمِ نامی (organic world) میں تغیرات کیسے رُونما ہوتے ہیں؟
ج۔ نفسیات کاموضوع شعور کی کیفیات ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف اَعمالِ شعوری (conscious process) کیا ہیں؟ اور کیوں کر وجود میں آتے ہیں؟
فطری علوم اور اُن کی ضروریات
اِن میں سے سب سے پہلے طبیعات وجود میں آئی جو اِبتدا میں فلسفے کا حصہ تھی۔ مگر اس کی نشو و نما کے لیے ضروری تھا کہ وہ فلسفے سے اپنا رشتہ منقطع کر لے۔ اِسی طرح حیاتیات بھی پہلے فلسفے کا جزو تھی۔ جب علومِ فطرت مدوّن ہو گئے تو اِنسان کی توجہ کیفیاتِ شعور کی طرف منعطف ہوئی جس کا مطالعہ نفسیات قرار پایا۔ ان میں سے ہر سائنس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک موضوع (subject matter) ہو، ایک مسئلہ (problem) ہو، منہاج یعنی طریقہ تحقیق (research methodology) ہو، کچھ مسلمات (postulates) ہوں، ایک وظیفہ (function) ہو اور وظیفہ توجیہ و تعلیل (causal explanation) ہے۔ توجیہ کے لیے ضروری ہے کہ کچھ بنیادی تصورات یا مقولات (categories) ہوں جن کے تحت مشاہدے (observation) سے جمع کیے ہوئے مدلولات (data) کو منظم کیا جائے اور ایک مفروضہ یعنی (hypothesis) ہو جس کے تحت ان مدلولات کی توجیہ کی جا سکے۔
اِن تمام غیرمذہبی علوم (secular sciences) کی نشو و نما اِقدام و خطا (trial & error method) کے انداز میں ہو رہی ہے۔ اس لیے آج تک ان کی نشوونما کی تکمیل کا رُخ متعین نہیں ہو سکا اور اِقدام و خطا کے انداز میں نشو و نما کا اثر یہ ہے کہ ان علوم کے مقولات اور مفروضات کی صحت کی حدود کو متعین بھی نہیں کیا جا سکا جس کے نتیجے میں طبیعات، حیاتیات اور نفسیات کے درمیان اِلتباس پیدا ہو گیا ہے۔ اِس اِلتباس کو رفع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سائنس کے اپنے اپنے مقولات اور مفروضات کو اسی مخصوص سائنس کے دائرے میں صحیح سمجھا جائے اور ایک علم کے مقولات (categories) کو دوسرے علم کے مقولات و مفروضات کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔
علمِ طبیعات کے مقولات
علمِ طبیعات کے مقولات یہ ہیں:
مادہ بحیثیت جوہر (matter as substance)
کمیت (quantity)
علت ومعلول (cause & effect)
حرکت (movement)
مکان، زمان اور قوت (space, time & force)
عدد (number)
وحدت (unity)
اِسی طرح طبیعات کا مفروضہ جو عالم طبیعی میں واقع ہونے والی حرکت کی توجیہ کے لیے اختیار کیا جا سکتا ہے وہ میکانی علت کا مفروضہ ہے۔ اسے hypothesis of mechanical causation کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی بے جان وجود میں اُس وقت تک حرکت پیدا نہیں ہوتی جب تک کوئی بیرونی مؤثر اسے ایک نقطہ مکانی سے دوسرے نقطہ مکانی اور ایک لمحہ زمانی سے دوسرے لمحہ زمانی تک منتقل نہ کر دے۔ حالانکہ عالمِ نامی (organic world) میں جو حرکت واقع ہوتی ہے وہ اَز خود حرکت ہے یعنی وہ spontaneous movement ہے۔ یہ ہرگز کسی بیرونی محرک کا نتیجہ نہیں۔ جو لوگ نامی حرکت کی توجیہ مفروضہ اِرتقاء (hypothesis of evolution) کی بجائے میکانی علت کے مفروضے سے کرتے ہیں وہ نامی (organic) اور غیرنامی (inorganic) کے درمیان اِلتباس پیدا کر دیتے ہیں۔
اِسی طرح نفسیات میں جو حرکت شعوری طور پر واقع ہوتی ہے، وہ علت غائی (purposive causality) کا نتیجہ ہے۔ اس کی توجیہ میکانی علت یا مفروضہ اِرتقا سے کرنا شعور اور زندگی کے مظاہر کے درمیان اِلتباس پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ توجیہ میں یہ اِلتباس ڈاروِن (Darwin) نے اپنی Theory of Evolutionمیں میکانی علیت کے مفروضے کو اِختیار کر کے غیر نامی سے نامی کی توجیہ کرنے میں پیدا کیا ہے اور نامی اور غیر نامی کے درمیان اِمتیازات ملحوظ نہیں رکھے۔ اس طرح جب ماہرینِ نفسیات نفسیاتی کردار کی توجیہ میکانی علت کے مفروضے سے کرتے ہیں, جیسے واٹسن (Watson) نے behaviourism کے اِستدلال میں شعوری کردار کی توجیہ میکانی علت سے کرنا چاہی تو شعوری اور غیر شعوری حرکت کو انداز نظر انداز کر دیا۔ اِسی طرح مغربی ماہرینِ جرمیات نے جرائم کے اِرتکاب کے اَسباب ومحرکات پر بحث کرتے ہوئے جو مختلف مکاتبِ فکر وضع کیے ہیں۔ مثلاً Socialogical School، Positivistic School، Psychological School، Psychiatic School، Ecological School؛ اور یہ سب اپنے اپنے مظاہر کی توجیہ کے لیے غلط مفروضے کے استعمال اور تحقیق میں التباس کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پوری تحقیق نے جرم کی ذمہ داری سے ہر مجرم کو بری ثابت کر دیا ہے اور یہ سوچ بڑے اخلاقی بگاڑ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔
مذہبی علوم اور اُن کے موضوعات
مذہبی علوم اور اُن کے موضوعات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1۔ علمِ فلسفہ (Philosophy)
اس سلسلے کا پہلا علم فلسفہ ہے۔ جس کا موضوع من حیث الکل کائنات کی ماہیتِ اَصلی ہے۔ اِس کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ حقیقت من حیث الکل کیا ہے؟ اِس میں اِنسان کا مقام و منصب کیا ہے؟ اور اس مقام و منصب کے لحاظ سے اِنسان کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟
2۔ علمِ اَخلاقیات (Ethics)
دوسرا علم اَخلاقیات ہے۔ اِس کا موضوع معیارِ اَخلاق ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ فضائلِ اَخلاق کیا ہیں؟ اُن کا معیار کیا ہے؟ اور ان کی مابعد الطبیعی اساس کیا ہے؟
3۔ علمِ عمرانیات (Sociology)
تیسرا علم عمرانیات کا ہے۔ اس کا موضوع معاشرہ ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے؟ کیسے ترقی کرتا ہے؟ اور کیسے زوال پذیر ہوتا ہے؟
4۔ علمِ معاشیات (Economics)
چوتھا علم معاشیات کا ہے۔ اِس کا موضوع تخلیقِ دولت کا نظام ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ دولت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس کی تقسیم کیسے ہوتی ہے؟ اور یہ کس طرح صرف ہوتی ہے؟ یعنی دولت کی پیدائش (production)، تقسیم (distribution) اور صرف (consumption) اس کے مسائل ہیں۔
5۔ علمِ سیاسیات (Political Science)
پانچواں علم سیاسیات ہے۔ جس کا موضوع ریاست اور اس کے وظیفے کی ادائیگی کا طرزِ عمل یعنی آئین ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کیا ہے؟ کیسے وجود میں آتی ہے؟ اس کا وظیفہ کیا ہے اور اس کے وظیفے کو ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1۔ علمِ فلسفہ (Philosophy)
اس سلسلے کا پہلا علم فلسفہ ہے۔ جس کا موضوع من حیث الکل کائنات کی ماہیتِ اَصلی ہے۔ اِس کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ حقیقت من حیث الکل کیا ہے؟ اِس میں اِنسان کا مقام و منصب کیا ہے؟ اور اس مقام و منصب کے لحاظ سے اِنسان کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟
2۔ علمِ اَخلاقیات (Ethics)
دوسرا علم اَخلاقیات ہے۔ اِس کا موضوع معیارِ اَخلاق ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ فضائلِ اَخلاق کیا ہیں؟ اُن کا معیار کیا ہے؟ اور ان کی مابعد الطبیعی اساس کیا ہے؟
3۔ علمِ عمرانیات (Sociology)
تیسرا علم عمرانیات کا ہے۔ اس کا موضوع معاشرہ ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے؟ کیسے ترقی کرتا ہے؟ اور کیسے زوال پذیر ہوتا ہے؟
4۔ علمِ معاشیات (Economics)
چوتھا علم معاشیات کا ہے۔ اِس کا موضوع تخلیقِ دولت کا نظام ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ دولت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس کی تقسیم کیسے ہوتی ہے؟ اور یہ کس طرح صرف ہوتی ہے؟ یعنی دولت کی پیدائش (production)، تقسیم (distribution) اور صرف (consumption) اس کے مسائل ہیں۔
5۔ علمِ سیاسیات (Political Science)
پانچواں علم سیاسیات ہے۔ جس کا موضوع ریاست اور اس کے وظیفے کی ادائیگی کا طرزِ عمل یعنی آئین ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کیا ہے؟ کیسے وجود میں آتی ہے؟ اس کا وظیفہ کیا ہے اور اس کے وظیفے کو ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
مذہبی علوم اور اُن کے اِصلاح طلب پہلو
مذہبی علوم اور اُن کے اِصلاح طلب پہلو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1۔ علمِ تفسیر
یہ اِس سلسلے کا پہلا علم ہے۔ اس کا موضوع قرآن حکیم ہے جو یقینا تفسیر سے متمیز ہے۔ کیوں کہ قرآن وہ حقیقت ہے جس کے علم کا نام تفسیر ہے، یعنی قرآن نص ہے اور تفسیر اس کی تعبیر، جس کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کیا ہے؟
2۔ علمِ حدیث
اِس کا موضوع سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و عمل کیا تھا؟
3۔ علمِ فقہ
اِس کا موضوع انسانی زندگی سے متعلق اوامر و نواہی ہیں۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ کتبِ حدیث اور بالخصوص کتبِ سنن کے اُسلوبِ تبویب کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر علمِ حدیث کی تدوین کا اصل محرک بھی فقہ ہی تھا۔ گویا انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ضابطہ اور اس کی اصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرنے کے لیے اَحادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع اور مرتب کیا گیا۔
4۔ علمِ کلام
اس کا موضوع عقائد ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عقائد کی عقلی اساس کیا ہے؟ اس کا وظیفہ (function) عقائدِ صحیحہ کی تائید اور عقائدِ باطلہ کی تردید میں اِستدلال فراہم کرنا ہے۔
5۔ تصوف
اِس کا موضوع طریقت ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اَحکامِ فقہ کی بجا آوری میں اخلاص کیسے پیدا ہو گا؟
6۔ تاریخ
تاریخِ اسلام کا موضوع دو اَدوار کے بیان پر مشتمل ہے: دورِ رسالت اور دورِ مابعد رسالت۔ بحیثیت علم کے تاریخ کا مسئلہ اُمت کے عروج و زوال کے اَسباب کی جستجو ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اِنسانی اِستعداد کے یہ زائیدہ مذہبی علوم زندگی میں نتائج پیدا کرنے میں مؤثر نہیں رہے۔ حتی کہ اِسلام کے عقیدہ و عمل کا کوئی اثر ہماری حیاتِ اجتماعی پر باقی نہیں رہا۔ عقائد اَوہام میں اور عبادات رسوم و ظواہر میں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ان کا علاقہ عملی زندگی سے یکسر منقطع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی مذہبی اور غیر مذہبی (religious and secular) کے دو شعبوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور اس کی ثنویت و غیریت کو کسی سطح پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کے سب علوم اس سوال کا جواب ہیں کہ یہ کیا ہے؟
علم کا ایک تقاضا ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اِس تقاضے کے غالب آنے کی وجہ سے علم بالوحی اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا اور علم کا ایک ویسا ہی شدید مطالبہ ہم آہنگی کے تقاضے کے تحت نظر انداز کر دیا گیا جو یہ تھا کہ مماثل فضائل کے درمیان امتیازات کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس تقاضے کے نظر انداز ہو جانے سے علم بالوحی کے اِس مسئلے کی نوعیت سے صرفِ نظر ہو گیا کہ زندگی پسندیدہ نمونے پر ڈھلے کیسے؟ اس سوال سے صورتِ حال کا اثر یہ ہوا کہ:
1۔ علمِ تفسیر
علمِ تفسیر اِس جستجو سے دست بردار ہو گیا کہ قرآن حکیم جس نمونے پر انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے، وہ کیسے ڈھلے گی؟ یعنی قرآن حکیم جس طرح کا انسان چاہتا ہے، وہ کس طرح میسر آئے گا؟
2۔ علمِ حدیث
علمِ حدیث اِنسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا تو یہ جستجو پیش نظر نہ رہ سکی کہ جن عملی نتائج تک علم بالوحی پہنچانا چاہتا ہے، اس تک پہنچنے میں حدیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ اسے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدود سے آج پھر کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟
3۔ علمِ فقہ
علم فقہ کے انسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل جانے سے قرآنی اَحکام کے بارے میں اس مقصد سے صرفِ نظر ہو گیا کہ اَوامر و نواہی کے مطابق اور جائز و ناجائز کے امتیاز پر زندگی عملاً کیسے استوار ہو گی؟ اگر تفسیر، حدیث اور فقہ کے مروّجہ علوم کے دائرہ کار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت اَظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہ تمام مذہبی علوم صرف حلال و حرام، جائز و ناجائز، مستحب و مکروہ اور پسندیدہ و ناپسندیدہ یعنی انسانی اعمال کے لیے صحت اور عدم صحت کی حدود کے بیان تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ انسانی احوال کو بدلنے کی تدبیر ان کے موضوع سے خارج ہے۔ لیکن اس وقت تک عالمِ اسلام کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں ان امور کو جان لینے کے باوجود تمرد اور اِنحراف کے راستے پر گامزن ہیں۔
مسلمانوں کو اِجتماعی زندگی اِنتشار، اِضمحلال اور اِنحطاط کا شکار ہے، جس سے نکلنے کی آرزو کے باوجود وہ اس سے نکل نہیں پاتے اور اصلاح کی تمام فکری اور عملی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ متداول علوم غلط اور صحیح کی نشان دہی اور امتیاز کر دینے کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ صحیح راستے پر کس طرح گامزن ہوا جائے؟ مطلوبہ نمونہ کمال کے مطابق زندگی کس طرح بسر ہو؟ اور اَحوالِ زندگی کا جو معاملہ بگڑ چکا ہے، اسے پھر سے کس طرح سنوارا جائے؟ گویا اسلام جس تباہی سے بچانا چاہتا ہے، ملتِ اسلامیہ اس تباہی وہلاکت سے کیسے بچے؟ محض مقصد اور نصب العین کا بیان کر دینا ہی کافی نہیں، جب تک اس مقصد کے حاصل کرنے کی تدبیر اور حتمی طریقِ کار بیان نہ کیا جائے، کسی علم کی تاثیر وافادیت مسلّم نہیں ہو سکتی۔
4۔ علم الکلام
اِس علم کا وظیفہ زیادہ سے زیادہ ان شکوک کو باطل کرنا ہے جو عقائدِ صحیحہ کی نسبت ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن یقینِ کامل اور رسوخ فی الایمان علمِ کلام کے حوالے سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ یقین ہمیشہ نتائج کی تجربی توثیق اور شہادت سے میسر آتا ہے جب کہ ایمان بالغیب کی حیثیت ایمانِ وہبی کی ہے، جس کی بنیاد صاحبِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے۔ اس کی وضاحت اس میں ہے کہ غایتِ تخلیق، غایتِ بعثت اور غایتِ نزولِ قرآن ایک ہی ہے۔ عملی نتائج ان کائناتی قوانین سے متعین ہوتے ہیں جو نظامِ تکوین میں متعین کر دیے گئے ہیں اور ایمان بالغیب وہ ایمان ہے جو عملی جد و جہد سے پہلے درکار ہے۔ اس کے بغیر مقصد کے لیے جان کی بازی نہیں لگائی جا سکتی۔
5۔ علمِ تصوف
اِس علم کا موضوع عملی زندگی میں اخلاص اور للہیت پیدا کرنا ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اتباعِ شریعت میں حسنِ نیت اور خلوص کیسے پیدا ہوگا؟ مگر جب سے تصوف عمل کی بجائے ماورائی حقیقت کا علم بنا ہے، اس کے نتائج عملی زندگی پر مرتب ہونا بند ہو گئے ہیں۔ اب علمِ تصوف کی تاثیر اور نتیجہ خیزی اُسی وقت برآمد ہو سکتی ہے جب انسانی زندگی پہلے شریعت کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اس کے بعد اس میں تشرع اور ریاکاری کے خاتمہ کے لیے تصوف اپنا انقلاب انگیز کردار ادا کر سکتا ہے۔
6۔ علمِ تاریخ
تاریخِ اِسلام بھی عروج و زوال کی توجیہ کا علم بن کر رہ گئی ہے جس میں جبر کا شائبہ غالب ہے۔ اس کی جستجو عروج و زوال کو بطور واقعہ موضوع بنا کر ہو سکتی ہے لیکن اس توجیہ میں مسلط ہو جانے والے زوال کے رُخ کو عروج کی سمت پھیرنا داخل نہیں ہے، جب کہ اِس وقت عالمِ اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ زوال کو عروج میں کیسے بدلا جائے؟ یہ مسئلہ اُس وقت حل ہو گا جب تاریخ کو تجدیدِ ملل اور تخلیقِ اُمم کا عمل قرار دیا جائے جو قرآن حکیم کا نقطہ نظر ہے۔ جیساکہ سورہ ہود کے آخر میں مذکور ہے:
وَكُـلاًّ نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ. هود، 11: 120
’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے سب حالات آپ کو سنا رہے ہیں جس سے ہم آپ کے قلبِ (اَطہر) کو تقویت دیتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اَنبیاے سابقین کے واقعات اس لیے بیان کرتا ہے کہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اَطہر کو تسکین اور تقویت ملے۔ مگر انبیاے سابقین کے قصوں سے دل کو تقویت اور تسکین اُسی وقت میسر آسکتی ہے جب ہر قصے سے یہ نتیجہ برآمد ہو کہ غلبہ اَصحابِ حق ہی کو حاصل ہوتا رہا ہے اور یہ نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے جب اَصحابِ حق کا غلبہ اور اَصحابِ باطل کی شکست کسی ایسے قانون سے متعین ہو جو ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ شکست ہو اور اس کی خلاف ورزی ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا.
الفرقان، 25: 31
’’اور اِسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جرائم شعار لوگوں میں سے (ان کے) دشمن بنائے تھے (جو ان کے پیغمبرانہ مشن کی مخالفت کرتے اور اس طرح حق اور باطل قوتوں کے درمیان تضاد پیدا ہوتا جس سے انقلاب کے لیے سازگار فضا تیار ہو جاتی تھی) اور آپ کا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لیے کافی ہےo’’
پیغمبرانہ دعوت کے راستے میں کی جانے والی مزاحمت سے دعوت کے خاطرخواہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا اعلان قرآن حکیم یوں کرتا ہے:
لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ . المجادلہ، 58: 21
’’یقینا میں اور میرے رسول ضرور غالب ہو کر رہیں گے۔‘‘
لہٰذا تاریخ کی اِصلاح یوں ہوگی کہ زوال کا رخ عروج کی طرف پھیرنے کے لیے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی جائے جو مذکورہ بالا قانون کے حوالے کے بغیر میسر نہیں آ سکتی۔ چنانچہ مذہبی علوم کی جو نشو و نما اب تک ہو چکی ہے، اس کی صحیح سمت مقرر کرنے کے لیے علم بِالوحی سے رہنمائی طلب کی جائے تاکہ زوال و اِنحطاط میں مبتلا ملت کے غلبہ و عروج کی طرف بڑھنے کے لیے مذہبی علوم کا جائزہ لے کر ان کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ متعین کیا جا سکے۔ کیوں کہ علم بِالوحی دَر حقیقت عمل کا علم ہے۔ گویا یہ نصب العین اور اس کے حاصل کرنے کے نتیجہ خیز طریقہ کار کا علم ہے۔ جب اس طریقہ کار سے نتائج پیدا ہو جائیں جو اِنسانی اِستعداد کے زائدہ علوم کے موضوعات ہیں، تو ان کی توجیہ کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر مطلوبہ نتائج پیدا ہی نہیں ہوئے تو ان کی توجیہ عملاً کیسے اثر پیدا کر سکتی ہے؟ توجیہ کے ڈھب پر مرتب ہونے والے تمام علوم موجودہ اَقدارِحیات کی حفاظت تو کر سکتے ہیں مگر مٹی ہوئی اَقدار کو زندہ نہیں کر سکتے۔
اِصلاح کی ضرورت کیوں پیدا ہوئی؟
یہ اَمر ملحوظ رہے کہ ہمارے تمام متداولہ مذہبی علوم اُسی دور میں مرتب و مدون ہوئے تھے جب اِسلام کا سیاسی غلبہ بحال تھا۔ شریعت، طریقت اور مسالک اپنے اپنے میدانوں میں مؤثر طور پر فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ چناں چہ اُس وقت مسلمانوں کی حیاتِ اِجتماعی میں موجودہ اَقدار(existing values) کو محفوظ کیا جا رہا تھا۔ لیکن جب سے ہمارے ہاتھوں سے سیاسی غلبہ چھن گیا، ان علوم کے پیچھے قوتِ نافذہ باقی نہ رہی، غلبہ اِستعمار اور طویل دورِ غلامی نے ہماری اَقدارِ حیات کو مٹا کر ختم کر دیا بلکہ ان کی جگہ منفی اور غیر اِسلامی اَقدار نے لے لی۔ چناں چہ اب سیاسی اور معاشی سطح پر اس صورتِ حال یعنی status quo کو بحال رکھتے ہوئے محض توجیہی علوم کی مدد سے ختم شدہ اَقدار کو زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ علوم تو موجودہ اَقدار کو محفوظ کرنے کے لیے معرضِ وجود میں آئے تھے، ان سے آج حیاتِ ملی کو اَز سرِ نو زندگی نہیں بخشی جا سکتی۔ آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مذہبی علوم کے ذریعے معیاری دین اور معمول بہ دین میں اِمتیاز پیدا کیا جائے اور پھر اس اِمتیاز کی روشنی میں اُن کی تکمیل کا رُخ دوبارہ متعین کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1۔ علمِ تفسیر
یہ اِس سلسلے کا پہلا علم ہے۔ اس کا موضوع قرآن حکیم ہے جو یقینا تفسیر سے متمیز ہے۔ کیوں کہ قرآن وہ حقیقت ہے جس کے علم کا نام تفسیر ہے، یعنی قرآن نص ہے اور تفسیر اس کی تعبیر، جس کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کیا ہے؟
2۔ علمِ حدیث
اِس کا موضوع سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و عمل کیا تھا؟
3۔ علمِ فقہ
اِس کا موضوع انسانی زندگی سے متعلق اوامر و نواہی ہیں۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ کتبِ حدیث اور بالخصوص کتبِ سنن کے اُسلوبِ تبویب کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر علمِ حدیث کی تدوین کا اصل محرک بھی فقہ ہی تھا۔ گویا انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ضابطہ اور اس کی اصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرنے کے لیے اَحادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع اور مرتب کیا گیا۔
4۔ علمِ کلام
اس کا موضوع عقائد ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عقائد کی عقلی اساس کیا ہے؟ اس کا وظیفہ (function) عقائدِ صحیحہ کی تائید اور عقائدِ باطلہ کی تردید میں اِستدلال فراہم کرنا ہے۔
5۔ تصوف
اِس کا موضوع طریقت ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اَحکامِ فقہ کی بجا آوری میں اخلاص کیسے پیدا ہو گا؟
6۔ تاریخ
تاریخِ اسلام کا موضوع دو اَدوار کے بیان پر مشتمل ہے: دورِ رسالت اور دورِ مابعد رسالت۔ بحیثیت علم کے تاریخ کا مسئلہ اُمت کے عروج و زوال کے اَسباب کی جستجو ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اِنسانی اِستعداد کے یہ زائیدہ مذہبی علوم زندگی میں نتائج پیدا کرنے میں مؤثر نہیں رہے۔ حتی کہ اِسلام کے عقیدہ و عمل کا کوئی اثر ہماری حیاتِ اجتماعی پر باقی نہیں رہا۔ عقائد اَوہام میں اور عبادات رسوم و ظواہر میں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ان کا علاقہ عملی زندگی سے یکسر منقطع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی مذہبی اور غیر مذہبی (religious and secular) کے دو شعبوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور اس کی ثنویت و غیریت کو کسی سطح پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کے سب علوم اس سوال کا جواب ہیں کہ یہ کیا ہے؟
علم کا ایک تقاضا ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اِس تقاضے کے غالب آنے کی وجہ سے علم بالوحی اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا اور علم کا ایک ویسا ہی شدید مطالبہ ہم آہنگی کے تقاضے کے تحت نظر انداز کر دیا گیا جو یہ تھا کہ مماثل فضائل کے درمیان امتیازات کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس تقاضے کے نظر انداز ہو جانے سے علم بالوحی کے اِس مسئلے کی نوعیت سے صرفِ نظر ہو گیا کہ زندگی پسندیدہ نمونے پر ڈھلے کیسے؟ اس سوال سے صورتِ حال کا اثر یہ ہوا کہ:
1۔ علمِ تفسیر
علمِ تفسیر اِس جستجو سے دست بردار ہو گیا کہ قرآن حکیم جس نمونے پر انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے، وہ کیسے ڈھلے گی؟ یعنی قرآن حکیم جس طرح کا انسان چاہتا ہے، وہ کس طرح میسر آئے گا؟
2۔ علمِ حدیث
علمِ حدیث اِنسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا تو یہ جستجو پیش نظر نہ رہ سکی کہ جن عملی نتائج تک علم بالوحی پہنچانا چاہتا ہے، اس تک پہنچنے میں حدیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ اسے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدود سے آج پھر کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟
3۔ علمِ فقہ
علم فقہ کے انسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل جانے سے قرآنی اَحکام کے بارے میں اس مقصد سے صرفِ نظر ہو گیا کہ اَوامر و نواہی کے مطابق اور جائز و ناجائز کے امتیاز پر زندگی عملاً کیسے استوار ہو گی؟ اگر تفسیر، حدیث اور فقہ کے مروّجہ علوم کے دائرہ کار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت اَظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہ تمام مذہبی علوم صرف حلال و حرام، جائز و ناجائز، مستحب و مکروہ اور پسندیدہ و ناپسندیدہ یعنی انسانی اعمال کے لیے صحت اور عدم صحت کی حدود کے بیان تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ انسانی احوال کو بدلنے کی تدبیر ان کے موضوع سے خارج ہے۔ لیکن اس وقت تک عالمِ اسلام کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں ان امور کو جان لینے کے باوجود تمرد اور اِنحراف کے راستے پر گامزن ہیں۔
مسلمانوں کو اِجتماعی زندگی اِنتشار، اِضمحلال اور اِنحطاط کا شکار ہے، جس سے نکلنے کی آرزو کے باوجود وہ اس سے نکل نہیں پاتے اور اصلاح کی تمام فکری اور عملی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ متداول علوم غلط اور صحیح کی نشان دہی اور امتیاز کر دینے کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ صحیح راستے پر کس طرح گامزن ہوا جائے؟ مطلوبہ نمونہ کمال کے مطابق زندگی کس طرح بسر ہو؟ اور اَحوالِ زندگی کا جو معاملہ بگڑ چکا ہے، اسے پھر سے کس طرح سنوارا جائے؟ گویا اسلام جس تباہی سے بچانا چاہتا ہے، ملتِ اسلامیہ اس تباہی وہلاکت سے کیسے بچے؟ محض مقصد اور نصب العین کا بیان کر دینا ہی کافی نہیں، جب تک اس مقصد کے حاصل کرنے کی تدبیر اور حتمی طریقِ کار بیان نہ کیا جائے، کسی علم کی تاثیر وافادیت مسلّم نہیں ہو سکتی۔
4۔ علم الکلام
اِس علم کا وظیفہ زیادہ سے زیادہ ان شکوک کو باطل کرنا ہے جو عقائدِ صحیحہ کی نسبت ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن یقینِ کامل اور رسوخ فی الایمان علمِ کلام کے حوالے سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ یقین ہمیشہ نتائج کی تجربی توثیق اور شہادت سے میسر آتا ہے جب کہ ایمان بالغیب کی حیثیت ایمانِ وہبی کی ہے، جس کی بنیاد صاحبِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے۔ اس کی وضاحت اس میں ہے کہ غایتِ تخلیق، غایتِ بعثت اور غایتِ نزولِ قرآن ایک ہی ہے۔ عملی نتائج ان کائناتی قوانین سے متعین ہوتے ہیں جو نظامِ تکوین میں متعین کر دیے گئے ہیں اور ایمان بالغیب وہ ایمان ہے جو عملی جد و جہد سے پہلے درکار ہے۔ اس کے بغیر مقصد کے لیے جان کی بازی نہیں لگائی جا سکتی۔
5۔ علمِ تصوف
اِس علم کا موضوع عملی زندگی میں اخلاص اور للہیت پیدا کرنا ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اتباعِ شریعت میں حسنِ نیت اور خلوص کیسے پیدا ہوگا؟ مگر جب سے تصوف عمل کی بجائے ماورائی حقیقت کا علم بنا ہے، اس کے نتائج عملی زندگی پر مرتب ہونا بند ہو گئے ہیں۔ اب علمِ تصوف کی تاثیر اور نتیجہ خیزی اُسی وقت برآمد ہو سکتی ہے جب انسانی زندگی پہلے شریعت کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اس کے بعد اس میں تشرع اور ریاکاری کے خاتمہ کے لیے تصوف اپنا انقلاب انگیز کردار ادا کر سکتا ہے۔
6۔ علمِ تاریخ
تاریخِ اِسلام بھی عروج و زوال کی توجیہ کا علم بن کر رہ گئی ہے جس میں جبر کا شائبہ غالب ہے۔ اس کی جستجو عروج و زوال کو بطور واقعہ موضوع بنا کر ہو سکتی ہے لیکن اس توجیہ میں مسلط ہو جانے والے زوال کے رُخ کو عروج کی سمت پھیرنا داخل نہیں ہے، جب کہ اِس وقت عالمِ اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ زوال کو عروج میں کیسے بدلا جائے؟ یہ مسئلہ اُس وقت حل ہو گا جب تاریخ کو تجدیدِ ملل اور تخلیقِ اُمم کا عمل قرار دیا جائے جو قرآن حکیم کا نقطہ نظر ہے۔ جیساکہ سورہ ہود کے آخر میں مذکور ہے:
وَكُـلاًّ نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ. هود، 11: 120
’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے سب حالات آپ کو سنا رہے ہیں جس سے ہم آپ کے قلبِ (اَطہر) کو تقویت دیتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اَنبیاے سابقین کے واقعات اس لیے بیان کرتا ہے کہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اَطہر کو تسکین اور تقویت ملے۔ مگر انبیاے سابقین کے قصوں سے دل کو تقویت اور تسکین اُسی وقت میسر آسکتی ہے جب ہر قصے سے یہ نتیجہ برآمد ہو کہ غلبہ اَصحابِ حق ہی کو حاصل ہوتا رہا ہے اور یہ نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے جب اَصحابِ حق کا غلبہ اور اَصحابِ باطل کی شکست کسی ایسے قانون سے متعین ہو جو ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ شکست ہو اور اس کی خلاف ورزی ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا.
الفرقان، 25: 31
’’اور اِسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جرائم شعار لوگوں میں سے (ان کے) دشمن بنائے تھے (جو ان کے پیغمبرانہ مشن کی مخالفت کرتے اور اس طرح حق اور باطل قوتوں کے درمیان تضاد پیدا ہوتا جس سے انقلاب کے لیے سازگار فضا تیار ہو جاتی تھی) اور آپ کا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لیے کافی ہےo’’
پیغمبرانہ دعوت کے راستے میں کی جانے والی مزاحمت سے دعوت کے خاطرخواہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا اعلان قرآن حکیم یوں کرتا ہے:
لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ . المجادلہ، 58: 21
’’یقینا میں اور میرے رسول ضرور غالب ہو کر رہیں گے۔‘‘
لہٰذا تاریخ کی اِصلاح یوں ہوگی کہ زوال کا رخ عروج کی طرف پھیرنے کے لیے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی جائے جو مذکورہ بالا قانون کے حوالے کے بغیر میسر نہیں آ سکتی۔ چنانچہ مذہبی علوم کی جو نشو و نما اب تک ہو چکی ہے، اس کی صحیح سمت مقرر کرنے کے لیے علم بِالوحی سے رہنمائی طلب کی جائے تاکہ زوال و اِنحطاط میں مبتلا ملت کے غلبہ و عروج کی طرف بڑھنے کے لیے مذہبی علوم کا جائزہ لے کر ان کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ متعین کیا جا سکے۔ کیوں کہ علم بِالوحی دَر حقیقت عمل کا علم ہے۔ گویا یہ نصب العین اور اس کے حاصل کرنے کے نتیجہ خیز طریقہ کار کا علم ہے۔ جب اس طریقہ کار سے نتائج پیدا ہو جائیں جو اِنسانی اِستعداد کے زائدہ علوم کے موضوعات ہیں، تو ان کی توجیہ کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر مطلوبہ نتائج پیدا ہی نہیں ہوئے تو ان کی توجیہ عملاً کیسے اثر پیدا کر سکتی ہے؟ توجیہ کے ڈھب پر مرتب ہونے والے تمام علوم موجودہ اَقدارِحیات کی حفاظت تو کر سکتے ہیں مگر مٹی ہوئی اَقدار کو زندہ نہیں کر سکتے۔
اِصلاح کی ضرورت کیوں پیدا ہوئی؟
یہ اَمر ملحوظ رہے کہ ہمارے تمام متداولہ مذہبی علوم اُسی دور میں مرتب و مدون ہوئے تھے جب اِسلام کا سیاسی غلبہ بحال تھا۔ شریعت، طریقت اور مسالک اپنے اپنے میدانوں میں مؤثر طور پر فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ چناں چہ اُس وقت مسلمانوں کی حیاتِ اِجتماعی میں موجودہ اَقدار(existing values) کو محفوظ کیا جا رہا تھا۔ لیکن جب سے ہمارے ہاتھوں سے سیاسی غلبہ چھن گیا، ان علوم کے پیچھے قوتِ نافذہ باقی نہ رہی، غلبہ اِستعمار اور طویل دورِ غلامی نے ہماری اَقدارِ حیات کو مٹا کر ختم کر دیا بلکہ ان کی جگہ منفی اور غیر اِسلامی اَقدار نے لے لی۔ چناں چہ اب سیاسی اور معاشی سطح پر اس صورتِ حال یعنی status quo کو بحال رکھتے ہوئے محض توجیہی علوم کی مدد سے ختم شدہ اَقدار کو زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ علوم تو موجودہ اَقدار کو محفوظ کرنے کے لیے معرضِ وجود میں آئے تھے، ان سے آج حیاتِ ملی کو اَز سرِ نو زندگی نہیں بخشی جا سکتی۔ آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مذہبی علوم کے ذریعے معیاری دین اور معمول بہ دین میں اِمتیاز پیدا کیا جائے اور پھر اس اِمتیاز کی روشنی میں اُن کی تکمیل کا رُخ دوبارہ متعین کیا جائے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...