Thursday, 1 March 2018

تعویذ اور تمیمه میں فرق جائز اور ناجائز تعویذ

تعویذ اور تمیمه میں فرق جائز اور ناجائز تعویذ

تعویذ کے لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے . (مصباح اللغات : 583) ۔ فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے . (المنجد : صفحہ ٥٩٣) ۔ دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے "تحریری دعا" کہہ لیجئے. جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے ، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی "تحریری دعا" کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. مَثَلاً : حدیثِ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) پر لبید بن اعصم یہودی کے کیے ہوۓ سحر (جادو) کے اثرات ختم کرنے کے لئے وحی الہی کی ہدایت پر آپ (صلی الله علیہ وسلم) پر "معوذتين" یعنی سوره الفلق اور سوره الناس کا تلاوت کرنا، (تفسیر ابن عباس) صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری (رضی الله عنہ) سے مروی وہ حدیث جس میں انہوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوۓ ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہوگیا تھا اور بعد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی .

تعویذ کے شرعا جائز ہونے کی تین شرائط ہیں

(1) کسی جائز مقصد کے لیے ہو، ناجائز مقصد کے لیے ہرگز نہ ہو ۔

(2) اس کو مؤثر بالذات نہیں سمجھا جائے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی مؤثر حقیقی سمجھا جائے ۔

(3) وہ تعویذ قرآن و حدیث یا اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر مشتمل ہو، یا عربی یا کسی اور زبان کے ایسے الفاظ پر مشتمل ہو جن میں کفر و شرک یا گناہ کی بات نہ ہو اور ان کا مفھوم بھی معلوم ہو ۔

اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو پھر تعویذ کرنا اور پہننا شرعا ناجائز ہوگا۔

وہ تعویذات جن میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں ، قرآنی آیات حدیثوں میں ذکر شدہ دعاؤوں پر مشتمل ہوں ان کا استعمال جائز ہےاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔ اس لیئے جائز تعویذات کا استعمال جائز ہے ، انہیں ناجائز کہنا یا سمجھنا گمراہی ہے ۔

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہما اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ کَتَبَهَا فِي صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبدالرحمن بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے ۔ (جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1479 (29413) دعاؤں کا بیان : (سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 503 (18572) – طب کا بیان : تعویز کیسے کیے جائیں)(مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الطِّبِّ » مَنْ رَخَّصَ فِي تَعْلِيقِ التَّعَاوِيذِ, رقم الحديث: 22933)

تمائم و تعویذات میں فرق

التميمة : وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم , يتقون بها العين في زعمهم (النهاية لابن الأثير : ج 1 ، ص 197)
ترجمہ : تميمة : "یہ خرزات (پتھر، منکے اور کوڑیوں کی مالا) کو کہتے ہیں جنہیں (زمانہ جاہلیت میں) عرب لوگ ( موثر بالذات سمجھ کر) بچوں کو اس کے ذریعہ سے نظرِ بد سے بچانے کے زعم (عقیدہ و نظریہ) سے پہناتے تھے".

امام بغوی فرماتے ہیں : ’’ اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ ‘‘ [شرح السنۃ (12/158)]
ترجمہ : تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ : (( لَیْسَتِ التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہ بَعْدَ الْبَلاَئِ اِنَّمَا التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہ قَبْلَ الْبَلاَئِ ،
ترجمہ : تمیمہ وہ نہیں جو بلاء (مرض) کے بعد لٹکایا جائے ، تمیمہ تو وہ ہے جو بلاء سے پہلے لٹکایا جائے ۔ (المستدرک للحاکم :۴/۲۱۷ , الترغیب : ج۵ ص۲۷۱ ؛ طحاوی : ٢/٣٦٠)

اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہٴ ماثورہ کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا تحکم و زیادتی ہے ، اس لیئے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث سے ملتی ہے ، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، مرقات شرح المشکاة، ص:۳۲۱ و ۳۲۲، ج۸، الترغیب والترہیب، ج۵ ص۲۷۱، ابوداوٴد شریف، ج۲، ص۹۲ وغیرہا) لہٰذا بعض لوگوں کا تعویذ پہننے کو مطلقاً شرک قرار دینا غلط ہے .

جہاں تک ان احادیث كا تعلق ہے جس میں آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے تعویذ لٹکانے سے منع فرمایا ہے تو یہ اس صورت پر محمول ہیں . اس سے مراد شرکیه ، کفریه الفاظ پر مشتمل ، ناجائز تمیمه وغیره هے . ( مسند احمد بن حنبل،رقم الحدیث 6696،ج،6،ص،246)(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطہارۃ 8، 36)۔(جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ۔۔۔ رقم الحديث: 3475 (3528)(سنن أبي داود » كِتَاب الطِّبِّ » بَاب كَيْفَ الرُّقَى ۔۔۔ رقم الحديث: 3397 (3893)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انہیں کلمات کو پڑھ کر دم کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ حضرت ابراہیم واسماعیل اوراسحاق علیہم السّلام انہیں کلمات سے تعویذ کرتے تھے ۔ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَھَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ ۔ (بخاری:۲/۴۷۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے جنہوں نے قرآن کریم سے جھاڑ پھونک کی تھی اور اس پر اجرت بھی لی تھی، فرمایا : ’’وہ لوگ بھی تو ہیں جو باطل جھاڑ پھونک پر اجرت لیتے ہیں، تم نے تو برحق دم کر کے اجرت لی (مَنْ أخَذ برُقْية باطِلٍ فقد أَخَذْت بِرُقْية حَقٍّ)‘‘اور جیسے حضور کا یہ فرمان جو حدیث جابر میں ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اعْرِضُو ْهَا عَلَيَ فعرَضْناها فقال لا باْس بها اِنما هی مواثِيقُ. کأَنّه خاف أَن يقع فيها شيی ممّا کانوا يتلفظون به و يعتقدونه من الشرک فی الجاهلية وما کان بغير اللسان العربی ممّا لا يعرف له ترجمته ولا يمکن الوقوف عليه فلا يجوز استعماله .
ترجمہ : وہ دم جھاڑ میرے سامنے لاؤ ! ہم نے پیش کر دیا فرمایا کوئی حرج نہیں یہ تو وعدے معائدے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں دم میں کوئی ایسا حرف نہ ہو جسے وہ بولا کرتے اور جس شرک کا دورِ جاہلیت میں عقیدہ رکھتے تھے یا جو عربی زبان میں نہ ہو جس کا ترجمہ نہ آئے اور نہ اس کا مفہوم تک پہنچنا ممکن ہو ایسا دم جائز نہیں۔ رہا سرکار کا یہ فرمان کہ : ’’نظربد اور بخار کے علاوہ کسی اور مقصد کیلیے دم درود نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دم سے بڑھ کر کوئی دم بہتر اور نفع دینے والا نہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سے زائد صحابہ کرام کو جھاڑ پھونک کا حکم دیا۔ اور ایک بڑی جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ جھاڑ پھونک کرتے تھے اور آپ نے ان پر انکار نہیں فرمایا۔ الخ ۔
(علامه ابن منظور افريقی، متوفی711ه، لسان العرب، 5 : 294، طبع بيروت)(علامه سيد مرتضي الحسينی الواسطی الزبيدی الحنفی، تاج العروس شرع القاموس، 10 : 154، طبع بيروت)

حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے : رخَّصَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الرُّقْيَةَ مِنَ العين وَالحُمَةِ والنَّمْلة.
ترجمہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کیلیے جھاڑ پھونک کی اجازت دی ۔ (1) نظربد ۔ (2) بچھو وغیرہ کے کاٹے پر ۔ (3) پھوڑے پھنسی کیلیے۔‘‘
(مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2196)(حميدی، الجمع بين الصحيحين، 2 : 655، رقم : 2164)(نسائی، المتوفی 303ه، السنن، 4 : 366، رقم : 7541، دارالکتب العلمية. بيروت، سن اشاعت 1991ء)(ابن ابی شيبه، المتوفی 235ه، المصنف، 5 : 43، رقم : 23536، مکتبة الرشد. الرياض، سن اشاعت 1409ه)(احمد بن حنبل، المتوفی 241، المسند، 3 : 118، رقم : 12194، مؤسسة قرطبة. مصر)

امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے : أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم کان يأمرها أن تسترقی من العين .
ترجمہ : رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا) کو نظربد سے بچنے کیلیے جھاڑ پھونک کا حکم دیا کرتے تھے ۔
(بخاری، الصحيح، 5 : 2166، رقم : 5406)(مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2195)(ابن ماجه، السنن، 2 : 1161، رقم : 3512)(هندي، المتوفی 975ه، کنزالعمال، 7 : 51، رقم : 18369، دارالکتب العلمية. بيروت، سن اشاعت 1998ء)

امّ المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے : انَّ النّبیّ صلی الله عليه وآله وسلم رَأی فی بيتها جاريةً فی وَجْهِهَا سَفْعَةً فقال اِسْتَرْقُوْا لها فانّ بها النظرة .
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے گھر ایک لڑکی دیکھی جس کا چہرہ زرد تھا۔ فرمایا : اسے جھاڑ پھونک کرو، اسے نظر لگ گئی ہے ۔
(بخاری، الصحيح، 5 : 2167، رقم : 5407)(مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2197)(حاکم، المستدرک، 4 : 236، رقم : 7486)(حميدی، الجمع بين الصحيحين، 4 : 228، رقم : 3441)

فقہائے اسلام کے نزدیک گنڈا تعویذ، دم درود اور جھاڑ پھونک

الاسترقاء بالقرآن نحو أن يقرأ علی المرض و الملدوغ أو يکتب فی ورق و يعلق أو يکتب فی طست فيغسل و يسقی المريض فأباحه عطاء و مجاهد و أبو قلابة...فقد ثبت ذلک فی المشاهير من غير اِنکار و الذی رعف فلا يرقأ دمه فأراد أن يکتب بدمه علٰی جبهته شيْاً من القرآن يجوز و کذا لو کتب علی جلد ميتة اذا کان فيه شفاء ولا باس بتعليق التعويذ و لٰکن يترعه عند الخلاء و القربان.
ترجمہ : قرآن کریم سے دم (جھاڑ پھونک) کرنا یوں کہ مریض اور (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر قرآن پڑھے یا کاغذ پر لکھ کر گلے وغیرہ میں لٹکائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس تحریر کو دھو کر بیمار کو پلائے اسے عطاء، مجاہد اور ابو قلابہ نے جائز قرار دیا ہے، مشہور ائمہ میں یہ عمل بغیر انکار ثابت ہے۔ اور جس کی نکسیر نہ رُکتی ہو اور وہ اپنے اُسی خون سے اپنی پیشانی پر قرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ یونہی مردار کے (رنگے ہوئے) چمڑہ پر لکھنا جب اس میں شفاء (کی امید)ہو جائز ہے۔ اور گلے میں تعویذ لٹکانے میں حرج نہیں، ہاں بیت الخلاء یا بیوی سے قربت کے وقت اتار دے ۔ (الشیخ نظام و جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ المشہور فتاویٰ عالمگیری، 5 : 356، طبع کوئٹہ)

التميمة المکروهة ما کان بغير القرآن... ولا بأس بالمعاذات اِذا کتب فيها القرآن أو أسماء اﷲ تعالٰی... انما تکره العوذة اِذا کانت لغير لسان العرب ولا يدري... أو شی من الدعوات فلا باس به.
ترجمہ : مکرہ تعویذ وہ ہے جو قرآن کے علاوہ ہو، ان گنڈے تعویذوں سے شفاء حاصل کرنے میں حرج نہیں جن میں قرآن یا اﷲ کے نام لکھے ہوں۔ اور وہ تعویذات جو عربی زبان کے علاوہ ہوں اور پتہ نہ چلے یہ کیا ہے، ممکن ہے اس میں جادو، کفر وغیرہ شامل ہو جائے۔ مگروہ گنڈہ تعویذ جو قرآن سے ہو یا کوئی دعا ہو، اس میں حرج نہیں ۔
(ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6 : 363، دار الفکر للطباعة و النشر. بيروت)

اختلف فی الاستشفاء بالقرآن بايقرأ علی المريض أو الملدوغ الفاتحة أو يکتب فی ورق و يعلّق عليه أو فی طست و يغسل و يسقٰی و عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه کان يعوذ نفسه و علی الجواز عمل الناس اليوم وبه و ردت الأثار ولا بأس بأن يشدّ الجنب و الحائض التعاويذ علی العضر اذا کانت ملفوفة.
ترجمہ : قرآن کے ذریعہ شفاء حاصل کرنے میں اختلاف ہے۔ مثلاً بیمار یا (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر فاتحہ پڑھنا یا کسی کاغذ میں لکھ کر اس کے گلے وغیرہ پر لٹکا دیا جائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس لکھے کو دھو کر پلایا جائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ اور آج لوگوں کا جواز پر ہی عمل ہے اور روایات و احادیث اسی کی تائید میں وارد ہیں۔ اور جُنبی اور حیض والی لفافے میں بند (جیسے چاندی یا چمڑے میں ہوتا ہے) تعویذ بازُو پر باندھیں، اس میں حرج نہیں ۔ (ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6 : 364)

علمائے اہل حدیث

غیر مقلدین کے امام شوکانی لکھتے ہیں : اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں ۔ (علامه شوکانی، نيل الاوطار، 1 : 345، فصل ردشرک، الرقیٰ والتمائم)

غیر مقلدین کے فتویٰ فتاویٰ علمائے حدیث ج ١٠، ص ٨٢ ، کتاب الایمان و العقائد میں لکلھا ہے کہ : کچھ شک نہیں کہ نفس دم (رقیہ) یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب (تولہ) کی نہیں بلکہ ان کی بعض قسمیں شرک ہیں ؛ اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا"۔" (صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ...رقم الحديث: 4086)

وہابی حضرات کے فتاویٰ ثانیہ : ج ١ ، ص ٣٣٩ ، باب اول : عقائد و مہمات دین میں لکھا ہے کہ : "مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے ، راجح یہ ہے کہ آیات یا کلمات صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان . صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا ۔

علمائے دیوبند

حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : امروہہ میں ایک ہندو تھا وہ حضرت عبدالباری سے کمال اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے آپ سے عرض کیا کہ میرے کوئی اولاد نہیں ہے تعویذ دیجیے۔ حضرت نے تعویذ دے کر فرمایا کہ ابھی تو اپنی بیوی کے بازو پر باندھ دو اور بعد تولّدِ فرزند، اس کے بازو پر باندھ دینا۔ تعویذ کی برکت سے اس کے لڑکا پیدا ہوا۔ جب وہ سنِ تمیز کو پہنچا باغوائے بعض ہنود اس تعویذ کو کھول ڈالا اس میں ’’اُڑری بھنبیری ساون آیا‘‘ لکھا تھا۔ پڑھ کر اس نے تعویذ پھینک دیا ۔ پھینک کر وہ نہانے کو گیا دریا میں ڈوب کر مر گیا ۔ ( اشرف علی تهانوی، امداد المشتاق الیٰ اشرف الاخلاق، ص : 118، طبع لاهور)

جماعت اسلامی کے بانی مودودی صاحب لکھتے ہیں : بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اﷲ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے، کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے، اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفاء دینے والی ہے، بلکہ اﷲ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔ یہ مسئلہ شرعی واضح ہو جانے کے بعد اب دیکھیے کہ احادیث اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔‘‘ اس کے بعد مولانا مودودی نے وہ تمام احادیث نقل کر دیں جو ہم نقل کر آئے ہیں۔( تفهيم القرآن، 6 : 558، طبع لاهور)
مزید لکھتے ہیں : اب اگر دوا اور علاج کرنے کے ساتھ اﷲ کے کلام اور اس کے اسمائے حُسنٰی سے بھی استفادہ کیا جائے، یا ایسی جگہ جہاں کوئی طبی امداد میسر نہ ہو، اﷲ ہی کی طرف رجوع کر کے اس کے کلام اور اسمائے و صفات سے استعانت کی جائے تو مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے ۔ (تفهيم القرآن، 6 : 560، طبع لاهور)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)












1 comment:

  1. آپ نے جتنے بھی حوالے دیئے ہیں سب ضعیف ہیں۔ سوائے جامع ترمزی کے جس میں صحابی کا بچوں کے گلے میں لٹکانے کا عمل ہے۔ مگر اس میں پوری حدیث میں یہ ہے کہ وہ اس لئے لٹکاتے تھے کہ بچے ان آیات کو یاد کریں وہاں سے دیکھ کر۔ جتنی بھی سحیح احادیث ملتی ہیں کہیں بھی نہیں ہے کے تعویز لٹکائو۔ اور آپ نے آدھے حوالے تو دم جھاڑ پھونک کے دئے ہیں۔ آپکا دماغی توازن ٹھیک نہیں لگتا کیا آپکو دم میں اور تعویز میں فرق نہیں نظر آتا؟

    ReplyDelete

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...