Friday, 10 November 2017

تیسری عید میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کہاں سے آئی کا جواب

تیسری عید میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کہاں سے آئی کا جواب
محترم قارئینِ کرام : عیدِ میلادُالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مطلب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے وقت یا زمانے کی خوشی ۔ اسلام میں شرعا دو عیدیں ہی ہیں جنہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی کہتے ہیں ۔ کسی اور دن کے ساتھ لفظ عید لگانے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ۔ اگر ممانعت ہے تو آپ وہ ممانعت قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی اور دن کو عید کا دن کہتے تھے ؟ ۔ تو اس کا جواب غیرمقلدین وہابی حضرات کے علامہ وحیدالزمان بخاری کی شرح بنام تیسیرالبخاری کی جلد 6 صفحہ 104 پر ایک حدیث لکھی ہےجو اصل کتاب بخاری شریف کی جلد 2 صفحہ 662 پر موجود ہے ۔ حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں یہودی لوگ (مثلاً کعب احبار) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے ۔ تم (اپنے قرآن مجید میں) ایک ایسی آیت پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید (خوشی کا دن) مقرر کرلیتے ۔ حضرت عمر نے پوچھا وہ کون سے آیت ہے ، انہوں نے کہا ۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلٰمَ دِیۡنًاحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں خوب جانتا ہو ں یہ آیت مبارکہ کب اتری اور کہاں اتری ؟ اور جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہاں تھے ؟ یہ آیت مبارکہ عرفہ کے دن نازل ہوئي اس وقت اللہ تبارک و تعالی کی قسم ۔ ہم میدان عرفات میں تھے ۔ حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مجھ کو شک ہوا اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن ۔ اس حدیث کو لکھنے کے بعد وحید الزماں نے لکھا ہے قیس بن سلمہ کی روایت میں بالیقین مذکور ہےکہ وہ جمعہ کا دن تھا تو اس دن دوہری عید ہوئی ۔ (تیسیر البخاری جلد 6 صفحہ 104 من و عن)

دوہری سے مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ" ہے یعنی جمعۃ المبارک بھی "عید" کا دن ہے ۔

مشکوۃ ص 121، رواہ الترمذی۔میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت موجود ہے۔جس میں آپ نے یہودی کو جواباً ارشاد فرمایا کہ اس دن ہماری دو عیدیں تھیں۔ مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ" ۔ حضرت عبداللہ کے جواب کا مقصد یہودی کو یہ بات سمجھانا اور باور کروانا تھا کہ تم ایک"عید" کی بات کرتے ہو جب یہ آیت نازل ہوئی ان دن ہماری دو عیدیں تھیں ۔ یعنی یوم عرفہ اور جمعہ ۔

حضرت عبید بن سباق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جمعوں میں ایک جمعہ میں فرمایا : "اے مسلمانوں کے گروہ یہ وہ دن ہے جسے اللہ تعالی نے "عید" بنایا ہے ۔ تو غسل کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو تو اسے لگانے میں کوئی نقصان نہیں ۔ مسواک لازم پکڑو ۔ (مشکوۃ صفحہ 123)(سنن ابن ماجہ صفحہ 7)

ہمارے نزدیک تو تمام "عیدیں" عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا صدقہ ہیں ۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدا نہ ہوتے تو نہ عیدُالفطر ہوتی اور نہ عیدُالاضحیٰ ہوتی ۔ یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت کی "عید" کے صدقہ میں ہمیں عطا ہوئيں ۔

معترضین حضرات ’’عید‘‘ کی تعریف سے ہی واقف نہیں اگر کچھ علم پڑھ لیا ہوتا تو ایسی باتیں نہ کرتے ۔ عید کی تعریف اور جشنِ میلاد کو عید کہنے کی وجہ : ابوالقاسم امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے ، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کےلیے خاص نہیں ہے ۔ عید کا دن خوشی کےلیے مقرر کیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کےلیے ہیں‘‘ اس لیے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو ، اس دن کےلیے عید کا لفظ مستعمل ہو گیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کےلیے) عید ہو‘‘ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو ۔ علامہ راغب اصفہانی علیہ الرحمہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں : جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو ۔ جس میں اللہ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو ۔ جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو ۔ الحمدﷲ عزوجل جل علی احسانہ ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں ۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ ایک مسلمان کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہو سکتی ہے ؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی  ، ایمان کی لازوال دولت ملی  ، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لئے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے ؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان رحمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کےلیے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام دیں اور عید منائیں ۔

کہتے ہیں کہ کسی معتبر کتاب میں یومِ میلاد کو عید نہیں لکھا گیا ۔ حوالہ پیشِ خدمت ہے اور اس حوالے کے اعتبار کےلیے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے اور تمام علمائے دیوبند نے اس کتاب کو اپنی تحریروں کی وقعت ظاہر کرنے کےلیے حوالہ دے کر جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے اور نشرالطیب تو اس کتاب کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے اور معترضین کی مزید تسلی کےلیے عرض ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کے اردو ترجمہ پر تعریفی تقاریظ علمائے دیوبند نے لکھی ہیں ۔ اس کتاب کا نام ’’مواہب لدنیہ‘‘ ہے ترجمہ کو ’’سیرۃ محمدیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب قسطلانی علیہ الرحمہ کی یہ کتاب پانچ سو برس پرانی ہے ۔ اس کی شرح ’’زرقانی‘‘ آٹھ ضخیم جلدوں میں علامہ ابو عبداللہ امام محمد زرقانی علیہ الرحمہ نے لکھی جو اہل علم میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ 1338 ہجری میں جن علمائے دیوبند نے اس کتاب پر تعریفی تقاریظ لکھیں ان کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں : جناب محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند و مفتی عالیہ عدالت ممالک سرکار آصفیہ نظامیہ ۔ جناب محمد حبیب الرحمن مددگار مہتمم دارالعلوم دیوبند ۔ جناب اعزاز علی مدرس ، مدرسہ دیوبند ۔ جناب سراج احمد رشیدی مدرس، مدرسہ دیوبند * جناب محمد انور معلم دارالعلوم دیوبند ۔ اس کتاب کے صفحہ 75 پر امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے مبارک مہینہ کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لادوا بیماری ، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے ۔ معتبر کتاب سے مطلوبہ لفظ ’’عید‘‘ ملاحظہ فرما لیا ۔ اگر امام قسطلانی کی تحریر سے اتفاق نہیں تو مذکورہ علمائے دیوبند کو ملامت کیجیے جنہوں نے اس کتاب کو بہترین اور اس کے ترجمہ کو بہت بڑی نیکی لکھا ہے ۔

لغت میں عید ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے ، اور کیونکہ یہ دونوں مذہبی تہوار ہر سال آتے ہیں اس لیے ان کو عید کہتے ہیں ، پھر مجازاً اسے خوشی کے موقع کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ۔ آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خوشی کے ان دو اَیام کے علاوہ کسی دوسرے دن کو عید کہنا جائز ہے یا نہیں ؟ ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ رضی اللہ عنہ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو ضرور عید مناتے ، فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ ۔ (سورہ المائدۃ آیت نمبر 03) ۔ پڑھی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا ۔ (صحيح بخاری کتاب الإيمان باب زيادة الإيمان و نقصانه)

آپ رضی اللہ عنہ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لیے وہ دن عید ہے ۔

سنن ترمذی میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔ (سنن الترمذی کتاب تفسيرآن باب و من سورة المائدة)

یوں عیدُ الفطر اور عیدُ الاضحی کے علاوہ سال میں 53 عیدیں ہوئیں ، 52 جمعہ اور ایک یوم عرفہ ، تو ان 53 عیدوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟

جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عیدمنانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن حکیم میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا ۔
ترجمہ : اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کےلیے) عید بن جائے ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 91)

معلوم ہوا کہ نزولِ نعمت کے دن کو عید کہنا اور جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے ، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمتِ کُل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کا دن امت مسلمہ کےلیے یوم عید ہے ۔ عید کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ ایک ہے عید شرعی اور عید واجب اور دوسری عید فرحت ، عید مسرت اور عید تشکر ہے ۔ یہ مستحب اور مستحسن ہوتی ہے ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دن کو عید کہنا یا سمجھنا اس لیے درست نہیں کہ اسلام میں عیدیں صرف دو ہیں اور وہ ہے عیدالفطر اور عیدالاضحی ۔ ان دو عیدوں کے ہوتے ہوئے بعض احباب کسی تیسری عید کو عید کہنا بھی جائز نہیں سمجھتے ۔ اس کی وضاحت صحاح ستہ کی کتب احادیث سنن ابی داٶد سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے ۔ 

جمعۃ المبارک یوم عید ہے تو سال میں کتنی عیدیں ہوئیں اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہی ضد آخر کیوں ؟

 فضیلتِ جمعۃ المبارک کا سبب یومِ تخلیقِ آدم علیہ السلام ہے ۔ جمعۃ المبارک کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سیّدُالایام کہا گیا ہے ۔ اس دن غسل کرنا ، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا ، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے ۔

حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة ، وفيه الصعقة ، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي ۔
ترجمہ : تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے ، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047)(أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531،چشتی)(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085)

امام اِبن ماجہ 209۔ 273ھ علیہ الرحمہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن هذا يوم عيد ، جعله اللہ للمسلمين ، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل ، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک ۔
ترجمہ : بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے ، اور اگر ہو سکے تو خوشبو لگا کر آئے ۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 : 349، رقم : 1098،چشتی)(طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355)(منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058)

امام احمد بن حنبل 164۔ 241ھ علیہ الرحمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده ۔
ترجمہ : بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے ، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں) ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903)(ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166)(ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524)(حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595)

امام اِبن حبان 270۔ 354ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں : کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة ؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام ۔
ترجمہ : میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو ۔ (ابن حبان، الصحيح، 8 : 375، رقم : 3610)

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعۃ المبارک کا سبب کیا ہے اور اسے کس لیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا ؟ اس سوال کا جواب اوپر بیان کی گئی حدیثِ مبارکہ میں موجود ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا : فيه خلق آدم ’’ (یومِ جمعہ) آدم علیہ السلام کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا) ۔ جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے ۔ اگر یومِ جمعۃ المبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر عیدُ الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا ۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے ۔

جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں ، مثلاً غسل کرنا ، خوشبو لگانا ، ایک جگہ جمع ہونا ، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا ۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے ۔ جمعۃ المبارک کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کےلیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے : فأکثروا عليّ من الصلاة فيه ’’ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو ۔ اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے ۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے بھی ہے ۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کے لیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیا ہے ۔

حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : يا رسول اللہ وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت ؟ ’’ یا رسول اللہ ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن اللہ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء ۔ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے ۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047)(أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531)(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085،چشتی)(نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375)(نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666)(دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572)(ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697)(طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589)(بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789)(بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634)(هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550)

اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا ، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے صرف دو عیدیں کہنے کا تصور کہاں گیا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا : جمعہ کا دن بھی ہماری عید ہے اس سے معلوم ہوا دو عیدوں کے علاوہ بھی اسلام میں عید کا تصور ہے ۔ وہ دو عیدیں واجب ہیں ۔ وہ عیدیں احکام اور مناسک کی ہیں اور یہ عید تعلق اور محبت کی ہے ۔ یہ فرحت اور مسرت کی عید ہے ۔ اس لیے فقیر نے اس کو عید فرحت ، عید مسرت اور عید تشکر کا نام دیا اور وہ دو عیدیں عید شرعی ہیں اور واجب ہیں ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جمعہ کو ہماری عید کا دن کیوں فرمایا ؟ اس کا جواب بھی حدیث پاک میں ہے ۔ یہ بھی سنن ابی داٶد کی حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ان يوم الجمعة من افضل الايام ۔ (صحيح ابن خزيمه جلد 3 صفحہ 115 حديث1728)
ترجمہ : بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل دن ہے ۔

عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ سب دنوں سے افضل کیسے ہوگیا ؟ فرمایا : فی خلق آدم ، اس لیے کہ اس دن آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی ۔ آپ کے ماں باپ نہیں تھے ۔ آپ کی پہلی تخلیق عمل میں آئی ۔ (ولادت بمعنیٰ پیدائش) ۔ فرمایا : جمعہ سب دنوں سے افضل اس لیے ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے ۔ یہ بات حدیث پاک سے طے ہے تو دوستو ! جو دن سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ہو وہ تو ہو جائے یومِ عید اور افضل الایام اور جو دن ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہو اس پر کتنے جمعے قربان ہو جائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش جمعہ کو عید بنادے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آدم علیہ السلام کی بھی ایک نسبت اور تعلق ہے وہ یہ ہے : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر اتار دیے گئے تو طویل مدت تک آپ گریہ و بکا میں رہے پھر آپ نے ایک روز اللہ کے حضور دعا کی اور جب توبہ کےلیے ہاتھ اٹھائے تو عرض کیا : اللهم مغفرلی وتقبل توبة بحق محمد نبی آخرالزمان ۔ (المستدرک، علی الصحيحين جلد 2 صفحہ 272 حديث 4228،چشتی)
ترجمہ : اے اللہ مجھے معاف کردے اور میری توبہ قبول کر (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) جو سب سے آخری نبی تشریف لانے والے ہیں ان کے صدقے اور وسیلے سے معاف کردے ۔

جب آپ نے یہ دعا کی تو اللہ رب العزت نے فرمایا : اے آدم ! توبہ تو قبول کرلوں گا ، معاف بھی کردوں گا مگر یہ بتا تمہیں میرے اس محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خبر کیسے ہوئی ؟ تو آدم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ ! جب تو نے مجھے پیدا کیا اور جنت میں رکھا تو میں نے اپنا سر اٹھا کر جنت کو دیکھا تو میں نے عرش کے ہر پائے پر اور جنت کے ہر درخت ہر ہر پتے اور محلات پر اور جنت کے ہر دروازے پر یہ لکھا دیکھا تھا ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ میں اس دن سمجھ گیا تھا یہ کوئی خدا کا بڑا ہی محبوب ہے کہ جنت کے ایک ایک پتے پر جس کا نام ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر لکھ رکھا ہے ۔ سو میں نے اس دن جان لیا تھا اور آج وہ جاننا میرے کام آگیا ۔ اس کا واسطہ دے کر تجھ سے معافی مانگی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلے سے معافی عطا فرمادی ۔ یہ آدم علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق ہے ایک نسبت ہے اور پھر حضرت حوا علیہا السلام جب پیدا ہوئیں تو اللہ نے چاہا کہ آدم و حوا کے درمیان نسبت زوجیت قائم کر دی جائے ۔ حضرت حوا کو آدم علیہ السلام کی بیوی بنادیا جائے تو فرمایا تمہارا آپس میں نکاح کرتے ہیں ۔ نکاح ہوا تو آدم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ نکاح کے وقت حوا کو میں مہر کیا ادا کروں ؟ اللہ پاک نے فرمایا : تم دونوں مل کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بیس مرتبہ درود پڑھ لو ۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام نے مل کر بیس مرتبہ درود پڑھا ۔ اس مہر سے عقد اور نکاح ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود و سلام کے نتیجے میں اس عقد سے ہم سارے پیدا ہوئے ۔ یہ ساری کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے مہر کی اولاد ہے ۔ سب نبی ولی سب انسان اولاد ہیں اس نکاح کی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام سے منعقد ہوا ۔ اگر ہم اولاد ہی درود و سلام والے نکاح کی ہوں تو اس درود و سلام سے دوری ہمیں زیب نہیں دیتی ۔ یہ آدم علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق ہے ۔ سمجھانا مقصود یہ ہے جن کے توسل سے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہو ۔ ان کی پیدائش کا دن افضل الایام اور یوم العید ہو جائے اور جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت ہو ۔ اس دن کی عظمت اور افضلیت کا عالم کیا ہو گا ۔ اس لیے کل جمعوں اور کل افضل دنوں کی فضیلتیں یومِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی فضیلت پر قربان ہو جاتی ہیں ۔ آپ اس میلاد پاک کی خوشیاں منارہے ہیں ۔ اس میلاد کے جشن منارہے ہیں ۔ جمعہ چونکہ پیدائش آدم علیہ السلام کا دن ہے ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاکثروا عليه من الصلوة فی ۔ (القول البديع جلد 1 صفحہ 158، 159،چشتی)
ترجمہ : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود و سلام پڑھا کرو ۔

پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کی ہے اور درود و سلام مجھ پر کثرت سے پڑھا کرو ۔ اس لیے جب مجھ پر کثرت سے درود و سلام پڑھو گے ۔ اس سے میرا سینہ ٹھنڈا ہوگا بلکہ یہ ٹھنڈک آدم علیہ السلام تک جائے گی ۔ جن کا نکاح درود و سلام سے منعقد ہوا ۔ گویا کل نبیوں کے سینے ٹھنڈے ہو جائیں گے ۔ اب جمعہ کی الگ سے کوئی فضیلت نہ تھی ۔ اس کی فضیلت حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی نسبت سے بنی باقی فضیلتیں اس نسبت سے بعد میں ایڈ ہوئیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے اس دن کو اللہ پاک جشن منوا رہا ہے ۔ اس دن منبر سجادیے جاتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جمعہ کا دن ہو تو نہایا کرو ۔ یہ آدم علیہ السلام کے میلاد کا دن ہے ۔ جس کے پاس خوشبو ہے وہ خوشبو لگایا کرے اور سج دھج کے مسجدوں میں اس طرح آیا کرو ۔ پھر مسجد میں اجتماع ہو، منبر پر کھڑے ہو کر خطبے ہوں ۔ سب کاروبار ، معاش اور روزگار بند کردیے جائیں ساری کائنات میں اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر کی ولادت کا اہتمام کروایا ہے ۔ اس دن کے بارے میں فرمایا کہ اس دن بطور خاص جو مجھ پر درود و سلام پڑھتا ہے ۔ اس کا درود و سلام براہِ راست مجھ تک پہنچتا ہے ۔

یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ پھر درود و سلام پہنچانے کےلیے فرشتہ کیوں مقرر کر رکھا ہے ؟ وہ فرشتہ اس لیے مقرر نہیں کر رکھا کہ حضور تک پہنچتا نہیں ہے اور صرف اسی کے ذریعے پہنچ سکتا ہے نہیں بلکہ پہنچتا تو یہ براہِ راست ہے مگر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ادب ہے کہ کوئی ادب کے ساتھ پیش کرے ۔ یہ اسی طرح مقرر کر رکھا ہے ۔ جس طرح رب تعالیٰ نے اپنے لیے دو فرشتے مقرر کر رکھے ہیں ۔ جیسے آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ براہِ راست دیکھتا ہے مگر براہِ راست دیکھنے کے باوجود دو فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو نامہ اعمال اللہ تعالیٰ کو پہنچاتے ہیں اور پیش کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارگاہ جب بڑی ہوتی ہے تو اس کے آداب دربار یہ ہوتے ہیں کہ ہرکارے پیش کرتے ہیں ۔

اسی طرح ساری کائنات کے درود و سلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود سنتے ہیں ۔ مگر ادبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے خدام پیش کریں ۔ اللہ نے جو قانون اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے بنا رکھا ہے ۔ وہی قانون اپنے لیے بنا رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو بھی نامہ اعمال فرشتے پیش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو پیش کرنے کےلیے دو فرشتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو پیش کرنے کےلیے ایک ہے ۔ اب کیا کہیں گے اگر وہ دو فرشتوں کے پہنچانے کے باوجود وہ دیکھتا ہے تو اسی طرح ایک کے فرشتے کے پہنچانے کے باوجود مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سنتے ہیں ۔ ان فرشتوں کے مقرر کرنے کا مطلب سننے نہ سننے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق آدابِ بارگاہ سے ہے کہ کوئی ادب سے پیش کرے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : وما من احد يسلم علی الا رد الله علی روحي حتی ارد عليه السلام ۔ (سنن ابو داؤد جلد 2 صفحہ 175 حدیث 2041،چشتی)

مشرق سے مغرب تک اس کائنات میں کوئی شخص ایسا نہیں جو مجھ پر سلام پڑھے اور میں اس کا جواب نہ دوں ۔ فرمایا : جو شخص مجھ پر سلام پڑھتا ہے ۔ (الا رد اللہ علی روحی) اللہ نے میری روح مجھ میں واپس لوٹادی ہوئی ہے (حتی ارد علیہ السلام) حتی کہ میں اس کے سلام کا خود جواب دیتا ہوں ۔ حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر ایک کے سلام کا جواب دیتے ہیں ۔ اب کوئی سن لیتے ہیں کوئی نہیں سنتے ہیں ۔

حضرت عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں 17 مرتبہ حاضر ہوئے اور آخری بار جب سلام عرض کرکے پلٹے تو اندر سے آواز آتی تھی خوش روی جامی باز آید خوش رہنا اور اگلی بار پھر آنا ۔ جب سترھویں بار حاضری دی سلام عرض کیا : جواب آیا جامی خوش رہنا حضرت جامی رو پڑے ۔ خدام نے عرض کیا : حضرت رو کیوں رہے ہیں ، کہنے لگے : یہ میری آخری حاضری تھی کیونکہ جب میں نے اگلی بار آنا ہوتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے تھے کہ پھر آنا اب صرف خوش رہنا کی دعا کی ہے ۔ پلٹ کے آنا نہیں فرمایا پھر حضرت جامی گئے اور بعد میں وفات پا گئے ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو آج بھی ہیں اور قیامت تک ہوں گے کہ وہ نماز میں تشہد کے وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں سلام عرض کرتے اور کہتے ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ تو اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم ! سلام عرض کر کے اس وقت تک اگلا کلمہ نہیں پڑھتے تھے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ سے جواب نہیں آتا تھا ۔ یہ تو تعلق کی بات ہے ۔ اگر ہم نہ سن سکیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جواب نہیں دیا ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم السلام کے میلاد کا ذکر کیا ۔ میلاد کہتے ہیں ولادت کو اور جس دن نبی کی ولادت ہوئی وہ یوم میلاد ہے ۔ سورہ مریم کو پڑھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کےلیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ۔ (سورہ مريم ، 19: 15)
ترجمہ : اور یحییٰ پر سلام ہو ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ۔

مذکورہ آیت کریمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہالسلام کی ساری زندگی میں سے تین خاص دنوں کو سلامتی کےلیے چن لیا ۔ کیا ان تین دنوں کے علاوہ اللہ رب العزت اپنے نبی کی زندگی میں سلامتی نہیں بھیجتا ۔ وہ تو ہر روز بھیجتا ہے پھر جب پیغمبر کی زندگی کے ہر دن وہ سلامتی ، رحمت اور اپنی برکت بھیجتا ہے ۔ تو پھر ان تین دنوں کے انتخاب کا کیا مطلب ہوا ۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ رب العزت نے اعلان کر دیا ہے ۔ یوں تو پیغمبر کی زندگی کا ہر دن میری سلامتی کا دن ہے ۔ مگر ان سب دنوں میں خصوصیت کا دن ہے جس دن میرے پیغمبر کا میلاد ہوا ۔

اگر بعض لوگوں کے ذہن میں خیال آئے ۔ ولادت کا دن آپ کیوں مناتے ہیں ؟ کیونکہ Birthday تو انگریزوں نے بنا رکھا ہے ۔ لہٰذا اس کی کوئی اہمیت اسلام میں نہیں ہے ۔ اگر کسی کے ذہن میں نادانی اور کم علمی کے باعث یہ خیال آئے تو اسے دور کرلینا چاہیے کیونکہ پیدائش کے دن کی اہمیت تو اللہ عزوجل نے مقرر کی ہے ۔ جیسے مذکورہ آیت میں فرمایا گیا : سلام علیہ یوم ولد ‘‘ سلام ہوا میرا اس دن جس دن (یحییٰ علیہ السلام) کا میلاد ہوا ۔

پھر کوئی یہ کہے کہ چلو میلاد تو ثابت ہوا پھر آپ وفات کا دن بھی مناتے ہو ؟ اس کا بھی جواب یہ ہے کہ ہم کیا کریں اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت بھی قرآن میں مقرر کردی ہے ۔ جیسے فرمایا : ’’یوم یموت‘‘ (اور اس دن بھی سلام ہو جس دن ان کی وفات ہوئی) ۔ گویا اللہ والوں کےلیے دو دن خاص ہو گئے ۔ ایک میلاد کا دن ایک وفات کا دن ۔ اب اسی سورہ مریم میں آگے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کلام ہیں ۔ آپ خود باری تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں : وَالسَّلٰمُ عَلَيَ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا ۔ (سورہ مريم ، 19: 33)
ترجمہ : اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن ، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا ۔

فرمایا : سلام ہو مجھ پر جس دن میرا میلاد ہوا ۔ اللہ نے فرمایا سلام ہو یحییٰ پر جس دن اس کا میلاد ہوا ۔ گویا پیغمبر کے میلاد کے دن سلام پڑھنا ، اللہ عزوجل کی سنت ہو گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ خود سلام بھیج رہا ہے ۔ (سلام علیہ یوم ولد) اور پھر اگلی آیت میں پیغمبر کے یوم میلاد پر سلام پڑھنا پیغمبر کی اپنی سنت بھی ہوئی کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بارے میں فرمایا : السلام علی یوم ولدت سلام ہو مجھ پر جس دن میرا میلاد ہوا ۔ گویا میلاد کے دن نبیوں پر سلام پڑھنا خدا کی بھی سنت ہے ۔ انبیاء کی بھی سنت ہے ۔ جب دوسرے نبیوں کی بات تھی تو ان کے میلاد اور ولادت کا ذکر اللہ رب العزت نے صرف سلام سے کیا اور جب میلاد کے دن کی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بات آئی تو فرمایا : ان کی ولادت کے دن الصلوۃ والسلام پڑھتا ہوں۔ اپنے محبوب کی زندگی کا ہر دن یوم ولادت بنادیا ۔ یہ فرما کر کہ : اِنَّ ﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ۔ (سورہ الاحزاب ، 33: 56)
ترجمہ : بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔

کیونکہ محبوب کا ہر دن یومِ میلاد ہے ۔ باری تعالیٰ نے دیگر انبیاء پر ان کی ولادت کے دن سلام پڑھا تھا جبکہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ولادت کے دن کی قسم اٹھاتا ہے ۔ فرمایا : لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۔ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِ ۔ وَوَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۔ (سورہ البلد ، 90: 1-3)
ترجمہ : میں اس شہر (مکہ) کی قَسم اٹھاتا ہوں ۔ اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں ۔ (اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی ۔

میلاد کے سلسلے میں یہ تیسری آیت جس میں فرمایا : میں اس شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں ۔ باری تعالیٰ کیوں ؟ اس لیے کہ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِہٰذَا الْبَلَدِ ۔ اے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شہر مکہ کی قسم اس لیے اٹھاتا ہوں کہ آپ کی جائے سکونت ہے ۔ اس لیے تو قسم اٹھاتا ہوں ۔ دوسرا فرمایا : ما ولد ، کہ تیرا شہر سکونت ہی نہیں یہ تیرا شہر ولادت بھی ہے ۔ لہٰذا اس مکہ شہر کی قسم اٹھاتا ہوں ۔ دو نسبتوں سے تیرا شہر سکونت ہے اور تیرا شہر ولادت ہے ۔ شہر سکونت کی قسم اٹھا کر اگلی آیت میں اپنے حبیب کے نسب کی بھی قسم اٹھائی گئی اور فرمایا کہ دیگر انبیاء کی قسم اٹھائی جو اپنی کی ذات تک محدود تھی مگر اے حبیب قسم ہے ہر اس ولد کی جو آدم علیہ السلام سے اسماعیل تک تیرے آباٶ اجداد کی نسل میں آیا ۔ جس جس کی پشت میں تیرا نور منتقل ہوتا چلا گیا اور تیرے آباٶ اجداد میں جس جس کو بھی تیرے ساتھ نسبت اور ولدیت عطا ہوئی ۔ محبوب تیرے ساتھ اس نسبت رکھنے پر تیرے ہر والد کی قسم ۔ کسی نے کہا ولد سے مراد حضرت ابراہیم ہیں ۔ فقیر نے کہا کوئی اعتراض نہیں کسی نے کہا اس سے مراد حضرت آدم ہیں فقیر نے کہا اس میں کوئی اعتراض نہیں ۔ کوئی کہتا ہے اس سے مراد حضرت اسماعیل ہیں ۔ فقیر چشتی کہتا ہے اس میں بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ کوئی کہتا ہے حضرت عبداللہ ہیں فقیر کہتا ہے اس میں بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو تنوین کے ساتھ فرمایا وولد یہ تنوین دو فائدے دے رہی ہے ۔ تکریم کا بھی اور عموم بھی کہ محبوب تیرے آباٶ اجداد کا ہر فرد لائق تعظیم ہے ۔ یہ تنوین دوسرا فائدہ عموم کا دے رہی ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حضرت آدم علیہ السلام تک سب کی قسم ! یعنی میرے محبوب کے والد کی قسم ۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ وہ والد کسی اور کا نہیں وہ والد تو میرے محبوب کا ہی ہے ۔ خواہ حقیقی والد کرلیں خواہ دادا کرلیں خواہ پردادا کرلیں خواہ شکر دادا کرلیں 40 پشت اوپر کرلیں یا 70 پشت اوپر کرلیں پھر بھی کسی اور کے والد کی قسم نہیں ، قسم ہے تو والدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے ۔ کوئی اگر یہ کہے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کا کہاں ذکر ہے ؟ تو فقیر کہتا ہے کہ اچھا چلو آپ بتادیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کی نہیں تو کس کے والد کی قسم اٹھائی جارہی ہے ۔ کیا اللہ تعالیٰ عام لوگوں کے والدوں کی قسم اٹھاتا پھرتا ہے ۔ وہ تو اپنے مکہ شہر کی بھی اپنے کعبہ کی وجہ سے قسم نہیں اٹھاتا ۔ اس نے کہا کہ میں شہر مکہ کی قسم اس لیے نہیں اٹھائی کہ میرا گھر ہے بلکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی وجہ سے اٹھائی ہے ۔ فرمایا : حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مکہ شہر میں دو گھر ہیں ۔ حرم آٶ تو میرا گھر ہے اور سارا جہاں میرے گھر کے طواف کےلیے آتا ہے ۔ جبکہ صحنِ کعبہ سے نکل کر سوقُ الیل میں آمنہ رضی اللہ عنہا کی گلی میں چلے جاٶ وہاں تیرا گھر ہے ۔ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نے مکہ کی قسم اٹھائی ہے ۔ گھر میرا بھی یہیں تھا مگر اپنے گھر کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’وانت حل بھذا البلد‘‘ بلکہ اس لیے کہ تیرا گھر اس شہر میں ہے ۔ اب وہ شہر کی قسم تو اٹھا رہا ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی وجہ سے تو یہاں کس کے والد کی قسم اٹھا رہا ہے ۔ اب (نعوذ باللہ) اللہ کا اپنا والد تو ہے نہیں کیونکہ لم یلد ولم یولد ۔ (الاخلاص، 112: 3) ’’نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ نہ اس کا والد ہے نہ اس کی اولاد ہے ۔ نہ باپ نہ بیٹا لہٰذا اگر کوئی انکار کرے کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد نہیں ہیں تو پھر اس سے پوچھ لو کہ کس کے والد کی قسم ہے کیونکہ اگر قسم ہوتی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی تو سیدھا نام لے لیا جاتا کہ قسم ہے اسماعیل کی یا قسم ہے ابراہیم کی یا قسم ہے موسیٰ کی یا قسم ہے آدم کی ۔ اگر ان کی قسم ان کی وجہ سے ہوتی تو ان کا نام لیتے ان کا والد کیوں کہا جاتا اور والد کوئی ہوتا کیونکر ہے جس کا کوئی بیٹا ہی نہ ہو ۔ کوئی اس کو والد کہتا ہے ؟ والد کون بناتا ہے ۔ جیسے ماں باپ کی طرف سے بیٹا بنا۔ بیوی کی نسبت سے شوہر بنا ۔ بہنوں کی نسبت سے بھائی بنا ۔ پھوپھی کی وجہ سے بھتیجا کہلایا ۔ خالہ کی نسبت سے بھانجا کہلایا۔ اسی طرح باپ بیٹے کی وجہ سے کہلایا ۔ بیٹا ہوا تو والد ہوا ۔ ولد ہو تو والد ہوتا ہے لہذا کسی نبی کا نام لے کر نہیں فرمایا بلکہ فرمایا : ’’ووالد‘‘ اور قسم ہے کسی والد کی ۔

اب ہمیں تو عمر بھر والدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور نظر نہ آیا خواہ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ والد تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں اور اس میں ایک اشارہ بھی ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کر لیا ۔ جوں جوں دیواریں اونچی ہونے لگیں تو ایک پتھر اٹھا کر لے آئے اور اس پتھر پر کھڑے ہو گئے تو ساتھ ساتھ پتھر بھی اونچا ہوتا چلا گیا ۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام ساتھ ساتھ تعمیر کا سامان مہیا کرتے رہے جب کعبہ تعمیر ہو گیا تو جس پتھر پر کھڑے تھے وہاں آپ کے دونوں قدم اس کے سینے پر ثبت ہوگئے اور نقش ہو گئے ۔ اب اسی پتھر پر کھڑے تھے کعبہ کی تعمیر مکمل کرلی تھی تو بارگاہ الہٰی سے عرض کیا : رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ۔ (سورہ البقرة، 2: 127)
ترجمہ : کہ اے ہمارے رب ! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔

وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰهيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ ۔ (سورہ البقرة، 2: 127)
ترجمہ : اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) ۔

ہم نے دیواریں کھڑی کرلی ہیں لہٰذا ہماری محنت اور مزدوری قبول فرما ۔ اور تجھ سے اور کچھ نہیں مانگتے بس ایک ہی اجرت مانگتے ہیں اور اس مزدوری میں وہ عطا کر دے ۔ پتھر پر کھڑے دعا کر رہے ہیں ۔ فرمایا : ابراہیم کیا مانگتے ہو ۔ عرض کی : رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّيَتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَکَ ۔ (البقرة، 2: 128)
ترجمہ : اے ہمارے رب ! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا ۔

باری تعالیٰ جو امت مسلمہ آنی ہے وہ ہماری نسل سے پیدا کر ۔ باری تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ اصل چاہتے کیا ہو ؟ پھر عرض کی : رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِکَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَيُزَکِّيْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ ۔ (البقرة، 2: 129)
ترجمہ : اے ہمارے رب ! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی باری تعالیٰ تو اس کعبہ کی تعمیر پر کوئی اجرت یا مزدوری اگر دینا چاہتا ہے تو یہ مزدوری دے دے کہ مجھے اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا باپ بنادے اور میری نسل اور ذریت سے اس نبی آخرالزماں کو پیدا کر دے ۔ لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد ہونا اجرت میں مانگا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد کر دے ۔ (فقیر کو تو یہ لگتا ہے اور یہ بات کسی کی سمجھ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو ۔ کسی نے ان دو نکتوں کو جوڑ کر لکھا ہو یا نہ لکھا ہو ۔ مگر فقیر چشتی کے فہم و ادراک اور معرفت میں یہی نقش ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ باری تعالیٰ تیرے کعبے کی مزدوری کی اگر کوئی اجرت بنتی ہے تو یہ دے دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد کر دے اور میری نسل میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کر دے ۔ اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگئے ۔ جب پیدا ہو گئے تو یہ اس دعا کا جواب ہے کہ ’’ووالد و ما ولد‘‘ قسم ہے اس والد کی جو دعا مانگ کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد بنا جو میرا کعبہ تعمیر کرکے اس تعمیر کعبہ پر اجرت مانگ کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد بنا تھا ۔ لہذا والد کی قسم ولد کی وجہ سے ہی ہے ولد کہتے ہیں جس کا میلاد ہوا ۔ فرمایا اس والد کی قسم جس نے مزدوری میں والد ہونا مانگا اور اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم جس کا میلاد ہوا اور اس نے ابراہیم علیہ السلام کو والد بنا دیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے والد کی قسم اٹھائی گئی ۔ آپ نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلادِ پاک کا تذکرہ اللہ رب العزت نے کتنے حُسِین پیرائے میں کیا ۔

خالصتاً دینی چیز ہے ۔ یہ کیا ڈھکوسلا ہے ؟ دینی اور غیر دینی ؟ جب قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنی ہوتی ہیں تو پمفلٹ پر لکھتے ہو ۔ میرا سب کچھ اللہ کےلیے ہے ۔ میرا جینا ، میرا مرنا ، سونا جاگنا سب کچھ اللہ کےلیے ہے ۔ اور جب مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے تو دینی اور غیر دینی الگ الگ کر دیتے ہو ۔قُلْ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللّٰہ کےلیے ہے جو رب سارے جہان کا ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوۡا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو  بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

مسلمان کا ہر عمل دین میں داخل ہے ۔

غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ آپ نے کسی کافر کو فرمایا کہ مسلمان کو اس کے ہر عمل پر ثواب ملتا ہے ۔ چاہے استنجاء کرے ، چاہے بیوی سے صحبت کرے ۔ اچھی نیت کے ساتھ اور سنّت پر عمل کرنے کےلیے کرے گا تو اس پر ثواب دیا جائے گا ۔ اور بروز قیامت مسلمان اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہے ۔ پاکستان کاجشن آزادی منانا کیا کوئی عمل نہيں ؟ اگر کوئی عمل نہیں تو لہوولعب میں شمار ہوگا ۔ اگر عمل ہے پھر یا اچھا ہوگا یا برا ۔اگر برا ہے تو سزا دیا جائے گا اور اگر اچھا ہے تو جزا دیا جائے گا ۔ یہ اچھا عمل دین میں داخل نہیں ؟ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے کا عمل دین میں داخل نہیں ؟ تو اگر کوئی فوجی ملک پاکستان کےلیے سرحد پر اپنی جان قربان کرتا ہے تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا ؟ تمہارے نزدیک ثواب اسی خود کُش بمبار کو ملے گا جو جشنِ میلاد کے جلوس میں بمب باندھ کر خود کو اڑا لے ؟ اور پچاس ساٹھ مسلمانوں کو شہید کر دے ۔ اور اسے ملے گا جو محرم کے جلوس میں بمب باندھ کر اپنے آپ کو اڑا لیتا ہے ؟ اور وہ تمہارے عقیدے کا ہے اس لیے اس کےلیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ حوریں خدمت کےلیے آجاتی ہیں ۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کےلیے ہر وہ کام سر انجام دینا شرعی طور پر جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کےلیے درست اور رائج الوقت ہو ۔ میلاد کی روح پرور تقریبات کے سلسلے میں انتظام وانصرام کرنا ، درود وسلام سے مہکی فضاؤں میں جلوس نکالنا ، محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا ، نعت یا خطاب و بیان کی صورت میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس بیان کرنا اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے کرنا سب قابل تحسین ، قابل قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں ۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی ، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...