امام اہلسُنت کُون ۔؟ (امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)
یوں تُو سیدنا اِمام احمد رضا (رِحمتہ اللہ علیہ) کی ذاتِ مُبارکہ مجھے جیسے کِسی راہِ علم کے طالب کے الفاظوں کی مُحتاج نہیں ہے لیکن میں اپنے پڑھنے والوں کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرانا چاہتا ہُوں۔ جیسا کہ پچھلی دُو اقساط میں آپ نے مُلاحظہ کیا ہُوگا کہ تمام عرب وحجاز شریف کے عُلما کس نیاز مندی کے ساتھ آپکا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ آپ نے دوسری قسط میں یہ بھی مُلاحظہ کیا۔ کہ نہ صرف اہلسنت کے وہ لوگ جو آپکی ذات مبارک کو اہلسنت کاسرمایہ سمجھتے ہیں اُن میں صرف محبین و مقدمین ہی شامل نہیں ہیں۔ بلکہ آپکی توصیف و ثنا میں وہ لوگ بھی شامل نظر آئے۔ جنکے علمی تعاقب میں سیدنا اِمام احمد رضا (رحمتہ اللہ علیہ) نے بے شُمار کُتب بھی تحریر فرمائی۔
سیدنا اِمام احمد رضا (رحمتہ اللہ علیہ) جیسی عِلمی شخصیات سینکڑوں برس میں پیدا ہُوا کرتی ہیں۔ آپ نے حیات مُبارکہ میں کم و بیش ایک ہزار کُتب تحریر فرمائیں۔ جبکہ آپ کی کُتب نے صرف ایک قسم کے علمی موضوع کا اِحاطہ ہی نہیں فرمایا۔ بلکہ آپکی نظر تمام دُنیاوی علوم پر تھی۔ اسلئے عُلما تُو علما دنیاوی عُلوم کے ماہرین بھی آپکے آستانہ مبارک پر اپنی جبین نیاز جُھکانے کو سعادت سمجھتے تھے۔ اور شائد یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں آپکو شائد ہی کوئی ایسی مذہبی شخصیت نظر آئے جسکی عظمت کو سلام پیش کرنے کیلئے اسقدر افراد نے ( پی ایچ ڈی) کی ہُو۔ کہ جسقدر ڈاکٹر حضرات نے سیدنا اِمام احمد رضا (رحمتہ اللہ علیہ) کی ذات مبارک کے بے شُمار پہلوؤں پر مقالہ جات کے عظیم کوہِ ہمالیہ کی مانند مقالہ جات کے انبار لگائے ہیں ۔اور آپ کی ذات مُبارکہ پر لکھا گیا۔ اور ابھی تک لکھا جارہا ہے۔ اور اب بھی بے شُمار لوگ آپ کی ذاتِ کریمانہ پر (پی ایچ ڈی )کررہے ہیں۔
بہرحال قصہ مُختصر ہم اپنے موضوع کو آگے بڑھاتے ہُوئے وہیں سے جُوڑتے ہیں۔ کہ جہاں سے اِسے مُنقطع کیا تھا۔
جماعت اسلامی کے بانی ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں : مولانا احمد رضا خان صاحب کے علم و فضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی نظر رکھتے تھے۔ اور ان کی فضیلت ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ نزاعی مباحث کی وجہ سے جو تلخیاں پیدا ہوئیں وہی دراصل ان کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر پردہ ڈالنے کی موجب ہوئیں۔(ہفت روزہ شہاب 25 نومبر 1962ء)
جسٹس ملک غلام علی۔مودودی جماعت کے ذمہ دار فرد اور خود مودودی صاحب کے مشیر جسٹس ملک غلام علی لکھتے ہیں:۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کی بعض تصانیف اور فتاوٰی کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی وہ بہت کم علماء میں پائی جاتی ہے اور عشق خدا اور رسولﷺ تو ان کی سطر سطر سے پھوٹا پڑتا ہے۔(ارمغان حرم لکھنؤ صفحہ14)
خیل العلماء مولانا خلیل اشرف صاحب نے یہی عبارت ابوالاعلیٰ مودودی کےقول میں لکھی ہے۔(ہفت روزہ شہاب 25 نومبر 1962ء)
وہابی مسلک کے ترجمان المنبر لائل پورلکھتا ہے :۔
مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کے ترجمہ (قرآن، کنزالایمان)کو اعلٰی مقام حاصل ہے۔(المنبرلائل پور 6 صفرالمظفر 1386ھ بحوالہ رضائے مصطفٰے فروری 1976ء )
ثناء اللہ امرتسری وہابیہ کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم مجدد ماتہء حاضرہ۔(فتاوٰی ثنائیہ؍ ج1 صفحہ 64۔ 263 طبع لاہور)
مسلکِ وہابیہ کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری مزید لکھتے ہیں : امرتسر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اَسِّی80 سال پہلے قریباً سب مسلمان اسی خیال کے تھے(یعنی جنکی ترجمانی مسلک اِمام احمد رضا کے عُلما کرتے ہیں)۔ جن کو آج کل بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے۔
(شمع توحید صفحہ53 لاہور صفحہ 40 طبع امرتسر و سرگودھا)
نوٹ:۔ اب بعد کے ایڈیشنوں سے مذکورہ عبارت نکال دی گئی ہے۔ دیکھئے
مکتبہ قدوسیہ لاہور اور اہلحدیث ٹرسٹ کراچی کی شائع کردہ شمع توحید۔
احسان الٰہی ظہیر مسلک وہابیہ کے علامہ احسان الٰہی ظہیر کی مسلک بریلوی سے دُشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اُنہوں نے باقاعدہ اِس دُشمنی کے اظہار کیلئے کُتب بھی تحریر کیں جس میں سے ایک کتاب البریلویت بھی لکھی ہے جس میں اُنہوں نے حقیقیت کو اگرچہ خُوب تُوڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ مگر اس میں بھی وہ لکھنے پر مجبور ہے کہ : انما جدیدۃ من حیث النشاء ۃ والاسم، ومن فرق شبہ القارۃ من حیث التکوین والمیۃ ولکنھا قدیمۃ من حیث الافکار والعقائد۔ (البریلویۃ صفحہ 7)
ترجمہ:۔ یہ جماعت (بریلوی) اپنی پیدائش اور نام دار اور برصغیر کے فرقوں میں سے اپنی شکل و شباہت کے لحاظ سے اگرچہ نئی ہے لکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔
معلوم ہوا کہ مولانا احمد رضا بریلوی کسی مذہب کے بانی نہیں اور بریلویت نہ ہی کوئی نیا مذہب ہے نہ ہی کوئی نیا فرقہ۔
نوٹ:۔ اِس کتاب مذکورہ کا مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری صاحب نے تحقیقی و تنقیدی جائزہ لکھا ہے۔
منظور الحق (جماعتِ اسلامی) جماعت اسلامی کے مشہور صحافی منظور الحق لکھتے ہیں:۔جب ہم امام موصوف (فاضل بریلوی)کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنی علمی فضیلت اور عبقریت کی وجہ سے دوسرے علماء پر اکیلا ہی بھاری ہے۔(ماہنامہ حجاز جدید نئی دہلی جنوری 1989ء)
حافظ بشیر احمد غازی آبادی لکھتے ہیں:ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ حضرت فاضل بریلوی نے نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں شریعت کی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا، یہ سراسر غلط فہمی ہے جس کا حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں ہم اس غلط فہمی کی صحت کے لئے آپ کی ایک نعت نقل کرتے ہیں، فرماتے ہیں۔
سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے
باغ خلیل کا گل زیبا کہوں تجھے
بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر کی کیسی فصیح و بلیغ تائید ہے جتنی بار پڑھئیے کہ خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے دل ایمانی کیفیت سے سرشار ہوتا چلا جائے گا۔
(ماہنامہ عرفات لاہور، اپریل 1970ء صفحہ 31۔ 30)
مُولوی عبدالقدوس ہاشمی دیوبندی سید الطاف علی کی روایت کے مطابق مولوی عبدالقدوس ہاشمی دیوبندی نے کہا کہ قرآن پاک کا سب سے بہتر ترجمہ مولانا احمد رضا خان کا ہے جو لفظ انہوں نے ایک جگہ رکھ دیا ہے اس سے بہتر لفظ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔(خیابان رضا صفحہ 121، طبع لاہور)
مفتی انتظام اللہ شہابی لکھتے ہیں : حضرت مولانا احمد رضا خان مرحوم اس عہد کے چوٹی کے عالم تھے۔ جزئیات فقہ میں ید طولٰی حاصل تھا۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ کلام مجید (کنزالایمان) اور فتاوٰی رضویہ وغیرہ کا مطالعہ کر چکا ہوں، مولانا کا نعتیہ کلام پُر اثر ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر سراج الحق( پی ایچ ڈی )تو مولانا کے کلام کے گرویدہ تھے اور مولانا کو عاشق رسول سے خطاب کرتے ہیں۔ مولانا کو دینی معلومات پر گہری نظر تھی۔(مقالات یوم رضا ج2 صفحہ 70 طبع لاہور)
مُولانا عامر عثمانی دیوبندی ماہنامہ تجلی دیوبند کے ایڈیٹر عامر عثمانی لکھتے ہیں :۔
مولانا احمد رضا خان اپنے دور کے بڑے عالم دین اور مدبر تھے۔ گو انہوں نے کُچھ علمائے دیوبند کی تکفیر کی مگر اس کے باوجود بھی ان کی علمیت اور تدبر و افادیت بہت بڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بات ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے وہ بہت ہی کم لوگوں میں ہے کیونکہ ان کی تحریریں علمی و فکری صلاحیتوں سے معمور نظر آتی ہیں۔
(ماہنامہ ہادی دیوبند صفحہ 17 محرم الحرام 1360ھ)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مشہور دیوبندی مناظر اسلام مولوی منظور نعمانی کہتے ہیں:میں ان کی کتابیں دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ بے علم نہیں تھے۔ بڑے ذی علم تھے۔
(بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 16 طبع لاہور)
مفتی عبدالرحمٰن آف جامعہ اشرفیہ لاہور لکھتے ہیں، تمام اہل سنت و الجماعت خواہ دیوبندی ہو خواہ بریلوی قرآن و سنت کے علاوہ فقہ حنفی میں بھی شریک ہیں۔۔۔۔۔۔۔ دیوبندی بریلوی کے پیچھے نماز پڑھ لے کیونکہ دونوں حنفی ہیں۔ (روزنامہ جنگ لاہور 28 اپریل 1990ء )
یہی مولوی عبدالرحمٰن اشرفی مہتمم اشرفیہ لاہور روزنامہ پاکستان کے سنڈے ایڈیشن میں انٹریو دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ بریلوی حضرات سے مجھے بڑی محبت ہے۔ اس لئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہیں۔ چنانچہ بریلوی عشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مجھے پیارے لگتے ہیں۔
(روزنامہ پاکستان سنڈے ایڈیشن ہفت روزہ زندگی یکم تا 7 اگست 2004ء )
(بحوالہ رضائے مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم رجب المرجب 1425ھ بمطابق ستمبر 2004ء )
اب ہم اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا قادیانیت کے لئے شمشیر بے نیام ہونا علمائے دیوبند سے ثبوت نقل کرتے ہیں ملاحظہ کیجئے۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت : مسلکِ دیوبند کی تنظیم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت جوکہ دیوبندی حضرات کی محبوب تنظیم ہے۔ اُس وقت ان کے امیر مولوی خان محمد آف کندیاں ہیں ان کی طرف سے ایک رسالہ شائع ہوا، اس میں صاف لکھا ہوا ہے : نبی آخرالزماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکہ زنی ہوتے دیکھ کر مولانا احمد بریلوی تڑپ اٹھے اور مسلمانوں کو مرزائی نبوت کے زہر سے بچانے کے لئے انگریز کے ظلم و بربریت کے دور میں علم حق بلند کرتے ہوئے اور شمع جراء ت جلاتے ہوئے مندرجہ ذیل فتوٰی دیا جس کا حرف حرف قادیانیت کے سومنات کے لئے گرز محمود غزنوی ہے۔ قادیانیوں کے کفریہ عقائد کی بناء پر اعلٰی حضرت احمد رضا خان بریلوی نے مرزائی اور مرزائی نوازوں کے بارے میں فتوٰی دیا قادیانی مرتد منافق ہیں مرتد منافق وہ کہ لب پر کلمہ اسلام پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا، اور اللہ عزوجل یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یا کسی نبی کی توہین یا ضروریات دین میں کسی شے کا منکر ہے۔ اس کا ذبیح محض نجس اور مردار حرام قطعی ہے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے سبب قادیانی کو مظلوم سمجھنے اور میل جول چھوڑنے کو ظلم اور ناحق سمجھنے والا اسلام سے خارج ہے اور جو کافر کو کافر نہ کہے وہ کافر۔(احکام شریعت 112۔ 122، 177) ۔ محترم قارئین : باپ بیٹے کی تعریف کرے یابیٹاباپ کی ،دوست دوست کی اس میں تعریف ضرور ہے لیکن کوئی کمال درجہ کی بات نہیں ۔لیکن اک لمحہ کے لیے سوچیے گا کہ ایک شخص جو مجھ سے یا آپ اپنے پر قیاس کرلیجیے آپ سے بعض و عناد رکھتا ہو،ببانگ دہل مخالفت بھی کرتاہوں ۔بلکہ لکھ اور بول کر تردید و تحقیر کے پہاڑکھڑے کرتا ہو۔ایسے میں اللہ تعالیٰ کی اُسے عطاکردہ بے بہا صلاحیتوں کی جولانیاں اسکی تعریف و مدحت پر ہمیں مجبور کردیں تو مان لیں کہ آپ کا مد مقابل انتہا کا باکمال،صاحب علم و دانش اور وَ رُشد و ہدایت کا منبع ہیں ۔میں اگر اپنے الفاظ میں امام اہلسنّت کی مداح سرائی کرتا تو عین ممکن ہے کہ آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات آسکتی تھی کہ اپنے مولوی کی تعریف کررہاہے ۔میں نے قلمی دیانت جانتے ہوئے تمام تر تاریخِ جہات آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ اب فیصلہ آپ کی عدالت میں ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment