ان پیروں کے ذریعے مریدوں کی جس طرح تربیت ہو رہی ہے وہ بھی انتہائی اذیت ناک ہے، چند ایک تربیتی مناظر ملاحظہ ہوں :
پیر صاحب جونہی اپنے دولت خانہ کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں تو دروازے پر نظریں گاڑے مریدین پر گویا نزع کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ہاؤ ہو کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، کوئی شوں شوں کی آواز نکالتا ہے کوئی تالیاں بجاتا ہے، کوئی درود و سلام پڑھتا ہے، کوئی نعرے لگاتا ہے کوئی جوتے اتارتا ہے۔ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ کرتا ہے۔ اب ملاقات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، پیر صاحب مریدوں کے جراثیم سے بچنے کے لئے ہاتھوں پہ دستانے چڑھا لیتے ہیں، کوئی مرید قدموں میں گرا ہوا ہے، کسی نے گھٹنے تھام رکھے ہیں، کوئی کندھوں کو بوسے دے رہا ہے، کوئی پشت سے چمٹا ہوا ہے، کوئی ہاتھ چومنے کے چکر میں ہے۔ غرضیکہ ایک ہنگامہ بپا ہے اور دھکم پیل ہو رہی ہے۔ (حالانکہ ایک مسلمان کو نماز کے لئے بھی دھکم پیل اور بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں ہے) جبکہ پیر صاحب نے بڑی شان بے نیازی سے ہاتھ آگے کیا ہوا ہے کسی کو ایک ہاتھ ملاتے ہیں تو کسی کے لئے سر ہلاتے ہیں، کسی کو ایک انگلی تھماتے ہیں تو کسی کو دو انگلیاں۔ پیر صاحب کی آمد و رفت پر بار بار کی اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ ہاتھ جوڑ جوڑ کر بات کی جاتی ہے جان کی امان طلب کی جاتی ہے۔ کوئی حالت قیام میں ہے تو کوئی حالت رکوع میں، کوئی سجدہ کر رہا ہے تو کوئی التحیات میں بیٹھا ہوا ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ نے پیر صاحب کے ہاتھ چومنے میں ذرا سی کوتاہی کر لی تو بس! پیر صاحب کا غیظ و غضب دیکھنے والا ہوتا ہے، آنکھیں شعلہ بار ہو جاتی ہیں اور جسم تھرتھرانے لگتا ہے۔ آپ ایک نظر کی جنبش میں مریدین سے مرتدین کی صف میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی مجبوری کے تحت نذرانہ کی ادائیگی میں کچھ پس و پیش کی ہے تو آپ ہمیشہ کے لئے پیر صاحب کی نظروں میں کھٹک جاتے ہیں، توجہات و تصرفات سے محرومی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، زمین و آسمان کی تمام آفات و بلیات آپ کے گھر کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔ ایسے مرید کے گھر میں قدم رکھنا گویا پیر صاحب کے لئے جہنم میں جانے کے برابر ہوتا ہے۔
پیر صاحب کی اولاد کے لئے شاہانہ القاب اور مریدوں کے لئے انسانیت سے بھی
گرے ہوئے القاب استعمال کئے جاتے ہیں۔ کئی پیروں سے اتنا استغاثہ کیا جاتا
ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بھی اتنا نہیں کیا جاتا۔ کئی پیر بڑے تجسس پھیلانے
والے (Suspense creative) ہوتے ہیں۔ ہمیشہ نظریں جھکا کے رکھتے ہیں۔ جاہل
مرید اپنے پیر کی صرف ایک نظر کرم کے لئے تڑپتے پھڑکتے رہتے ہیں مگر پیر
بھی ایسا پکا ہوتا ہے کہ لمحہ بھر کے لئے دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اگر کوئی
مرید اپنے پیر کے بغیر کعبۃ اللہ کا طواف کر لے تو پیر صاحب اس بات کو
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے
واقعہ پر قیاس کر کے اس پر ہمیشہ کے لئے ناراض ہو جاتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment