Tuesday, 31 March 2015

بیس 20 رکعات تراویح کے دلائل اور ان پر اعتراضات کے جوابات

بیس رکعت تراویح احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰہ وکفٰی وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی اما بعد ! برادرانِ اسلام! رمضان المبارک ایک بہت بابرکت مہینہ ہے اس مبارک مہینہ میں خدا کا آخری پیغام قرآن پاک نازل ہونا شروع ہوا،اسی مہینے میں شب قدر ہے جو ہزار مہینہ سے افضل ہے، اس مہینہ میں ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ٠ ٧ گنا کر دیا جاتا ہے (صحیح ابن حبان )۔اس مہینہ میں دن کا روزہ فرض اور رات کی تراویح سنت ہے چنانچہ سنن نسائی ج١ ص ٣٠٨ پر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ان اللّٰہ تبارک وتعالٰی فرض صیام رمضان علیکم وسنت لکم قیامہ فمن صامہ وقامہ ایمانا واحتسابا خرج من ذنوبہ کیوم ولد تہ امہ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے (بوحی جلی ) تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور میں (بوحی خفی ) تمہارے لیے تراویح کا سنت ہونا مقرر کرتا ہوں ، پس جو کوئی ایمان کی رُوسے اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور تراویح پڑھے وہ اپنے گناہوں سے نکل کر ایسا ہو جاوے گا جیساکہ وہ اُس روز تھا جس روز اُسے اُس کی ماں نے جنا تھا۔ اور ابو ہریرہ کی روایت میں ہے کہ اُ س کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (صحیح مسلم ج١ ص٢٥٩)۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مبارک مہینہ میں عام مہینوں سے زیادہ کوشش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ فر ماتی ہیں کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجتہد فی رمضان ولا یجتھد فی غیرہ (مسلم)یعنی رسول پاکﷺ رمضان المبارک میں غیر رمضان سے بہت زیادہ محنت فرماتے تھے اور حضرت عائشہ کی ایک دوسری روایت ہے کان اذا دخل شھررمضان شدمئزرہ ثم لم یأت فراشہ حتی ینسلخ (بیہقی اعلاالسنن ج ٧ص٤٦ )یعنی جب رمضان آتا تو آپ اپنے بچھونے کی طرف نہیں آتے تھے یہاں تک کہ گزرجاتا اور حضرت عائشہ کی ایک تیسری روایت میں ہے کہ رمضان کے عشرہ آخیرہ میں خصوصاً احیٰی لیلہ وایقظ اھلہ (بخاری ) خود بھی تمام رات بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے۔ان تینوں حدیثوں کی تشریح خود حضرت عائشہ سے ان الفاظ میں آئی ہے اذا دخل رمضان تغیرلونہ وکثرت صلا تہ یعنی جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا تو رسول پاکﷺ کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اور نماز زیادہ پڑھتے تھے۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول پاکﷺ کی عادتِ مبارک یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ نماز پڑھی جائے،زیادہ سے زیادہ شب بیداری ہو اور خوب محنت اور کوشش کر کے اس مبارک مہینہ کے فضائل و برکات سے استفادہ کیا جائے لیکن جہاں اس مبارک مہینہ کی آمد ہر سال مسلمانوں پر خیر و برکت اور لطف و رحمت کے ہزاروں دروازے کھول دیتی ہے وہاں اس خراب آباد پنجاب کے اند ر مذہبی رنگ میں ایک شر بھی ظہور کرتا ہے اور وہ فرقہ غیر مقلدین کا یہ پروپیگنڈا ہے کہ بیس رکعت تراویح کی کوئی اصل نہیں ہر سال ا ہل سنت و جماعت کے سروں پر اس مکروہ نشریہ کے طوفان اُٹھتے ہیں اور بہت سے ناواقف حنفی یہ سمجھتے ہوئے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں کہ شاید اہل سنت کے پاس بیس رکعات کا کوئی ثبوت نہ ہو گا چنانچہ اوکا ڑہ میں بھی ایک غیر مقلد محدث نے ایک دو ورقہ شائع کیا جس میں محدث صاحب نے یہ دعویٰ کیا کہ صرف آٹھ رکعت تراویح سنت ہے بیس رکعت کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور حنفیوں کو انعامی چیلنج بھی دیا اور بزعمِ خود اس مسئلہ پر آخری فیصلہ فرما دیا۔اس قسم کے اشتعال انگیز نشریات سے ہم اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ جماعت امن و سکون کو گناہ عظیم سمجھتی ہے اور مسلمانوں میں اتفاق کی بجائے افترا ق پیدا کرنا سلف صالحین خصوصاً حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ سے بھولے بھالے مسلمانوں کو بد ظن کر کے اپنی تقلید کا پھندا اُ ن کے گلے میں ڈالنا اس جماعت کا دل پسند مشغلہ ہے۔

برادران اسلام رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تم بہت سا اختلاف دیکھو گے ایسے وقت میں تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو اور فرمایا کہ نجات کا راستہ یہی ہے جو میرا اور میرے صحابہ کا طرزِ عمل ہے۔ رسول پاکﷺ کا طرز عمل میں عرض کر چکا ہوں کہ رمضان میں غیر رمضان سے بہت زیادہ نماز پڑھتے تھے، ساری ساری رات خود بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو بیدار رکھتے لیکن جمہور علماء کے نزدیک آپ سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے البتہ احناف میں سے قاضی خاں اور طحطاوی اور شوافع میں سے رافعی آنحضرتﷺ سے بیس کا عدد ثابت مانتے ہیں۔محدث صاحب کا دعویٰ کہ حضورﷺ سے صرف آٹھ ثابت ہیں یہ تمام اُمت کے خلاف ہے ایک نیا دعویٰ ہے بلکہ محدث صاحب کا یہ دعویٰ اپنے مذہب سے بھی بے خبری کا نتیجہ ہے کیونکہ غیر مقلد بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ رسول پاکﷺ سے تراویح میں کوئی عدد معین ثابت نہیں چنانچہ

(١) حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں ومن ظن ان قیام رمضان فیہ عدد معین موقت عن النبی صلم لا یزید ولا ینقص فقداخطا۔ (مرقات علی المشکٰوۃ ج١ ص ١١٥، الانتقاد الرجیح ص٦٣ )یعنی جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ آنحضرتﷺ سے تراویح کے باب میں کوئی عدد معین ثابت ہے جو کم و بیش نہیں ہو سکتا وہ غلطی پر ہے۔

(٢) غیر مقلدوں کے مشہور پیشوا قاضی شوکانی نے بھی تراویح کے عدد معین کے متعلق لکھا ہے لم یرد بہ السنۃ یعنی سنت نبوی سے ثابت نہیں ہوتا (نیل الاوطار ج٢ ص٢٩٨)

(٣) غیر مقلدوں کے مشہور مصنف میر نور الحسن خاں صاحب اپنی کتاب عرف الجاوی ص٨٧ پر لکھتے ہیں ”وبالجملہ عددے معین درمرفوع نیامدہ تکثیر نفل وتطوع سودمند است پس منع از بست و زیادہ چیزے نیست”یعنی مرفوع حدیث سے کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے زیادہ نفل پڑھنا فائدہ مند ہے پس بیس رکعات سے منع نہ کرنا چاہیے۔

(٤) نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں ولم یات تعین العدد فی الروایات الصحیحۃ المرفوعۃ ولکن یعلم من حدیث کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجتھد فی رمضان مالا یجتھد فی غیرہ رواہ مسلم ان عدد ھاکان کثیراً (الانتقاد الرجیح ص ٦١ ) اور عدد کی تعین صحیح مرفوع روایتوں میں نہیں آئی لیکن صحیح مسلم کی ایک حدیث سے کہ آنحضرتﷺ رمضان میں جتنی محنت اور کوشش کرتے تھے اتنی غیر رمضان میں نہیں کرتے تھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تراویح کا عدد زیادہ تھا (یعنی گیارہ یا تیرہ نہ تھیں )یہی نواب صاحب ہدایۃ السائل ص ١٣٨ پر لکھتے ہیں کہ بیس رکعت تراویح پڑھنے والا بھی سنت پر عامل ہے۔جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے بانی حافظ محمد لکھوی فرماتے ہیں :

بعضے آٹھ رکعاتاں پڑھدے بعضے ویہ (٢٠) رکعاتاں جتنیاں بہت رکعاتاں پڑھن اُتنیاں بہت براتاں

اس کے علاوہ امام سبکی ،سیوطی وغیرہ نے بھی فرمایا کہ رسول پاکﷺ سے کوئی عدد معین ثابت نہیں ہے۔ان عبارات سے معلوم ہوا کہ محدث صاحب کا یہ دعویٰ کہ آٹھ رکعت سنت نبوی سے ثابت ہے اُن کے اپنے مذہب سے بھی بے خبری کی دلیل ہے۔

محدث صاحب کے دعویٰ کا پوسٹ مارٹم

محدث صاحب فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح کی حدیث جابر سے مروی ہے وہ صحیح ہے اور بیس رکعت تراویح کی حدیث حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے وہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ابو شیبہ ہے وہ ضعیف ہے۔

حدیث حضرت جابر

آنحضرتﷺ نے رمضان میں ہمارے ساتھ آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے (طبرانی۔قیام الیل۔ابن حبان ) یہ کونسی نماز تھی تہجد یا تراویح یا لیلۃ القدر کی نماز، اس کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے آئیے ہم اس حدیث کی سند کا حال بھی آپ کو بتا د یں۔ اس کی روایت حضرت جابر سے عیسٰی بن جاریہ نے کی ہے اور امام طبرانی فرماتے ہیں لا یروٰ ی عن جابر الا بھذا الاسناد (طبرانی) یعنی حضرت جابر سے صرف یہی ایک سند ہے۔

عیسٰی بن جاریہ کے متعلق امام الجرح والتعدیل ابن معین فرماتے ہیں عند ہ مناکیر، امام ابودا ود اورنسائی فرماتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث ہے اور امام نسائی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اُس کی روایات متروک ہیں۔ ساجی اور عقیلی نے بھی اُسے ضعیف کہا ہے۔ ابن عدی نے کہا ہے کہ اُس کی حدیثیں محفوظ نہیں ہیں۔قال ابن حجر فیہ لین ( میزان الا عتدال، تہذیب )۔عیسٰی بن جاریہ سے آگے روایت کرنے والا بھی ایک ہی راوی ہے،یعقوب القمی۔امام ابن معین فرماتے ہیں لااعلم احداً روی عنہ غیر یعقوب القمی (کتاب الجر ح والتعدیل لابی حاتم الرازی ج٣ ص٢٧٣)۔اس راوی کے متعلق امام دار قطنی فرماتے ہیں لیس بالقوی یعنی وہ قوی نہیں ہے۔ یعقوب قمی سے دو راوی روایت کرتے ہیں محمد بن حمید رازی ا ور جعفر بن حمید انصاری، محمد بن حمید رازی کو امام بخاری،امام سخاوی،امام نسائی،یعقوب بن شیبہ،ابوزعہ،جوزجانی،اسحاق کوسج،فضلک رازی،ابو علی نیاپوری،صالح بن محمد اسدی،ابن خراش،ابو نعیم وغیرہ محدثین نے ضعیف کہا ہے (دیکھو تہذیب التہذیب ج٩ص١٢٩ اور میزان الاعتدال ج٩ص٥٠)اور چوتھا راوی جعفر بن حمید مجہول الحال ہے۔ ناظرین آپ نے محدث اوکاڑہ کے تعصب کا کرشمہ دیکھ لیا کہ جس حدیث کی سند میں چاروں ضعیف تھے وہ صحیح بن گئی اور بیس رکعت تراویح کی حدیث کو اس لیے ضعیف کہہ کر ٹال دیا کہ اُس میں ایک راوی ابو شیبہ ضعیف ہے۔

حدیث ابن عباس

عن ابن عباس ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشر ین رکعۃً سوی الوتر۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔(سنن کبرٰی بیھقی ج٢ ص٤٩٦ مصنف ابن ابی شیبہ۔طبرانی،مسند عبدبن حمید)

اس حدیث کی سند ملاحظہ ہو : اخرج ابو بکر بن ابی شیبہ فی مصنفہ حدثنا یزید بن ہارون قال اخبرنا ابراہیم بن عثمان عن الحکم مقسم عن ابن عباس الخ (التعلیق الحسن ج٢ ص٥٦)

معزز ناظرین محدث عبدالجبار صاحب کو جابر والی حدیث میں چار راویوں کا مجروح ہونا تو نظر نہ آیا چار راوی مجروح ہوتے ہوئے حدیث کو صحیح کہہ دیا اور اس بیس رکعت والی روایت میں ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ کو ضعیف کہہ کر جواب سے سبک دوش ہو گئے حالانکہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ابو شیبہ آں قدر ضعف نہ دارد کہ روایت او مطروح ساختہ شود (فتاوٰی عزیزی)اور شاہ صاحب کی بات بالکل حق ہے کیونکہ کسی راوی میں جرح دو باتوں پر کی جاتی ہے باعتبار عدالت کے یا حفظ و ضبط کے۔ ابو شیبہ کی عدالت کے متعلق حضرت یزید بن ہارون جو امام بخاری کے اُستاذالاستاذ اور نہایت ثقہ اور حافظ الحدیث تھے، فرماتے ہیں ما قضٰی علی الناس فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ (تہذیب ج١ ص١٤٥ )یعنی ہمارے زمانہ میں اُن سے زیادہ عدل و انصاف والا قاضی کوئی نہیں ہوا، اور ابو شیبہ کے متعلق حافظ ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ الحافظ تو جب ابو شیبہ عادل بھی ہے حافظ بھی ہے تو یقینًا ثقہ ہوئے، اس لیے علامہ ابن عدی فرماتے ہیں لہ احادیث صالحۃ و ھو خیر من ابراہیم بن ابی حیۃ (تہذیب ج١ ص١٤٥)یعنی ابو شیبہ کی حدیثیں صالح ہیں اور وہ ابراہیم ابن ابی حیہ سے بہتر ہے اور ابراہیم بن ابی حیہ کو ا بن معین نے شیخ ثقۃ کبیر فرمایا ہے( اللسان ج١ص ٥٣ )۔خلاصہ یہ کہ جب ابو شیبہ عادل حافظ ہے اُس کی حدیثیں صالح ہیں بلکہ وہ ابراہیم بن ابی حیہ سے بہتر ہے تو اب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے فرمان کی صحت میں کیا شک رہ گیا۔ غرض محدث اوکاڑی کو تعصب نے ایسا محروم ا لبصیرت کیا کہ جس کی سند میں چار راوی مجروح تھے اُن کی جرح کو بھول گئے اور ابو شیبہ پر صرف جرح نظر آئی اور اُس کی تعدیل سے آنکھیں بند ہو گئیں اور پھر محدث صاحب اصول کا یہ قاعدہ بھی بھول گئے کہ جس حدیث پر امت نے عمل کر لیا ہو اور اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہو اُس کی سند میں اگر کلام کی گنجائش ہو بھی تب بھی وہ صحیح ہوتی ہے چنانچہ اس کی تفصیل خاتمے کے قریب آتی ہے۔

غرض یہاں تک تو محدث صاحب کے اس دعویٰ پر مختصر عرض کیا ہے کہ رسول پاکﷺ سے آٹھ رکعت بسند صحیح ثابت ہیں اور بیس ثابت نہیں اور محدث صاحب کی امانت و دیانت بھی آشکارا ہو گئی۔ اس کے بعد محدث صاحب نے کہا ہے کہ خلفائے ر اشدین کی سنت بھی بیس نہیں بلکہ آٹھ ہے۔حالانکہ نواب صاحب لکھتے ہیں کہ بیس رکعت سنتِ عمر بن خطاب ہے اور بیس پڑھنے والا بھی سنت پر عامل ہے۔(ہدایہ السائل ص١٣٨)

عہد فاروقی

رسول پاکﷺ نے صرف تین دن با جماعت تراویح پڑھائیں ،اُس کے بعد لوگ گھر میں یا مسجد میں بلا جماعت تراویح پڑھتے رہے۔حضرت فاروق اعظم نے لوگوں کو پھر جماعت تراویح پر جمع فرمایا جن لوگوں کو فاروق اعظم نے جمع فرمایا وہ کتنی رکعتیں ادا کرتے تھے اُس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے :

پہلی روایت : عن السائب بن یزید قال کنا نقوم فی زمن عمر بن الخطاب بعشر ین رکعۃ والوتر (رواہ البیہقی فی المعرفۃ ) ترجمہ : حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر بن الخطاب کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اس روایت کو امام نووی نے صحیح کہا ہے (شرح المہذب ج٤ ص ٣٢ ) امام عراقی اور علامہ سیوطی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے ( مصابیح ص٤٢)۔

محدث صاحب کا کمال : مولوی عبدالجبار صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا اس لیے عجیب ہتھکنڈہ استعمال کیا چونکہ اس کو بیہقی نے اپنے کتاب المعرفتہ میں ذکر کیا ہے محدث صاحب نے کتاب کا نام بگاڑ کر لکھا کہ کتاب العرفہ، امام بیہقی کی کوئی کتاب نہیں ” کتاب المعرفتہ ”سے م حذف کر کے ”کتاب العرفہ ”بنا لیا اور کتاب کاہی انکار کر دیا،نہ خدا کا خوف دل میں آیا نہ آخرت کا خیال اور نہ انسانوں سے شرم محدث صاحب قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں کاش اب بھی ایسی حرکتوں سے توبہ کر لیں۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ عہد فاروقی میں تمام صحابہ کرام بلا اختلاف بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔

دوسری روایت : عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب فی شہر رمضان بعشرین رکعۃ … وفی عہد عثمان۔(سنن بیہقی ج٢ص ٤٩٦ ) یعنی لوگ عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔اس کی سند کو علامہ سبکی نے اور بیہقی نے صحیح کہا ہے۔

تیسری روایت : اخرج ابن ابی شیبہ والبیہقی عن عمر انہ جمع الناس علی اُبیّ بن کعب وکان یصلی بھم عشرین رکعۃً حضرت عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ابی بن کعب پر جمع کیا اور وہ اُن کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔سندہ صحیح۔

چوتھی روایت : اخرج ابن ابی شیبہ حدثنا وکیع عن مالک بن انس عن یحیٰی بن سعید بن العاص الاہوی عن عمر بن الخطاب انہ امر رجلاً ان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔ حضرت عمر نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ اس کی سند اعلی درجہ کی صحیح ہے امام وکیع، امام مالک اور امام یحٰی تینوں صحاح ستہ کے اجماعی ثقہ شیوخ ہیں۔

پانچویں روایت : اخرج ابن ابی شیبہ حد ثنا حمید بن عبدالرحمن عن الحسن البصری عن عبدالعزیز بن رفیع قال کان اُبیّ بن کعب یصلی بالناس بالمدینۃ عشرین رکعۃً قال ابن المدینی و یحیٰی القطان وابوزرعہ مرسلات حسن صحاح (تدریب ص٦٩)یعنی حضرت ابی بن کعب مدینہ میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔

چھٹی روایت : عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان ثبلاث و عشرین رکعۃ (موطا امام مالک ص٤٠ سنن بیہقی ج٢ص٤٩٦ )حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں ٢٣ رکعت یعنی ٢٠ تراویح اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔

ساتویں روایت : عن محمد بن کعب القرظی کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعۃ (رواہ فی قیام اللیل )۔ حضرت محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔اس کی سندیں بھی اعلیٰ درجہ کی صحیح ہیں۔

آٹھویں روایت : عن ابی الحسن ان علیا امر رجلاً یصلی بھم فی رمضان عشرین رکعۃً

(مصنف ابن ابی شیبہ ) حضرت علی نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کوبیس رکعات تراویح پڑھائے۔اس کی سند حسن ہے۔

نویں روایت : عن ابی عبدالرحمن السلمی عن علی قال دعا القُرّاء فی رمضان فامرمنھم رجلاً یصلی بالناس عشرین رکعۃً قال وکان یوتربھم (سنن بیہقی ج٢ ص٤٩٦)۔ابو عبدالرحمن سلمی کا بیان ہے کہ حضرت علی نے رمضان المبارک کے مہینے میں قاریوں کو بلایا اور اُن میں سے ایک کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھایا کریں اور وتر خود حضر ت علی پڑھایا کرتے تھے۔

حضرت علی کے اصحاب خاص ہمیشہ بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے شتیر بن شکل جو حضرت علی کے اصحاب خاص میں سے تھے (بیہقی ج٢ص ٤٩٦) وہ بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے (قیام اللیل ص٩١ ابن ابی شیبہ، آثار السنن ج٢ص٦٠)

اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ،سعید بن ابی الحسن دونوں حضرت علی کے خاص شاگرد تھے (تہذیب التہذیب ج٦ص١٤٨ و ج٤ ص ١٦ ) اور یہ دونوں لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے (قیام اللیل ص٩٢ )اِسی طرح حارث اعور اور علی بن ربیعہ دونوں حضرت علی کے شاگرد تھے اور لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے( سنن بیہقی ج٢ص ٤٩٦ و آثار السنن مع التعلیق ج٢ص٩ ٥) اور ابو البختری حضرت علی کے خاص شاگردوں عبدالرحمن سلمی اور حارث کے خاص صحبت یافتہ تھے اور لوگوں کو بیس تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے (آثار السنن ص٦٠ فی التعلیق ) غرض اس خلیفہ راشد اور آپ کے سب ساتھی بیس رکعت پر عامل تھے۔

محدث صاحب نے اس اثر کے متعلق لکھا ہے کہ ابو الحسن مجہول ہے اور وہ طبقہ سابعہ کاہے اس کو صحابہ سے لقا نہیں۔ ناظرین ابو الحسن دو ہیں جو ابو الحسن طبقہ سابعہ کا ہے وہ واقعی مجہول ہے لیکن یہ ابو الحسن طبقہ سابعہ کا نہیں ہے جب اس کے شاگرد عمرو بن قیس اور ابو سعدبقال طبقہ خامسہ و سادسہ سے ہیں تو اُستاد کیسے طبقہ سابعہ میں ہو گا۔محدث صاحب نے بلا سوچے سمجھے صرف اہل سنت کی ضد میں یہ لکھ مارا اور پھر جبکہ حضرت علی کے تمام شاگرد بھی بیس کے قائل ہوں اور دوسری روایت اس کی مؤید ہو تو یہ بات کس قدر پھیکی بن جاتی ہے۔

دسویں روایت : حضرت عبداللہ بن مسعود بھی لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے (قیام اللیل ص٩٢)۔ حضرت سوید بن غفلت جو حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود دونوں کے خاص صحبت یافتہ شاگرد ہیں وہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے۔(سنن بیہقی )

حضرت عطا کی شہادت : حضرت عطا کبار تابعین میں سے ہیں آپ کو ٢٠٠ صحابہ کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، آپ کی شہادت صحابہ اور تابعین دونوں زمانوں کی شہادت ہے آپ فرماتے ہیں ادرکت الناس وہم یصلون ثلاثاً وعشرین رکعۃ رواہ ابن ابی شیبہ واسناد ہ حسن (آثار السنن ج٢ ص٥٥)حضرت عطا فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ و تابعین کو بیس رکعت تراویح ہی پڑھتے پایا۔ معلوم ہوا کہ تمام صحابہ و تابعین بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور کبھی کسی ایک شخص نے بھی ٢٠ تراویح کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی۔

علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں وھو قول جمھور العلماء و بہ قال الکوفیون والشافعی واکثرالفقھاء وھوالصحیح عن اُبیّ بن کعب من غیرخلاف من الصحابۃ (عینی شرح بخاری) ترجمہ یہ قول جمہور علما کاہے اہل کوفہ (حضرت علی،حضرت ابن مسعود، حضرت امام ابو حنیفہ اور آپ کے ساتھی ) اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے اور حضرت ابی بن کعب سے بھی یہی صحیح اور ثابت ہے اور اس میں صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔اور فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسٰی ترمذی فرماتے ہیں واکثر اہل العلم علی ماروی عن علی و عمر وغیر ہما من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عشرین رکعۃً (ترمذی)اکثر اہل علم بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں جو کہ حضرت علی اور حضرت عمر اور نبی اکرمﷺ کے دوسرے صحابہ سے مروی ہے۔

امام شافعی فرماتے ہیں ھکذا ادرکت ببلدنا مکۃ یصلون عشرین رکعۃً (ترمذی)۔میں نے مکہ معظمہ میں تابعین اور تبع تابعین کو بیس رکعت تراویح پڑھتے پایا۔

میں نے نہایت اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا عمل پیش کر دیا ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم کے حکم سے آپ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح با جماعت باقاعدہ شروع ہوئیں اور کسی ایک متنفس نے بھی اس پر انکار نہ فرمایا بلکہ بغیر کسی اختلاف کے تمام صحابہ بیس رکعات پڑھتے رہے۔حضرت عثمان کے زمانہ مبارک میں بھی اسی پر عمل رہا، حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب نے بھی بیس کا حکم دیا اوربیس ہی پڑھتے رہے۔ آپ کے تمام شاگرد بھی لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بھی لوگوں کو بیس رکعت پڑھاتے تھے۔ تابعین اور تبع تابعین بھی بیس پر عامل تھے اور عہد نبویﷺ سے لے کر بارھویں صدی ہجری تک کسی ایک معتبر عالم کا نام بھی پیش نہیں جا سکتا کہ اُس نے بیس رکعت تراویح کے خلاف رسالے بازی اور اشتہار بازی کی ہویا کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی نے بیس رکعت پڑھنے والوں کو انعامی چیلنج دیا ہو اور عہد فاروقی سے لے کر بارہ سوسال تک ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ فلاں صدی میں فلاں علاقہ میں لوگوں میں آٹھ رکعت تراویح کا رواج تھا۔ جب سے غیر مقلدوں کا یہ نیا فرقہ پیدا ہوا ہے اُسی وقت سے یہ شور و غوغا سننے میں آیا ہے،اسی فرقے نے ہمیشہ امن و سکون سے بسنے والے مسلمانوں میں سر پھٹول کرائی ہے۔ محدث صاحب نے حضرت عائشہ کی حدیث سے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے آٹھ رکعت تراویح پر استدلال کیا ہے حالانکہ کتنی صاف بات ہے کہ جب اس حدیث میں رمضان کے ساتھ غیر رمضان کا لفظ بھی ہے تو اس حدیث کو تراویح سے کیا تعلق،اگر یہ تراویح کے متعلق ہے تو اس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ رسول پاکﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت تراویح سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ محدث صاحب یہ حدیث تو تہجد کے متعلق ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں برابر ہوتی ہے اور اگر محدث صاحب یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو محدث صاحب ایک ہی حدیث صحیح پیش فرمائیں کہ تہجد اور تراویح ایک نماز ہے نیز میں حضرت عائشہ سے چار روایات ذکر کر چکا ہوں اور نواب صدیق حسن صاحب کا قول بھی ذکر کر چکا ہوں کہ رسول پاکﷺ کی رمضان کی نماز غیر رمضان سے زیادہ ہوتی تھی۔ اُن روایات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے نیز جناب کی پیش کردہ روایتِ عائشہ اور روایتِ جابر دونوں میں تین وتر کا ذکر ہے،غیر مقلد ان دونوں روایتوں کو چھوڑ کر ایک وتر پڑھتے ہیں تو خود ان حدیثوں پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟ نیز محدث صاحب یہ بھی بتائیں کہ حضرت عمر و حضرت عثمان حضرت علی کے زمانہ مبارک میں جب علی الاعلان بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں اُس زمانہ میں حضرت جابر اور حضرت عائشہ دونوں زندہ تھے اگر ان دونوں بزرگوں سے آٹھ رکعت تراویح کی حدیث مروی ہے تو ان دونوں نے وہ حدیثیں اُ ن صحابہ کے سامنے کیوں پیش نہ کیں اور کیوں آٹھ رکعت تراویح کی سنت کو مٹنے دیا۔ کیا ان دونوں میں سنت پر عمل کرنے اورسنت کو پھیلانے کا اتنا جذبہ بھی نہ تھا جتنا کہ محدث عبدالجبار صاحب میں ہے کہ ان کے سامنے ایک سنت مٹ رہی ہو ایک زبردست بدعت شروع ہو چکی ہو لیکن وہ دونوں لوگوں کی کوئی رہنمائی نہ کریں اور محدث صاحب یہ بھی ثابت کریں کہ یہ دونوں سب صحابہ کے خلاف آٹھ رکعت پڑھتے تھے اور یہ باتیں محدث صاحب انشاء اللہ قیامت تک بھی ثابت نہ کرسکیں گے۔محدث صاحب نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر کا حکم ١١ رکعت کا تھا لیکن محدث صاحب کی یہ بات عقل و نقل کے بالکل خلاف ہے کیونکہ جس اثر کو محدث صاحب نے ذکر کیا ہے اس کا مدار محمد بن یوسف پر ہے اُ س کی روایت میں سخت اضطراب ہے وہ کبھی ١١ کہتا ہے کبھی ١٣ کبھی ٢١ اور مضطرب روایت ضعیف ہوتی ہے تو لامحالہ یہ روایت ضعیف ہوئی تو استدلال کیا!۔اب ایک طرف یہ مضطرب اور ضعیف روایت دوسری طرف ہم نے صحیح روایات بیان کر دیں ہیں کہ حضرت عمر نے بیس کا حکم دیا تھا نیز محدث صاحب یہ بھی بتائیں کہ کیا عقل اس کو تسلیم کرتی ہے کہ حضرت عمر گیارہ کا حکم دیں اور عہد فاروقی کے صحابہ و تابعین خلیفہ راشد کے حکم کی خلاف ورزی کریں اور بیس پڑھنی شروع کر دیں۔ محدث صاحب اگر حکم گیارہ کا تھا اور صحابہ و تابعین نے اس حکم کونہ مانا بیس پڑھنی شروع کر دیں اور آٹھ کی سنت بجائے ٢٠ تراویح کی بدعت شروع کر دی تو بتاؤ کہ حضرت عمر نے اس بدعت کو کیوں نہ مٹایا اور حضرت عمر کے بعد حضرت علی نے اس بدعت کو کیوں نہ مٹایا۔ محدث صاحب کیوں لوگوں کو صحابہ تابعین اور سلف صالحین سے بد ظن کرتے ہو۔

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں بیس رکعت کے سنت مؤکدہ ہونے پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اجماع کی مخالفت ناجائز ہے اور یہ اجماع علامت ہے اُن احادیث (آٹھ رکعت والی اگر کوئی صحیح ہو) کے منسوخ ہونے کی (اشرف الجواب ج١ص ١٠٢)۔ حضرت حکیم الامت کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ اگر بفرض محال حدیث جابر وغیرہ صحیح بھی ہو تو بھی صحابہ کرام کا بیس رکعت پر اجماع اس کے منسوخ ہونے کی علامت ہے۔امام نووی مقدمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں من اقسام النسخ مایعرف بالا جماع کقتل شارب الخمر فی المرۃ الرابعۃ فانہ منسوخ عرف نسخہ باالاجماع والاجماع لا ینسخ ولکن یدل علی وجود الناسخ اور غیر مقلدوں کے جد امجد نواب صدیق حسن خاں اپنی کتاب ”افادۃ الشیوخ فی بیان الناسخ والمنسوخ” پر لکھتے ہیں :”چہارم آنکہ باجماع صحابہ دریافت شود کہ ایں ناسخ وآں منسوخ … ومثل اوست حدیث غلول صدقہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دراں امر باخذ صدقہ و شطر مال او فرمودہ لیکن صحابہ اتفاق کردندبر ترک استعمال ایں حدیث وایں دال است برنسخَ وے۔ومذہب جمہور نیز ہمیں است کہ اجماع صحابہ از ادلہ بیان ناسخ است۔ ”نواب صاحب کی یہ عبارت اس بات پر صریح نص ہے کہ جو حدیث عہد صحابہ میں متروک العمل ہو چکی ہو وہ منسوخ ہے پس آٹھ رکعت کی روایات پر عمل کرنے والا اجماع صحابہ کا مخالف اور روایات منسوخہ پر عامل ہے جیسا کہ عیسائی اور یہودی مذہب منسوخ پر عامل ہیں پس حدیث عائشہ مدعٰی سے ساکت ہے اور حدیث جابر ضعیف بھی ہے اور منسوخ بھی،رہی حدیث ابن عباس جس میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس رکعت تراویح پڑھنے کا ذکر ہے اور مولوی عبدالجبار صاحب نے اُسے ابو شیبہ کی وجہ سے ضعیف کہہ دیا ہے اولاً تو میں نے ابو شیبہ کی تعدیل باعتبار حفظ و ضبط اور باعتبار عدالت عرض کر دی وہ مختلف فیہ حسن الحدیث ہے ثانیاً یہ کہ جس حدیث کو تلقی بالقبول کا شرف حاصل ہو وہ صحیح ہوتی ہے چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی شرح نظم الدُرر میں فرماتے ہیں :

المقبول ما تلقاء العلماء بالقبول وان لم یکن لہ اسنادصحیح اور امام سخاوی شرح الفیہ میں فرماتے ہیں اذا تلقت الامۃ الضعیف بالقبول یعمل بہ علی الصحیح حتی انہ ینزل منزلۃ المتواتر فی انہ ینسخ المقطوع بہ ولھذا قال الشافعی حدیث لا وصیۃ لوارث لا یثبتہ اہل الحدیث ولکن العامۃ تلقتہ بالقبول وعملوا بہ حتی جعلوہ ناسخا لآیۃ الوصیۃ للوارث۔ اور علامہ حافظ ابن حجر ”الا فصاح علی نکت ابن الصلاح ”میں فرماتے ہیں ” ومن جملۃ صفات القبولـ ان یتفق العلماء علی العمل بمدلول الحدیث فانہ یقبل حتی یجب العمل بہ وقد صرح بذالک جماعۃ من آئمۃ الاصول ”اس قاعدے کو غیر مقلدوں کے مشہور مناظر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی تسلیم کیا ہے (دیکھو اخبار اہل حدیث مؤرخہ١٩اپریل ١٩٠٧ ء)۔

اب محدث صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ عام علمائے اُمت کے قبول کر لینے سے جب ضعیف حدیث واجب العمل ہو جاتی ہے تو بیس رکعت والی حدیث جس پر خلفائے راشدین نے حکم دے کر عمل کروایا اور تمام صحابہ کرام نے عہد فاروقی سے لے کر اور تمام تابعین اور تبع تابعین نے تمام آئمہ مجتہدین نے اس پر عمل کیا ہو اور تمام اُمت کا بارہ سو سال تک بلا اختلاف اس پر عمل ہو پھر تو ابو شیبہ کی یہ حدیث اتنی قوی اور مستحکم ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد اس کو ضعیف کہہ کر پیچھا چھڑانا بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ بیس رکعت کی حدیث اجماع اُمت کے موافق ہونے کی وجہ سے واجب العمل ہے اور آٹھ رکعت والی مخالف اجماع ہونے کی وجہ سے متروک اور منسوخ ہے۔

اہل سنت و جماعت تمام احادیث پر عمل کرتے ہیں

ان غالی غیر مقلدین کا عجیب طریقہ ہے کہ تمام ذخیرہ حدیث فی الباب سے ایک حدیث لے لیتے ہیں جو اپنے نفس کی خواہش کے مطابق ہو اور اُس کے خلاف خواہ کس قدر احادیث ہوں بس ایک وہی حدیث پیش کئے جاتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو مخالفِ حدیث کہے جاتے ہیں۔حضرت قاری عبدالرحمن ان غُلاۃ کی نسبت فرمایا کرتے تھے کہ یہ بیشک عامل بالحدیث ہیں لیکن الف لام الحدیث میں عوض میں مضاف کے ہے اور وہ مضاف الیہ نفس ہے یعنی عامل بالحدیث النفس تو واقعی یہ لوگ حدیث نفس کے عامل ہیں حدیثِ رسولﷺ پر عامل نہیں۔ یہ لوگ اپنے نفس کے مطابق احادیث تلاش کر لیا کرتے ہیں جیسے کسی کی حکایت مشہور ہے کہ اُس سے پوچھا گیا کہ تمہیں قرآن کا کونسا حکم سب سے زیادہ پسند ہے، کہا ربنا انزل علینا مائدہ من السماء اسی طرح انہوں نے بھی تراویح کی تمام احادیث سے صرف آٹھ والی حدیث پسند کی اور وتر کی تمام حدیثوں سے ایک وتر والی حدیث پسند کی۔ تمام رات تراویح پڑھنا جو صحیح حدیث سے ثابت ہے اس سنت کو تو کبھی ادا نہیں کیا لیکن سنت فجر کے بعد سونے کی سنت پر خوب زور ہے سبحان اللہ کیا معیار ہے۔ایک حدیث کو مان کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ قول و فعلِ رسول یہی ہے باقی تمام ذخیرہ حدیث کو خاطر میں نہیں لاتے اور ان کے اس سبق کے رٹنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سلف صالحین کے اعمال کو خلافِ حدیث ظاہر کر کے اُن کی تقلید سے منحرف کریں اور اپنی تقلید کا پھندا اُن کے گلے میں پیوست کر دیں قاتلھم اللّٰہ انی یوفکون۔ اس مسئلے میں بھی یہ حنفیہ کو مخالفِ حدیث کہتے ہیں اور اپنے آپ کو عامل بالحدیث حالانکہ نہ یہ آٹھ والی روایات کو مانتے ہیں نہ بیس والی کو کیونکہ حدیث عائشہ تہجد کے متعلق ہے کہ رسول پاکﷺ رمضان غیر رمضان میں گیارہ رکعت تہجد پڑھتے تھے لیکن غیر مقلد رمضان کے مبارک مہینہ میں تہجد بھی نہیں پڑھتے بلکہ جو غیر مقلد غیر رمضان میں تہجد پڑھتے ہیں وہ بھی رمضان میں چھوڑ بیٹھتے ہیں اور دوسروں کو بھی منع کرتے ہیں۔اہل سنت رمضان اور غیر رمضان میں ٨ رکعت تہجد اور تین وتر پڑھتے ہیں غرضیکہ حنفی تو حدیثِ عائشہ پر پورا عمل کرتے ہیں لیکن غیر مقلد نہ تہجد کے بارے میں اس پر عامل ہیں نہ وتر کے بارے میں کیونکہ غیر مقلد جتنی دلیلیں آٹھ تراویح پر لاتے ہیں ہر ایک میں تین وتر کا ذکر ہے اور غیر مقلد ایک وتر پڑھتے ہیں۔ حدیثِ عائشہ اور حدیثِ جابر میں بھی تین وتر کا ذکر ہے اور حضرت فاروق اعظم کے حکم میں بھی تین رکعت وتر مذکور ہیں ، نہ تو غیر مقلدوں نے حضرت عائشہ کی اس حدیث پر عمل کیا اور نہ حضرت عائشہ کی اُن روایتوں پر عمل کیا جن کو میں شروع میں نقل کر چکا ہوں کہ رسول پاکﷺ رمضان المبارک میں غیر رمضان سے زیادہ کوشش اور محنت فرماتے تھے، زیادہ شب بیداری کرتے تھے اور زیادہ نماز پڑھتے تھے بلکہ غیر مقلد تو زیادتی سے منع کر کے کھلم کھلا ان حدیثوں کی مخالفت کرتے ہیں نہ تو ان تینوں بزرگوں یعنی حضر ت عائشہ ، حضرت جابر، حضرت عمر کی مذکورہ روایات پر غیر مقلد ین کا عمل ہے اور نہ ان تینوں کے اپنے عمل کو مانتے ہیں کیونکہ حضرت عائشہ، حضرت جابر،حضر ت عمر تینوں کے سامنے بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں ان تینوں میں سے کسی ایک نے بھی بیس رکعت تراویح سے منع نہ فرمایا بلکہ خود اُن کے ساتھ شامل ہو گئے اور کوئی غیر مقلد یہ ثابت نہیں کر سکتاکہ یہ تینوں آٹھ رکعت تراویح پڑھتے تھے۔جب ان تینوں میں سے کسی نے بیس رکعت کا انکار نہ کیا اور نہ منع فرمایا تو غیر مقلد کس دلیل سے بیس رکعت سے منع کرتے ہیں۔غرض نہ ان تینوں کی روایت کو مانتے ہیں اور نہ عمل کو ا س کے برخلاف اہل سنت و جماعت تمام احادیث کو مانتے اور عمل کرتے ہیں۔ حضرت جابر کی آٹھ رکعت والی روایت اگرچہ صحیح نہیں ہے اس لیے ذہبی نے میزان الاعتدال میں اُسے منکر روایات میں ذکر کیا ہے اور جس امرِ فاروقی کو غیر مقلد پیش کرتے ہیں وہ مضطرب ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اسی لیے علامہ ابن عبد البر نے اس کو وہم قرار دیا ہے نیز یہ صحیح روایات اور عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہے تاہم اگر بفرض محال آٹھ رکعت پر اگر کوئی لُولی لنگڑی روایت ہو پھر بھی وہ ہم کو مضر نہیں اور نہ غیر مقلد ین کو مفید ہے کیونکہ بیس میں آٹھ بھی شامل ہیں۔اور بیس پڑھنے والا بیس والی روایات پر بھی عمل کر رہا ہے اور آٹھ والی روایات پر بھی کیونکہ آ ٹھ رکعت پر حصر کی کوئی دلیل نہیں ہے اور کسی ایک ضعیف روایت میں بھی یہ نہیں کہ آٹھ سے زیادہ منع ہیں تو بیس رکعت پڑھنا آٹھ والی کے مخالف کیسے ہوا بلکہ دونوں پر عمل ہوا۔

مثال اول : بعض روایات میں ہے کہ رسول پاکﷺ ہر روز ستر مرتبہ استغفار پڑھتے تھے اور بعض میں سو مرتبہ کا ذکر ہے۔اب اگر کوئی شخص سومرتبہ استغفار پڑھے تو کون عاقل کہے گا کہ اس نے ستر والی روا یت کی مخالفت کی ہے بلکہ حقیقت میں اس نے دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے کیونکہ سو میں ستر بھی داخل ہیں۔

مثال دوم : رسول پاکﷺ کی تہجد کی رکعات مختلف آئی ہیں ٤ ٣ اور ٣٦ اور ٣٨،٣١٠ (رواہ عائشہ مشکٰوۃ ج١ ص ١١٢) اب اگر کوئی شخص ٣٨ یا ٣١٠ پڑھ لے تو کون نادان کہے گا کہ اس نے ٤،٦ والی سنت کی مخالفت کی ہے بلکہ صاف بات ہے کہ ٨میں ٤ اور ٦ بھی شامل ہیں۔

مثال سوم : مسلمان شروع سے پانچ نمازیں روزانہ پڑھتے ہیں لیکن منکرین حدیث نے کچھ دنوں سے یہ شور مچایا ہے کہ قرآن کی آیت اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الخ سے صرف تین نمازیں ثابت ہیں اس لیے پانچ نمازیں پڑھنا ا س آیت کے خلاف ہے حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے اگر ایک آیت سے بظاہر تین نمازیں سمجھ آتیں ہیں تو باقی آیات و احادیث سے پانچ ثابت ہیں اور پانچ میں یہ تین بھی داخل ہیں تو پھر پانچ پڑھنے والا اس آیت کا مخالف کیونکر ہوا وہ تو اس پر بھی عامل ہو ا اور دوسری آیات و روایات پر بھی عامل ہوا۔

مثال چہارم : شیعہ کہتے ہیں کہ اہل سنت حضرت علی کی خلافت کے مخالف اور منکر ہیں کیونکہ یہ ایک کی بجائے چار کی خلافت مانتے ہیں اور جن روایات سے حضرت علی کی فضیلت یا خلافت کے اشارے نکلتے ہیں اُن کو اہلِ سنت کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں حالانکہ اُنکا ایسا کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جن چار کو ہم مانتے ہیں اُن میں حضرت علی بھی شامل ہیں تو جب اُ ن چاروں میں وہ ایک بھی شامل ہیں تو چار کا ماننا حضرت علی کی مخالفت کیسے ہوئی۔ حضرت جابر نے جو آٹھ رکعت روایت کی ہیں ابن عباس کی بیس والی روایت میں وہ آٹھ بھی شامل ہیں پس بیس والی روایت پر عمل دونوں روایتوں پر عمل ہے اور بیس والی کا انکار دونوں کا انکار ہے کیونکہ دوسری اسی میں شامل ہے تو بیس رکعت پڑھنا آٹھ رکعت کے مخالف کیسے ہوا، بلکہ بیس پڑھنے والا آٹھ بھی پڑھتا ہے پس آٹھ رکعت کی دلیلوں کو سنیوں کے مقابلہ میں پیش کرنا ایساہی ہے جیسا شیعوں کا سنیوں کے مقابلہ میں فضائل علی کی روایات پڑھنا جبکہ حضرت علی کی خلافت چاروں میں شامل ہے چنانچہ بعض لوگوں نے ان تمام روایات کو جمع کیا ہے کہ آٹھ والی مرفوع روایات میں جماعت کا ذکر ہے اور بیس والی مرفوع روایت میں جماعت کا ذکر نہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر نے پہلے صرف آٹھ رکعت با جماعت پڑھنے کا حکم دیا ہو اور باقی بارہ رکعت لوگ بلا جماعت پڑھتے ہوں اور پھر بیس رکعت با جماعت پڑھنے کا حکم دے دیا ہو اور اسی آخری حکم پر اجماع منعقد ہو گیا۔چنانچہ امام بیہقی،علامہ ابن حجر، ملا علی قاری وغیرہم نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ پہلے حضرت عمر نے گیارہ کا حکم دیا پھر بیس کا اور اسی پر اجماع منعقد ہو گیا،اب بیس پڑھنے والا حضرت عمر کے دونوں حکموں پر عمل کرتا ہے کیونکہ دوسرا حکم پہلے کے مخالف نہیں ہے بلکہ پہلا دوسرے میں شامل ہے اور غیر مقلد دونوں حکموں کے منکر ہیں کیونکہ جب دوسرا حکم دیا تو پہلا اُ سی میں شامل ہو گیا اور دونوں مل کر ایک ہی حکم رہ گیا تو آخری حکم پر عمل دونوں پر عمل اور آخری حکم کا انکار دونوں کا انکار ہے۔ اور صحابہ کرام ایک تراویح میں ایک قرآن پاک ختم کرتے تھے اس لیے قاریوں نے قرآن پاک میں تراویح کے لیے رکوع مقرر کر دئیے اور وہ بھی بیس کے حساب سے لگائے ہیں چنانچہ رکوع سارے قرآن میں ٥٤٠ ہیں اور لیلۃ القدر ستایئسویں رات کو قرآن ختم کرتے ہیں تاکہ لیلۃ القدر میں ختم کا ثواب ملے۔ اسی حساب سے پورے رکوع ہیں ٥٤٠٢٠٢٧

بعض غیر مقلد جب چاروں طرف سے عاجز آ جاتے ہیں تو یہ کہا کرتے ہیں کہ بیس رکعت سنت خلفاء ہے اور آٹھ سنت نبوی ہیں۔حضورﷺ نے آٹھ ہی پڑھی تھیں صحابہ نے ١٢ بڑھا لیں اس لیے ٨ پڑھنے والے سنت نبوی پر عامل ہیں اور بیس پڑھنے والے سنت خلفاء پر،تو عرض ہے کہ یہ مغالطہ ہے اولاً تو یہ غلط ہے کہ صحابہ سنت نبوی پر زیادتیاں کر لیتے تھے اگر یہ گمان رکھو تو ہو سکتا ہے کہ جن صحابہ نے ٨ کو بیس کر لیا ہو انہوں نے قرآن میں بھی زیادتی کی ہو۔ اگر وہ پیغمبر کے فعل میں اپنی مرضی سے زیادتی کر لیتے تھے تو پھر خدا جانے پیغمبر کے کلام میں انہوں نے کتنی زیادتیاں کی ہوں گی۔ ثانیاً بیس جس کو تم نے سنت فاروقی کہا ہے اس میں آٹھ جس کو سنت نبوی کہتے ہو وہ بھی شامل ہیں تو بیس پڑھنے والا سنت نبوی اور سنت فاروقی دونوں کا عامل ہوا، کیا غیر مقلد ین کے پاس کوئی ایک حدیث ہے جس میں حصر کے ساتھ مذکور ہو کہ صرف آٹھ تراویح سنت ہے، ایک بھی نہیں۔کیا کسی ایک حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیس رکعت پڑھنا بدعت ہے۔غیر مقلد بتائیں کہ ٢٠ رکعت تراویح کو بدعت و حرام جانتے ہیں یا مستحب،بعض غیر مقلد عاجز آ کر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کو تو بیس رکعت با جماعت پر اعتراض ہے تو اُن سے فوراً کہو کہ جناب آپ جماعت کا لفظ نہ لکھیں پہلے صرف اتنا لکھ دیں کہ ہم بیس رکعت تراویح کو سنت مانتے ہیں اس کو شائع کر دیں اور ساتھ یہ بھی شائع کریں کہ با جماعت پڑھنا مکروہ ہے یا حرام اور اُس کی بہترین دلیل جس سے بیس کا با جماعت پڑھنا منع ثابت ہو پیش کر دیں اور یہ بھی لکھ دیں کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بیس رکعت پڑھتے تھے اُن پر کیا فتویٰ ہے اور حضرت عمر نے جنہوں نے بیس رکعت با جماعت پر لوگوں کو جمع فرمایا وہ غیر مقلدوں کی شریعت کے مطابق کتنے بڑے مجرم ہیں۔ بعض غیر مقلدین نے یہ مغالطہ دیا ہے کہ آٹھ رکعت پر غیر مقلدین اور مقلدین کا اتفاق ہے اس لیے آٹھ کولے لینا چاہیے اور بارہ میں دونوں فریقوں میں اختلاف ہے اُن کو تر ک کر دینا چاہیے۔سبحان اللہ غیر مقلد صاحب اگر کوئی عیسائی آپ کی خدمت میں یہ عرض کرے کہ جناب عیسٰی کی رسالت و نبوت پر چونکہ عیسائیوں اور مسلمانوں کا اتفاق ہے اور حضرت محمد مصطفیﷺ کی نبوت میں دونوں فرقوں کا اختلاف ہے اس لیے سب مسلمانوں کو چاہیے کہ حضورﷺ کی نبوت سے معاذاللہ انکار کر کے صرف حضرت عیسٰی کی نبوت کے قائل ہو جائیں تو آپ کیا جواب دیں گے۔ اس قسم کی بہکی بہکی باتیں کرنا مسلمانوں کی شان نہیں ہے لوگوں کو مغالطوں میں مبتلا نہ کرو۔ خلاصہ یہ ہے کہ :

(١) آٹھ رکعت کی روایت سخت ضعیف ہے اور اجماع صحابہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے منسوخ ہے تو آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والا صحیح اور محکم حدیثوں کو چھوڑ کر ضعیف اور منسوخ حدیثوں پر عمل کرنے کی وجہ سے سخت غلطی کا شکار ہے۔

(٢) بیس رکعت پڑھنے والے سب حدیثوں کو مانتے ہیں کیونکہ بیس میں آٹھ بھی شامل ہیں اور آٹھ پڑھنے والے صرف ضعیف اور منسوخ روایات کے آستانہ پر دھونی رمائے بیٹھے ہیں اور محکم و صحیح احادیث سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔

(٣) بیس رکعت پڑھنے والے حضرت عمر فاروق کے دونوں حکموں کو مانتے ہیں اور آٹھ پڑھنے والے حضرت عمر کے آخری حکم کے منکر ہیں۔

(٤) بیس رکعت پڑھنے والے فرمان نبوی علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوابھا وعضوا علیھا بالنواجذ میری اور میرے خلفائے راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑو کے عامل ہیں کیونکہ بیس رکعت با جماعت خلفائے راشدین کے حکم سے شروع ہوئیں اور آٹھ رکعت پڑھنے والے نہ سنت نبوی کے عامل کیونکہ حدیث جابر منسوخ ہے اور حدیث ابن عباس ،احادیثِ شدتِ اجتہادشَدِّمِئزَرْ وغیرہ پر عمل نہیں کرتے اور نہ سنت خلفاء کے عامل بلکہ دونوں سنتوں کے مخالف ہیں۔

(٥) بیس رکعت پڑھنے والے صراط مستقیم ماانا علیہ واصحابی۔ خیرالقرون قرنی الخ تمسکو ابن مسعود پرگا مزن ہیں اور آٹھ پڑھنے والے سبیل مومنین سے منحرف ہو کر نصلہ جھنم و ساء ت مصیرا کی وعید میں داخل ہیں۔

(٦) بیس رکعت پڑھنے والے سوادِ اعظم اور اجماع اُمّت کے مطابق عمل کر کے خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے مستحق بنتے ہیں اور آٹھ رکعت پڑھنے والے من شَذشُذ فی النا ر کی وعید کے سزا وار ہیں۔

(٧) بیس رکعت تراویح پڑھنے والے قیامت کے دن اپنے مقتداؤں یعنی پیغمبرِ اسلامﷺ ، خلفاء راشدین،صحابہ کرام، آئمہ مجتہد ین کے ساتھی ہوں گے اور بیس رکعت سے منع کرنے و الے اٰرأیت الذی ینھٰی عبداً اذا صلٰی کی جماعت میں شامل ہوں گے۔

(٨) رسول پاکﷺ نے فرمایا ان اللّٰہ وضع الحق علی لسان عمر اللہ تعالی نے حق حضرت عمر کی زبان پر رکھا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ شیطان حضرت عمر کے سائے سے بھاگتا ہے اور شیطان کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ حضرت عمر کے راستے پر چل سکے۔ اے بیس رکعت تراویح پڑھنے والو!تم کتنے خوش نصیب ہو کہ حضرت عمر کے دونوں حکموں پر عامل ہو اور حق پرستوں کی جماعت میں داخل ہو اور اے آٹھ رکعات پڑھنے والوں ! تم حضرت عمر کے آخری فرمان سے جس پر ساری اُمّت کا اجماع ہو چکا ہے پِھر کرکس رستے پر جا رہے ہو تم کو یہ توفیق کیوں نہیں کہ حضرت عمر کے راستہ پر چلو۔

آخر میں حضرت حکیم الامت کی کتاب اشرف الجواب ج٢ص ١٠٣ سے ایک اقتباس نقل کر کے ختم کرتا ہوں :

”بھئی سنو! محکمہ مال سے اطلاع آئے کہ مال گزاری داخل کرو اور تمہیں معلوم نہ ہو کہ کتنی ہے تم نے ایک نمبردار سے پوچھا کہ میرے ذمہ کتنی مال گزاری ہے اُس نے کہا آٹھ روپے پھر تم نے دوسرے نمبر دار سے پوچھا اُس نے کہا بیس روپے تو اب بتاؤ تمہیں کچہری کتنی رقم لے کر جانا چاہیے اس شخص نے جواب دیا کہ صاحب بیس روپے لے کر جانا چاہیے۔ اگر بیس روپے ادا کرنے پڑے تو کسی سے مانگنے نہ پڑیں گے اور اگر آٹھ ادا کرنے ہوئے تو باقی رقم بچ رہے گی۔اور اگر میں کم لے کر گیا اور وہاں زیادہ طلب کیے گئے تو کس سے مانگتا پھروں گا۔ مولانا نے فرمایا بس خوب سمجھ لو کہ اگر وہاں بیس رکعتیں طلب کی گئیں اور ہیں تمہارے پاس آٹھ تو کہاں سے لا کر دو گے اور اگر بیس ہیں اور طلب کم کی گئیں تو بچ رہیں گی اور تمہارے کام آئیں گی۔ ”

اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حدیث ابن عباس اور 20 رکعات تراویح کی روایات پر اعتراضات کے جوابات ۔۔۔

دلیل نمبر1: قال الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي (مـ 235 هـ) : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.

تحقیق السند: اسنادہ حسن و قد تلقتہ الامۃ بالقبول فہو صحیح۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653، السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ.)

اعتراض نمبر 1 ۔ غیرمقلدین کی طرف سے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ابرھیم بن عثمان ابو شیبہ ضعیف ہے ۔ اس کو امام بہیقی ؒ ۔ امام زیلعی ؒ ۔ امام نسائی ؒ ۔ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے ۔ امام بخاریؒ نے اس کے بارے میں سکتوا عنہ اور امام ابو حاتم ؒ نے سکتوا عنہ اور ترکوا حدیثہ فرمایا ہے ۔ امام احمد ؒ نے اس کو منکر الحدیث اور امام ابن عدی ؒ نے اس کو لین کہا ہے اور اس کی حدیث کو انہوں نے اپنی کتاب الکامل میں ابو شیبہ کی مناکیر میں ذکر کیا ہے ۔ امام شعبہ ؒ نے اس کی ایک روایت کے بارے میں کذب کہا ہے ۔ (محصلہ انوار المصابیح ص 169 -177 )

بعض غیر مقلدین تو اس حدیث کو موضوع تک قرار دیتے ہیں ، العیاذ باللہ من ذالک

جواب نمبر 1 ۔

اس روایت کا راوی ابرھیم بن عثمان ابو شیبہ اگرچہ مجروح ہے لیکن یہ اتنا ضعیف نہیں ہے کہ اس کی روایات کو بالکل رد یا موضوع قرار دیا جائے کیونکہ بعض ائمہ رجال نے اس کی توثیق بھی کی ہے چنانچہ امام شعبہ بن الحجاج ؒ نے اس سے روایت لی ہے ۔ ( تہذیب الکمال 1/390 تہذیب التہذیب 1/144

اور غیر مقلدین کے ہاں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ امام شعبہ صرف اسی سے روایت لیتے ہیں جو ثقہ راوی ہو اور اس کی احادیث صحیح ہو ۔ چنانچہ مولانا عبد الرؤف سندھو غیر مقلد لکھتے ہیں ۔ شیخ احمد شاکر ( جو غیر مقلدین کے بڑے عالم تھے ) فرماتے ہیں کہ محمد بن مہران سے شعبہ نے بھی روایت لی ہے اور وہ ثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں ( القول المقبول شرح صلوٰۃ الرسول ص 386 ) علامہ شوکانی اور مولانا عبد الرحمان مبارک پوری وغیرہ مقلدین علماء امام شعبہ ؒ کے بارے میں لکھتے ہیں وھو لا یحمل عن مشائخھم الا صحیح حدیثھم ( نیل الاوطار 1/16 ابکار المنن ص 147 ، 150 وغیرہ ) امام شعبہ ؒ اپنے مشائخ سے صرف وہی حدیثیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے ۔ اس طرح جن جن ثقہ (قابل اعتماد) محدثین نے بیس (٢٠) رکعت کی روایت لی، یہ ان کی قوی تائید ہے ورنہ یہ حضرات اس طرح متفق نہ ہوتے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ابو شیبہ اتنا ضعیف راوی ہے اور اس کی حدیث صحیح نہیں تو پھر امام شعبہ ؒ نے اس سے روایت کیوں بیان کی ہے ؟؟

2 ۔امام ابن عدی ابو شیبہ کے بارے میں فرماتے ہیں : لہ احادیث صالحۃ کہ ابو شیبہ کی احادیث درست ہیں ( تہذیب الکمال 1/ 393 )

( غیر مقلدین کی طرف سے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگرچہ ابن عدی نے ابو شیبہ کی روایات کے بارے میں لہ احادیث صالحہ فرمایا ہے لیکن اس قول سے اس کی مذکورہ روایات کو کیا فائدہ ہوا کیونکہ انہوں نے اس روایت کو ابو شیبہ کی مناکیر میں شمار کیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ مذکورہ روایت اس کی صالح حدیثوں میں شامل نہیں ہے ۔ ( محصلہ انوار المصابیح ص 183 ) وغیرہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اس اعتراض کا جواب خود غیر مقلدین ( مولانا نزیر رحمانی وغیرہ ) نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ امام ابن عدی کسی راوی کی روایت کو منکر شمار کریں تو وہ روایت فی الواقع بھی منکر ہی ہو ۔ چنانچہ مولانا نزیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں : ابن عدی کا یہ صنیع صرف مجروح راوی کیساتھ خاص نہیں اور نہ یہ بات ہے کہ ( جس روایت کو وہ منکر شمار کریں ۔ ناقل ) وہ روایت منکر ہوتی ہے جیسا کہ علامہ مئوی کہہ رہے ہیں بلکہ وہ روایت ذکر کرتے ہیں جس پر جرح و انکار کیا گیا یہ ضروری نہیں کہ فی الواقع وہ منکر بھی ہو ۔ ( انوار المصابیح ص 126 ) اب غیر مقلدوں کے اعتراض کا جواب خود انہی کے علماء کے قلم سے دیئے گئے جواب سے زیادہ بہتر کیا ہوسکتا ہے ۔ )

واضح رہے کہ امام ابن عدی نے شیبہ کی احادیث کو تو صالح کہا ہے لیکن انہوں نے عیسی بن جاریہ ( جو رسول اللہ ﷺ سے مروی گیارہ رکعات والی روایت کے راوی ہیں ) کے بارے میں فرمایا ہے : احادیثہ غیر محفوظہ کہ اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں ۔ تہذیب التہذیب 8/187
اب جس کی روایات صالح اور درست ہیں وہ تو غیر مقلدین کے نزدیک نہایت ضعیف راوی ہے لیکن جس کی احادیث غیرمحفوظ اور شاذ ہیں ، وہ غیر مقلدین کے ہاں اونچے درجے کا ثقہ راوی ہے ۔ غیر مقلدین کا یہ بھی عجیب انصاف ہے ؟؟؟

3 ۔ امام بخاری ؒ کے استاز الاستاذ حضرت یزید بن ہارون ؒ جو ابو شیبہ کے زمانہ قضاء میں ان کے کاتب اور منشی تھے ، وہ بھی ابو شیبہ کے بڑے مداح تھے ۔ چنانچہ وہ اس کے بارے میں یہاں تک فرماتے تھے ۔

ما قضی علی الناس رجل یعنی فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ ۔ ابرھیم ابو شیبہ سے بڑھ کر اپنے زمانے میں کوئی قاضی عادل نہیں ہوا ۔ تہذیب الکمال 1/392

اب جو شخص قضاء اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں اتنا بڑا عادل ہے وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث بیان کرنے میں عادل کیوں نہیں ہوگا ؟؟؟؟ اور راوی کے ثقہ ہونے کیلئے بنیادی طور پر دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں ، ایک ضبط یعنی قوت حافظہ اور دوسری عدالت ۔ چنانچہ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری غیر مقلد لکھتے ہیں : لابد فی کون الشخص ثقۃ من شیئین العدالۃ و الضبط ۔ راوی کے ثقہ ہونے کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں نمبر 1 عدالت نمبر 2 قوت حافظہ ۔۔ ( ابکار المنن ص 169

اب امام ابن عدی کا ابو شیبہ کے بارے میں لہ احادیث صالحۃ کہنا ابو شیبہ کے ضبط اور قوت حافظہ کو ثابت کرتا ہے کیونکہ اس کا حافظہ اگر قوی نہیں تھا تو اس کے پاس صالح اور درست حدیثیں کیسے آگئیں ؟؟؟ اور یزید بن ہارون کی اس شہادت کے بعد تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اونچے درجے کا عادل تھا ۔

4 ۔۔ امام ابن عدی نے ابوشیبہ کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے : وهو وإن نسبوه إلى الضعف خرا من إبراهیم بن أبی حیة،{ تہذیب الکمال ج1 ص393 ) لوگوں نے اگرچہ ابو شیبہ کو ضعف کی طرف منسوب کیا ہے لیکن وہ ابرھیم بن ابی حیہ سے بہتر ہے ۔

اور ابراهیم بن ابی حیہ کے بارے میں امام الرجال حضرت یحیٰ بن معین فرماتے ہیں : ثقۃ کبیر ، یہ شیخ ہیں اور بہت بڑے ثقہ ہیں ۔( لسان المیزان 1/53 )

یہ امام ابن معین کی طرف سے ابرھیم بن ابی حیہ کی زبردست اور مقرر توثیق ہے کیونکہ لفظ ثقۃ الفاظ تعدیل میں سے تو ہے ہی ۔ لفظ شیخ بھی الفاظ تعدیل میں سے ہے ۔ دیکھئے توضیح الکلام 1/480

نیز مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں ۔ اصول حدیث کے طالب پر مخفی نہیں کہ مقرر توثیق تعدیل میں درجہ اول کے الفاظ میں شمار ہوتے ہیں ۔ ( توضیح الکلام 1/268 )

اگرچہ ابن ابی حیہ پر جرح بھی کی گئی ہے (امام نسائی نے اس کو ضعیف ، ابن المدینی نے لیس بشی ، امام ابو حاتم اور امام بخاری نے منکر الحدیث ، اور امام دار قطنی نے اس کو متروک کہا ہے ابن حبان نے بھی اس پر جرح کی ہے ، ( لسان المیزان 1/53 )

لیکن یہ سب جرحین غیر مقلدین کے نزدیک مبہم اور غیر مفسر ہیں کیونکہ اس کی توثیق بھی کی گئی ہے لہذا یہ مختلف فیہ راوی ہے اور غیر مقلدین کے مشہور محدث حافظ محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں : کہ جب راوی مختلف فیہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہوتی ہے ( خیر الکلام ص 238 )

بنابریں جب ابن ابی حیہ اس درجہ کا راوی ہے کہ بقول غیر مقلدین اس کی حدیث حسن ہے تو پھر ابراھیم ابو شیبہ جو اس سے بہتر ہے اس کی حدیث کیوں قابل قبول نہیں ؟؟؟
لہذا جب ابراہیم بن ابی حیہ ثقہ ہے تو ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ بدرجہ اولی ثقہ ہونا چاہیے۔
آپ اپنے جو رو جفا پہ خود ہی ذرا غور کریں

ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
ابو شیبہ پر کی گئی جرحوں کا جائزہ ۔۔

پیچھے ہم یہ بیان کرچکے ہیں ابن ابی حیہ پر جرح بھی کی گئی ہے اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہے ابن ابی حیہ پر جرح (امام نسائی نے اس کو ضعیف ، ابن المدینی نے لیس بشی ، امام ابو حاتم اور امام بخاری نے منکر الحدیث ، اور امام دار قطنی نے اس کو متروک کہا ہے ابن حبان نے بھی اس پر جرح کی ہے ، لسان المیزان 1/53

لیکن یہ سب جرحین خود غیر مقلدین کے نزدیک مبہم اور غیر مفسر ہیں : چنانچہ زبیر علیزئی غیر مقلد لکھتے ہیں : صرف ضعیف یا متروک یا منکر الحدیث کہہ دینا جرح مفسر نہیں ہے ۔ (رسالہ رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص65 ) مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : متروک جرح غیر مفسر ہے ۔ ( تو ضیح الکلام 1/143 ) مولانا نزیر رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں : مستند علماء نے اس ( لفظ منکر الحدیث ) کے جرح مبہم ہونے کی تصریح کی ہے ۔ ( انوار المصابیح ص 119 ) مولانا محمد گوندلوی تو امام بخاری کی جرح منکر الحدیث کو بھی غیر مفسر کہتے ہیں ۔ ( دیکھئے خیر الکلام ص 162 )

پس جب یہ تمام جرحیں خود غیر مقلدین کے نزدیک مبہم ہیں اور متعدد علمائے غیر مقلدین نے تصریح کی ہے جرح مبہم توثیق کے بعد معتبر نہیں ہوتی ۔ چنانچہ مولانا محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں : مبہم جرح توثیق کے بعد مقبول نہیں ہوتی ۔ ( خیر الکلام ص 158 ) مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب فرماتے ہیں : کہ جرح مبہم مضر نہیں ہے ۔ ( دیکھئے ابکار المنن ص 80 وغیرہ ) مولانا نزیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ جب کسی راوی کی تعدیل و توثیق کسی حاذق اور ماہر فن محدث نے کی ہو تو اس کے حق میں جرح مفسر ہی مقبول ہوگی غیر مفسر اور مبہم جرحوں کا اعتبار نہ ہوگا ۔ ( انوار المصابیح ص 138 )

تو اس تفصیل کیساتھ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ابو شیبہ پر جتنی جرحیں کی گئی ہیں ۔ تقریبا وہ سب جرحیں خود غیر مقلدین کے نزدیک بھی مبہم اور غیر مفسر ہیں ۔ مثلا امام ابو داؤد ؒ ، امام بہیقی ؒ اور امام زیلعی ؒ وغیرہ نے اس کو ضعیف اور امام نسائی وغیرہ نے اس کو متروک کہا ہے اور ابن حیہ کے تذکرہ میں غیر مقلدین کے حوالے سے ہم نے بیان کردیا ہے کہ یہ جرحیں مبہم ہیں ۔ نیز یہ بات بھی ہم نے متعدد علمائے غیر مقلدین کے حوالہ سے بیان کردی کہ جرح مبہم مضر نہیں ہے ۔

اب ان جرحوں کی حیثیت خود غیر مقلدین کے مسلمات کی روشنی میں ملاحظہ ہوں ۔
1 ۔ امام بخاری ؒ اور امام ابو حاتم ؒ نے ابو شیبہ کے بارے میں سکتوا عنہ اور ترکوا عنہ فرمایا ہے اور ان دونوں جملوں سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ دوسروں لوگوں کی رائے نقل کی ہے ۔ اور یہ کلام بھی موجب جرح نہیں کیونکہ جرح کرنے والے مجہول ہیں چنانچہ اس قسم کی ایک جرح لینوہ کے بارے میں مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : امام دار قطنی ؒ نے اگر لینوہ کہا ہے تو اس کو لین کہنے والے مجہول ہیں لہذا اس کا کوئی اعتبار نہیں (توضیح الکلام 1/534)

نیز لکھتے ہیں : اگر جارح مجہول ہے تو اہل علم نے جرح قبول نہیں کیا ۔ ( توضیح الکلام 1/534 ) مزید لکھتے ہیں : یہ کلام موجب جرح نہیں کیونکہ یہ مجہول آدمی سے ہے کہ کس نے یہ کہا ہے ۔ (توضیح الکلام 1/534) زبیر علیزئی غیر مقلد لکھتے ہیں : ابن ابی حاتم کا قول تکلموا فیہ کئی لحاظ سے مردود ہے ۔ 2 ۔ یہ جرح غیر مفسر ہے ۔ 3 ۔ اس کا جارح نہ معلوم ہے ۔( نور العنین ص 88 ) کیا ہم بھی غیر مقلدین سے ایسے انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں ؟؟؟ دیدہ باید

2 ۔ امام احمد نے ابو شیبہ کو منکر الحدیث کہا ہے لیکن اول تو یہ جرح بھی غیر مقلدین کے نزدیک مبہم ہے جیسا کہ گزر چکا ۔

ثانیا ۔

امام احمد کی لفظ منکر الحدیث کے بارے میں اصطلاح ہی جدا ہے ۔ چنانچہ مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : امام احمد نے کسی کو منکر الحدیث بالفرض کہا بھی ہو تو اس کی جرح مفسر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ منکر الحدیث امام احمد کی اصطلاح میں اس پر بولا جاتا ہے جو غریب حدیث لائے اور غریب حدیث صحیح بھی ہوسکتی ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/500 مولانا صفدر اپنی تصانیف کے آئینے میں ص 41 )

مولانا محمد گوندلوی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : امام احمد اور اس قسم کے لوگ کسی کو منکر کہتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ قابل احتجاج نہیں ہے ۔ ( خیر الکلام ص 45 )

3 ۔ امام شعبہ نے ابو شیبہ کی مطلق تکذیب نہیں کی بلکہ صرف ایک قصہ میں اس کے بارے میں کذب فرمایا ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں : وکذب شعبۃ فی قصۃ ( تہذیب 1/145 ) اور وہ قصہ کیا تھا ؟؟ اس کو حافظ ذہبی ؒ نے یوں بیان کیا : امام شعبہ نے ابو شیبہ کو اس لئے جھٹلایا کہ اس نے حکم سے یہ روایت بیان کی کہ حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں جنگ صفین میں ستر اہل بدر نے شرکت کی تھی ۔ امام شعبہ نے فرمایا اس نے غلط بیانی کی ۔ واللہ میں اس بارے میں حکم سے مذاکرہ کیا تو ہم نے سوائے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے کسی اہل بدر کو نہیں پایا جس نے جنگ صفین میں شرکت کی ہو ۔ ( میزان الاعتدال 1/23 ) اس بیان سے واضح ہوگیا کہ امام شعبہ ؒ نے ابو شیبہ کی مطلق تکذیب نہیں کی بلکہ صرف ایک واقعہ بیان کرنے میں اسے جھٹلایا ہے اور اس قصہ میں بھی ابو شیبہ کا کوئی قصور نہیں ۔ کیونکہ انہوں نے یہ روایت امام حکم سے نقل کی تھی ۔ اب اگر یہ روایت غلط ہے تو اس میں قصور امام حکم ؒ کا ہے کہ انہوں نے ہی یہ روایت بیان کی نہ کہ ابو شیبہ نے ۔۔

پھر جب شعبہ نے حکم سے اس بارے میں مذاکرہ کیا تو حکم نے بھی یہ انکار نہیں کیا کہ انہوں نے یہ روایت ابو شیبہ سے نہیں بیان کی بلکہ وہ تو الٹا شعبہ کیساتھ اس بارے میں مذاکرہ کیلئے تیار ہوگئے لیکن سوائے ایک کے کسی دوسرے اہل بدری شرکت جنگ صفین میں ثابت نہ کرسکے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکم نے ابو شیبہ کے سامنے یہ روایت ضرور بیان کی تھی ورنہ وہ امام شعبہ سے مذاکرہ کرنے اور ستر 70 اہل بدر کے اسماء ڈھونڈنے کے بجائے صاف انکار کردیتے کہ انہوں نے یہ روایت ہی بیان نہیں کی ۔

پس امام حکم کو بھی تسلیم ہے کہ انہوں نے ابو شیبہ ؒ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔ اب اگر یہ واقعہ غلط ہے تو اس کا قصور امام حکم کے سر ہے کیونکہ وہ ہی صاحب واقعہ ہیں اور دلیل بھی ان کے ذمہ ہے ۔ لہذا حکم کی وجہ سے امام شعبہ ؒ کا ابو شیبہ کی تکذیب کرنا غلط اور ناقابل قبول ہے ۔

امام شعبہ کا دعویٰ کے صفین میں حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی بدری شریک نہیں ہوا ، اور درست نہیں ، یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی ؒ نے امام شعبہ ؒ کی اس جرح کا یوں مزاق اڑایا ہے : قلت سبحان اللہ اما شھدھا علی اما شھدھا عمار (میزان الاعتدال 1/32 ) میں کہتا ہوں کہ سبحان اللہ : کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین میں شرکت نہیں کی تھی ؟؟ کیا حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے شرکت نہیں کی تھی ۔ ( اور یہ دونوں اہل بدر میں سے ہیں )

یعنی امام شعبہ نے صرف اس وجہ سے ابو شیبہ ؒ کی تکذیب کردی کہ بجائے ستر بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے صرف ایک حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی شرکت ثابت ہوسکی حالانکہ امام ذہبی ؒ کے مطابق حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بھی جنگ صفین میں شرکت ثابت ہے ۔ اور معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک بھی ابو شیبہ پر امام شعبہ ؒ کی یہ جرح غلط ہے ۔

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کئ نزدیک بھی شعبہ کی یہ تکذیب قابل قبول نہیں ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب میں ابو شیبہ کے بارے میں متروک الحدیث لکھا ہے ۔ ( دیکھئے انوار المصابیح ص 481 ) اور حافظ نے متروک الحدیث کو الفاظ جرح کے طبقہ عاشرہ میں شمار کیا ہے جبکہ جس راوی پر کذب کی تہمت لگائی گئی ہے اس کو انہوں نے طبقۃ الحادیۃ عشرہ میں شمار کیا ہے اور جس راوی پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے اس کو انہوں نے طبقہ الثانیۃ عشرۃ میں شمار کیا ہے ۔ ( دیکھئے مقدمہ تقریب 1/52 )

لہذا جب حافظ ابن حجر نے ابو شیبہ کو نہ طبقہ حادیہ عشرہ میں شمار کیا اور نہ طبقہ ثانیہ عشرہ میں شمار کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک نہ ابو شیبہ پر کذب کی تہمت صحیح ہے اور نہ اس پر کذب کا اطلاق درست ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ اور ان کی اس کتاب تقریب التہذیب کے متعلق مولانا نزیر احمد رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں : حافظ نے یہ بھی لکھا ہے اس کتاب میں کسی راوی پر وہی حکم لگاؤں گا جو اس کے حق میں کہے گئے اقوال میں سب سے زیادہ صحیح اور اس کے متعلق بیان کئے گئے اوصاف میں زیادہ مناسب ہوگا ۔ ( انوار المصابیح ص 116 بحوالہ تقریب )

پس جب بقول مولانا رحمانی حافظ ابن حجر کے نزدیک ابو شیبہ کے بارے میں تکذیب کا قول غیر صحیح اور غیر مناسب ہے تو پھر غیر مقلدین کس منہ سے ابو شیبہ کی تکذیب پر کمربستہ ہیں ۔؟؟

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے

ثانیا :

یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں کذب قصدا جھوٹ بولنے کے معنی میں نہ ہو کیوں کہ کذب کا اطلاق صرف قصدا جھوٹ بولنے پر نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اس کا اطلاق کسی بات کو بلا تحقیق نقل کرنے پر بھی ہوتا ہے ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس کی کئی مثالیں مقدمہ فتح الباری میں ذکر کی ہیں ۔ ( دیکھئے رکعات تراویح ص 57 مؤلفہ مولانا حبیب الرحمان اعظمی ؒ )

اور یہی معنیٰ قرین قیاس ہے کیوں کہ امام شعبہ ؒ جنہوں نے خود ابرھیم ابو شیبہ سے روایت لی ہے ( اور غیر مقلدین کو اقرار ہے کہ وہ صرف ثقہ راوی سے روایت لیتے ہیں ) وہ کیسے ابو شیبہ کو جھوٹا کہہ سکتے ہیں ۔

اس صورت میں کذب کا مطلب ہوگا کہ ابو شیبہ نے بلا تحقیق حکم کی روایت کو آگے بیان کردیا کہ جنگ صفین میں ستر بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شرکت کی تھی ، فلا اشکال ۔ یا یہاں کذب خطاء کے معنیٰ میں ہے یعنی ابو شیبہ سے یہ روایت بیان کرنے میں خطاء اور غلطی ہوئی ہے کیوں کہ کذب خطاء کے معنیٰ میں بھی آتا ہے ، چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : وقد یطلق الکذب علی الخطاء ۔ ( مقدمہ فتح الباری ص 181 )

علامہ طاہر صدیقی اور علامہ ابن الاثیر جزری ؒ لکھتے ہیں : وقد استعملوا الکذب علی الخطاء ۔ ( مجمع بحار الانوار 4/390 النھایہ 4/159 )

محدثین کبھی کبھی کذب کو خطاء کے معنیٰ میں بھی استعمال کرتے ہیں ۔

غیر مقلدین حضرات بھی ضرورت پڑنے پر کذب کو خطاء کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں چنانچہ امام مالک ؒ نے حدیث کے ایک راوی محمد بن اسحاق کو کذاب ( بہت بڑا جھوٹا ) قرار دیا ہے ۔ اس پر مولانا ارشاد الحق اثری امام یحییٰ بن معین ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں غالبا انہوں ( یعنی امام مالک ناقل ) نے کلام میں غلطی ( خطاء ) کی بنا پر کذاب کہا ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/240 )

کیا غیر مقلدین ابراہیم ابو شیبہ کے ساتھ یہی انصاف کریں گے ؟؟

ثالثا :

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ کذب یہاں اپنے اصلی معنیٰ ( جھوٹ ) میں ہی مستعمل ہے تو پھر امام شعبہ کی طرف سے ابو شیبہ پر یہ ایک جرح ہے لیکن امام شعبہ کا اس سے روایت لینا اس کی توثیق ہے ( جیسا کہ غیر مقلدین کے حوالے سے گزر چکاہے ) اور مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں : ایک ہی امام کے قول میں اختلاف ہو تو ترجیح توثیق کو ہوتی ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/523 )

پس بالفرض اگر امام شعبہ نے ابو شیبہ کی تکذیب بھی کی ہے تو اس سے روایت لے کر اس کی توثیق کردی ۔ لہذا ان کی توثیق کرنا ان کے جرح کرنے پر راجح ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

5 ۔ مولانا نزیر رحمانی صاحب علامہ زیلعی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ابن عدی نے اس ( ابرہیم ابو شیبہ ) کو لین کہا ہے ۔ ( انوار المصابیح ص 170 ) اب لین کا لفظ الفاظ جرح میں کس درجہ کا ہے ؟؟؟ اس کا جواب خود مولانا رحمانی کے قلم سے ملا حظہ فرمائیں ۔ چنانچہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں : محدثین نے فیہ لین اور لین الحدیث کو بہت ہلکے اور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں شمار کیا ہے ۔ ( ا نوار المصابیح ص 115 ) نیز لکھتے ہیں : معلوم ہوا کہ جس راوی کے متعلق فیہ لین یا لین الحدیث کہا ہو اس کی روایت قابل جرح و ترک نہیں ہے ۔ (نوار المصابیح ص 170 )

قارئین :

یہ ہیں ابو شیبہ پر کی گئی مبہم اور غیر متعلق جرحیں جو خود غیر مقلدین کے ہاں بھی قابل قبول نہیں ۔ اور اس آخری جرح سے تو یہ معلوم ہوگیا کہ ابو شیبہ اگرچہ مجروح اور کمزور راوی ہے لیکن یہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ اس کی حدیث کو ترک کردیا جائے لیکن اس کے باوجود غیر مقلدین کا تعصب اور ان کی بے انصافی ملاحظہ کریں کہ جو جرحیں خود ان کے نزدیک بھی ناقابل قبول ہیں ، ان ہی کے بل بوتے وہ ابو شیبہ کو کس طرح سے سخت سے سخت ضعیف قرار دیکر اس کی یہ بیس تراویح والی روایت کو موضوع تک قرار دینے سے نہیں چوکتے ، اس کی وجہ محض یہ ہے کہ یہ روایت ان کے مذہب کے خلاف ہے لیکن یہی راوی ابو شیبہ جب ان کے مذہب کے موافق کوئی روایت نقل کرتا ہے تو پھر ابو شیبہ نہ تو ضعیف ہے اور نہ اس کی روایت موضوع ہے ۔ والی اللہ المشتکیٰ ۔ مثلا مشہور غیر مقلد لکھاری مولانا صادق سیالکوٹی صاحب کی کتاب صلوٰۃ الرسول غیر مقلدین کے درمیان نہایت مشہور اور معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے اور یہ کتاب غیر مقلدین کے تمام اکابر ( مولانا داؤد غزنوی ۔ مولانا اسماعیل سلفی ۔ مولانا عبد اللہ امرتسری ۔ مولانا نور حسین گرجاگھی ۔ مولانا احمد دین لتھا گھگڑوی اور مولانا محمد گوندلوی وغیرہ کی مصدقہ ہے ۔ اس کتاب میں سیالکوٹی نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی دلیل کے طور پر ابن ماجہ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے ۔ ( صلوٰۃ الرسول ص 434 ) حالانکہ یہ روایت بھی ترمذی اور ابن ماجہ میں اسی ابو شیبہ سے مروی ہے لیکن پھر بھی مولانا سیالکوٹی صاحب بڑے طمطراق سے اس روایت سے استدلال کر رہے ہیں اور خود انہوں نے بھی اور ان کی کتاب کے تمام مصدقین نے بھی اس روایت کے راوی ابو شیبہ ؒ کے ضعف کی طرف ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کیا ۔ یہ ہے غیر مقلدین کا انصاف ۔

ع ایں گنا ہیست کہ در شھر شما نیز کنند

بہر حال ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ابو شیبہ مجروح راوی ہے لیکن اس کی روایت کو موضوع کہنا اور بالکل رد کردینا یہ بے انصافی ہے ۔ اگر یہ ہماری بات تسلیم نہ ہو تو آیئے اہلسنت و الجماعت اور غیر مقلدین دونوں کی مسلمہ شخصیت اور غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نزیر حسین دہلوی صاحب کے استاذ الاستاذ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی ؒ کی بات کو مان لیا جائے ۔ چنانچہ شاہ صاحب اپنے فتاوی میں اسی بیس تراویح والی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ۔ امام بہیقی این روایت را تضعیف نمودہ بعلت آنکہ راوی ایں حدیث جد ابی بکر ابی شیبہ است حالانکہ جد ابی بکر ابی شیبہ آں قدر ضعف ندارد کہ روایت او مطروح ساختہ شود ۔ ( فتاویٰ عزیزیہ 1/119)

بہیقی نے اس روایت کو اس بنا پر ضعیف قرار دیا ہے کہ اس روایت کا ایک راوی ابو شیبہ جو ابوبکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے ضعیف ہے حالانکہ ابوبکر ابن ابی شیبہ کا دادا اس قدر ضعیف نہیں کہ اس کی روایت کو مسترد کردیا جائے ۔

یہ ہے اس شخصیت کا فیصلہ جس کو خود غیر مقلدین بھی اپنا پیشوا مانتے ہیں ۔

ضد چھوڑیئے بر سر انصاف آیئے
انکار ہی رہے گا میری جان کب تلک

جواب ثانی :

اس حدیث کی سند کو اگرچہ کتنا ہی ضعیف مان لیا جائے لیکن بہرحال یہ بات ضرور ہے کہ اس حدیث کا متن بالکل صحیح اور قابل عمل ہے ( جس طرح حدیث کی سند کا صحیح ہونا اس کے متن کی صحت کو مستلزم نہیں کما قالہ المبارکپوری فی ابکار المنن ص 28 ۔ اسی طرح سند کا ضعیف ہونا بھی اس کے متن کے ضعف کو مستلزم نہیں چنانچہ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری امام ترمذی کے قول ھذا الحدیث لا یصح من قبل اسنادہ ( یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے ) کے تحت لکھتے ہیں ای من جھۃ اسنادہ وان کان صحیحا باعتبار معناہ ۔ تحفۃ الاحوذی 1/146 ۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اگرچہ اس کا معنیٰ ( مضمون ) صحیح ہے ۔ معلوم ہوا کہ کوئی حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود مضمون کے لحاظ سے صحیح ہوسکتی ہے جیسا کہ یہ مذکورہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ہے )کیونکہ اس حدیث تلقی بالقبول حاصل ہے کہ تمام امت نے بالاتفاق اس کے مضمون ( بیس رکعات تراویح ) کو عملی طور پر قبول کیا ہے ۔ خصوصا حضرات خلہفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور مسعود میں اس حدیث کو شرف قبولیت حاصل رہا ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےاس کے مضمون پر اجماع اور اتفاق کیا ہے ۔یہ بات خود غیر مقلدین کے اکابر کو بھی تسلیم ہے ۔ چنانچہ غیر مقلدین کے رئیس المحققین نواب صدیق حسن خان صاحب یہ حقیقت بے چوں و چرا تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وقد عدوا ما وقع فی زمن عمر کالاجماع ( عون الباری 1/317 ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو طریقہ بیس تراویح کا رائج ہوا اس کو علماء نے مثل اجماع کے شمار کیا ہے ۔ مولانا وحید الزماں غیر مقلد رقم طراز ہیں : کوئی یہ وہم نہ کرے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے ( تراویح کی جماعت مقرر کرکے ۔ ناقل ) دین میں ایک بات شریک کردی جسکا اختیار ان کو نہ تھا ۔ اسی طرح بیس رکعات تراویح کا حکم اپنی رائے سے دے دیا ۔

حاشا وکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسا کرتے بلکہ انہوں نے طریقہ نبوی ﷺ کا اتباع کیا ۔آنحضرت ﷺ کی حیات میں ایک ہی امام کے پیچھے سب نے تراویح پڑھی ۔ ایک مسجد میں متعدد جماعتیں ایک ہی وقت آنحضرت ﷺ کے عھد میں کبھی نہیں ہوئیں ۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضرور آنحضرت ﷺ کو بیس رکعتیں تراویح کی پڑھتے ہوئے دیکھا ہوگا ۔ گو ہم تک یہ روایت بہ سند صحیح نہیں پہنچی ۔ اس کی سند میں ابو شیبہ ابر ہیم بن عثمان منکر الحدیث ہے ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ اس سے بہت پہلے تھا ۔ ان کو بہ سند صحیح یہ پہنچ گئی ہوگی یا انہوں نے خود دیکھا ہوگا ۔ ( لغات الحدیث مادہ وزغ )
مولانا میاں غلام رسول صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ائمہ اربعہ اور مسلمانوں کی عظیم جماعت کا عمل یہ ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لیکر اس وقت تک مشرق و مغرب میں تئیس 23 ) بیس 20 تراویح اور تین 3 وتر ) ہی پڑھتے ہیں ، ( رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص 28 )ان اقتباسات سے معلوم ہوا کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود تعامل اور توارث سے مؤید ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امت مسلمہ کی طرف سے اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ طے شدہ اصول ہے کہ جس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہوجائے وہ سند کے اعتبار سے کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو پھر بھی وہ قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے ۔ چنانچہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : بعض ضعف ایسے بھی ہیں جو امت کی تلقی بالقبول سے رفع ہوگئے ہیں ۔ ( اخبار اہلحدیث 19 اپریل 1907 بحوالہ رکعات تراویح ص61)

فتاوی علمائے حدیث میں ہے ۔ ضعیف حدیث جبکہ قرون مشہود لھا بالخیر ( خیر القرون ۔ناقل ) میں معمول بہ ہو وہ امت کے ہاں مقبول ہے ۔ (فتاوی علمائے حدیث 6/74) نواب صدیق حسن خان صاھب غیر مقلد لکھتے ہیں : اگر کوئی حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف بھی ہو لیکن اس کے مضمون پر پوری امت کا عمل ہو تو اس حدیث پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اس کو ضعیف کہنے والے علماء بھی اس پر عمل کرتے ہیں ۔ (الروضۃ الندیہ ص6 )
علامہ ابن حزم ظاہری غیر مقلد لکھتے ہیں : جب کوئی مرسل حدیث ہو یا کوئی ایسی حدیث ہو جس کے راوی میں ضعف ہو اور ہم دیکھیں کہ سب لوگوں کا اس پر اجماع ہے اور سب اس کے قائل ہیں تو یقینا ہم یہ جان لیں گے کہ وہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ( توجیہ النظر ص 50 بحوالہ تسکین الصدور ص33 )

قاضی محمد شوکانی غیر مقلد ایک حدیث کی تحقیق میں امام خطابی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں : یہ ایسی حدیث ہے کہ اس کے قبول کرنے پر فقہاء نے بالاتفاق اس حدیث کو قبول کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے جیسا کہ فقہاء نے لا وصیۃ لوارث والی روایت کو قبول کرکے اس سے احکام مستنبط کیے ہیں حالانکہ اس کی سند میں جو ضعف ہے وہ ظاہر ہے ۔ ( نیل الاوطار 5/238 )

مولانا اسماعیل سلفی صاحب غیر مقلد ( سابق ناظم اعلیٰ جمعیت اہل حدیث ) ابن ماجہ کی ایک ضعیف روایت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وقد قبل جمہور الامۃ روایۃ ابن ماجہ مع ضعفھا ۔ ابن ماجہ کی اس حدیث کو ضعیف ہونے کے باوجود جمہور امت نے قبول کیا ہے ۔ ( حرکۃ انطلاق الفکری ص441 ) پس جب اکابرین غیر مقلدین کو بھی تسلیم ہے کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور ان کو یہ بھی اقرار ہے کہ اگر کوئی حدیث ضعیف بھی ہو تو تلقی بالقبول کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے ۔ لہذا یہ حدیث خود غیر مقلدین کے مسلمات کی روشنی میں بھی بالکل صحیح اور قابل عمل ہے
بعض غیر مقلدین تو ابو شیبہ کی روایات کو موضوع تک قرار دیتے ہیں جبکہ غیر مقلدین کا ابرہیم ابو شیبہ کی روایات کو موضوع کہنا باطل ہے ۔ اولا ۔ آج تک کسی بھی معتبر اور ثقہ محدث نے اس کو موضوع نہیں کہا ورنہ دلیل پیش کی جائے ۔ دیدہ باید ۔ ثانیا ۔ ابو شیبہ کی کم از کم ایک روایت ترمذی میں بھی موجود ہے اور غیر مقلدین کے مشہور محقق مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب نے تصریح کی ہے کہ ترمذی میں ایک بھی موضوع حدیث نہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : قلت الاحادیث الضعاف موجودۃ فی جامع الترمذی و قد بین الترمذی نفسہ ضعفھا وابان علتھا و اما وجود الموضوع فیہ فکلا ثم کلا ۔ میں کہتا ہوں کہ ضعیف حدیثیں ترمذی میں موجود ہیں اور خود ترمذی نے ان کا ضعف بیان کیا ہے اور ان کی علت کو ظاہر کیا ہے ۔ باقی رہا اس میں موضوع حدیث کا وجود تو وہ ہرگز ہرگز نہیں ہے ۔ پس جب ترمذی میں ایک بھی حدیث موضوع نہیں ہے تو پھر ابو شیبہ کی احادیث کیسے موضوع ہیں حالانکہ اس کی حدیث بھی ترمذی میں موجود ہے ۔( تحفۃ الاحوذی 1/181 )

حدیث ابن عباس سےعلماء کا استدلال

علامہ ابن الجوزی الحنبلی ؒ الوفاء باحوال المصطفیٰ ص 560 میں بیس رکعات نماز تراویح کے ثبوت کیلئے حدیث ابن عباس پیس فرماتے ہیں ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ الحنفی ؒ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا قیام رمضان بیس رکعت تھا کما جاء فی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسا کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں موجود ہے ۔ ( تحفۃ الاخیار ص 211 )

شاہ عبد العزیز محدث دہلویالحنفی ؒ فرماتے ہیں کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ صحیح و سالم ہے ، اور قابل عمل ہے کیونکہ فعل صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ ( فتاویٰ عزیزی ص 452 )

علامہ ابن قدامہ الحنبلی ؒ فرماتے ہیں کہ بیس رکعات نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے ، واول من سنۃ رسول اللہ ﷺ و نسبت الی عمر لانہ جمع الناس علی ابی بن کعب ۔ سب سے پہلے اسے آنحضرت ﷺ نے سنت قرار دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت صرف اتنی ہے کہ انہوں نے قوم کو ( ایک امام ) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کردیا ۔ ( مغنی ابن قدامہ جلد 1 ص 800 )

یہاں تک کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں : التراویح عشرون رکعۃ سنۃ مؤکدۃ ولم یخرجہ عمر من تلقاء نفسہ ۔ بیس رکعات تراویح سنت موکدہ ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے ایجاد نہیں کیں ۔ ( فیض الباری جلد 2 ص 42 )

گویا رکعات تراویح کیلئے اسلاف کا حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے استدلال موجود ہے ۔اور ہم نے یہ بھی ثابت کیا کہ بعض ائمہ نے ابرہیم کی توثیق بھی کی ہے جیسے ابن عدی ؒ اور امام بخاری کے استاد کے حوالہ سے ہم بیان کرچکے ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں پیچھے ہی دیکھ لیا جائے ۔ لیکن یہ بات ہم بار بار واضح کرنا چاہیں گے کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہمارا استدلال صحت سند کی بنیاد پر نہیں بلکہ امت کے تلقی بالقبول کی بنیاد پر ہے ۔ غیر مقلدین میں اگر اخلاقی جرات ہے تو وہ اس اعتبار سے اس روایت کی تردید کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ھل منکم رجل رشید ؟؟؟

دلیل نمبر2:

روی الامام المورخ أبو القاسم حمزة بن يوسف السھمی الجرجانی (م427ھ): حدثنا أبو الحسن علی بن محمد بن أحمد القصری الشخ الصالح رحمه الله حدثنا عبد الرحمن بن عبد المؤمن العبد الصالح قال أخبرنی محمد بن حمد الرازی حدثنا عمر بن هارون حدثنا إبراهیم بن الحناز عن عبد الرحمن عن عبد الملك بن عتكے عن جابر بن عبد الله قال خرج النبی صلى الله علیه و سلم ذات لیلة فی رمضان فصلى الناس أربعة وعشرین ركعة وأوتر بثلاثة
اسنادہ حسن و رواتہ ثقات۔

(تاريخ جرجان للسہمی ص317، فی نسخۃ 142)

فائدہ: اس روایت میں چار رکعت فرض، بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔

اعتراض:

اس میں دو راوی ہیں؛ محمد بن حميد الرازی اور عمر بن ہارو ن البلخی اور دونوں ضعیف ہیں۔

جواب:

یہ حسن الحدیث درجہ کے راوی ہیں۔

محمد بن حميد الرازی : (م248ھ)
آپ ابوداود ،ترمذی، ابن ماجہ، کے را وی ہیں ۔
( تہذیب التھذیب ج:5ص:547)
اگرچہ بعض محدثین سے جر ح منقول ہے لیکن بہت سے جلیل القدر ائمہ محدثین نے آ پ کی تعدیل و تو ثیق اور مدح بھی فر ما ئی ہےمثلا
1 ۔ امام احمدبن حنبل :وثقہ (ثقہ قراردیا )۔
(طبقات الحفاظ للسیوطی ج:1ص:40)

اور ایک بار فر ما یا ”لایزال با لری علم مادام محمد بن حمید حیاً“۔(جب تک محمد بن حمید زند ہ ہیں مقام ری میں علم با قی رہے گا )
(تہذیب الکمال للمزی ج:8ص:652)

2 ۔ امام یحی بن معین: ثقۃ ،لیس بہ باس، رازی کیس [ثقہ ہے اس احا دیث پر کو ئی کلام نہیں ، سمجھ دار ہے] (ایضاً)

3 ۔ امام جعفر بن عثمان الطیالسی: ثقۃ۔( تہذیب الکمال ج:8ص:653

4 ۔ علامہ ابن حجر :الحافظ [حافظ ہے]۔
( تہذیب التھذیب ج:5ص:547)

5 ۔ علامہ ہیثمی ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : ” وفی اسناد بزار محمد بن حمید الرازی وھو ثقۃ “[بزاز کی سند میں محمد بن حمید الرازی ہے اور وہ ثقہ ہے ]۔
(مجمع الزوائد ج:9ص:475)

چونکہ اس پر کلام ہے اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہے،لہذا اصولی طور پر یہ حسن درجہ کا راوی ہے ۔

عمر بن ہارو ن البلخی : (م294ھ)

آپ ترمذی اور ابن ماجہ کے را وی ہیں۔ بعض حضرات نے جر ح کی ہے لیکن بہت سے ائمہ نے آپ کی تعدیل وتوثیق اور مدح وثناء میں یہ الفا ظ ارشاد فر ما ئے ہیں

”الحافظ،الامام ،المکثر، عالم خراسان ،من اوعیۃ العلم“[علم کا خزانہ تھے ]کثیر الحدیث ، وارتحل [حصول علم کے اسفار کئے ] ثقۃ ،مقارب الحدیث ۔

(تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج:1ص:248،249،سیر اعلام النبلاء ج:7ص:148تا 152،تہذیب التہذیب ج:4ص:315تا317)

لہذا اصولی طور پر آپ حسن الحدیث درجہ کے راوی ہیں ۔
حدیث نمبر 3 : انہ ﷺ صلی بالناس عشرین رکعة لیلتین فلما کان فی اللیلة الثالثہ اجتمع الناس فلم یخرج اليہم، ثم قال من الغد وخشیت ان تفرض عليکم فلا تطیقوھا متفق علی صحتہ۔ (تلخیص الحبیر ج1ص21 المکتبہ الاثرىہ)

ترجمہ: آپ ﷺ نے صحابہ کو بیس رکعات تراوىح دو راتیں پڑھائیں پس جب تیسری رات ہوئی تو صحابہ کرام جمع ہوگئے آپﷺ باہر تشریف نہیں لائىں پھر آپﷺ نے دوسرے دن فرمایا مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ تم پر یہ نماز (تراویح) فرض نہ کر دی جائے پس تم اس کی طاقت نہ رکھو۔


………………………………………………………………………………………………………………………..

20 رکعات نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے

نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نمازِ تراویح فرض نہیں؛ بلکہ سنت موٴکّدہ ہے۔ البتہ ۱۴۰۰ سال سے جاری عمل کے خلاف بعض حضرات ۲۰ رکعت نمازِ تراویح کو بدعت یا خلاف ِسنت قرار دینے میں ہر سال رمضان اور رمضان سے قبل اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ صرف کرتے ہیں، جس سے امت مسلمہ کے عام طبقہ میں انتشار پیدا ہوتا ہے؛ حالانکہ اگر کوئی شخص ۸ کی جگہ ۲۰ رکعت پڑھ رہا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہی تو ہے؛ کیونکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ساری امت مسلمہ متفق ہے کہ رمضان کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے، نیز حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے امت مسلمہ جماعت کے ساتھ ۲۰ ہی رکعات تراویح پڑھتی آئی ہے، حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں آج تک کبھی بھی ۸ رکعات تراویح نہیں پڑھی گئیں۔

اس موضوع سے متعلق احادیث کا جتنا بھی ذخیرہ موجود ہے، کسی بھی ایک صحیح ،معتبر ،اور غیرقابل نقد وجرح حدیث میں نبی اکرم ﷺ سے تراویح کی تعداد رکعت کا واضح ثبوت نہیں ملتا ہے، اگرچہ بعض احادیث میں جن کی سند میں یقینا کچھ ضعف موجود ہے ۲۰ رکعت کا ذکر ملتا ہے۔

خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں بیس رکعت تراویح اورتین رکعت وتر جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام ہوا،جیساکہ محدثین،فقہاء ، موٴرخین اور علماء کرام نے تسلیم کیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ان خلفاء راشدین میں سے ہیں، جن کی بابت نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اسی کو ڈاڑھوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام عینِ سنت ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ۲ ص ۴۰۱، ج ۲۲ ص ۴۳۴)

ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات ۵۷ یا ۵۸ ہجری میں ہوئی او ر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ۱۵ ہجری میں تراویح کی جماعت حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باقاعدہ شروع فرمائی، اگر بیس رکعات تروایح کا عمل بدعت ہوتا تو ۴۲سال کے طویل عرصہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا آٹھ رکعت والی حدیث کو بیس رکعت پڑھنے والوں کے خلاف پیش کرنا ثابت ہوتا؛ حالانکہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم ؒ (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں ثابت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے آج تک حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں کبھی بھی ۲۰ سے کم تراویح نہیں پڑھی گئیں۔

تراویح کے معنی:

بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہوگیا کہ ہر دوسلاموں (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)

نماز تراویح کی فضیلت:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں؛ بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔

نماز تراویح کی تعدادِ رکعت:

تراویح کی تعداد ِرکعت کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعت میں یقینا گنجائش ہے۔ جمہور محدثین اورفقہاء کی رائے ہے کہ تراویح ۲۰رکعات پڑھنی چاہئیں۔ تراویح کی تعداد ِرکعت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں۔ جمہور محدثین،فقہائے کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کے نقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس کے انہوں نے مختلف دلائل دیے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں :

(۱) امام بخاری ؒ نے اپنی مشہور کتاب (بخاری) میں نمازِ تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں؛ جبکہ نماز تراویح کو (کتاب صلاة التراویح) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، جیساکہ جمہور علماء اور ائمہٴ اربعہ نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی نماز ہوتی تو امام بخاری ؒ کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاریؒ نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔

(۲) تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، اور اِس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔

(۳) اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ ۲۰ رکعت تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اِس پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ (دنیا کی کسی کتاب میں ، کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ۲۰رکعت تراویح کے شروع ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے) اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ ۸ رکعت تراویح کی جگہ ۲۰ رکعت تراویح شروع کردیتے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم تو ایک ذرا سی چیز میں بھی آپ ﷺ کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے۔ اور نبی اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم میں ہم سے بہت زیادہ تھا؛ بلکہ ہم (یعنی آج کے مسلمان) صحابہ کی سنتو ں پر عمل کرنے کے جذبہ سے اپنا کوئی مقارنہ بھی نہیں کرسکتے۔ نیز نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : ہم خلفاء راشدین کی سنتوں کوبھی مضبوطی سے پکڑلیں۔ (ابن ماجہ)

(۴) اگر اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نماز سے ہے (اور تہجد و تراویح ایک نماز ہے) تو رمضان کے آخری عشرہ میں نمازِ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟

(۵) اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص ۵۸، نسائی ج۱ ص ۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲) ۔

علامہ شمس الدین کرمانی ؒ(شارح بخاری) تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ ؒ کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔ (الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۵۵۔۱۵۶)

حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ گیارہ رکعت (وتر کے ساتھ) پڑھتے تھے وہ تہجد کی نماز تھی۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔ (مجموعہ فتاوی عزیزی ص ۱۲۵)

نمازِ تراویح نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ﷺ نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ، الترغیب فی صلاة التراویح)․․․․․․اِن دو یا تین رات کی تراویح کی رکعات کے متعلق کوئی تعداد احادیثِ صحیحہ میں مذکور نہیں ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے؛ لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جو شخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ ا کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاة التراویح)

صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی؛ البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یقینا تبدیلی ہوئی ہے، اس تبدیلی کی وضاحت مضمون میں محدثین اورفقہائے کرام کی تحریروں کی روشنی میں آرہی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت (جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے) میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے؛ کیونکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص۵۸، نسائی ج۱ ص ۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے۔

امام محمد بن نضر مروزی ؒ نے اپنے مشہور کتاب (قیام اللیل ، ص ۹۱ اور ۹۲) میں قیام رمضان کا باب باندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں؛ مگر مذکورہ بالا حدیث ِعائشہ نقل نہیں فرمائی؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔

علامہ ابن قیم ؒ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (زاد المعاد ص ۸۶) میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق حافظ حدیث امام قرطبی ؒ کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب مانتے ہیں۔ (عینی شرح بخاری ج۷ ص ۱۸۷)

نمازِ تراویح خلفاء راشدین کے زمانے میں:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں کتنی تراویح پڑھی جاتی تھیں، احادیث صحیحہ میں صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کا کوئی واضح عمل مذکور نہیں ہے۔ گویا اس دور کا معمول حسب سابق رہا اور لوگ اپنے طور پر نماز تراویح پڑھتے رہے، غرضے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت (یعنی دو رمضان) میں نماز تراویح باقاعدہ جماعت کے ساتھ ایک مرتبہ بھی ادا نہیں ہوئی ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو دیکھا کہ تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا، اور عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت ۲۰ رکعت نماز تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔

حضرت عبد الرحمن قاری ؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کردیا ۔ ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسری رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کررہے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس آخری حصہ (تہجد) میں سوجاتے ہو ،وہ اس (تراویح) سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں کھڑے ہوکر گزارتے ہو۔ (موٴطا امام مالک ؒ، باب ماجاء فی قیام رمضان)

حضرت یزید بن رومان ؒ فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۲۳ رکعت (۲۰ تراویح اور۳وتر) ادا فرماتے تھے۔ (موٴطا امام مالک ؒ، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص ۹۸)

علامہ بیہقی ؒ نے کتاب المعرفہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت سائب بن یزید ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں ہم ۲۰ رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ امام زیلعی ؒ نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (نصب الرای ج ۲ ص ۱۵۴)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز پڑھائیں؛ چنانچہ فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قراءت اچھی طرح نہیں کرسکتے۔ اگر آپ رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو بہت اچھا ہوگا۔ پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں ۲۰ رکعتیں پڑھائیں۔ (مسند احمد بن منیع بحوالہ اتحاف الخیرة المہرة للبوصیری علی المطالب العالیہ ج۲ ص ۴۲۴)

موطا امام مالک میں یزید بن خصیفہ ؒ کے طریق سے سائب بن یزید ؒ کی روایت ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح تھیں۔ (فتح الباری لابن حجر ج ۴ ص ۳۲۱، نیل الاوطار للشوکانی ج۲ ص ۵۱۴)

حضرت محمد بن کعب القرظی ؒ (جو جلیل القدر تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔ ( قیام اللیل للمروزی ص ۱۵۷)

حضرت یحییٰ بن سعید ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ (مصنف بن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر جمع فرمایا۔ وہ لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔ (ابو داوٴد ج۱ ص ۲۱۱، باب القنوت والوتر)

حضرت سائب بن یزید ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں تین رکعت (وتر) اور بیس رکعت (تراویح) پڑھی جاتی تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۰۱، حدیث نمبر ۷۷۶۳)

حضرت سائب بن یزید ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہم ۲۰ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے، اور قاری صاحب سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج۲ ص ۴۹۶)

حضرت ابو الحسناء ؒ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)

حضرت ابو عبدالرحمن السلمی ؒ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا۔ پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خود انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)

نماز ِ تراویح سے متعلق صحابہ وتابعین کا عمل:

حضرت اعمش ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معمول بھی بیس رکعت تروایح اور تین رکعت وتر پڑھنے کا تھا۔ (قیام اللیل للمروزی ص ۱۵۷)

حضرت حسن بصری ؒحضرت عبد العزیز بن رفیع ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)

حضرت عطا بن ابی رباح ؒ (جلیل القدر تابعی، تقریباً ۲۰۰ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت کی ہے) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ ) کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے پایا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)

حضرت ابراہیم نخعی ؒ (جلیل القدر تابعی، کوفہ کے مشہور ومعروف مفتی) فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت پڑھتے تھے۔ (کتاب الآثار بروایت ابی یوسف ص ۴۱)

حضرت شیتر بن شکل ؒ (نامور تابعی، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد) لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)

حضرت ابو البختری ؒ (اہل کوفہ میں اپنا علمی مقام رکھتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے شاگرد) ۔ آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)

حضرت سوید بن غفلہ ؒ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت کی ہے)۔ آپ کے بارے میں ابو الخضیب ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ ؒ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)

حضرت ابن ابی ملیکہ ؒ (جلیل القدر تابعی، تقریباً تیس صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت سے مشرف ہوئے) آپ کے متعلق حضرت نافع بن عمرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی ملیکہ ؒ ہمیں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)

نماز ِ تراویح سے متعلق اکابرین امت کے اقوال:

امام ابو حنیفہ ؒ: علامہ ابن رشد ؒ لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے ہاں قیام رمضان بیس رکعت ہے۔ (بدایہ المجتہد ج۱ ص ۲۱۴)

امام فخر الدین قاضی خان ؒ لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔ (فتاوی قاضی خان ج۱ ص۱۱۲)

علامہ علاء الدین کاسانی حنفی ؒ لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کا صحیح قول یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)

امام مالکؒ: امام مالک ؒ کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی ۳۶ رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی ؒ فرماتے ہیں کہ امام مالک ؒ نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔ (بدایہ المجتہد ج۱ ص ۲۱۴)

مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کرلیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کردیں تو اس طرح امام مالک ؒ کی ایک رائے میں ۳۶ رکعت (۲۰ رکعت تراویح اور ۱۶ رکعت نفل) ہوگئیں۔

امام شافعی ؒ: امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔ (قیام اللیل ص ۱۵۹) ایک دوسرے مقام پر امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔ (ترمذی ج ۱ ص ۱۶۶) علامہ نووی شافعی ؒ لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے، اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل ؒ اور امام داوٴد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض ؒ نے بیس رکعت تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)

امام احمد بن حنبلؒ: فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ ؒ لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبلؒ ) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور حضرت سفیان ثوری ؒ بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ کا استدلال حضرت یزید و علی رضی اللہ عنہ کی روایات سے ہے۔ ابن قدامہ ؒ کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ جس چیز پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم عمل پیرا رہے ہوں ، وہی اتباع کے لائق ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج۲ ص۱۳۹، صلاة التراویح)

امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ تراویح میں بیس رکعت ہیں، حضرت سفیان ثوریؒ، ابن مبارک ؒ اور امام شافعی ؒ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ کو بیس رکعت پڑھتے دیکھا۔ (ترمذی، ما جاء فی قیام شہر رمضان) امام ترمذی ؒ نے اس موقع پر تحریر کیا ہے کہ بعض حضرات مدینہ منورہ میں ۴۱ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ لیکن امام ترمذی ؒ نے اہل مکہ یا اہل مدینہ میں سے ۸ تراویح پر کسی کا عمل نقل نہیں کیا۔

مسلم شریف کی سب سے مشہور ومعروف شرح لکھنے والے علامہ نووی ؒ جو ریاض الصالحین کے مصنف بھی ہیں فرماتے ہیں کہ قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور تمام علماء متفق ہیں کہ یہ نماز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے؛ البتہ اس میں کچھ اختلاف ہے کہ گھر میں اکیلا پڑھنا بہتر ہے یا مسجد میں باجماعت؟ تو امام شافعی ؒ ، امام ابو حنیفہ ؒ، امام احمد بن حنبل ؒ، بعض مالکی اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ باجماعت پڑھنا بہتر ہے؛ چونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور اس پر مسلسل عمل جاری ہے حتی کہ یہ مسلمانوں کی ظاہری علامات میں سے ایک علامت ہے۔ (شرح مسلم للنووی، ملخص: الترغیب فی قیام رمضان)

نیز علامہ نووی ؒ فرماتے ہے کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعت ہیں، جن میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار ص ۸۳)

علامہ عینی ؒ (بخاری شریف کی شرح لکھنے والے) تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعت پڑھی جاتی تھیں۔ (عینی ج۷ ص ۱۷۸)

شیخ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں جن کا طریقہ معروف ومشہور ہے اور یہ سنت موٴکدہ ہے۔ (احیاء العلوم ج۱ ص ۱۳۲)

شیخ عبد القادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ تراویح نبی اکرم ا کی سنت مبارکہ ہے اور یہ بیس رکعت ہیں۔ (غنیہ الطالبین ص ۲۶۷، ۲۶۸)

مولانا قطب الدین خان محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں : اجماع ہوا صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس پر کہ تراویح کی بیس رکعت ہیں۔ (مظاہر حق ج۱ ص ۴۳۶)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی سب سے مشہور ومعروف کتاب (حجة اللہ البالغہ) میں تحریر کیا ہے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین ؒ کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعت مقرر ہوئی تھیں؛ چنانچہ فرماتے ہیں کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینؒ نے قیام رمضان میں تین چیزیں زیادہ کی ہیں :

(۱) مسجدوں میں جمع ہونا؛ کیونکہ اس سے عوام وخواص پر آسانی ہوتی ہے۔

(۲) اس کو شروع رات میں ادا کرنا؛ جبکہ اخیر رات میں پڑھنا زیادہ افضل ہے جیساکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس طرف اشارہ فرمایا۔

(۳) تراویح کی تعداد بیس رکعت۔ (حجة اللہ البالغہ ج۲ ص ۶۷)

مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جو طریقہ بیس رکعت پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔ (عون الباری ج۴ ص ۳۱۷)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی مکمل عبارت اور اس کا صحیح مفہوم:

عَنْ اَبِی سَلْمیٰ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّہ اَخْبَرَہ اَنَّہ سَألَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَیْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَان رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہ عَلَی اِحْدَی عَشَرَةَ رَکْعَةً یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثاً․ قَالَتْ یَارَسُولَ اللّٰہِ اَتَنَامُ قَبْلَ اَنْ تُوتِرَ فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ! اِنَّ عَیْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ․․ (بخاری، کتاب التہجد)

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھاکرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چار رکعت ادا کرتے تھے اوران کی خوبی اور ان کی لمبائی کے بارے میں مت پوچھو (کہ وہ کتنی خوب اور کتنی لمبی ہوا کرتی تھیں) پھر آپ چار رکعت اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔

﴿وضاحت﴾: یاد رکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا اصل تعلق تہجد کی نماز سے ہے اور تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں، یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔

اس حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعت ادا کرتے تھے پھر خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعت ادا کرتے تھے، اور پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سوال اور جواب کا اصل مقصد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کو بیان کرنا ہے، نہ کہ تعداد رکعت کو۔ بعض حضرات نے تہجد اور تراویح کی نماز کو ایک سمجھ کر حدیث میں وارد گیارہ میں سے آٹھ کے لفظ کو تراویح کے لیے لے لیا؛ لیکن گیارہ رکعت پڑھنے کی کیفیت اور تین رکعت وتر کو نظرانداز کردیا۔

اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعت ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے، تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزاء پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے؛مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا؛ مگر آٹھ رکعت نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا؛ کیونکہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعت پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعت وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کے لیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کے لیے اختیار کرلیا۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت پڑھنے کے بعد سوجاتے پھر وتر پڑھتے تھے؛ حالانکہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور کو چھوڑ نا، یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا؛ بلکہ اپنے اسلاف کے قرآن وحدیث فہمی پر قناعت کرنا ہے اور یہی تقلید ہے؛ حالانکہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَا بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعت پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعت ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت)۔غور فرمائیں کہ گیارہ رکعت والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعت والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعت والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعت والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑدیا؛ حالانکہ تیرہ رکعت والی حدیث میں ”کان“ کالفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ماضی استمرار کے لیے ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیرہ رکعت پڑھنے کا معمول تھا۔ نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آٹھ رکعت والی حدیث میں تو چار چار رکعت پڑھنے کا تذکرہ ہے؛ لیکن عمل دو دو رکعت پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعت پڑھنے کا تذکرہ ہے، اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے: ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَ․حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعت ادا کی، پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر وتر پڑھے۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعت کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ آٹھ رکعت تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ غرضے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے دو دو رکعت پڑھنے کو لیا، تو نہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث پرعمل ہوا؛ بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی؛ حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے؛ کیونکہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے، امام بخاری ؒ تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری ؒ تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ (امام بخاریؒ کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کے لیے صحیح بخاری کی سب سے مشہورومعروف شرح "فتح الباری" کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)۔

بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے، سورة المزمل کی ابتدائی آیات (یَااَیَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا......) پڑھ لیں؛ جبکہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے، جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ (نسائی، ابن ماجہ) تراویح کا عمل میں نے مسنون قرار دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں جماعت کے ساتھ بیس رکعت کا باقاعدہ اہتمام کے ساتھ شروع ہونا، روز روشن کی طرح واضح ہے، جیساکہ محدثین وعلماء کرام کے اقوال، حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کیے جاچکے ہیں۔لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کم کبھی زیادہ پڑھا کرتے تھے۔

ایک شبہ کا ازالہ:

بعض حضرات نے ابن خزیمہ وابن حبان میں وارد حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے رمضان میں آٹھ رکعات تراویح پڑھیں؛ حالانکہ یہ روایت اس قدر ضعیف و منکر ہے کہ اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ اس میں ایک راوی عیسیٰ بن جاریہ ہے، جس کی بابت محدثین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے پاس منکر روایات ہیں، جیساکہ ۸ رکعت تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات نے دوسرے مسائل میں اس طرح کے راویوں کی روایات کو تسلیم کرنے سے منع کیا ہے۔ اس نوعیت کی متعدد احادیث جمہور مسلمین کے پاس بھی موجود ہیں، جن میں مذکور ہے کہ حضور اکرم انے بیس رکعت تروایح پڑھیں: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک نبی اکرم ﷺ ماہِ رمضان میں بلاجماعت بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔ (بیہقی، ج۱ ص ۴۹۶، اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں، ابن عدی نے مسند میں اور علامہ بغوی نے مجمع صحابہ میں ذکر کیا ہے) (زجاجة المصابیح)۔۔۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے امام رافعیؒ کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیس رکعت دو راتیں پڑھائیں پھر تیسری رات کو لوگ جمع ہوگئے؛ مگر آپ باہر تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح کو فرمایا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ تمہارے اوپر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کو ادا نہ کرسکو؛ اس لیے باہر نہیں آیا۔

دوسرے شبہ کا ازالہ:

بعض حضرات نے ایک روایت کی بنیا د پر تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت تراویح کا حکم دیاتھا؛ حالانکہ یہ حدیث تین طرح سے منقول ہے اور حدیث کی سند میں شدید ضعف بھی ہے۔ ۔۔ نیز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھی گئیں، یہ بات سورج کی روشنی کی طرح محدثین واکابر امت نے تسلیم کی ہے، جیساکہ محدثین وعلماء کرام کے اقوال حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کیے جاچکے ہیں۔ لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف ہٹ دھرمی ہے۔ امام ترمذیؒ، امام غزالی ؒ، علامہ نوویؒ ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، علامہ ابن قدامہ ؒ، علامہ ابن تیمیہؒ اور مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی نے بھی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مفتی محمد حسین بٹالوی نے جب پہلی دفعہ ۱۲۸۴ھ میں باضابطہ طور پر فتوی جاری کیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت اور بیس رکعت بدعت ہے تو اس انوکھے فتوے کی ہر طرف سے مخالفت کی گئی۔ مشہور غیر مقلد بزرگ عالم مولانا غلام رسول صاحب نے خود اس فتویٰ کی سخت کلمات میں مذمت کی، اور اس کو سینہ زوری قرار دیا۔ (رسالہ تراویح ص ۲۸، ۵۶)

تیسرے شبہ کا ازالہ:

کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی اکرم ا اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال میں اگر کوئی تضاد ہو تو صحابہ کے اقوال کو چھوڑکر نبی اکرم ﷺ کے قول کو لیا جائے گا۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اِس میں شک بھی کرے ، تو اُسے اپنے ایمان کی تجدید کرنی ہوگی؛ لیکن یہاں کوئی تضاد نہیں ہے؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال میں کہیں بھی تراویح کی کوئی تعداد مذکور نہیں ہے ۔ نبیِ اکرم ﷺ کی سنتوں سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو ہم سے زیادہ محبت تھی۔ اور دین میں نئی بات پیدا کرنے سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم ہم سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔

خصوصی توجہ:

سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم ؒ (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لکھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم ؒ لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ ۸ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ؟

ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 - 8 ، جلد: 97 ، رمضان – شوال 1434 ہجری

***
غیر مقلدوں سے سوالات ۔

سوال نمبر 1 ۔ کیا واقعی تراویح بدعت ضلالۃ ہے ؟؟ العیاذ باللہ ۔ اگر نہیں تو نواب صدیق حسن کے بارے میں کیا فتویٰ ہے ؟؟؟

سوال نمبر 2 ، کیا واقعی تراویح سنت نہیں ،بدعت حسنہ ہے ؟؟؟ اگر نہیں تو مولوی عبد القادر حصاروی کے بارے میں کتابچہ کب شائع ہوگا ؟؟؟

سوال نمبر 3 ۔ کیا واقعی تراویح نفلی و اختیاری عبادت ہے ؟؟؟ جسے بلا عذر ترک کرنے میں کوئی گناہ نہیں ؟؟؟

سوال نمبر 4 ۔ کیا واقعی سنت کے مطابق تہجد و تراویح ایک ہی نماز ہے ؟؟؟ اگر ایک ہی ہے تو نواب صدیق حسن خان نواب وحید الزمان اور مولانا امرتسری مولانا نزیر حسین دہلوی کے خلاف اشتہار کب شائع ہوگا ۔ جو دونوں کو الگ الگ قرار دیتے تھے ؟؟؟

سوال نمبر 5 ۔ کیا واقعی قیام رمضان تراویح سے الگ کوئی نماز ہے ؟؟ اگر الگ نماز ہے تو اس رکعات کتنی ہیں ؟؟

سوال نمبر 6 ۔ کیا واقعی نماز تراویح جماعت بغیر جائز نہیں ؟؟؟ اگر کوئی پڑھ لے تو اس کا حکم کیا ہوگا ؟؟ تراویح ادا ہوگی یا نہیں ؟

سوال نمبر 7 ۔ کیا واقعی تہجد اور تراویح کی الگ الگ گیارہ رکعات ہیں ؟؟ اگر ہیں تو سنت کی روشنی میں ان کی ترتیب کیا ہوگی ؟؟

سوال نمبر 8 ۔ نماز تراویح اول شب پڑھنی افضل ہے یا آخر شب ؟؟ سنت نبوی کی روشنی میں وضاحت فرمایئے ۔

سوال نمبر 9 ۔ تراویح گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں ؟؟؟ اور جو گھر میں پڑھنے کو افضل قرار دیتے ہیں ، ان پر کیا فتوی ہوگا ؟؟؟

سوال نمبر 10 ۔ کیا واقعی تراویح کی رکعات متعین نہیں ؟؟ اگر متعین ہیں تو 9 - 11 - 13 - 20 - 40 تراویح پڑھنے کی اجازت دینے والوں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟؟ اگر رکعات متعین نہیں ہیں تو 8 اور 20 کا جھگڑا کرنے کے مقاصد کیا ہیں ؟؟؟

سوال نمبر 11 ۔۔ کیا واقعی تراویح کی 11 رکعات مسنون اور باقی بدعت ہیں ؟؟ اگر بدعت ہیں تو پڑھنے والوں کا کیا حکم ہے ؟؟ فتوی دینے سے قبل ان کی فہرست ضرور ملاحظہ فرمالیجئے ۔ اور اگر بدعت نہیں تو انہیں بدعت قرار دینے والوں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟؟؟

سوال نمبر 12 ۔ کیا واقعی تراویح کی 11 مسنون اور باقی مستحسن ہیں ؟؟ اگر مستحسن ہیں تو پڑھنے والوں کے خلاف مناظرہ بازی اور اشتہار بازی کا سلسلہ کیوں ؟؟ کیا مستحسن عمل سے روکنا جائز ہے ؟؟

سوال نمبر 13 ۔ کیا واقعی 20 رکعات سنت خلفاء راشدین نہیں ؟؟؟ اگر نہیں تو امام حرم شیخ ابن باز پر کیوں فتویٰ جاری نہیں ہوتا جو 20 رکعات کو سنت خلفاء راشدین قرار دیتے ہیں ؟؟

سوال نمبر 14 ۔ کیا واقعی غیر مقلدین کی مساجد میں احناف کو اپنی 20 رکعات تراویح اپنے امام کی اقتدا میں پوری کرنے سے روکنا گناہ ہے ؟؟ اگر نہیں تو سردار اہلحدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری کے بارے میں کیا رائے ہے ؟؟

سوال نمبر 15 ۔ کیا واقعی غیر مقلدین کو اہل سنت کی مساجد میں سنی امام کے پیچھے 20 رکعات پوری کرنا ضروری ہیں ؟؟ اگر نہیں تو امام خانہ کعبہ پر کب فتویٰ جاری ہوگا جو اسے سنت قرار دیتے ہیں ؟؟

سوال نمبر 16 ۔ کیا آپ ﷺ نے پورا رمضان تراویح پڑھی ہے ؟؟؟

سوال نمبر 17 ۔ کیا آپ ﷺ نے ہمیشہ باجماعت تراویح پڑھائی ہے ؟؟؟

سوال نمبر 18 ۔ کیا آپ ﷺ نے پورا رمضان مسجد میں تراویح پڑھائی ہے ؟؟

سوال نمبر 19 ۔ کیا آپ ﷺ نے تراویح میں پورا قرآن ختم کیا یا حکم دیا ؟؟؟

سوال نمبر 20 ۔ کیا آپ ﷺ نے باجماعت تراویح کا حکم دیا ہے ؟؟

سوال نمبر 21 ۔ کیا آپ ﷺ نے دو دو رکعت تراویح کا حکم دیا ہے ؟؟
*******************************************
 
بیس رکعت تراویح کے عین سنت ہونے کی شافی علمی بحث
سوال… ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ تراویح کی آٹھ رکعتیں ہی سنت ہیں، کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب دریافت کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے فرایا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں آٹھ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے۔ اس کے خلاف جو روایت بیس رکعت پڑھنے کی نقل کی جاتی ہے وہ بالاتفاق ضعیف ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی گیارہ رکعت ہی کا حکم دیا تھا، جیسا کہ موٴطا امام مالک رح میں سائب بن یزید رح سے مروی ہے، اور اس کے خلاف بیس کی جو روایت ہے اوّل تو صحیح نہیں اور اگر صحیح بھی ہو تو ہوسکتا ہے کہ پہلے انہوں نے بیس پڑھنے کا حکم دیا ہو، پھر جب معلوم ہوا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت پڑھیں تو سنت کے مطابق آٹھ پڑھنے کا حکم دے دیا ہو۔ بہرحال آٹھ رکعت تراویح ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رض کی سنت ہے، جو لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں وہ خلافِ سنت کرتے ہیں۔ آپ فرمائیں کہ ہمارے دوست کی یہ بات کہاں تک دُرست ہے؟
جواب … آپ کے دوست نے اپنے موقف کی وضاحت کردی ہے، میں اپنے موقف کی وضاحت کئے دیتا ہوں، ان میں کون سا موقف صحیح ہے؟ اس کا فیصلہ خود کیجئے! اس تحریر کو چار حصوں پر تقسیم کرتا ہوں: ۱:… تراویح عہدِ نبوی میں۔ ۲:… تراویح عہدِ فاروقی رض میں۔ ۳:… تراویح صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رح کے دور میں۔ ۴:… تراویح ائمہ اربعہ رح کے نزدیک۔
۱:… تراویح عہدِ نبوی میں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدّد احادیث میں قیامِ رمضان کی ترغیب دی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: “کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یرغب فی قیام رمضان من غیر ان یأمرھم فیہ بعزیمة فیقول: من قام رمضان ایمانًا واحتسابًا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ فتوفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم والامر علی ذالک، ثم کان الامر علی ذالک فی خلافة ابی بکر وصدرًا من خلافة عمر۔” (جامع الاصول ج:۹ ص:۴۳۹، بروایت بخاری و مسلم، ابوداوٴد، ترمذی، نسائی، موٴطا) ترجمہ:…”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے بغیر اس کے کہ قطعیت کے ساتھ حکم دیں، چنانچہ فرماتے تھے کہ: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت رکھتے ہوئے رمضان میں قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوگئے۔ چنانچہ یہ معاملہ اسی حالت پر رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہی صورتِ حال رہی، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں بھی۔” ایک اور حدیث میں ہے: “ان الله فرض صیام رمضان وسننت لکم قیامہ، فمن صامہ وقامہ ایمانًا واحتسابًا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امّہ۔” (جامع الاصول ج:۹ ص:۴۴۱، بروایت نسائی)
ترجمہ:…”بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان کا روزہ فرض کیا ہے، اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام کو سنت قرار دیا ہے، پس جس نے ایمان کے جذبہ سے اور ثواب کی نیت سے اس کا صیام و قیام کیا، وہ اپنے گناہوں سے ایسا نکل جائے گا جیسا کہ جس دن اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا بھی متعدّد احادیث سے ثابت ہے، مثلاً: ۱:… حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا، جس میں تین رات میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے، پہلی رات میں تہائی رات تک، دُوسری رات میں آدھی رات تک، تیسری رات میں سحر تک۔ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۶۹) ۲:… حدیثِ ابی ذر رضی اللہ عنہ، جس میں ۲۳ویں رات میں تہائی رات تک، ۲۵ویں میں آدھی رات تک اور ۲۷ویں شب میں اوّل فجر تک قیام کا ذکر ہے۔ (جامع الاصول ج:۶ ص:۱۲۰، بروایت ترمذی، ابوداوٴد، نسائی) ۳:… حدیثِ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ، اس کا مضمون بعینہ حدیثِ ابی ذر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ (نسائی ج:۱ ص:۲۳۸) ۴:… حدیثِ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، اس میں صرف ایک رات کا ذکر ہے۔ (جامع الاصول ج:۶ ص:۱۱۹، بروایت بخاری و مسلم، ابوداوٴد، نسائی) ۵:… حدیثِ انس رضی اللہ عنہ، اس میں بھی صرف ایک رات کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم ج:۱ ص:۳۵۲) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جماعت پر مدوامت نہیں فرمائی اور اس اندیشے کا اظہار فرمایا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے، اور اپنے طور پر گھروں میں پڑھنے کا حکم فرمایا۔ (حدیثِ زید بن ثابت رض وغیرہ) رمضان المبارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مجاہدہ بہت بڑھ جاتا تھا، خصوصاً عشرہٴ اخیرہ میں تو پوری رات کا قیام معمول تھا، ایک ضعیف روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ (فیض القدیر شرح جامع الصغیر ج:۵ ص:۱۳۲، وفیہ عبدالباقی بن قانع، قال الدارقطنی یخطیٴ کثیرًا) تاہم کسی صحیح روایت میں یہ نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں جو تراویح کی جماعت کرائی، اس میں کتنی رکعات پڑھائیں؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صرف ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ (موارد الظماٰن ص:۲۳۰، قیام اللیل مروزی ص:۱۵۷، مکتبہ سبحانیہ، مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۷۲ بروایت طبرانی و ابویعلیٰ) مگر اس روایت میں عیسیٰ بن جاریہ متفرد ہے، جو اہلِ حدیث کے نزدیک ضعیف اور مجروح ہے، جرح و تعدیل کے امام یحییٰ بن معین رح اس کے بارے میں فرماتے ہیں: “لیس بذاک” یعنی وہ قوی نہیں، نیز فرماتے ہیں: “عندہ مناکیر”، یعنی اس کے پاس متعدد منکر روایتیں ہیں۔ امام ابوداوٴد رح اور امام نسائی رح نے اسے “منکر الحدیث” کہا ہے، امام نسائی رح نے اس کو متروک بھی بتایا ہے، ساجی و عقیلی نے اسے ضعفاء میں ذکر کیا ہے، ابنِ عدی رح کہتے ہیں کہ: “اس کی حدیثیں محفوظ نہیں۔” (تہذیب التہذیب ج:۸ ص:۲۰۷، میزان الاعتدال ج:۳ ص:۳۱۱) خلاصہ یہ کہ یہ راوی اس روایت میں متفرد بھی ہے، اور ضعیف بھی، اس لئے یہ روایت منکر ہے، اور پھر اس روایت میں صرف ایک رات کا واقعہ مذکور ہے، جبکہ یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آٹھ رکعتوں سے پہلے یا بعد میں تنہا بھی کچھ رکعتیں پڑھی ہوں، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکور ہے۔ (مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۷۳، بروایت طبرانی، وقال رجالہ رجال الصحیح) دُوسری روایت مصنف ابنِ ابی شیبہ رح (ج:۲ ص:۳۹۴، نیز سننِ کبریٰ بیہقی ج:۲ ص:۴۹۲، مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۷۲) میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی ہے کہ: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔” مگر اس کی سند میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی کمزور ہے، اس لئے یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح نہیں، مگر جیسا کہ آگے معلوم ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اُمت کا تعامل اسی کے مطابق ہوا۔ تیسری حدیث اُمّ الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ہے، جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے، مگر اس میں تراویح کا ذکر نہیں، بلکہ اس نماز کا ذکر ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں ہمیشہ پڑھی جاتی ہے، اس لئے رکعاتِ تراویح کے تعین میں اس سے بھی مدد نہیں ملتی۔ چنانچہ علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں: “والحاصل ان الذی دلت علیہ احادیث الباب وما یشابھھا ھو مشروعیة القیام فی رمضان والصلٰوة فیہ جماعة وفرادیٰ فقصر الصلٰوة المسماة بالتراویح علی عدد معین وتخصیصھا بقرائة مخصوصة ولم یرد بہ سنة۔” (نیل الاوطار ج:۴ ص:۶۴) ترجمہ:…”حاصل یہ کہ اس باب کی حدیثیں اور ان کے مشابہ حدیثیں جس بات پر دلالت کرتی ہیں، وہ یہ ہے کہ رمضان میں قیام کرنا اور باجماعت یا اکیلے نماز پڑھنا مشروع ہے، پس تراویح کو کسی خاص عدد میں منحصر کردینا، اور اس میں خاص مقدار قرأت مقرّر کرنا ایسی بات ہے جو سنت میں وارد نہیں ہوئی۔” ۲:… تراویح عہدِ فاروقی رض میں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا، بلکہ لوگ تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے، سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک امام پر جمع کیا۔ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۲۶۹، باب فضل من قام رمضان) اور یہ خلافتِ فاروقی رض کے دُوسرے سال یعنی ۱۴ھ کا واقعہ ہے۔ (تاریخ الخلفاء ص:۱۲۱، تاریخ ابنِ اثیر ج:۱ ص:۱۸۹) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں کتنی رکعتیں پڑھی جاتی تھیں؟ اس کا ذکر حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، حضرت سائب رض سے اس حدیث کو تین شاگرد نقل کرتے ہیں، ۱:حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب، ۲:یزید بن خصیفہ، ۳: محمد بن یوسف، ان تینوں کی روایت کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔ ۱:… حارث بن عبدالرحمن کی روایت علامہ عینی رض نے شرحِ بخاری میں حافظ ابنِ عبدالبر کے حوالے سے نقل کی ہے: “قال ابن عبدالبر: وروی الحارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب عن السائب بن یزید قال: کان القیام علٰی عھد عمر بثلٰث وعشرین رکعة، قال ابن عبدالبر: ھذا محمول علٰی ان الثلٰث للوتر۔” (عمدة القاری ج:۱۱ ص:۱۲۷) ترجمہ:…”ابنِ عبدالبر کہتے ہیں کہ حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب نے حضرت سائب بن یزید رض سے روایت کی ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں ۲۳ رکعتیں پڑھی جاتی تھیں، ابنِ عبدالبر کہتے ہیں کہ: ان میں بیس تراویح کی اور تین رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں۔” ۲:… حضرت سائب کے دُوسرے راوی یزید بن خصیفہ کے تین شاگرد ہیں: ابنِ ابی ذئب، محمد بن جعفر اور امام مالک، اور یہ تینوں بالاتفاق بیس رکعتیں روایت کرتے ہیں۔ الف:… ابنِ ابی ذئب کی روایت امام بیہقی رض کی سننِ کبریٰ میں درج ذیل سند کے ساتھ مروی ہے: “اخبرنا ابوعبدالله الحسین بن محمد الحسین بن فنجویہ الدینوری بالدامغان، ثنا احمد بن محمد بن اسحاق السنی، انبأنا عبدالله بن محمد بن عبدالعزیز البغوی، ثنا علی بن الجعد انبأنا ابن ابی ذئب عن یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال: کانوا یقومون علٰی عھد عمر بن الخطاب رضی الله عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعة، قال: وکانوا یقرؤن بالمئین وکانوا یتوکون علی عصیھم فی عھد عثمان بن عفان رضی الله عنہ من شدة القیام۔” (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶) “یعنی ابنِ ابی ذئب، یزید بن خصیلہ سے، اور وہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں لوگ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔” اس کی سند کو امام نووی رح، امام عراقی رح اور حافظ سیوطی رح نے صحیح کہا ہے۔ (آثار السنن ص:۲۵۱، طبع مکتبہ امدادیہ ملتان، تحفة الاحوذی ج:۲ ص:۷۵) ب:… محمد بن جعفر کی روایت امام بیہقی رح کی دُوسری کتاب معرفة السنن والآثار میں حسبِ ذیل سند سے مروی ہے: “اخبرنا ابوطاھر الفقیہ، ثنا ابوعثمان البصری، ثنا ابواحمد محمد بن عبدالوھاب، ثنا خالد بن مخلد، ثنا محمد بن جعفر حدثنی یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال: کنا نقول فی زمن عمر بن الخطاب بعشرین رکعة والوتر۔”(نصب الرایة ج:۲ ص:۱۵۴) “یعنی محمد بن جعفر، یزید بن خصیفہ سے اور وہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات اور وتر پڑھا کرتے تھے۔” اس کی سند کو امام نووی رح نے خلاصہ میں، علامہ سبکی رح نے شرحِ منہاج میں اور علامہ علی قاری رح نے شرحِ موٴطا میں صحیح کہا ہے۔ (آثار السنن ج:۲ ص:۵۴، تحفة الاحوذی ج:۲ ص:۷۵) ج:… یزید بن خصیفہ سے امام مالک رح کی روایت حافظ رح نے فتح الباری میں اور علامہ شوکانی رح نے نیل الاوطار میں ذکر کی ہے۔ حافظ رح لکھتے ہیں: “وروی مالک من طریق یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید عشرین رکعة۔” (فتح الباری ج:۴ ص:۲۵۳، مطبوعہ لاہور) ترجمہ:…”اور امام مالک رح نے یزید بن خصیفہ کے طریق سے حضرت سائب بن یزید سے بیس رکعتیں نقل کی ہیں۔” اور علامہ شوکانی رح لکھتے ہیں: “وفی الموٴطا من طریق یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید انھا عشرین رکعة۔” (نیل الاوطار ج:۳ ص:۵۳، مطبوعہ عثمانیہ، مصر ۱۳۵۷ھ) “مالک عن یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید” کی سند بعینہ رح صحیح بخاری (ج:۱ ص:۳۱۲) پر موجود ہے، لیکن یہ روایت مجھے موٴطا کے موجودہ نسخے میں نہیں ملی، ممکن ہے کہ موٴطا کے کسی نسخے میں حافظ رح کی نظر سے گزری ہو، یا غیرموٴطا میں ہو، اور علامہ شوکانی رح کا: “وفی الموٴطا” کہنا سہو کی بنا پر ہو، فلیفتش! ۳:… حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے تیسرے شاگرد محمد بن یوسف کی روایت میں ان کے شاگردوں کے درمیان اختلاف ہوا ہے، چنانچہ: الف:… امام مالک رح وغیرہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے اُبیّ اور تمیم داری کو گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا، جیسا کہ موٴطا امام مالک رح میں ہے۔ (موٴطات امام مالک رح ص:۹۸، مطبوعہ نور محمد کراچی) ب:… ابنِ اسحاق ان سے تیرہ کی روایت نقل کرتے ہیں۔ (فتح الباری ج:۴ ص:۲۵۴) ج:… اور داوٴد بن قیس اور دیگر حضرات ان سے اکیس رکعتیں نقل کرتے ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق ج:۴ ص:۴۶۰) اس تفصیل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت سائب کے دو شاگرد حارث اور یزید بن خصیفہ اور یزید کے تینوں شاگرد متفق اللفظ ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعات پر لوگوں کو جمع کیا تھا، جبکہ محمد بن یوسف کی روایت مضطرب ہے، بعض ان میں سے گیارہ نقل کرتے ہیں، بعض تیرہ اور بعض اکیس۔ اُصولِ حدیث کے قاعدے سے مضطرب حدیث حجت نہیں، لہٰذا حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث وہی ہے جو حارث اور یزید بن خصیفہ رضی اللہ عنہ نے نقل کی ہے، اور اگر محمد بن یوسف کی مضطرب اور مشکوک روایت کو کسی درجے میں قابلِ لحاظ سمجھا جائے تو دونوں کے درمیان تطبیق کی وہی صورت متعین ہے جو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے کہ گیارہ پر چند روز عمل رہا، پھر بیس پر عمل کا استقرار ہوا، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ دونوں روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: “ویمکن الجمع بین الروایتین، فانھم کانوا یقومون باحدی عشرة ثم کانوا یقومون بعشرین ویوترون بثلٰث۔” (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶) ترجمہ:…”دونوں روایتوں میں تطبیق ممکن ہے، کیونکہ وہ لوگ پہلے گیارہ پڑھتے تھے، اس کے بعد بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھنے لگے۔” امام بیہقی رحمہ اللہ کا یہ ارشاد کہ عہدِ فاروقی رح میں صحابہ رح کا آخری عمل، جس پر استقرار ہوا، بیس تراویح تھا، اس پر متعدّد شواہد و قرائن موجود ہیں۔ اوّل:… امام مالک رح جو محمد بن یوسف سے گیارہ کی روایت نقل کرتے ہیں، خود ان کا اپنا مسلک بیس یا چھتیس تراویح کا ہے، جیسا کہ چوتھی بحث میں آئے گا، اس سے واضح ہے کہ یہ روایت خود امام مالک رح کے نزدیک بھی مختار اور پسندیدہ نہیں۔ دوم:… ابنِ اسحاق جو محمد بن یوسف سے تیرہ کی روایت نقل کرتے ہیں، وہ بھی بیس کی روایت کو اثبت کہتے ہیں، چنانچہ علامہ شوکانی رح نے بیس والی روایت کے ذیل میں ان کا قول نقل کیا ہے: “قال ابن اسحاق وھٰذا اثبت ما سمعت فی ذٰلک۔” (شوکانی، نیل الاوطار ج:۳ ص:۵۳) ترجمہ:…”ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ: رکعاتِ تراویح کی تعداد کے بارے میں، میں نے جو کچھ سنا اس میں سب سے زیادہ ثابت یہی تعداد ہے۔” سوم:… یہ کہ محمد بن یوسف کی گیارہ والی روایت کی تائید میں دُوسری کوئی اور روایت موجود نہیں، جبکہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی بیس والی روایت کی تائید میں دیگر متعدّد روایتیں بھی موجود ہیں، چنانچہ: ۱:… یزید بن رومان کی روایت ہے کہ: “کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلٰث وعشرین رکعة۔” (موٴطا امام مالک رح ص:۹۸، مطبوعہ نور محمد کراچی، سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶، قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷) ترجمہ:…”لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ۲۳ رکعتیں پڑھا کرتے تھے (بیس تراویح اور تین وتر)۔” یہ روایت سند کے لحاظ سے نہایت قوی ہے، مگر مرسل ہے، کیونکہ یزید بن رومان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا، تاہم حدیثِ مرسل (جبکہ ثقہ اور لائقِ اعتماد سند سے مروی ہو) امام مالک رح، امام ابوحنیفہ رح، امام محمد رح اور جمہور علماء کے نزدیک مطلقاً حجت ہے، البتہ امام شافعی رح کے نزدیک حدیثِ مرسل کے حجت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کی تائید کسی دُوسری مسند یا مرسل سے ہوئی ہو، چونکہ یزید بن رومان کی زیرِ بحث روایت کی تائید میں دیگر متعدّد روایات موجود ہیں، اس لئے یہ باتفاق اہلِ علم حجت ہے۔ یہ بحث تو عام مراسیل باب میں تھی، موٴطا کے مراسیل کے بارے میں اہلِ حدیث کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ سب صحیح ہیں۔ چنانچہ امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح حجة اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں: “قال الشافعی اصح الکتب بعد کتاب الله موٴطا مالک واتفق اھل الحدیث علی ان جمیع ما فیہ صحیح علٰی رأی مالک ومن وافقہ واما علٰی رأی غیرہ فلیس فیہ مرسل ولا منقطع الا قد اتصل السند بہ من طریق اخری فلا جرم انھا صحیحة من ھذا الوجہ وقد صنف فی زمان مالک موٴطات کثیرة فی تخریج احادیثہ ووصل منقطعہ مثل کتاب ابن ابی ذئب وابن عیینة والثوری ومعمر۔” (حجة الله البالغہ ج:۱ ص:۱۳۳، مطبوعہ منیریہ) ترجمہ:…”امام شافعی رح نے فرمایا کہ کتاب اللہ کے بعد اصح الکتب موٴطا امام مالک رح ہے، اور اہلِ حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ اس میں جتنی روایتیں ہیں، وہ سب امام مالک رح اور ان کے موافقین کی رائے پر صحیح ہیں۔ اور دُوسروں کی رائے پر اس میں کوئی مرسل اور منقطع روایت ایسی نہیں کہ دُوسرے طریقوں سے اس کی سند متصل نہ ہو، پس اس لحاظ سے وہ سب کی سب صحیح ہیں، اور امام مالک رح کے زمانے میں موٴطا کی حدیثوں کی تخریج کے لئے اور اس کے منقطع کو متصل ثابت کرنے کے لئے بہت سے موٴطا تصنیف ہوئے، جیسے ابنِ ابی ذئب، ابنِ عیینہ، ثوری اور معمر کی کتابیں۔” اور پھر بیس رکعات پر اصل استدلال تو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے جس کے “صحیح” ہونے کی تصریح گزر چکی ہے، اور یزید بن رومان کی روایت بطور تائید ذکر کی گئی ہے۔ ۲:… یحییٰ بن سعید انصاری کی روایت ہے کہ: “ان عمر بن الخطاب امر رجلًا ان یصلی بھم عشرین رکعة۔” (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳) ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھائے۔” یہ روایت بھی سنداً قوی، مگر مرسل ہے۔ ۳:… عبدالعزیز بن رفیع کی روایت ہے: “کان ابیّ بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینة عشرین رکعة ویوتر بثلٰث۔” (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳) ترجمہ:…”حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ لوگوں کو مدینہ میں رمضان میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔” ۴:… محمد بن کعب قرظی کی روایت ہے کہ: “کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعة یطیلون فیھا القرائة ویوترون بثلٰث۔” (قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷) ترجمہ:…”لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں طویل قرأت کرتے اور تین وتر پڑھتے تھے۔” یہ روایت بھی مرسل ہے، اور قیام اللیل میں اس کی سند نہیں ذکر کی گئی۔ ۵:… کنز العمال میں خود حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ: “ان عمر بن الخطاب امرہ ان یصلی باللیل فی رمضان، فقال: ان الناس یصومون النھار ولا یحسنون ان یقرأوا فلو قرأت علیھم باللیل۔ فقال: یا امیر الموٴمنین! ھٰذا شیٴ لم یکن۔ فقال: قد علمت ولکنہ حسن۔ فصلی بھم عشرین رکعة۔” (کنز العمال طبع جدید بیروت ج:۸ ص:۴۰۹، حدیث: ۲۳۴۷۱) ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو رات کے وقت نماز پڑھایا کریں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں، مگر خوب اچھا پڑھنا نہیں جانتے، پس کاش! تم رات میں ان کو قرآن سناتے۔ اُبیّ نے عرض کیا: یا امیرالموٴمنین! یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے نہیں ہوئی۔ فرمایا: یہ تو مجھے معلوم ہے، لیکن یہ اچھی چیز ہے۔ چنانچہ اُبیّ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھائیں۔” چہارم:… مندرجہ بالا روایات کی روشنی میں اہلِ علم اس کے قائل ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات پر جمع کیا، اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان سے موافقت کی، اس لئے یہ بہ منزلہ اجماع کے تھا یہاں چند اکابر کے ارشادات ذکر کئے جاتے ہیں: امام ترمذی رح لکھتے ہیں: “واختلف اھل العلم فی قیام رمضان فرأی بعضھم ان یصلی احدی واربعین رکعة مع الوتر وھو قول اھل المدینة والعمل علی ھٰذا عندھم بالمدینة واکثر اھل العلم علٰی ما روی عن علی وعمر وغیرھما من اصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم عشرین رکعة وھو قول سفیان الثوری وابن المبارک والشافعی، وقال الشافعی: وھٰکذا ادرکت ببلدنا بمکة یصلون عشرین رکعة۔” (سننِ ترمذی ج:۱ ص:۹۹) ترجمہ:…”تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ سفیان ثوری رح، عبداللہ بن مبارک رح اور شافعی رح کا یہی قول ہے، امام شافعی رح فرماتے ہیں کہ: میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے۔” ۲:… علامہ زرقانی مالکی رح شرحِ موٴطا میں ابوالولید سلیمان بن خلف القرطبی الباجی المالکی رح (متوفی ۴۹۴ھ) سے نقل کرتے ہیں: “قال الباجی: فأمرھم اولًا بتطویل القرائة لأنہ افضل، ثم ضعف الناس فأمرھم بثلٰث وعشرین فخفف من طول القرائة واستدرک بعض الفضیلة بزیادة الرکعات۔” (شرح زرقانی علی الموٴطا ج:۱ ص:۲۳۹) ترجمہ:…”باجی رح کہتے ہیں کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے ان کو تطویلِ قرأت کا حکم دیا تھا کہ وہ افضل ہے، پھر لوگوں کا ضعف محسوس کیا تو ۲۳ رکعات کا حکم دیا، چنانچہ طولِ قرأت میں کمی کی اور رکعات کے اضافے کی فضیلت کی کچھ تلافی کی۔” “قال الباجی: وکان الأمر علٰی ذٰلک الی یوم الحرة فثقل علیھم القیام فنقضوا من القرائة وزادوا الرکعات فجعلت ستًّا وثلاثین غیر الشفع والوتر۔” (زرقانی شرح موٴطا ج:۱ ص:۲۳۹) ترجمہ:…”باجی رح کہتے ہیں کہ: یومِ حرہ تک بیس رکعات کا دستور رہا، پھر ان پر قیام بھاری ہوا تو قرأت میں کمی کرکے رکعات میں مزید اضافہ کردیا گیا، اور وتر کے علاوہ ۳۶ رکعات ہوگئیں۔” ۳:… علامہ زرقانی رح نے یہی بات حافظ ابنِ عبدالبر (۳۶۸ھ، ۴۶۳ھ) اور ابومروان عبدالملک بن حبیب القرطبی المالکی رح (متوفی ۲۳۷ھ) سے نقل کی ہے۔ (زرقانی شرحِ موٴطا ج:۱ ص:۲۳۹) ۴:… حافظ موفق الدین ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی رح (متوفی ۶۲۰ھ) المغنی میں لکھتے ہیں: “ولنا ان عمر رضی الله عنہ لما جمع الناس علٰی ابیّ بن کعب کان یصلی لھم عشرین رکعة۔” ترجمہ:…”ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کو ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کیا تو وہ ان کو بیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔” اس سلسلے کی روایات، نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: “وھذا کالاجماع۔” ترجمہ:…”اور یہ بہ منزلہ اجماعِ صحابہ رح کے ہے۔” پھر اہلِ مدینہ کے ۳۶ کے تعامل کو ذکر کرکے لکھتے ہیں: “ثم لو ثبت ان اھل المدینة کلھم فعلوہ لکان ما فعلہ عمر واجمع علیہ الصحابة فی عصرہ اولی بالاتباع۔ قال بعض اھل العلم انما فعل ھذا اھل المدینة لأنھم ارادوا مساواة اھل مکة، فان اھل مکة یطوفون سبعًا بین کل ترویحتین فجعل اھل المدینة مکان کل سبع اربع رکعات، وما کان علیہ اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اولی واحق۔” (ابنِ قدامہ، المغنی مع الشرح الکبیر ج:۱ ص:۷۹۹) ترجمہ:…”پھر اگر ثابت ہو کہ اہلِ مدینہ سب چھتیس رکعتیں پڑھتے تھے تب بھی جو کام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا اور جس پر ان کے دور میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اجماع کیا، اس کی پیروی اَوْلیٰ ہوگی۔ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ: اہلِ مدینہ کا مقصود اس عمل سے اہلِ مکہ کی برابری کرنا تھا، کیونکہ اہلِ مکہ دو ترویحوں کے درمیان طواف کیا کرتے تھے، اہلِ مدینہ نے طواف کی جگہ دو ترویحوں کے درمیان چار رکعتیں مقرّر کرلیں۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا جو معمول تھا وہی اَوْلیٰ اور احق ہے۔” ۵:… امام محی الدین نووی رح (متوفی ۶۷۶ھ) شرح مہذب میں لکھتے ہیں: “واحتج اصحابنا بما رواہ البیھقی وغیرہ بالاسناد الصحیح عن السائب بن یزید الصحابی رضی الله عنہ قال کانوا یقومون علیٰ عھد عمر بن الخطاب رضی الله عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعة۔ الحدیث۔” (المجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲) ترجمہ:…”ہمارے اصحاب نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جو امام بیہقی اور دیگر حضرات نے حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ سے بہ سندِ صحیح روایت کی ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔” آگے یزید بن رومان رح کی روایت ذکر کرکے امام بیہقی رحمہ اللہ کی تطبیق ذکر کی ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ذکر کرکے اہلِ مدینہ کے فعل کی وہی توجیہ کی ہے جو ابنِ قدامہ رح کی عبارت میں گزر چکی ہے۔ ۶:… علامہ شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی شافعی رح (متوفی ۹۳۳ھ) شرحِ بخاری میں لکھتے ہیں: “وجمع البیھقی بینھما بأنھم کانوا یقومون باحدی عشرة ثم قاموا بعشرین واوتروا بثلٰث وقد عدوا ما وقع فی زمن عمر رضی الله عنہ کالاجماع۔” (ارشاد الساری ج:۳ ص:۴۲۶) ترجمہ:…”اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان دونوں روایتوں کو اس طرح جمع کیا ہے کہ وہ پہلے گیارہ پڑھتے تھے، پھر بیس تراویح اور تین وتر پڑھنے لگے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو معمول جاری ہوا اسے علماء نے بمنزلہ اجماع کے شمار کیا ہے۔” ۷:… علامہ شیخ منصور بن یونس بہوتی حنبلی (متوفی ۱۰۴۶ھ) “کشف القناع عن متن الاقناع” میں لکھتے ہیں: “وھی عشرون رکعة لما روی مالک عن یزید بن رومان قال: کان الناس یقومون فی زمن عمر فی رمضان بثلٰث وعشرین رکعة ․․․․ وھٰذا فی مظنة الشھرة بحضرة الصحابة فکان اجماعًا۔” (کشف القناع عن متن الاقناع ج:۱ ص:۳۹۲) ترجمہ:…”تراویح بیس رکعت ہیں، چنانچہ امام مالک رح نے یزید بن رومان رح سے روایت کیا ہے کہ: لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں ۲۳ رکعتیں پڑھا کرتے تھے ․․․․․․ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا صحابہ رح کی موجودگی میں بیس کا حکم دینا عام شہرت کا موقع تھا، اس لئے یہ اجماع ہوا۔” ۸:… مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح “حجة اللہ البالغہ” میں لکھتے ہیں: “وزادت الصحابة ومن بعدھم فی قیام رمضان ثلٰثة اشیاء الاجتماع لہ فی مساجدھم وذالک لأنہ یفید التیسیر علی خاصتھم وعامتھم واداوٴہ فی اوّل اللیل مع القول بأن صلاة اٰخر اللیل مشھودة وھی افضل کما نبہ عمر رضی الله عنہ لھٰذا التیسیر الذی اشرنا الیہ وعددہ عشرون رکعة۔” (حجة الله البالغہ ج:۲ ص:۱۸) ترجمہ:…”اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد کے حضرات نے قیامِ رمضان میں تین چیزوں کا اضافہ کیا۔ ۱: اس کے لئے مساجد میں جمع ہونا، کیونکہ اس سے عام و خاص کو آسانی حاصل ہوتی ہے۔ ۲:اوّل شب میں ادا کرنا، باوجود اس بات کے قائل ہونے کے کہ آخرِ شب کی نماز میں فرشتوں کی حاضری ہوتی ہے، اور وہ افضل ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر متنبہ فرمایا، مگر اوّل شب کا اختیار کرنا بھی اسی آسانی کے لئے تھا جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔ ۳:بیس رکعات کی تعداد۔” ۲:… تراویح عہدِ صحابہ رح و تابعین رح میں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس تراویح کا معمول شروع ہوا تو بعد میں کم از کم بیس کا معمول رہا، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رح سے زائد کی روایات تو مروی ہیں، لیکن کسی سے صرف آٹھ کی روایت نہیں۔ ۱:… حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی روایت اُوپر گزر چکی ہے، جس میں انہوں نے عہدِ فاروقی رح میں بیس کا معمول ذکر کرتے ہوئے اسی سیاق میں عہدِ عثمانی رح کا ذکر کیا ہے۔ ۲:… ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ جن کا وصال عہدِ عثمانی کے اواخر میں ہوا ہے، وہ بھی بیس پڑھا کرتے تھے۔ (قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷) ۳:… “عن ابی عبدالرحمٰن السلمی عن علی رضی الله عنہ انہ دعا القراء فی رمضان فأمر منھم رجلًا یصلی بالناس عشرین رکعة وکان علی یوتر بھم۔” (سننِ کبریٰ بیہقی ج:۲ ص:۴۹۶) ترجمہ:…”ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا، پس ان میں ایک شخص کو حکم دیا کہ بیس رکعتیں پڑھایا کرے، اور وتر حضرت علی رضی اللہ عنہ خود پڑھایا کرتے تھے۔” اس کی سند میں حماد بن شعیب پر محدثین نے کلام کیا ہے، لیکن اس کے متعدّد شواہد موجود ہیں۔ ابوعبدالرحمن سلمی کی یہ روایت شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ رح نے منہاج السنة میں ذکر کی ہے اور اس سے استدلال کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ تراویح کو اپنے دورِ خلافت میں باقی رکھا۔ (منہاج السنة ج:۴ ص:۲۲۴) حافظ ذہبی رح نے المنتقٰی مختصر منہاج السنّة (المنتقٰی ص:۵۴۲) میں حافظ ابنِ تیمیہ رح کے اس استدلال کو بلانکیر ذکر کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ ان دونوں کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات تراویح کا معمول جاری تھا۔ ۴:… “عن عمرو بن قیس عن ابی الحسناء ان علیًا امر رجلًا یصلی بھم فی رمضان عشرین رکعة۔” (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳) ترجمہ:…”عمرو بن قیس، ابوالحسناء سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعتیں پڑھایا کرے۔” ۵:… “عن ابی سعد البقال عن ابی الحسناء ان علی بن ابی طالب رضی الله عنہ امر رجلًا ان یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعة وفی ھٰذا الاسناد ضعف۔” (سننِ کبریٰ بیہقی ج:۲ ص:۴۹۵) ترجمہ:…”ابوسعد بقال، ابوالحسناء سے نقل کرتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعتیں پڑھایا کرے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اس کی سند میں ضعف ہے۔” علامہ ابن الترکمانی ’الجوہر النقی” میں لکھتے ہیں کہ: ظاہر تو یہ ہے کہ اس سند کا ضعف ابوسعد بقال کی وجہ سے ہے، جو متکلم فیہ راوی ہے، لیکن مصنف ابنِ ابی شیبہ کی روایت میں (جو اُوپر ذکر کی گئی ہے) اس کا متابع موجود ہے، جس سے اس کے ضعف کی تلافی ہوجاتی ہے۔ (ذیل سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۵) ۶:… “عن شتیر بن شکل وکان من اصحاب علی رضی الله عنہ انہ کان یومھم فی شھر رمضان بعشرین رکعة ویوتر بثلٰث۔” (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶، قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷) ترجمہ:…”شتیر بن شکل، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے، رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔” امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس اثر کو نقل کرکے کہا ہے: “وفی ذٰلک قوّة” (اور اس میں قوّت ہے)، پھر اس کی تائید میں انہوں نے عبدالرحمن سلمی کا اثر ذکر کیا ہے جو اُوپر گزر چکا ہے۔ ۷:… “عن ابی الخصیب قال: کان یومنا سوید بن غفلة فی رمضان فیصلی خمس ترویحات عشرین رکعة۔” (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶) ترجمہ:…”ابوالخصیب کہتے ہیں کہ: سعید بن غفلہ ہمیں رمضان میں نماز پڑھاتے تھے، پس پانچ ترویحے بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔” “قال النیموی: واسنادہ حسن۔” (آثار السنن ج:۲ ص:۵۵ طبع ہند) ترجمہ:… “علامہ نیموی رح فرماتے ہیں کہ: اس کی سند صحیح ہے۔” حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کا شمار کبار تابعین میں ہے، انہوں نے زمانہٴ جاہلیت پایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اسلام لائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی، کیونکہ مدینہ طیبہ اس دن پہنچے جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی، اس لئے صحابیت کے شرف سے مشرف نہ ہوسکے، بعد میں کوفہ میں رہائش اختیار کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے خاص اصحاب میں تھے، ۸۰ھ میں ایک سو تیس برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ (تقریب التہذیب ج:۱ ص:۳۴۱) ۸:… “عن الحارث انہ کان یوٴم الناس فی رمضان باللیل بعشرین رکعة ویوتر بثلٰث ویقنت قبل الرکوع۔” (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳) ترجمہ:…”حارث، رمضان میں لوگوں کو بیس تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے اور رُکوع سے قبل قنوت پڑھتے تھے۔” ۹:…قیام اللیل میں عبدالرحمن بن ابی بکرہ، سعید بن الحسن اور عمران العبدی سے نقل کیا ہے کہ وہ بیس راتیں بیس تراویح پڑھایا کرتے تھے اور آخری عشرہ میں ایک ترویحہ کا اضافہ کردیتے تھے۔ (قیام اللیل ص:۹۲، طبع جدید ۱۵۸) حارث، عبدالرحمن بن ابی بکرہ (متوفی ۹۶ھ)، اور سعید بن ابی الحسن (متوفی ۱۰۸ھ) تینوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں۔ ۱۰:…ابوالبختری بھی بیس تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳) ۱۱:… علی بن ربیعہ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں تھے، بیس تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳) ۱۲:… ابن ابی ملیکہ (متوفی ۱۱۷ھ) بھی بیس تراویح پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳) ۱۳:… حضرت عطا (متوفی ۱۱۴ھ) فرماتے ہیں کہ: میں نے لوگوں کو وتر سمیت ۲۳ رکعتیں پڑھتے ہوئے پایا ہے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳) ۱۴:… موٴطا امام مالک رح میں عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج (متوفی ۱۱۷ھ) کی روایت ہے کہ میں نے لوگوں کو اس حالت میں پایا ہے کہ وہ رمضان میں کفار پر لعنت کرتے تھے اور قاری آٹھ رکعتوں میں سورہٴ بقرہ ختم کرتا تھا، اگر وہ بارہ رکعتوں میں سورہٴ بقرہ ختم کرتا تو لوگ یہ محسوس کرتے کہ اس نے قرأت میں تخفیف کی ہے۔ (موٴطا امام مالک رح ص:۹۹) اس روایت سے مقصود تو تراویح میں طولِ قرأت کا بیان ہے، لیکن روایت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف آٹھ رکعات پر اکتفا نہیں کیا جاتا تھا۔ خلاصہ یہ کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت جاری کی، ہمیشہ بیس یا زائد تراویح پڑھی جاتی تھیں، البتہ ایامِ حرہ (۶۳ھ) کے قریب اہلِ مدینہ نے ہر ترویحہ کے درمیان چار رکعتوں کا اضافہ کرلیا، اس لئے وہ وتر سمیت اکتالیس رکعتیں پڑھتے تھے، اور بعض دیگر تابعین بھی عشرہٴ اخیرہ میں اضافہ کرلیتے تھے۔ بہرحال صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رح کے دور میں آٹھ تراویح کا کوئی گھٹیا سے گھٹیا ثبوت نہیں ملتا، اس لئے جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا تھا، ان کا ارشاد مبنی برحقیقت ہے، کیونکہ حضراتِ سلف اس تعداد پر اضافے کے تو قائل تھے، مگر اس میں کمی کا قول کسی سے منقول نہیں، اس لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ اس بات پر سلف کا اجماع تھا کہ تراویح کی کم سے کم تعداد بیس رکعات ہیں۔ ۴:… تراویح ائمہٴ اربعہ کے نزدیک امام ابوحنیفہ رح، امام شافعی رح اور امام احمد بن حنبل رح کے نزدیک تراویح کی بیس رکعات ہیں، امام مالک رح سے اس سلسلے میں دو روایتیں منقول ہیں، ایک بیس کی اور دُوسری چھتیس کی، لیکن مالکی مذہب کے متون میں بیس ہی کی روایت کو اختیار کیا گیا ہے۔ فقہِ حنفی کے حوالے دینے کی ضرورت نہیں، دُوسرے مذاہب کی مستند کتابوں کے حوالے پیش کئے جاتے ہیں۔ فقہِ مالکی: قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی ۵۹۵ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں: “واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداو د رح القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث۔” (بدایة المجتہد ج:۱ ص:۱۵۶، مکتبہ علمیہ لاہور) ترجمہ:…”رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک رح نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ رح، شافعی رح، احمد رح اور داوٴد رح نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے، اور ابنِ قاسم رح نے امام مالک رح سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے۔” مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی ۱۲۰۱ھ) لکھتے ہیں: “وھی (ثلاث وعشرون) رکعة بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل (ای عمل الصحابة والتابعین، الدسوقی)۔ (ثم جعلت) فی زمن عمر بن عبدالعزیز (ستًا وثلاثین) بغیر الشفع والوتر لٰکن الذی جری علیہ العمل سلفًا وخلفًا الأوّل۔” (شرح الکبیر الدردیر مع حاشیة الدسوقی ج:۱ ص:۳۱۵) ترجمہ:…”اور تراویح، وتر سمیت ۲۳ رکعتیں ہیں، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ رض و تابعین رح کا) عمل تھا، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر)۔” فقہِ شافعی: امام محی الدین نووی رح (متوفی ۶۷۶ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں: “(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداود رح وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بن یزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر۔” (مجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲) ترجمہ:…”رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ رح اور ان کے اصحاب، امام احمد رح اور امام داوٴد رح وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور قاضی عیاض رح نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک رح فرماتے ہیں کہ: تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں۔” فقہِ حنبلی: حافظ ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی ۶۲۰ھ) المغنی میں لکھتے ہیں: “والمختار عند ابی عبدالله رحمہ الله فیھا عشرون رکعة وبھٰذا قال الثوری وابوحنیفة والشافعی، وقال مالک ستة وثلاثون۔” (مغنی ابنِ قدامہ ج:۱ ص:۷۹۸، ۷۹۹، مع الشرح الکبیر) ترجمہ:…”امام احمد رح کے نزدیک تراویح میں بیس رکعتیں مختار ہیں۔ امام ثوری رح ، ابوحنیفہ رح اور شافعی رح بھی اسی کے قائل ہیں، اور امام مالک رح چھتیس کے قائل ہیں۔” خاتمہ بحث، چند ضروری فوائد: مسک الختام کے طور پر چند فوائد گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، تاکہ بیس تراویح کی اہمیت ذہن نشین ہوسکے۔ ۱:… بیس تراویح سنتِ موٴکدہ ہے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں بیس تراویح جاری کرنا، صحابہ کرام رح کا اس پر نکیر نہ کرنا، اور عہدِ صحابہ رح سے لے کر آج تک شرقاً و غرباً بیس تراویح کا مسلسل زیرِ تعامل رہنا، اس امر کی دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین میں داخل ہے، لقولہ تعالیٰ: “ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضٰی لھم” (اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین رح کے لئے ان کے اس دین کو قرار و تمکین بخشیں گے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند فرمالیا ہے)۔ الاختیار شرح المختار میں ہے: “روی اسد بن عمرو عن ابی یوسف قال: سئلت ابا حنیفة رحمہ الله عن التراویح وما فعلہ عمر رضی الله عنہ، فقال: التراویح سنة موٴکدة ولم یتخرصہ عمر من تلقاء نفسہ ولم یکن فیہ مبتدعًا ولم یأمر بہ الا عن اصل لدیہ وعھد من رسول الله صلی الله علیہ وسلم ولقد سن عمر ھذا وجمع الناس علٰی أبیّ بن کعب فصلاھا جماعة والصحابة متوافرون منھم عثمان وعلی وابن مسعود والعباس وابنہ وطلحة والزبیر ومعاذ وأبیّ وغیرھم من المھاجرین والأنصار رضی الله عنہم اجمعین وما ردّ علیہ واحد منھم بل ساعدوہ ووافقوہ وامروا بذٰلک۔” (الاختیار لتعلیل المختار ج:۱ ص:۶۸، الشیخ الامام ابی الفضل مجدالدین عبدالله بن محمود الموصلی الحنفی، متوفی ۶۸۳ھ) ترجمہ:…”اسد بن عمرو، امام ابویوسف رح سے روایت کرتے ہیں کہ: میں نے حضرت امام ابوحنیفہ رح سے تراویح اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ: تراویح سنتِ موٴکدہ ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی طرف سے اختراع نہیں کیا، نہ وہ کوئی بدعت ایجاد کرنے والے تھے، انہوں نے جو حکم دیا وہ کسی اصل کی بنا پر تھا جو ان کے پاس موجود تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عہد پر مبنی تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو اُبیّ بن کعب رح پر جمع کیا، پس انہوں نے تراویح کی جماعت کرائی، اس وقت صحابہ کرام رح کثیر تعداد میں موجود تھے، حضرات عثمان، علی، ابنِ مسعود، عباس، ابنِ عباس، طلحہ، زبیر، معاذ اُبیّ اور دیگر مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم اجمعین سب موجود تھے، مگر ایک نے بھی اس کو رَدّ نہیں کیا، بلکہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔” ۲:… خلفائے راشدین رح کی جاری کردہ سنت کے بارے میں وصیتِ نبوی: اُوپر معلوم ہوچکا ہے کہ بیس تراویح تین خلفائے راشدین رح کی سنت ہے اور سنتِ خلفائے راشدین رح کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: “انہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافًا کثیرًا فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ، وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة۔” (رواہ احمد وابوداوٴد والترمذی وابن ماجہ، مشکوٰة ص:۳۰) ترجمہ:…”جو شخص تم میں سے میرے بعد جیتا رہا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدین رح مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوط تھام لو اور دانتوں سے مضبوط پکڑ لو، اور نئی نئی باتوں سے احتراز کرو، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔” اس حدیث پاک سے سنتِ خلفائے راشدین رح کی پیروی کی تاکید معلوم ہوتی ہے، اور یہ کہ اس کی مخالفت بدعت و گمراہی ہے۔ ۳:… ائمہٴ اربعہ کے مذاہب سے خروج جائز نہیں: اُوپر معلوم ہوچکا ہے کہ ائمہٴ اربعہ کم سے کم بیس تراویح کے قائل ہیں، ائمہٴ اربعہ کے مذہب کا اتباع سوادِ اعظم کا اتباع ہے، اور مذاہبِ اربعہ سے خروج، سوادِ اعظم سے خروج ہے، مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح “عقد الجید” میں لکھتے ہیں: “قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اتبعوا السواد الأعظم۔ ولما اندرست المذاھب الحقة الا ھذا الأربعة کان اتباعھا اتباعًا للسواد الأعظم، والخروج عنھا خرجًا عن السواد الأعظم۔” (رواہ ابن ماجہ من حدیث انس رح ، کما فی مشکوٰة ص:۳۰، وتمامہ: “فانہ من شذ شذ فی النار۔” عقد الجید ص:۳۷ مطبوعہ ترکیہ) ترجمہ:…”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: “سوادِ اعظم کی پیروی کرو!” اور جبکہ ان مذاہبِ اربعہ کے سوا باقی مذاہبِ حقہ مٹ چکے ہیں تو ان کا اتباع سوادِ اعظم کا اتباع ہوگا، اور ان سے خروج سوادِ اعظم سے خروج ہوگا۔” ۴:… بیس تراویح کی حکمت: حکمائے اُمت نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق بیس تراویح کی حکمتیں بھی ارشاد فرمائی ہیں، یہاں تین اکابر کے ارشادات نقل کئے جاتے ہیں: ۱:… البحر الرائق میں شیخ ابراہیم الحلبی الحنفی (متوفی ۹۵۶ھ) سے نقل کیا ہے: “وذکر العلامة الحلبی ان الحکمة فی کونھا عشرین ان السنن شرعت مکملات للواجبات وھی عشرون بالوتر فکانت التراویح کذالک لتقع المساوات بن المکمل والمکمل انتھٰی۔” (البحر الرائق ج:۲ ص:۷۲) ترجمہ:…”علامہ حلبی رح نے ذکر کیا ہے کہ تراویح کے بیس رکعات ہونے میں حکمت یہ ہے کہ سنن، فرائض و واجبات کی تکمیل کے لئے مشروع ہوئی ہیں، اور فرائض پنج گانہ وتر سمیت بیس رکعات ہیں۔ لہٰذا تراویح بھی بیس رکعات ہوئیں، تاکہ مکمل اور مکمل کے درمیان مساوات ہوجائے۔” ۲:… علامہ منصور بن یونس حنبلی رح (متوفی ۱۰۴۶ھ) کشف القناع میں لکھتے ہیں: “والسر فیہ ان الراتبہ عشر فضوعفت فی رمضان لأنہ وقت جد۔” (کشف القناع عن متن الاقناع ج:۱ ص:۳۹۲) ترجمہ:…”اور بیس تراویح میں حکمت یہ ہے کہ سننِ موٴکدہ دس ہیں، پس رمضان میں ان کو دو چند کردیا گیا، کیونکہ وہ محنت و ریاضت کا وقت ہے۔” ۳:… حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح اس امر کو ذکر کرتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تراویح کی بیس رکعتیں قرار دیں، اس کی حکمت یہ بیان فرماتے ہیں: “وذالک انھم رأوا النبی صلی الله علیہ وسلم شرع للمحسنین احدی عشرة رکعة فی جمیع السنة فحکموا انہ لا ینبغی ان یکون حظ المسلم فی رمضان عند قصدہ الاقتحام فی لجة التشبہ بالملکوت اقل من ضعفھا۔” (حجة الله البالغہ ج:۲ ص:۱۸) ترجمہ:…”اور یہ اس لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محسنین کے لئے (صلوٰة اللیل کی) گیارہ رکعتیں پورے سال میں مشروع فرمائی ہیں، پس ان کا فیصلہ یہ ہوا کہ رمضان المبارک میں جب مسلمان تشبہ بالملکوت کے دریا میں غوطہ لگانے کا قصد رکھتا ہے تو اس کا حصہ سال بھر کی رکعتوں کے دوگنا سے کم نہیں ہونا چاہئے۔






























No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...