Friday 13 March 2015

( ایصال ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں ( 2 )

0 comments
ایصال ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں ( 2 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سعید بن منذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر استطاعت ہو تو تین دن میں قرآن ختم کرو۔ ( جامع صغیر)

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن ہر مہینے ختم کرو ۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ختم کرو۔ ( بخاری جلد اول)
حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب حد زنا لگنے سے سنگسار کر دیا تو بعد از دفن جب دو دن یا تین گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے پس سلام کیا آپ نے اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام کو فرمایا کہ ماز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ماز بن مالک رضی اللہ عنہ کی مغفرت کی دعا مانگی۔ ( مسلم، جلد دوم) بفضلہ تعالٰی اہل سنت و جماعت کا یہی معمول ہے۔
ساتواں :
حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابہ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے۔ ( شرح الصدور ابو نعیم فی الحلیہ) چناچہ شیخ المحدثین حجرت شاہ عند الحق محدچ دہلوی نے فرمایا وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز۔ ( اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ) “ اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے۔“
دسواں:
فرمایا دس دنوں میں قرآن ختم کرو۔ ( بخاری شریف، جلد اول)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے فرمایا دس دنوں میں۔ ( ابو داؤد مترجم جلد اول) لہذا قرآن پڑھ کر میت کو بخشنے میں کوئی حرج نہیں!
چہلم:
دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکمے یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے۔ مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتہ دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
چالیس کا قرآن سے ثبوت:
واذ وعدنا موسٰی اربعین لیلۃ۔ ( سورہ بقرہ۔ آیت 50)
“ اور جب ہم نے وعدہ دیا موسٰی کو چالیس رات کا“
اقراء القرآن فی اربعین۔ ( ترمذی شریف)
“ قرآن مجید چالیس دنوں میں پڑھا کرو۔“
بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور مقامات سے‌کاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا۔ چناچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں۔ ( ثواب العبادات از خطیب پاکستان، بحوالہ شرح الصدور ، ص 24) اسی لئے بزرگان دین نے چالیسویں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہو جائے گا لہذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور ان سب کی اصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الشھداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے تیسرے، دسویں، چالسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا۔ ( کذا فی الانوار ساطقہ مغریا الی مجموعۃ الرویات حاشیہ خزانتہ الرویات)
چہلم کا ایک اور حوالہ
وقیل الٰی اربعین فان المیت یشوق الٰی بیتہ۔
“ اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ ( شرح برزخ فیض الاسلام 5، ص 34، کتاب الوجیز، ص 64)
عرس۔ ۔۔۔ ( برسی)
حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے ارشاد باری تعالٰی :
وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 15)
“ اور سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا۔“
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں:
والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 33)
“ اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن اٹھوں گا، زندہ ہوکر۔“
تفسیر ابن جریر ( طبری) دیکھئے: حدیث بیان کی مثنٰی نے سوید سے کیا خبر دی ابن مبارک نے ابراہیم بن محمد سے انہوں نے سہیل بن ابھی صالح نے انہوں نے محمد ابراہیم سے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے شہدائ کی قبروں پر ہر سال پھر فرماتے: سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار۔ اور سیدنا صدیق اکبر اور فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھم اجمعین بھی اپنے زمانے میں ہر سال قبور شہداء پر جایا کرتے تھے ۔ ( تفسیر ابن جرید مطبوعہ مصر، جلد 13)
اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ آپ ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے اور فرماتے سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار اور اسی طرح چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے۔ ( تفسیر کبیر مطبوعہ مصر، جلد 5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ تشریف لے جاتے ہر شروع سال مین قبور شہداء پر پس فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ( تفسیر کشاف طبوعہ بیرون لبنان، جلد دوم) تفسیر کشاف کے حوالے کے بعد تو مخالفین کے انکار کی گنجائش نہیں رہنی چاہیئے۔
مخالفین کے ایک بڑے کا ایک حوالہ اور۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شھدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے پھر فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ ( البدایہ و النہایہ مطبوعہ مصر، جلد سوم) سرور کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر سال شہدائے احد کی قبور پر تشریف لے جاتے پھر چاروں خلفاء کا اپنے اپنے زمانہ میں اس سنت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا رہنا عرائس بزرگان دین کیلئے اتنی زبردست دلیل ہے جس کا رد نا ممکن ہے۔ ( گیارھویں شریف ، صائم چشتی) فاطمہ خزائیہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور آفتاب قبور شہداء پر غروب ہو چکا تھا اور میرے ساتھ میری بہن تھی۔ میں نے اس سے کہا آؤ قبر حمزہ رضی اللہ عنہ پر سلام کریں ۔ اس نے کہا ہاں پھر ہم ان کی قبر پر ٹھرے ۔ ہم نے کہا ۔ السلام علیک یا عم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے ایک کلام سنا کہ ہم پر رد کیا گیا ( یعنی لوٹایا گیا) وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا کہ ہمارے قریب کوئی آدمی نہ تھا۔ ( اخرج البیہیقی) ( طی الفراسخ الٰی منازل البرازخ مطبوعہ آگرہ 1306 ھ ) ( سید ذوالفقار احمد وہابی تلمیذ صدیق حسن بھو پالی) دیوبندی حضرات اور اہل حدیث حضرات مذکورہ حوالہ جات پر ضرور غور فرمائیں ۔ اور ہمارے ساتھ مل کر دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لئے ایصال ثواب کرکے ان کی مدد کریں۔
ایصال ثواب کے متعلق ضروری وضاحت
ایصال ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چھاہیئے۔ اگر ایصال ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لیکر میت کے لئے ایصا ل ثواب کرتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسب استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریبوں لوگوں کو کھلایا جائے۔ ( صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاھیئے۔) اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی، شہزادے کا سر، داستان عجیب اور جناب سیدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ : وصیت نامہ“ جس میں “ شیخ احمد“ کا خواب درج ہے۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ ان چیزوں سے بچیں۔
نوٹ:
بزرگان دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رھمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است۔ (ربدۃ النصائح،ص 132) “ اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے۔“

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔