Tuesday 31 March 2015

حدیث اور سنّت میں فرق

0 comments

حدیث کا اطلاق حضور اقدس ﷺ کے تمام افعال پر ہوتا ہے جن میں جائز الاتباع اور ممنوع الاتباع دونوں قسمیں شامل ہیں ، ممنوع الاتباع سے مراد حضور اقدس ﷺ کے خصوصیات ہیں ، جیسے بیک وقت ازواج تسعہ ( نو بیویوں ) کو اپنے نکاح میں رکھنا ، اسی طرح صوم و صال وغیرہ ، کہ یہ افعال حضور اقدس ﷺ کے خصوصیات میں سے ہیں ، امت میں سے کسی مسلمان کیلئے بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ جائز نہیں ، بالکل حرام ہے ۔
بہر حال لفظ حدیث دونوں قمسوں کو شامل اور عام ہے بخلاف سنت کے ، کہ سنت کا اطلاق صرف جائز الاتباع پر ہوتا ہے ممنوع الاتباع پر سنت کا اطلاق نہیں ہوگا ، اسی وجہ سے ارشاد نبوی ﷺ ہے ، علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین ، نیز ارشاد گرامی ہے ، ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ ، آپ ﷺ نے حدیث رسولہ ، نہیں فرمایا ،
اس سے معلوم ہوا کہ لفظ حدیث اور سنت میں عام و خاص مطلق کی نسبت ہے کہ حدیث عام ہے اور سنت خاص ،

حدیث و سنت میں فرق اور قرآن و حدیث اور فقہ میں سنت کے معنی

سب سے پہلے یہ بات جاننی چاہیئے کہ سنت کا لفظ قرآن کریم میں بھی آیا ہے ( ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ) آپ اللہ کی سن کو بدلتا ہوا نہیں پائیں گے ، اور حدیثوں میں بھی یہ لفظ آیا ہے ( ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما ۔ کتاب اللہ و سنۃ رسولہ ) مشکوٰۃ حدیث 186 ) میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، جب تک تم ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہو گے گمراہ نہیں ہونگے ۔ ایک اللہ کی کتاب ، دوسری ۔ میری سنت اور فقہ میں لفظ سنت آتا ہے مگر تینوں جگہ معنی الگ الگ ہیں ،
قرآن کریم میں سنت کے کیا معنی ہیں ؟ ؟؟ اس موضوع پر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ نے حجۃ اللہ البالغہ کے مبحث اول میں مفصل کلام کیا ہے ، تفصیل رحمۃ اللہ الواسعہ میں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جو صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں اور جن کی وجہ سے اسباب سے مسببات وجود میں آتے ہیں ان ودیعت کردہ صلاحیتوں سے مسببات کے وجود میں آنے کا نام اللہ کی سنت ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے آگ میں جلانے کی صلاحیت و قابلیت ودیعت فرمائی ، اور پانی میں بجھانے کی صلاحیت ودیعت فرمائی ، چنانچہ آگ اپنا کام کرتی ہے ، کوئی بھی چیز آگ میں ڈالیں گے تو وہ جل جائے گی آگ پر پانی ڈالدو بجھ جائے گی یہ جو آگ اور پانی میں اللہ کی ودیعت فرمائی ہوئی صلاحیتیں ہیں جن سے مسببات وجود میں آتے ہیں ، اسی کا نام اللہ کی سنت ہے ، غرض قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ سنت آیا ہے یہی معنی ہیں ۔
)) ایک اعتراض اور اس کا جواب
سوال ۔۔ اگر کوئی کہے کہ اللہ نے آگ میں جلانے کی صلاحیت رکھی ہے ، پھر آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کیوں نہیں جلایا ؟؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خرق عادت ہے ، اللہ تعالیٰ اسباب کی صلاحیت کے خلاف بھی کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ اسباب ، اسباب ہیں ، خدا نہیں ، خدا ان سے اوپر ہے ، اور اسباب کی لگام خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ جب تک وہ چاہیں گے اسباب کام کریں گے ، اور جب وہ نہیں چاہیں گے اسباب کچھ نہیں کریں گے ۔((
اور قرآن کریم میں یہ لفظ قوموں کے عروج و زوال کے تعلق سے بھی آیا ہے ، جن میں کفار کی شامت اعمال کا بیان ہوتا ہے، سورہ بنی اسرائیل ( آیت 77 ) اور سورۃ الفاطر ( 42 ) میں یہی بات بیان کی گئی ہے یعنی ایمان و اعمال صالحہ سے معاشرہ ترتا ہے ، اور کفر و طغیانی اور انبیاء کی مخالفت سے ڈوبتا ہے ۔ یہ اللہ کی سنت ہے ، جو کبھی بدلتی نہیں ۔
اور فقہ میں جو احکام ستہ ہیں : فرض ، واجب ، سنت ، مستحب ، مباح ۔ ان میں سنت کا تیسرا درجہ ہے ، اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی ۔ اس خاص درجے کے جو احکام ہیں وہ سنت کہلاتے ہیں ، پھر سنت کی دو قسمیں ہیں : مؤکدہ اور غیر مؤکدہ ۔
اور حدیثوں میں سنت کے معنی ہیں : الطریقۃ المسلوکۃ فی الدین : دینی راہ یعنی وہ راستہ جس پر مسلمانوں کو چلنا ہے ۔
حدیث و سنت میں فرق :
حدیث و سنت نہ تو دونوں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں یعنی دونوں میں تبائن کی نسبت نہیں ہے اور نہ دونوں ایک ہیں ، یعنی دونوں میں تساوی کی نسبت بھی نہیں ہے ، بلکہ عام و خاص من وجہ کی نسبت ہے ، اور جہاں یہ نسبت ہوتی ہے وہاں تین مادے ہوتے ہیں ، دو افتراقی اور ایک اجتماعی ، جیسے ابیض اور حیوان میں من وجہ کی نسبت ہے ، اور مادہ افتراقی سفید کپڑا اور کالی بھینس ہیں ، اول صرف ابیض ہے اور ثانی صرف حیوان ، اور سفید بیل مادہ اجتماعی ہے وہ ابیض بھی ہے اور حیوان بھی ، حدیث اور سنت کے درمیان بھی یہی نسبت ہے ۔ اس لئے کبھی حدیث الگ ہوجاتی ہے ، وہ سنت نہیں ہوتی اور کبھی سنت الگ ہوجاتی ہے وہ حدیث نہیں ہوتی ، اور کبھی دونوں جمع ہوجاتے ہیں وہ حدیث بھی ہوتی ہے اور سنت بھی ۔
وہ روایتیں جو صرف حدیث ہیں سنت نہیں :
پہلا مادہ افتراقی : تین قسم کی روایتیں ہیں جو صرف حدیث ہیں سنت نہیں :
پہلی قسم : وہ حدیثیں جو منسوخ ہیں سنت نہیں ، کیونکہ مسلمانوں کو ان پر نہیں چلنا ، بعد میں جو ناسخ حدیثیں آئی ہیں مسلمانوں کو ان پر چلنا ہے جیسے حدیث ہے ۔ توضئو مما مست النار : آگ پر پکی ہوئی چیز کی مزاولت سے وضو کرو ، یہ اعلیٰ درجہ کی صحیح حدیث ہے ، مگر بعد میں یہ حکم باقی نہیں رہا ۔ بعد میں نبی ﷺ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھاتے پیتے تھے اور وضو کئے بغیر نماز پڑھتے تھے ۔ اس لئے حدیث توضئو مما مست النار : منسوخ ہے پس وہ سنت نہیں ۔
قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اپنے تمام مواد میں منسوخ ہو :
اور قرآن کریم میں نسخ کی دو شکلیں ہوتی تھیں :
ایک : اللہ تعالیٰ منسوخ آیت کو اٹھالیتے تھے ،
دوسری : اللہ تعالیٰ منسوخ آیت بھلا دیتے تھے ، حضور ﷺ اور صحابہ سب اس کو بھول جاتے تھے ، ( سنقرئک فلا تنسیٰ الا ماشاء اللہ ) ہم آپ کو قرآن پڑھائیں گے پس آپ ﷺ اس کا کوئی حرف نہیں بھولیں گے مگر جسے اللہ چاہیں یعنی جس کو منسوخ کرنا ہوتا تھا اس کو بھلا دیتے تھے ۔
آج قرآن کریم موجود ہے کیا اس میں ایسی کوئی آیت ہے جو اپنے تمام مواد میں منسوخ ہو ؟؟ آپ میں سے بعض حضرات الفوز الکبیر میں یہ بحث پڑھ چکے ہیں اور جنہوں نے نہیں پڑھا وہ اس بحث کو الفوز الکبیر میں پڑھے
متقدمین کہتے ہیں : قرآن میں پانچ سو آیتیں منسوخ ہیں ، پھر ابن العربی اور سیوطی ؒ نے کہا : بیس آیتیں منسوخ ہیں ، پھر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ نے کہا : صرف پانچ آیتیں منسوخ ہیں اور الفوز الکبیر کی عربی شرح العون الکبیر میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اپنے تمام مواد میں منسوخ ہو ، اور شاہ صاحب ؒ نے جن پانچ آیتوں کو منسوخ مانا ہے ، العون الکبیر میں ان کا مطلب بیان کیا ہے اور میری یہ نئی رائے نہیں ، اور حضرات نے بھی یہ بات لکھی ہے ۔
غرض : قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اپنے تمام مواد میں منسوخ ہو ، ہاں ایسی آیتیں ہیں جو بعض احوال میں معمول بہا ہیں اور بعض میں نہیں ، جیسے مؤلفۃ القلوب والی آیت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو موقوف کیا ہے ، منسوخ نہیں کیا ، اگر کبھی حالات خراب ہوجائیں اور دور اول والے جیسے حالات پیدا ہوجائیں تو زمانے کا امیر المؤمنین مؤلفۃ القلوب کا حصہ جاری کرسکتا ہے ، مفتی جاری نہیں کرسکتا ۔ جب زمانے کے امیر المؤمنین نے موقوف کیا ہے تو زمانے کا امیر المؤمنین ہی اس کو جاری کرسکتا ہے ۔
ایسی اور بھی آیتیں ، جیسے قرآن میں ہے ، جب موت کا وقت قریب آئے تو والدین کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے شریعت کے مطابق وصیت کرو ، اب یہ حکم باقی نہیں ، کیونکہ میراث کے احکام اللہ تعالیٰ نے نازل فرمادیئے ، مگر اب بھی ایسی صورت پیش آسکتی ہے کہ وصیت ضروری ہو ، جیسے کسی کو ڈر ہو کہ اس کے بعد لڑکے سب ترکے پر قبضہ کرلیں گے ، ماں باپ کو کچھ نہیں دیں گے ، یا بعض بیٹے قبضہ کرلیں گے اور بعض کو کچھ نہیں دیں گے تو ایسی صورت میں شریعت کے احکام کے مطابق وصیت نامہ لکھ کر کورٹ سے رجسٹر کرالینا چاہیئے ، ایسی صورت میں اس آیت پر عمل ہوگا۔
حدیث کی کتابوں میں منسوخ حدیثیں بھی ہیں :
بہرحال قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اپنے تمام مواد میں منسوخ ہو ، لیکن حدیثوں میں منسوخ حدیثیں بھی ہیں ، دور اول کے جو احکام تھے وہ بھی حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں ، اور بعد میں جو احکام آئے وہ بھی کتابوں میں ہیں ، پس پہلی قسم کی روایتیں صرف حدیث ہیں سنت نہیں ، اور دوسری قسم کی روایتیں حدیث بھی ہیں اور سنت بھی ۔
منسوخ حدیث کا پتہ کیسے چل سکتا ہے؟؟
اور حدیثوں میں نسخ کا پتہ کبھی تو قرینہ سے چلتا ہے اور کبھی خود صحابہ کرام صراحت کرتے ہیں کہ یہ حکم پہلے تھا ، بعد میں یہ حکم نہیں رہا ، جیسے ابو داؤد اور ترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے : کان آخر الامرین من رسول اللہ ﷺ ترک الوضوء مما مست النار : آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو نہ کرنا آنحضور ﷺ کا آخری عمل ہے ، اس حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے صراحت کی ہے کہ وہ حدیثیں جن میں آگ پر پکی ہوئی چیزوں کی مزاولت سے وضو کا حکم ہے وہ دور اول کی ہیں اور منسوخ ہیں ۔
اور کبھی قرینہ سے اس کا پتہ چلتا ہے جیسے آنحضور ﷺ کا ارشاد ہے : کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا ( مشکوٰۃ حدیث 1762 ) میں نے تمہیں قبرستان جانے سے روکا تھا ، اب قبرستان جایا کرو ، اس حدیث میں قرینہ ہے کہ قبرستان جانے کی ممانعت دور اول میں تھی ، بعد میں اجازت ہوگئی ۔ پس جواز کی روایات سنت ہیں اور ممانعت کی روایتیں صرف حدیث ہیں ۔
اور کبھی نہ کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے ، نہ صحابہ کی صراحت سے تقدیم و تاخیر کا پتہ چلتا ہے ، ایسی صورت میں مجتہدین غور کرتے ہیں اور تقدیم و تاخیر کا فیصلہ کرتے ہیں ، پھر کبھی تو مجتہدین متفق ہوجاتے ہیں اور کبھی ان میں اختلاف ہوجاتا ہے ، جیسے دو حدیثیں ہیں : الماء من الماء: اور اذا التقی الختانان فقد وجب الغسل : پہلی حدیث کا مدعی یہ ہے کہ اگر میاں بیوی صحبت کریں اور انزال ہوجائے تو غسل واجب ہوگا اور اگر انزال سے پہلے مجامعت ختم کردیں تو غسل واجب نہیں ہوگا ، اور دوسری حدیث کا مدعی یہ ہے کہ جب صحبت شروع کردی اور مرد کی شرم گاہ عورت کی شرم گاہ میں چلی گئی تو دونوں پر غسل واجب ہوگیا ، انزال ہو یا نہ ہو ۔
ان دونوں حدیثوں میں سے کونسی حدیث مقدم ہے اور کونسی مؤخر ؟؟ اس کی کوئی صراحت نہیں ، نہ کوئی قرینہ ہے ، اس لئے دور اول میں صحابہ میں اس مسئلہ میں اختلاف رہا ، بعض صحابہ اکسال کی صورت میں عدم غسل کا فتوی دیتے تھے اور بعض وجوب غسل کا ، اور یہ اختلاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک باقی رہا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس مسئلہ میں صحابہ نے غور کیا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ یہ مسئلہ ازواج مطہرات سے پوچھا جائے ، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص کو اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا مگر انہوں نے لا علمی ظاہر کی ، اور کہا : میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ، پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آدمی بھیجا تو انہوں نے کہا ، میرے اور نبی ﷺ کے درمیان صورت پیش آئی ہے اور ہم نے غسل کیا ہے ، جب صحابہ کرام کو نبی ﷺ کا عمل معلوم ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا : آج کے بعد اگر کوئی شخص ایسا کرے گا اور غسل نہیں کرے گا تو میں اس کو سخت سزا دوں گا ( تفصیل طحاوی میں ہے ) اس دن سے تمام صحابہ کا اجماع ہوگیا کہ اکسال کی صورت میں غسل واجب ہے ، اب مسئلہ میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہا ۔
اور کبھی تقدیم و تاخیر کی تعیین میں مجتہدین کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے ، جیسے رفع یدین اور ترک رفع کی روایات ۔ یعنی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے یا نہیں ؟؟؟ اس سلسلہ صحیح روایتیں موجود ہیں کہ نبی پاک ﷺ ان دونوں موقعوں پر رفع یدین کرتے تھے اور اس کے خلاف بھی روایتیں موجود ہیں کہ حضور ﷺ پوری نماز میں کہیں بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔
بہرحال اس مسئلہ میں صحابہ کے زمانہ سے اختلاف چلا آرہا تھا ، وہی اختلاف جب ائمہ مجتہدین کے دور تک پہنچا تو امام اعظم اور امام مالک ؒ نے یہ موقف اختیار کیا کہ رفع کی روایتیں دور اول کی ہیں اور ترک رفع کی بعد کی ، اور قرینہ یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کے وصال کے بعد چاروں خلفاء نے ضو آپ ﷺ کے مصلے پر کھڑے ہوئے رفع یدین نہیں کیا ، جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سترہ نمازیں آپ ﷺ کی حیات میں پڑھائی ہیں ، پس کیا یہ ممکن ہے کہ آنحضور ﷺ کا آخری عمل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے مصلے پر کھڑے ہوتے ہی موقوف کردیں ؟؟؟ یہ بات ممکن نہیں ۔
پس چاروں خلفاء لا رفع یدین نہ کرنا دلیل ہے کہ رفع کی روایتیں دور اول کی ہیں اور ترک رفع کی روایتیں بعد کی ، اس لئے رفع کی روایتیں منسوخ ہیں اور ترک رفع کی روایتیں ناسخ ، اور ناسخ روایتیں ہی سنت اور معمول بہا ہوتی ہیں ۔
اور امام شافعی اور امام احمد ؒ کا رجحان اس کے برعکس ہے ، یعنی ان کے نزدیک ترک رفع کی روایتیں مقدم اور منسوخ ہیں اور رفع کی روایتیں مؤخر ہیں اس لئے وہی روایتیں سنت اور معمول بہا ہیں ۔
وہ کہتے ہیں : رفع تعظیم فعلی اور نماز کا زیور ہے ، بیٹی کے لئے زیور بناکر رکھ دیتے ہیں جب شادی کا وقت آتا ہے تو زیور اس کو پہناتے ہیں ، اسی طرح رفع یدین جو تعظیم فعلی اور نماز کا زیور ہے آخر میں نماز کو پہنایا گیا ہے ، یعنی رفع آنحضور ﷺ نے آخر میں شروع کیا ہے ۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ صغار صحابہ کرام نے اپنے زمانہ میں رفع یدین کیا ہے اگر رفع والی روایتیں منسوخ ہوتیں تو صحابہ اس پر کیسے عمل کرتے ؟؟ منسوخ روایات پر عمل جائز نہیں ۔
بہرحال دونوں فریقوں کے پاس قرائن ہیں اس لئے ناسخ و منسوخ متعین کرنے میں اختلاف ہوگیا ، لیکن اتنی بات طے ہوگئی کہ بڑے دو اماموں کے نزدیک ترک رفع کی روایتیں سنت ہیں ، اور رفع کی روایتیں صرف حدیث ہیں اور چھوٹے دو اماموں کے نزدیک رفع کی روایتیں سنت ہیں اور ترک کی روایتیں صرف حدیث ہیں ۔
دوسری قسم :
وہ حدیثیں جو نبی ﷺ کے ساتھ خاص ہیں وہ اگرچہ حدیثیں ہیں مگر سنت نہیں ، جیسے نبی ﷺ کے لئے نکاح کے باب میں چار کی قید نہیں تھی ، آپ ﷺ کے نکاح میں نو بیویاں جمع ہوئی ہیں ، جب حضور ﷺ کا یہ فعل ہے تو حدیث ہوئی مگر سنت نہیں ، امت کو جس راستہ پر چلنا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی چار ہی بیویاں ایک ساتھ جمع کرسکتا ہے ، اور حضور ﷺ کا فعل حضور ﷺ کے ساتھ خاص ہے ۔
سورہ احزاب ( آیت 50 ) میں ہے : ( خالصۃ لک من دون المؤمنین ) یہ حکم آپ ﷺ کیلئے خاص ہے ، مؤمنین کیلئے نہیں ہے ( قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم و ما ملکت ایمانھم ) امت کیلئے ان کی بیویوں اور باندیوں کے سلسلہ میں جو احکام ہیں وہ ہم جانتے ہیں ، کیونکہ وہ ہم نے مقرر کئے ہیں ، چنانچہ سورہ نسآء کے شروع میں ہے ( فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنیٰ و ثلٰث ورباع ) پس نکاح کرو تم ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں دو دو تین تین اور چار چار سے ۔ امت کیلئے یہی حکم ہے ۔ وہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار نکاح کرسکتے ہیں اور آنحضور ﷺ کے نکاح میں جو چار سے زیادہ ازواج جمع ہوئی ہیں وہ آپ ﷺ کی خصوصیت ہے ۔
مگر ( لامذہب ) اہلحدث ( غیر مقلد ) اپنی خواہش نفس کیلئے اس حدیث پر بھی ، ان کے نزدیک امت کیلئے بھی نکاح کے باب میں کوئی تحدید نہیں ، نواب صدیق حسن خان بھوپالی کے صاحبزادے نواب نور الحسن خان صاحب نے عرف الجادی میں یہ مسئلہ صراحتا لکھا ہے ، حالانکہ یہ فعل نبوی سنت نہیں ، امت کا اجماع ہے کہ امت کیلئے چار سے زیادہ بیویاں جمع کرنا جائز نہیں ۔
صوم و صال کا حکم
صوم و صال : دو یا زیادہ دنوں کے روزے مسلسل رکھنا ، بیچ میں افطار نہ کرنا ، نبی پاک ﷺ اس طرح کا روزہ رکھتے تھے ، لیکن آپ ﷺ نے امت کو اس روزے سے منع فرمایا ( بخاری حدیث 1961 ) بعد میں اختلاف ہوا کہ صوم و صال کا جواز آنحضور ﷺ کے ساتھ خاص تھا یا امت کیلئے بھی یہ روزہ جائز ہے ؟؟ حضرت عمر اور حضرت عائشہ اور حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہم کے نزدیک صوم و صال کا جواز آنحضور ﷺ کے ساتھ خاص نہیں تھا ، امت کیلئے بھی جائز ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی پاک ﷺ نے امت کو صوم و صال سے شفقت کی بنا پر منع فرمایا ہے ( بخاری حدیث 1964 ) پس صوم و صال فی نفسہ جائز ہے ۔ حضرت عائشہ ، حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہم صوم و صال رکھتے تھے ۔ مگر اکثر صحابہ کرام کی رائے یہ تھی کہ یہ روزہ حضور ﷺ کے ساتھ خاص تھا ۔
غرض حدیثوں میں بعض احکام وہ ہیں جو آنحضور ﷺ کے ساتھ خاص ہیں ، ایسے احکام حدیث ہیں سنت نہیں ۔
تیسری قسم :
نبی ﷺ نے کسی مصلحت سے کوئی بات فرمائی یا کوئی عمل کیا یا کسی مسئلہ کی وضاحت کیلئے کوئی عمل کیا تو وہ حدیث ہے مگر سنت نہیں ، جیسے ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ایک قوم کی کوڑی پر کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا ( بخاری حدیث 224 ) یہ حدیث ہے مگر سنت نہیں ، یعنی یہ دینی طریقہ نہیں ، کیونکہ آپ ﷺ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب فرماتے تھے ، پس وہی سنت ہے ۔
پھر ایک مرتبہ حضور ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیوں کیا ؟؟
جواب :: مسئلہ کی وضاحت کیلئے ، کبھی انسان کو ایسی مجبوری پیش آتی ہے کہ بیٹھ نہیں سکتا ، مثلا کوڑی ہے ، گنڈگی کی جگہ ہے ایسی مجبوری میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے ، یا کسی بیماری کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتا تب بھی یہی حکم ہے ۔
پھر سنت کیا ہے ؟؟؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : من حدثکم ان النبی ﷺ کان یبول قائما فلا تصدقوہ ماکان یبول الا قاعدا : اگر تم سے کوئی بیان کرے کہ آپ ﷺ کی عادت کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی تھی تو ہرگز نہ ماننا ، آپ ﷺ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب فرمایا کرتے تھے ( ترمذی حدیث 11 )
لطیفہ :
نیویارک کی ایک مسجد میں ایک غیر مقلد حدیث کی تعلیم کر رہا تھا اس نے بخاری شریف کھول کر یہی حدیث بیان کی اور کہا : کھڑے ہوکر پیشاب کرنا سنت ہے ، اس حدیث سے یہ بات صراحتا ثابت ہوتی ہے ، مجمع میں سے ایک شخص نے سوال کیا : یہ سنت صرف مردوں کیلئے ہے یا عورتوں کیلئے بھی ؟؟؟ بس سٹی گم ہوگئی ۔
دوسری مثال :
بخاری شریف ( کتاب التہجد باب 35 حدیث 1183 ) میں حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : صلوا قبل صلوٰۃ المغرب : مغرب سے پہلے نفلیں پڑھو ، یہ بات دو مرتبہ فرمائی ، پھر تیسری مرتبہ لمن شاء بڑھایا ۔ یعنی مغرب سے پہلے کوئی نفلیں پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ، راوی عبد اللہ مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : آپ ﷺ نے لمن شاء اس لئے بڑھایا کہ لوگ اس کو سنت نہ سمجھ لیں ، کراھیۃ ان یتخذھا الناس سنۃ : اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ لوگ اس کو سنت بنالیں ، اس سے معلوم ہوا کہ حدیث اور سنت میں فرق ہے اور ارشاد پاک صلوا قبل صلوٰۃ المغرب مسئلہ کی وضاحت کیلئے تھا ، عصر کے فرضوں کے بعد جو نفلوں کی ممانعت ہے وہ گروب شمس تک ممتد ہے ، سورج چھپتے ہی کراہیت ختم ہوجاتی ہے ، اب کوئی نفلیں پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ، مگر اس وقت میں نفلیں پڑھنا سنت نہیں ، نہ نبی ﷺ نے مغرب سے پہلے کبھی نفلیں پڑھی ہیں اور نہ چاروں خلفاء نے ، کیونکہ مغرب میں تعجیل ( جلدی کرنا ) مطلوب ہے ، سنتیں پڑھنے سے تاخیر ہوجائے گی ،
تیسری مثال :
ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی پاک ﷺ کے ساتھ لیٹی ہوئی تھیں کہ حیض شروع ہوگیا ، وہ اٹھ کر خاص کپڑے باندھنے لگیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : لنگی باندھ کر میرے ساتھ لیٹ جاؤ ۔ یہ زندگی میں ایک مرتبہ کا واقعہ تھا اور مسئلہ کا بیان تھا سنت نہیں تھا ۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ واقعہ بیان کرتیں تو ساتھ ہی کہتیں : و ایکم یملک اربہ : تم میں سے کون ہے جو اپنی خواہش پر کنٹرول رکھ سکتا ہے : یعنی اس کو سنت سمجھ کر حالت حیض میں بیوی کے ساتھ متلٹاؤ ، ورنہ گناہ میں مبتلا ہوجاؤ گے ۔
سوال : وہ کونسا مسئلہ ہے ، جس نے اس فعل کی وضاحت کی ہے ؟؟
جواب : اس حدیث نے سورۃ البقرۃ ( آیت 222 کی تفسیر کی ہے ارشاد پاک ہے : ( و یسئلونک عن المحیض ؟؟ قل ھو اذی فاعتزلوا النسآء فی المحیض ، ولا تقربوھن حتیٰ یطھر ) لوگ آپ سے حیض کا حکم پوچھتے ہیں ؟؟ آپ ﷺ کہیں : وہ تکلیف دہ حالت ہے ، پس تم حیض کے زمانے میں عورتوں سے علاحدہ رہا کرو ، اور ان کے نزدیک مت جایا کرو ، جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ۔
اور نزول آیت کے وقت یہود و مجوس حالت حیض میں عورت کے ساتھ کھانے پینے اور ایک گھر میں رہنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے تھے ، اور نصاریٰ و مشرکین مجامعت سے بھی پرہیز نہیں کرتے تھے ۔ اس لئے اس کی وضاحت ضروری تھی کہ کہاں تک نزدیک جاسکتے ہیں ، اور کہاں پہنچ کر رک جانا ضروری ہے ، چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے مختلف افعال سے اس کی وضاحت فرمائی ۔ آپ ﷺ حائضہ بیوی کے ساتھ کھاتے تھے ، بلکہ اس کی کھائی ہوئی ہڈی لے کر نوش فرماتے تھے ، اس کی گود میں سر رکھ کر سوتے تھے ، بلکہ قرآن بھی پڑھتے تھے ۔ اسی سلسلہ کی یہ روایت بھی ہے کہ آُ ﷺ نے حائضہ بیوی کو لنگی کے ساتھ اپنے ساتھ لتایا ہے ، اس سے آگے آپ ﷺ کا کوئی عمل نہیں ، چنانچہ امام اعظم ؒ فرماتے ہیں : اس جگہ رک جانا ضروری ہے ۔ ناف اور گھٹنے کے درمیان کے جسم کو بغیر حائل کے ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ باقی جسم کو ہاتھ لگا سکتے ہیں ۔
غرض :
یہ تین قسم کی روایتیں حدیثیں تو ہیں مگر سنت نہیں ،
اول : جو حدیثیں منسوخ ہیں ۔
دوم : جو حدیثیں نبی پاک ﷺ کے ساتھ خاص ہیں یا جن میں آپ ﷺ کے ساتی احوال کا بیان ہے ۔
سوم : وہ کام جو نبی ﷺ نے کسی مصلحت سے کیا ہے ۔
خلفائے راشدین نے جو کام ملک و ملت کی تنظیم کیلئے کئے ہیں وہ سنت ہیں حدیث نہیں :
دوسرا مادہ افتراقی :
کچھ چیزیں سنت ہیں مگر حدیث نہیں ، وہ خلفائے راشدین کی سنتیں ہیں ، وہ من امور الخلفاء الراشدین ہیں ، من امور رسول اللہ ﷺ نہیں ہیں ۔
جاننا چاہیئے کہ حکومتیں دو طرح کی ہیں : قومی حکومت ( نیشنل گورنمنٹ ) اور بین الاقوامی حکومت ( انٹرنیشنل گورنمنٹ ) آنحضور ﷺ کے زمانے تک اسلامی حکومت صرف جزیرۃ العرب میں قائم ہوئی تھی یعنی قومی حکومت تھی اس لئے آنحضور ﷺ نے صرف قومی حکومت کے احکام بیان فرمائے ۔ بین الاقوامی حکومت کے احکام بیان نہیں فرمائے ۔ اس لئے کہ اگر بین الاقوامی حکومت کے احکام بیان کئے جاتے تو وہ قبل از وقت ہوتے اور ان کو سمجھنے میں بھی دشواری ہوتی اور یاد رکھنے میں بھی ، یہ تو صرف قرآن کریم کا معجزہ ہے کہ ایک حرف سمجھے بغیر عجمی بچہ پورا قرآن حفظ کرلیتا ہے ۔ اور اس طرح پڑھتا ہے جیسے سمجھ کر پڑھ رہا ہو ، کوئی دوسری کتاب سمجھے بغیر حفظ کرکے کوئی دکھائے تو ہم جانیں ،
غرض :
قبل از وقت احکام بیان کئے جائیں گے تو ان کو سمجھنا بھی مشکل ہوگا اور یاد رکھنا بھی ، جیسے آج کل کلونک کا مسئلہ چل رہا ہے ، یہ انگریزی لفظ ہے ، اس کے معنی ہیں : قلم کاری ، یعنی ایک آدمی سے چند آدمی بنانا ، اگر آنحضور ﷺ چودہ سو سال پہلے یہ مسئلہ بیان کرتے تو کون سمجھتا ؟؟ اسی طرح اگر حضور ﷺ بین الاقوامی حکومت کے احکام بیان کرتے تو صحابہ کیسے سمجھتے ؟؟ اور نہ سمجھتے تو یاد کیسے کرتے ؟؟ اور امت تک کیسے پہنچاتے ؟؟ مسئلہ وقت پر ہی سمجھ میں آتا ہے ، اور وقت پر ہی بیان کیا جاتا ہے ، اس لئے آنحضور ﷺ نے بین الاقوامی حکومت کے احکام بیان نہیں کئے ، بین الاقوامی حکومت قائم ہوئی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کل دو سال رہی ہے ، اور وہ دو سال بھی بڑے ہنگاموں میں گذرے ہیں ۔ اندرونی مسائل اتنے پیچیدہ تھے کہ ان سے نمٹنا مشکل تھا ۔ پھر جب جزیرۃ العرب کے مسائل نمٹ گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جزیرۃ العرب سے متصل جو دو سپر پاور تھے : ایران اور روم ، ان کے ساتھ جنگیں شروع ہوئیں ، اور اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی ، ایران تو بالکل ختم ہوگیا اور روم پیچھے ہٹ گیا ، اور بین الاقوامی حکومت قائم ہوئی ، ملت بھی بڑھ گئی ، بے شمار لوگ اسلام میں داخل ہوئے ، اس طرح جب بین الاقوامی حکومت قائم ہوئی تو اس کے احکام بیان کرنے ضروری ہوئے ،وہ خلفاء راشدین نے بیان کئے اور وہ ان کی سنتیں قرار پائیں ، اور جب ملت بڑھ گئی تو ملت کی تنظیم بھی ضروری ہوئی ، وہ خلفاء راشدین نے کی اور وہ ان کی سنتیں ٹھریں ۔
غرض ملک و ملت کو منظم کرنے کے لئے چاروں خلفائے راشدین نے جو طریقے رائج کئے ہیں وہ خلفاء راشدین کی سنتیں ہیں ، حدیثیں نہیں ہیں ۔ یہ دوسرا مادہ افتراقی ہوا ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سنت :
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو کچھ قبائل نے دارالحکومت ( سینٹرل گورنمنٹ ) کو زکوٰتیں دینے سے انکار کردیا ، ان کو مانعین زکوٰۃ کہتے ہیں ۔ مانعین زکوۃ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ زکوٰۃ کے وجوب کا انکار کرتے تھے ، بلکہ مانعین زکوٰۃ کہتے تھے کہ ہم اپنی زکوٰۃ خود اپنے غریبوں میں تقسیم کریں گے ، مدینہ ( دارالحکومت) کو نہیں بھیجیں گے ، یہ حضور ﷺ کی خصوصیت تھی ، ان کی دلیل یہ تھی کہ سورۃ التوبہ ( آیت 103 ) میں ارشاد پاک ہے : (خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا وصل علیھم ، ان صلوٰتک سکن لھم ) آپ ﷺ ان کے مالوں میں سے صدقہ ( زکوٰۃ ) لیجئے ، جس کے ذریعہ آپ ان کو پاک و صاف کریں ، اور ان کیلئے دعا کیجئے بیشک آپ ﷺ کی دعاؤں سے ان کو تسلی ہوتی ہے ، اب جبکہ آنحضور ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے تو کون دعائیں دے گا ؟؟ اور کس کی دعا تسکین کا باعث ہوگی ؟؟ لہذا اب ہم سنٹرل گورنمنٹ کو زکوٰتیں نہیں بھیجیں گے ، ہم اپنے قبیلے کی زکوٰتیں وصول کرکے خود تقسیم کریں گے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں ان کے ساتھ جنگ کروں گا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ لوگ مسلمان ہیں ، ان کیساتھ جنگ کیسے جائز ہے ؟؟ حدیث میں ہے : امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوا : لاالہ الا اللہ : مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں ، جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں یعنی اسلام قبول کرنے پر جنگ بند کردینا ضروری ہے ۔ مگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ برابر یہی فرماتے رہے کہ میں ان سے جنگ کروں گا ، اگر وہ نبی ﷺ کے زمانے میں زکوٰۃ میں رسی دیتے تھے اور وہ نہیں دیں گے تو بھی میں ان سے جنگ کروں گا اور ان کو مجبور کروں گا کہ وہ زکوٰۃ مرکزی حکومت کو بھیجیں ( مشکوٰۃ حدیث 1790 ) مگر پھر جنگ کی نوبت نہیں آئی ، وہ لوگ قائل ہوگئے اور انہوں نے سنٹرل گورنمنٹ کو زکوٰۃ بھیجنی شروع کردی ۔
اب مسئلہ طے ہوگیا کہ جو چیزیں شعائر اسلام میں سے ہیں اگرچہ وہ سنت ہوں اگر وہ مسلمانوں کی کوئی جماعت بالاتفاق ان شعائر کو ترک کردے تو ان کیساتھ جنگ کی جائے گی اور ان کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ شعائر اسلام کو قائم کریں ، مثلا کسی علاقے کے لوگ بالاتفاق طے کرلیں کہ وہ اذان نہیں دیں گے تو اگرچہ اذان دینا سنت ہے ، فرض یا واجب نہیں ، مگر چونکہ اذان شعائر اسلام میں سے ہے اس لئے ان کیساتھ جنگ کی جائے گی اور ان کو اذان دینے پر مجبور کیا جائے گا ، یا کسی علاقے کے مسلمان طے کرلیں کہ وہ اپنے بچوں کی ختنہ نہیں کرائیں گے تو اگرچہ ختنہ کرانا اصح قول کے مطابق سنت ہے مگر شعائر اسلام میں سے ہے ۔ اس وجہ سے ان کو ختنہ کرانے پر مجبور کیا جائے گا یہ سب مسائل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سنت سے طے ہوئے ۔
دوسری سنت :
آنحضور ﷺ نے اپنے بعد کوئی خلیفہ نامزد نہیں کیا ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اشارے فرمائے مگر صراحت نہیں کی ، چنانچہ آپ ﷺ کے بعد بالاتفاق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ چنے گئے ، لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا ، ایک پرچہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لکھا اور بند کرکے لوگوں کے پاس بھیجا اور اس پر بیعت لی ، چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوگئے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلیفہ نامزد کرنے جو طریقہ اختیار کیا وہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کی سنت ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنتیں تو بے شمار ہیں ، جن کے ذریعہ آپ رضی اللہ عنہ نے ملک و ملت کی تنظیم کی ہے ، جیسے باجماعت تراویح کا نظام بنایا ، آنحضور ﷺ کے زمانے میں باجماعت تراویح کا نظام نہیں تھا ، لوگ اپنے طور پر تراویح پڑھتے تھے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی اسی طرح چلتا رہا ، پھر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے باقاعدہ جماعت کے ساتھ تراویح کا نظام بنایا اور ملت کو منظم کیا ، اسی طرح ایک مجلس کی اور ایک لفظ کی تین طلاقوں کو تین قرار دیا اور چور دروازہ بند کردیا یہ بھی ملت کی تنظیم کی ہے ، علاوہ ازیں : عراق جو لڑ کر فتح کیا گیا تھا اس کی زمینیں مجاہدین میں تقسیم نہیں کیں اور ذمیوں پر جزیہ کی شرح مقرر کی یہ سب ملک کی تنظیم ہے ،
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سنت :
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دو زبردست کا م کئے ہیں :
ایک : جمعہ کی پہلی اذان بڑھائی ،
دوسرا : قرآن کو سرکاری ریکارڈ سے نکال کر لوگوں کو سونپ دیا اور امت کو لغت قریش پر جمع کردیا ، یہ حضرت عثمان رضی اللہ کے دو بڑے کام ہیں جن کے ذریعہ انہوں نے ملت کی تنظیم کی ۔
آنحضور ﷺ کے زمانے میں جمعہ کی دو ہی اذانیں تھیں ، پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی ، جب امام منبر پر آکر بیٹھتا تھا ، یہ اذان مسجد کے دروازے کی چھت پر ہوتی تھی ، پھر خطبہ کے بعد نماز سے پہلے اقامت ہوتی تھی یہ دوسری اذان تھی ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ کی آبادی دور تک پھیل گئی لوگ اذان کے بعد بھی خطبہ دوران آتے رہتے تھے ، اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک اذان بڑھائی تاکہ سب لوگ خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد میں پہنچ جائیں ، چنانچہ پہلی اذان کے دس منٹ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ منبر تشریف لاتے تھے ، پھر دوسری اذان امام کے سامنے دی جاتی تھی ، پھر نماز سے پہلے یعنی اقامت ہوتی تھی ، اس طرح جمعہ کی پہلی اذان کے ذریعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے امت کو منظم کیا یہ آپ رضی اللہ عنہ کی سنت ہے ، حدیث نہیں ،
دوسرے کام کی تفصیل :
نبی ﷺ کی وفات کے بعد فورا مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ یمامہ پیش آئی جس میں کافی حفاظ شہید ہوئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صورت حال سے گھبرا کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ قرآن کریم کو سرکاری ریکارڈ میں لے لیا جائے تاکہ اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ رہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر بہت اصرار کیا، چنانچہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قرآں کریم کو سرکاری ریکارڈ میں لے لیا ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے کے آخر میں یہ بات سامنے آئی کہ لوگوں نے مختلف طرح سے قرآن لکھ رکھے ہیں ۔ کسی نے نزول کی ترتیب سے ،کسی نے لوح محفوظ کی ترتیب سے ، اس سے اختلاف رونما ہونا ناگزیر تھا ، چنانچہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ جنگ ارمینیہ اور آزربائجان سے لوٹے تو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اختلافات کی اطلاع دی ، اور عرض کیا کہ اس سے پہلے کہ امت قرآن میں مختلف ہوجائے آپ اس کی خبر لیں ، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا اور تین چار آدمیوں کی کمیٹی بنائی اور ان کو دوبارہ قرآن جمع کرنے کا حکم دیا ۔
کمیٹی نے پانچ مصاحف تیار کئے ، ایک مصحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس مدینہ میں رکھا اور باقی مصاحف مختلف شہروں میں بھیج دیئے ، اور حکم دیا کہ اب مسلمان اس قرآن سے نقلیں لیں اور یہ بھی حکم دیا کہ لوگوں نے جو مختلف قرآن لکھ رلھے ہیں وہ پایئہ تخت کو بھیج دیں ، اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو موجودہ قرآن پر جمع کردیا ،
غرض حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کام کے ذریعے دو کام کئے :
ایک : لوگوں کو موجودہ قرآن پر جمع کردیا ، اس لئے آپ رضی اللہ عنہ جامع الناس علی ھذا لقرآن ہیں مگر تخفیفا آپ رضی اللہ عنہ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے ۔
دوم : قرآن جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سرکاری ریکارڈ میں لیا گیا تھا اس کو ریکارڈ سے نکال کر مسلمانوں کو سونپ دیا ( جمع قرآن کی تاریخ کیلئے تحفۃ الالمعی 61.62 دیکھیں )
چنانچہ آج بھی قرآن کریم دنیا کی کسی اسلامی حکومت کے ریکارڈ میں نہیں ، سعودی حکومت قرآن کریم چھاپتی ہے ، تفسیر چھاپتی ہے یہ اس کے لئے سعادت کی بات ہے ، مگر سعودیہ سمیت کوئی اسلامی حکومت قرآن کریم کی محافظ نہیں ۔ قرآن کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سرکاری ریکارڈ سے نکال کر مسلمانوں کو سونپ دیا ہے ، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے سونپا تھا ۔ اب پوری ملت اسلامیہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ دار ہے ، کوئی اسلامی حکومت ذمہ دار نہیں ، یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دوسرا بڑا کارنامہ ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت :
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنتے ہی مسلمانوں میں جنگیں شروع ہوئیں ، پہلی جنگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہوئی ، اس جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اونٹ پر سوار تھیں اس لئے اس جنگ کا نام جنگ جمل پڑا ، اس جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج ہاری ، اور مال غنیمت اکٹھا ہوا اور قیدی بھی پکڑے گئے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی قیدیوں میں تھیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے مال غنیمت کی تقسیم کا مطالبہ کیا ، حضرت علی رضی اللہ عنہا نے تقریر فرمائی کہ اگر مال غنیمت تقسیم ہوگا تو قیدی بھی غلام باندی بنائے جائیں گے ، پس تم میں سے کون منحوس ہے جو اپنی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی باندی بنائے گا ؟؟ بس سناٹا چھا گیا اور مسئلہ طے ہوگیا کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑیں تو نہ مال : مال غنیمت ہوگا اور قیدی غلام باندی بنائے جائیں گے ، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت ہے ۔
خلفائے راشدین کی سنتوں کی پیروی کیوں ضروری ہے ؟؟
غرض یہ خلفائے راشدین کے وہ طریقے ہیں جو ملک و ملت کی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں ، جن کو حدیث شریف کی رو سے اپنانا ضروری ہے ، نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا ، و عضوا علیھا بالنواجذ : میرا طریقہ لازم پکڑو اور میرے بعد جو میرے جانشین آئیں گے ان کا طریقہ لازم پکڑو ، سنتی و سنۃ الخلفاء میں واؤ کے ذریعہ عطف کیا گیا ہے اور جہاں واؤ کے ذریعہ عطف کیا جاتا ہے من وجہ اتحاد ہوتا ہے اور من وجہ مغایرت ، پس حضور ﷺ کی سنت اور خلفائے راشدین کی سنتوں میں فی الجملہ مغایرت ماننی پڑے گی ، اور دونوں ہی سنتوں کی پیروی ضروری ہوگی ،
سوال :
یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آنحضور ﷺکا طریقہ تو اس لئے لازم پکڑنا ضروری ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، گفتہ او گفتہ اللہ بود ، آپ ﷺ کی ہر بات اللہ کی بات ہوتی ہے ، ( وما ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الا وحی یوحیٰ ) لیکن خلفاء کی پیروی کیوں ضروری ہے ؟؟ وہ تو اللہ کے رسول نہیں ہیں ؟؟
جواب :
نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ ان کی پیروی دو وجہ سے ضروری ہے :
ایک : وہ راشد ہونگے ، راشد کے معنیٰ ہیں : راہ یاب ۔
دوم : وہ مہدی ہونگے ، مہدی کے معنی ہیں ، ہدایت مآب ۔ یعنی ہدایت ان کی گھٹی میں پڑی ہوگی ، آنحضور ﷺ نے یہ دو سندیں ان کو عطا فرمائی ہیں اس لئے ان کی بات ماننی ضروری ہے ۔
اور ائمہ کی تقلید بھی اسی بنیاد پر کی جاتی ہے ۔ وہ پورے دین کے جاننے والے ہیں ، انہوں نے کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہی ، انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ قرآن وحدیث سے سمجھ کر کہا ہے ۔
بہرحال خلفائے راشدین کی پیروی اس لئے کرنی ہے کہ وہ راہ یاب ، ہدایت مآب ہونگے ، پھر حضور ﷺ نے تاکید فرمائی : تمسکوا بھا : مفرد کی ضمیر لائے ، کیونکہ حضور ﷺ کی سنت کو مضبوط پکڑنے میں تو کسی مسلمان کو تردد نہیں ہوسکتا ، ہاں خلفائے راشدین کی سنتوں کی پیروی میں اشکال ہوسکتا ہے ۔ اس لئے حضور ﷺ نے تاکید فرمائی : تمسکوا بھا : اور ضمیر کا مرجع اقرب ہوتا ہے یعنی خلفائے راشدین کی سنتوں کو مضبوط پکڑو ، پھر مزید تاکید فرمائی : وعضوا علیھا بالنواجذ : اور خلفائے راشدین کی سنتوں کو ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑو ، ہاتھوں ہی سے نہیں ، ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑو ۔
خلفائے راشدین کی باتیں حضور ﷺ کے جانشین ہونے کی وجہ سے حجت ہیں :
اس حدیث سے دو باتیں سمجھ میں آئیں :
ایک : خلفائے راشدین کی باتیں حجت ہیں ۔
دوم : خلفائے راشدین کی باتیں اس وجہ سے حجت ہیں کہ وہ خلفاء ہیں ، حضور ﷺ کے جانشین ہیں ، حکومت کے سربراہ ہیں ، صرف امت کے مجتہد ہونے کی حیثیت سے ان کی باتیں حجت نہیں ، اسی لئے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے دو چیزوں کی تخصیص کی ، فرمایا : ملک اور ملت کی تنظیم سے تعلق رکھنے والی خلفائے راشدین کی جو باتیں ہیں ان کو اپنانا ضروری ہے ، اور ان کے علاوہ جو باتیں ہیں وہ خلفائے راشدین کے عام اجتہادات ہیں ، ان میں خلفاء دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مانند ہیں ، جس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجتہادات میں سے کچھ باتیں لی جاتی ہیں اور کچھ باتیں چھوڑی جاتی ہیں ، اسی طرح خلفاء کے اجتہادات میں سے بھی کچھ باتیں لی جاتی ہیں اور کچھ باتیں چھوڑی جاتی ہیں ، جیسے عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ؟؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے ، امام ابو حنیفہ ؒ نے اس کو نہیں لیا یا جیسے کسی حاملہ عورت کا شوہر وفات پا جائے تو عدت چار مہینے دس دن ہوگی یا وضع حمل ؟؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ ابعد الاجلین عدت ہوگی ،چاروں فقہاء نے اس کو نہیں لیا ، بالاجماع وضع حمل سے عدت پوری ہوجائے گی ، غرض اس طرح کے جو اجتہادات ہیں وہ مجتہدین کے عام اجتہادات کی طرح ہیں ان کو لینا ضروری نہیں ، ہاں جو باتیں ملک و ملت کی تنظیم سے تعلق رکھتی ہیں ان کو لینا ضروری ہیں ۔
وہ روایتیں جو حدیث بھی ہیں اور سنت بھی ،
مادہ اجتماع : بہرحال میں یہ سمجھا رہا تھا کہ جہاں من وجہ کی نسبت ہوتی ہے وہاں تین مادے ہوتے ہیں دو افتراقی اور ایک اجتماعی ، دو افتراقی مادے میں نے سمجھا دیئے ، باقی جتنی حدیثیں ہیں وہ سب سنتیں بھی ہیں اور حدیثیں بھی ، اور وہ اٹھانوے فیصد ہیں ، صرف ایک فیصد ایسی حدیثیں ہیں جو سنت نہیں ، اور ایک فیصد خلفائے راشدین کی وہ باتیں ہیں جن کو لینا ضروری ہے اور وہ حدیث نہیں ، صرف سنت ہیں ۔
احادیث میں صرف سنت کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے :
یہاں ایک اہم بات جاننی چاہئے ، پورے ذخیرہ حدیث میں ایک بھی حدیث ایسی نہیں جس میں آنحضور ﷺ نے حدیث کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہو ، ایسی روایتیں تو ہیں جن میں آپ ﷺ نے حدیثوں کو یاد کرنے کے فضائل بیان کئے ہیں ، حدیثیں محفوظ کرکے دوسروں تک پہنچانے والوں کو دعائیں دی ہیں ، لیکن کوئی ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں جس میں آپ ﷺ نے حدیث کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہو ، ہر جگہ سنت کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہے ، جیسے اوپر حدیث ہے علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء : بسنتی فرمایا : بحدیثی نہیں فرمایا ( مشکوٰۃ حدیث 186 ) میں ہے : ترک فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکم بھما : کتاب اللہ و سنۃ رسولہ : اس میں بھی سنت کا لفظ آیا ہے ۔ اور مشہور حدیث ہے : من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر ماۃ شھید ( مشکوٰۃ 176 )
غرض کسی حدیث میں حدیثوں کو مضبوط پکڑنے کا حکم نہیں دیا ، حدیثوں کو یاد کرنے کے فضائل آئے ہیں اور دوسروں تک پہنچانے کے بھی فضائل آئے ہیں چنانچہ امت نے حدیثیں محفوظ کیں ، مخصوص بھی اور منسوخ بھی اور وہ ہم تک پہنچائیں ، مگر جہاں تک ہدایت کا تعلق ہے سب روایات میں سنت کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے ،
اہل قرآن کے مقابلہ میں ہمارا مسلکی عنوان حجیت حدیث ہے
اور اہل حدث ( غیر مقلدین ) مقابلہ میں حجیت سنت ہے :
غرض یہ بات ہم منقح کرچکے کہ حدیث اور سنت میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے ، احادیث کا اٹھانوے فیصد حصہ مادہ اجتماعی ہے ، اور دو فیصد مادہ افتراقی ،
اب اصل بات سمجھنی چاہیئے ، ہمارا مسلکی عنوان ہے : حجیت حدیث یعنی ہمارا دعوی یہ ہے کہ حدیث حجت ہے مگر یہ عنوان فرقہ اہل قرآن کے مقابلہ میں ہے ، یہ فرقہ حدیث کا انکار کرتا ہے یعنی حدیث کی حجیت کا انکار کرتا ہے ، پس ان کے مقابلے میں ہمارا عنوان حجیت حدیث ہوگا ۔
سوال : عرف عام میں حدیث اور سنت کو ایک سمجھا جاتا ہے ، اور ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں ، پس من وجہ کی نسبت کیسے ہوسکتی ہے ؟؟ تساوی کی نسبت ہونی چاہیئے ؟؟
جواب : کبھی دو چیزوں میں معمولی فرق ہوتا ہے تو عمومی استعمال میں اس کا لحاظ نہیں کرتے ، لیکن خصوصی استعمال مین اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ جیسے لوگ ایمان و اسلام کے استعمال میں فرق ملحوظ نہیں رکھتے ۔ ایک جگہ دوسرے کو استعمال کرتے ہیں ، ایمان کی جگہ اسلام اور اسلام کی جگہ ایمان بول دیتے ہیں ۔ نصوص میں بھی ایک کا دوسرے پر اطلاق آیا ہے ،مگر خصوصی استعمال میں فرق ملحوظ رکھاجاتا ہے۔
پہلی مثال :
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آنحضور ﷺ سے پہلا سوال کیا تھا ؟؟ ماالایمان ؟؟ ایمان کیا ہے ؟؟ آپ ﷺ نے چھ عقیدے بتلائے ، پھر انہوں نے دوسرا سوال کیا : ماالاسلام ؟؟ اسلام کیا ہے ؟؟ تو آپ ﷺ نے پانچ اعمال بتلائے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور ایمان دو الگ الگ چیزیں ہیں ، اسی لئے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے الگ الگ سوال کئے ، اور آپ ﷺ نے الگ الگ جواب دیئے ۔ غرض خصوصی استعمال میں ایمان و اسلام کے درمیان فرق ملحوظ رکھا جات ہے ۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ عقیدوں کا نام ایمان ہے ، اور اعمال جو عقیدوں کے پیکر محسوص ہیں ان کا نام اسلام ہے ۔
دوسری مثال :
قرآن کریم میں ہے : ( قالت الاعراب آمنا ، قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم ) گنوار کہتے ہیں : ہم ایمان لے آئے ، آپ ﷺ کہیں : تم ایمان نہیں لائے ، ہاں یو کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے یعنی مخالفت چھوڑ کر مطیع ہوگئے اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ( الحجرات 14 )
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
ایک : ایمان اور اسلام کے درمیان فرق ، بدؤں نے جو کہا تھا : آمنا : قرآن نے کہا : تم غلط کہتے ہو ، اسلمنا : کہو یعنی ہم سرینڈر ہوئے ، ہم نے اطاعت قبول کی ، وہ لوگ اعمال ظاہری کرتے تھے ، مسجدوں میں نماز پڑھتے تھے زکوٰۃ دیتے تھے حج کرتے تھے ، پس اسلمنا کہنا تو درست ہے ، لیکن عقائد ابھی ان کے دلوں میں نہیں گھسے ، پس آمنا کہنا درست نہیں ،
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایمان کا محل قلب ہے یعنی ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے ، محض اعمال کا نام نہیں ( یہ معرکۃ الآراء مسئلہ ہے ، تفصیل کتاب الایمان کے شروع میں آئے گی )
اسی طرح حدیث اور سنت میں فرق ہے ، اگرچہ ایک دو فیصد ہی کا سہی مگر ہے، اور اٹھانوے فیصد ایک کا دوسرے پر اطلاق ہوتا ہے ۔ اسی لئے جب ہمارا مناظرہ فرقہ اہل قرآن سے ہوگا تو ہمارا مسلکی عنوان حجیت حدیث ہوگا ۔اہل قرآن کے نزدیک مصدر تشریع صرف قرآن ہے یعنی صرف قرآن کریم سے احکام شرعیہ مستنبط کئے جاتے ہیں ، حدیثوں سے مستنبط نہیں کئے جاتے ، ان کے نزدیک حدیثیں مصدر تشریع نہیں ۔
جاننا چاہیئے کہ فرقہ اہل قرآن حدیثوں کی تاریخی حیثیت کا انکار نہیں کرتا بلکہ ان کے نزدیک حدیثیں بزرگوں کے ملفوظات کی طرح ہیں ، جس طرح بزرگوں کے ملفوظات سے استفادہ کرنا چاہیئے لیکن ان سے شرعی احکام ثابت نہیں ہونگے،اسی طرح حدیثیں بھی ہیں ، ان سے فائدہ اٹھانا چاہیئے لیکن وہ مصدر تشریع نہیں ان سے احکام مستنبط نہیں کئے جائیں گے۔
اہل قرآن کے مقابلہ میں ہمارا دعوی یہ ہے کہ قرآن کی طرح حدیثیں بھی حجت ہیں قانون سازی کا مصدر ہیں ، اس لئے ہمارا عنوان ہوگا کہ حدیثیں بھی حجت ہیں اور یہ اٹھانوے فیصد حدیثوں کے لحاظ سے ہوگا ، کیونکہ عمومی استعمال میں ایک دو فیصد کا لحاظ نہیں کیا جاتا ۔
اور اہلحدث ( غیر مقلدین ) کے مقابلہ میں ہمارا مسلکی عنوان حجیت سنت ہوگا ، ہم نے اپنا نام اہل السنہ رکھا ہے اور غیر مقلدین نے اہلحدث ۔ان کے نزدیک ہر حدیث حجت ہے خواہ منسوخ ہو یا مخصوص ، اور ہمارے نزدیک مطلق حدیث حجت نہیں بلکہ وہ حدیث حجت ہے جو سنت بھی ہے،جو حدیثین سنت نہیں وہ مسائل میں حجت نہیں ، اسی وجہ سے ہمارا نام اہل السنۃ ہے ۔
اجماع بھی حجت ہے :
پھر غیر مقلدین سے ہمارا دوسرا اختلاف یہ ہے کہ اجماع بھی حجت ہے ۔
اہلحدث کہتے ہیں : قرآن و حدیث کے بعد کوئی چیز حجت نہیں ۔ پس ہمارے نزدیک مصادر شرعیہ تین ہیں : قرآن ، سنت اور اجماع۔ اس لئے ہمارا پورا نام : اہل السنہ و الجماعہ ، یعنی سنت کو اور مسلمانوں کے اجماعی فیصلوں کو حجت ماننے والے ،
اہل السنہ و الجماعہ کا نام ایک حدیث سے لیا گیا ہے :
اور یہ نام ایک حدیث سے لیا گیا ہے ۔ روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل کے بہتر فرقے ہوئے اور میری امت تہتر فرقے ہونگے ،جن میں سے ایک جنت میں جائے گا باقی جہنم رسید ہونگے ، پوچھا گیا ، یارسول اللہ : وہ ایک فرقہ کونسا ہے ؟؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ما انا علیہ و اصحابی : وہ وہ فرقہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوگا ( مشکوٰۃ حدیث 171 )
اجماعی راستہ ہے ۔ اس حدیث سے اہل السنۃ و الجماعہ کا نام لیا گیا ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے منہاج السنۃ میں اہل السنۃ و الجماعہ کے یہی معنی بیان کئے ہیں ، فرماتے ہیں : سنت سے مراد نبی پاک ﷺ کا طریقہ ہے اور جماعت سے مراد صحابہ کا اجماع ہے ، غیر مقلد عالم نواب وحید الزماں صاحب نے بھی نزول الابرار میں یہی معنی بیان کئے ہیں کہ سنت سے مراد حضور ﷺ کا طریقہ ہے اور جماعت سے مراد امت کا اجماع ہے (تحفۃ الالمعی 1/85 )
اس لئے اہل قرآن سے امتیاز کرنے کیلئے ہمارا مسلکی عنوان حجیت حدیث ہے اور اہل حدث سے امتیاز کرنے کیلئے ہمارا نام اہل السنہ ہے اور چونکہ ہم چار فقہاء کے مقلد ہیں اور امت کے اجماعی فیصلوں کو حجت مانتے ہیں اس لئے ہمارا پورا نام اہل السنہ و الجماعہ ہے ۔
ملحوظہ : فرقہ اہل قرآن : قرآن سے نیچے کسی چیز کو حجت نہیں مانتا ، اس لئے وہ کافر ہیں ، مفتی عبد الرحیم لاجپوری ؒ نے فتاویٰ رحیمیہ (1/4 ) مین اس کی صراحت کی ہے ، اور فرقہ اہل حدث : جو حدیث کو حجت مانتا ہے مگر اجماع کو حجت نہیں مانتا وہ مسلمان ہے مگر گمراہ فرقہ ہے ، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائیں ( آمین )

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔