Friday 20 March 2015

اعتراض نمبر 4 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تهے ، ان کو علم حدیث میں کوئی تبحر حاصل نہیں تها ؟؟

0 comments
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتے چلے آرہے ہیں ، اور ناواقف لوگوں کو اس وسوسہ سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اہل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور ہے ، اور دن دیہاڑے چڑتے سورج کا انکار ہے ، اور روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں ہے ، اور چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور ہے ؟ بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل ہونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کرتا ہوں ، جن میں ہرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر ہے
1 = امام یحی ابن سعید القطان رحمه الله . علم الجرح والتعدیل کے بانی اور امام ہیں ، امام ذہبی نے اپنی کتاب ((سير أعلام النبلاء)) میں ان کے فضائل ومناقب میں طویل ترجمہ لکها ، اور ان کو أميرُ المؤمنين في الحديث کے لقب سے یاد فرمایا ، اور فروعی مسائل میں ان کو حنفی قرار دیا (( وكان في الفروع على مذهب أبي حنيفة فيما بلغنا إذا لم يجد النص)) یقینا امام ذہبی رحمه الله کی یہ عبارت فرقہ اہل حدیث کے بعض حضرات کے لیے سخت ناگوار وباعث حیرت ہوگی ، کیونکہ ان کے دل ودماغ میں تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور فقہ حنفی کے خلاف کچھ اور ہی ڈالا جاتا ہے ، جبکہ امت کا اتنا بڑا جلیل القدر امام بهی فروعی مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی تقلید کرتا تها
2 = امام عبدالرزاق بن همام الصنعاني . جن کی کتاب (( مُصَنَّف )) مشہورومعروف ہے ، جن کی الجامع الكبير سے امام بخاری نے فیض اٹهایا ہے ،
3 = امام یزید ابن هارون رحمہ الله . امام احمد بن حنبل کے استاذ ہیں ، امام ذہبی نے رحمہ الله اپنی کتاب ((سير أعلام النبلاء)) میں ان کو الإمام القدوة شيخ الإسلام کے لقب سے یاد کیا
4 = امام وکیع ابن جَرَّاح رحمہ الله . جن کے بارے امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئی ہم سر نہیں ہے ، امام شافعي امام أحمد بن حنبل وغيرهم کے استاذ ہیں
5 = امام عبدالله بن مبارک رحمہ الله . جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین ہیں ، امام ذہبی نے اپنی کتاب ((سير أعلام النبلاء)) میں ان کا طویل ترجمہ تحریر کیا ہے ، اور فرمایا کہ امام اعظم رحمہ الله آپ کے اولین شیوخ میں سے ہیں ، وأقدم شيخ لقيه هو الإمام أبو حنيفة
6 = امام یحی بن زكريا بن أبي زائده رحمہ الله . امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کی انتہاء کہا کرتے تهے
7 = قاضی امام ابویوسف رحمہ الله . جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں جب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹها ، امام ذہبی نے اپنی کتاب ((سير أعلام النبلاء)) میں ان الفاظ میں آپ کا ترجمہ شروع کیا . الإمام المجتهد العلامة المحدث قاضي القضاة أبو يوسف يعقوب بن إبراهيم الخ
8 = امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ الله . جن کے بارے امام شافعی رحمہ الله نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجهہ کے برابر ان سے علم حاصل کیا ہے . امام ذہبی رحمہ الله نے اپنی کتاب ((سير أعلام النبلاء)) میں آپ کے ترجمہ میں کئ مناقب وفضائل بیان کیے ہیں ، اور امام ذہبی رحمہ الله نے اپنی کتاب (( ميزان الاعتدال)) میں فرمایا کہ امام محمد رحمہ الله علم اور فقہ کا سمندر تهے وكان من بحور العلم والفقه
9 = امام زُفَر بن الهُذيل رحمہ الله . امام ذہبی رحمہ الله نے اپنی کتاب ((سير أعلام النبلاء)) میں آپ کا ترجمہ ان الفاظ میں شروع کیا الفقيه المجتهد الرباني العلامة أبو الهذيل بن الهذيل بن قيس بن سلم ، اور آپ کو فقہ کا سمندر اور حدیث کا امام قرار دیا
10 = حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله نے اپنی کتاب ( تهذيب التهذيب ج 1 ص 449 ) میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتے ہوئے درج ذیل مشاہیر ائمہ حدیث کا ذکرکیا
وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمان وحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضي وأبو يحيى الحماني وعيسى بن يونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلي وحكام بن يعلى بن سلم الرازي وخارجة بن مصعب وعبد المجيد بن أبي رواد وعلي بن مسهر ومحمد بن بشر العبدي وعبد الرزاق ومحمد بن الحسن الشيباني ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمة نوح بن أبي مريم وأبو عبد الرحمن المقري وأبو عاصم وآخرون .
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله نے (( وآخرون )) کہ کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوں میں صرف یہ کبارائمہ ہی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی ہیں ، اوران میں اکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه ہیں
یہ ایک مختصرسی شہادت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے ، امت مرحومہ کے چند مستند ائمہ کا تذکره تها جو امام اعظم کے شاگرد ہیں ، کیا اس کے بعد بهی کوئی جاہل امام اعظم کے بارے یہ کہے گا کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها ؟ کیا یہ جلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورہوا خوری کے لیئے جایا کرتے تهے؟ کیا ایک عقل مند آدمی ان ائمہ حدیث اور سلف صالحین کی تصریحات کوصحیح اور حق تسلیم کرے گا یا انگریزی دور میں پیدا شده جدید فرقہ اهل حدیث کے وساوس واباطیل کو ؟
وسوسه = امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے ؟؟
یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اہل حدیث کے بعض جهلاء نےامام اعظم کے ساتھ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اہل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وکاذب ہے ، یاد رکهیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا ہے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹهنا شرط نہیں ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبه ) میں فرمایا ( هذا هوالمختار ) یہی بات صحیح ومختار ہے ، امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے ، اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی ہونے کو محدثین اور اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہے مثلا
1 = حافظ ابن سعد
2 = حافظ ذهبی
3 = حافظ ابن حجر
4 = حافظ عراقی
5 = امام دارقطنی
6 = امام ابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی
7 = حافظ ابوالحجاج المِزِّی
8 = حافظ ابن الجوزی
9 = حافظ ابن عبدالبرالمالکي
10 = حافظ أبو المظفر السمعاني
11 = امام محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف النووي
12 = حافظ عبد الغني المقدسي
13 = شيخ القرّاء امام جزري الشافعي
14 = امام شهاب الدین ابوعبداﷲ تُوربِشتی
15 = امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی المصري ، اپنے زمانہ کے شیخ الاسلام ہیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ ہیں
16 = امام يافعي الشافعي
17 = علامہ ابن حجرمکی
18 = علامہ شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی
19 = علامہ بدرالدین العینی
20 = امام سیوطی
21 = علامہ خطيب البغدادي
22 = حافظ ابن كثير
وغیرهم رحمهم الله تعالی اجمعین
بطورمثال اہل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام میں نے ذکرکیئے ہیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا ہے ، اب ان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ ہے ، یا فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل بعض جهلاء کا وسوسہ اور جهوٹ ؟؟ ایک عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے
وسوسه = امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کوئ کتاب نہیں لکهی ، اور فقہ حنفی کے مسائل لوگوں نے بعد میں ان کی طرف منسوب کرلیئے هیں ؟؟
جواب = اہل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد ہے ، اور یہ طعن تواعداء اسلام بهی کرتے ہیں ، منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں احادیث نہیں لکهیں لهذا احادیث کا کوئی اعتبارنہیں ہے ، اسی طرح منکرین قرآن کہتے ہیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں قرآن نہیں لکهوایا لہذا اس قرآن کا کوئ اعتبارنہیں ہے ، فرقہ اہل حدیث کے جہلاء نے یہ وسوسہ منکرین حدیث اور شیعہ سے چوری کرکے امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بغض کی وجہ سے یہ کہ دیا کہ انهوں نے توکوئی کتاب نہیں لکهی ، لہذا ان کی فقہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، یاد رکهیں کسی بهی آدمی کے عالم وفاضل وثقہ وامین ہونے کے لیئے کتاب کا لکهنا ضروری نہیں ہے ، اسی طرح کسی مجتهد امام کی تقلید واتباع کرنے کے لیئے اس امام کا کتاب لکهنا کوئی شرط نہیں ہے ، بلکہ اس امام کا علم واجتهاد محفوظ ہونا ضروری ہے ، اگرکتاب لکهنا ضروری ہے تو خاتم الانبیاء صلی الله علیه وسلم نے کون سی کتاب لکهی ہے ؟ اسی طرح بے شمار ائمہ اور راویان حدیث ہیں ، مثال کے طور پر امام بخاری اور امام مسلم کے شیوخ ہیں کیا ان کی حدیث و روایت معتبر ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ انهوں نے کوئ کتاب لکهی ہو ؟ اگر ہر امام کی بات معتبر ہونے کے لیئے کتاب لکهنا ضروری قرار دیں تو پهر دین کے بہت سارے حصہ کو خیرباد کہنا پڑے گا ،
لہذا یہ وسوسہ پهیلانے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم کے تمام شیوخ کی کتابیں دکهاو ورنہ ان کی احادیث کو چهوڑ دو ؟؟
اور امام اعظم رحمہ الله نے توکتابیں لکهی بهی ہیں (( الفقه الأكبر )) امام اعظم رحمہ الله کی کتاب ہے جو عقائد کی کتاب ہے « الفقه الأكبر » علم کلام وعقائد کے اولین کتب میں سے ہے ، اور بہت سارے علماء ومشائخ نے اس کی شروحات لکهی ہیں ، اسی طرح کتاب ( العالم والمتعلم ) بهی امام اعظم رحمہ الله کی تصنیف ہے ، اسی طرح (( كتاب الآثار )) امام محمد اور امام ابویوسف کی روایت کے ساتهہ امام اعظم رحمہ الله ہی کی کتاب ہے ، اسی طرح امام اعظم رحمہ الله کے پندره مسانید ہیں جن کو علامہ محمد بن محمود الخوارزمي نے اپنی کتاب ((جامع الإمام الأعظم )) میں جمع کیا ہے ، اور امام اعظم کی ان مسانید کو کبار محدثین نے جمع کیا ہے ، بطور مثال امام اعظم کی چند مسانید کا ذکرکرتاہوں
1 = جامع مسانيد الإمام الأعظم أبي حنيفة . تأليف أبي المؤيد محمد بن محمود بن محمد الخوارزمي ، مجلس دائرة المعارف حیدرآباد دکن سے دو جلدوں میں ۱۳۹۶هـ میں طبع ہوئی ہے ، پهر المكتبة الإسلامية پاکستان سے طبع ہوئی ، اور اس طبع میں امام اعظم کے پندره مسانید کو جمع کردیا گیا ہے
2 = مسانيد الإمام أبي حنيفة وعدد مروياته المرفوعات والآثار . مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي نے ۱۳۹۸هـ میں شائع کی ہے
3 = مسند الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه . تقديم وتحقيق صفوة السقا ، مکتبه ربيع حلب شام ۱۳۸۲هـ میں طبع ہوئی
4 = مسند الإمام أبي حنيفة النعمان. شرح ملا علي القاري المطبع المجتبائي
5 = شرح مسند أبي حنيفة. ملا علي القاري دار الكتب العلمية بيروت سے ۱۴۰۵ هـ
میں شائع ہوئی
6 = مسند الإمام أبي حنيفة. تأليف الإمام أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني مكتبة الكوثر رياض سے ۱۴۱۵هـ شائع ہوئی
7 = ترتيب مسند الامام ابي حنيفة على الابواب الفقهية . تالیف علامہ محمد عابد بن أحمد السندي
اس مختصرتفصیل سے یہ اعتراض بهی کافور ہوگیا کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی کتاب نہیں لکهی ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔