Tuesday 3 March 2015

من دون اللہ کا صحیح اسلامی تصور ۔۔ پیکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

0 comments

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کوئی مخصوص قرآنی اصطلاح نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھ لیا گیا ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے فعل دَانَ يَدُوْنُ کا مادہ دُوْناً ہے جس میں کمزوری، حقارت، خساست، پستی اور گھٹیا پن کا معنی پایا جاتا ہے۔
1۔ عام روزمرّہ گفتگو میں اہلِ عرب کسی کی حقارت اور گھٹیا پن کے بارے میں یوں اظہار کرتے ہیں : ’’صَارَ دُوْناً خَسِيْساً‘‘ کہ فلاں شحص دُوْن یعنی گھٹیا اور کمینہ ہو گیا۔

فیروز آبادی، القاموس المحیط، 1 : 1545

اس جملے میں گھٹیا پن، پستی اور حقارت و خساست کا مفہوم مضمر ہے۔

2. يقال للقاصر عن الشيئی دُون

’’جو شخص اپنی کمزوری کے باعث کوئی کام کرنے سے عاجز و قاصر ہو اسے بھی دُوْن کہا جاتا ہے۔‘‘

راغب اصفہانی، المفردات : 172

3۔ اگر کوئی چیز کسی کے مقابلے میں مقداراً تھوڑی، کم حقیر اور ہلکی ہو تو اسے بھی دُوْنَ کہتے ہیں۔ جیسے ارشادِ ربانی ہے۔

 وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ

’’اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخشش دیتا ہے۔‘‘

(3) النسائ، 4 : 48

روزمرّہ گفتگو میں مِنْ دُوْنِ اﷲ ِ کا استعمال ’’غیر اﷲ‘‘ کے معنی میں ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اکثر و بیشتر ’’مِنْ دُونِ اﷲ‘‘ یا ’’مِنْ دُونِهِ‘‘ کے الفاظ کفار و مشرکین کے شرک کی نفی اور ابطالِ باطل کے ضمن میں ان کے معبودانِ باطلہ کے لئے استعمال ہوئے ہیں جس سے نہ صرف ان کا غیرِ خدا ہونا ثابت ہوتا ہے بلکہ ان کی اصل حیثیت یعنی بے مائیگی بھی متعین ہو جاتی ہے اور اس پر مستزاد ان کے الٰہ اور قابلِ پرستش ہونے کا رد بھی ہو جاتا ہے۔ مزید برآں دَانَ يَدُوْنُ کے اصل معنی کی بنا پر ان کا پست و حقیر، گھٹیا اور عاجز و کمزور بلکہ بارگاہِ خداوندی میں ان کا بے مایہ اور بے حیثیت ہونا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ گویا مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے الفاظ سے کفار و مشرکین کے مشرکانہ معتقدات اور توہمات کا قلع قمع کرنا اور ان کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ان کے جھوٹے معبود اس قدر بے حیثیت ہیں کہ وہ کسی قسم کے نفع و نقصان کا باعث نہیں ہو سکتے۔ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کی حقیقی مراد قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی مِنْ دُوْنِ اﷲِ یا اس کے مماثل الفاظ کا ذکر ہوا ہے وہاں اس سے مقصود کفار و مشرکین کے باطل عقائد و نظریات کا رد اور معبودانِ باطلہ کی بے وقعتی کا اظہار ہے۔ بنیادی طور پر ان الفاظ سے درج ذیل امور کا بیان مقصود ہوتا ہے۔

1۔ باطل عقائد و نظریات

کفار و مشرکین کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کے سیاق و سباق میں ان کے باطل عقائد و نظریات کا ذکر کر کے کسی نہ کسی صورت میں ان کی تردید اور تغلیط مقصود ہے۔

2۔ معبودانِ باطلہ

ان الفاظ کے ذریعہ عام طور پر ان کے معبودانِ باطلہ یعنی ان بتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں وہ خدا کا شریک ٹھہرا کر مستحقِ عبادت سمجھتے تھے۔

3۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے اُلوہیت کی نفی

ان الفاظ کے ذریعے معبودانِ باطلہ کی ذاتِ حق سے مطلقاً بے تعلقی اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے الُوہیت کی نفی کی گئی ہے۔

4۔ معبودانِ باطلہ کی بے وقعتی

مِنْ دُوْنِ اﷲِ

 سے ان معبودانِ باطلہ کی بے بسی، بے حیثیتی اور بے وقعتی ظاہر کرنا مقصود ہے تاکہ کفار و مشرکین اس حقیقت پر متنبہّ ہو کر اپنے مزعومہ مشرکانہ خیالات سے باز آ جائیں اور انہیں عبادت کے لائق نہ سمجھیں۔

5۔ کفار و مشرکین سے خطاب

کلامِ الٰہی میں مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے مخاطب مورد و اطلاق کے اعتبار سے اہلِ ایمان نہیں بلکہ اہلِ کفر مشرکین اور ان کے وہ الٰہ اور جھوٹے معبود ہیں جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے نہ تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء و رسل علیھم السلام مراد ہیں اور نہ ہی صلحاء و اولیاء جنہیں بارگاہِ ایزدی میں شرفِ قبولیت اور مقامِ قرب و محبوبیت سے نوازا گیا ہے، ان کا ذکر قرآن حکیم میں اس پیرائے میں نہیں کیا گیا۔ اہلِ ایمان انہیں خدا کا شریک یا اپنا معبود نہیں سمجھتے۔ اگر کسی جگہ نصاریٰ کے تذکرے میں حضرت عیسیٰں اور حضرت مریمعلیھا السلام کے حوالے سے ایسی بات کہی گئی ہے تو وہ بھی صرف اس بناء پر کہ انہوں نے دونوں برگزیدہ ہستیوں کو خدا اور خدا کا بیٹا مان کر واضح شرک کا ارتکاب کیا تھا۔ جس پر اس بات کا حضرت عیسیٰں سے استفسار کیا جائے گا :

أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ

 {المائدۃ، 5 : 116

’’کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟‘‘ جس کا جواب وہ نفی میں دیں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہاں بھی تثلیث کے ماننے والوں کے مزعومہ مشرکانہ عقائد کی تردید اور خدا کی الُوہیت کے سوا ہر ایک کی نفی مقصود ہے۔

6۔ معبودانِ باطلہ کے ولی اور شفیع ہونے کا انکار

مِنْ دُوْنِ اﷲِ يا مِنْ دُوْنِهِ

کے الفاظ کے ذریعے کفار کے معبودانِ باطلہ کے ولی اور شفیع ہونے کا انکار کیا گیا ہے مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ

’’ان کے لئے اس کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ (کوئی) سفارشی۔‘‘

(1) الانعام، 6 : 51

اس آیتِ مبارکہ کا اشارہ بھی منکرین و مشرکین اور ان کے جھوٹے معبودوں کی طرف ہے کیونکہ اہلِ ایمان کے لئے تو ولایت بھی ثابت ہے اور شفاعت بھی حتیٰ کہ خود قرآن کی رو سے انبیاء و صلحاء اہلِ ایمان کے ولی بھی ہیں اور شفیع بھی بلکہ ایمانداروں کو صرف انہی پر اعتماد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

انبیاء و اولیاء ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کا مصداق نہیں

مِنْ دُوْنِ اﷲِ يا مِنْ دُوْنِهِ جیسے الفاظ کا اطلاق اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے عام چیزوں پر ہوتا ہے اور ان کا معنی غیرِ خدا ہی لیا جاتا ہے۔ یہاں ’’غیرِ خدا‘‘ کا مفہوم اپنے اندر یہ واضح اشارہ رکھتا ہے کہ ہر وہ چیز غیرِ خدا ہے جو خدا سے دور لے جانے والی ہو۔ خدا سے انکار اور کفر و شرک کا باعث ہو اور خدا کی بارگاہ میں کسی بھی رتبے یا درجے کی حامل نہ ہو بلکہ عنداللہ محض بے حیثیت اور بے عزت و بے وقعت ہو، جہاں تک انبیاء و رسل، اولیاء و عرفاء، مومنین کاملین اور خدا کے مقبول و برگزیدہ بندوں کا تعلق ہے وہ بارگاہِ ایزدی میں مقرب اور محبوب تصور کئے جاتے ہیں، ان پر ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
1. إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَo

’’بے شک وہ ہمارے (کامل) ایمان والے بندوں میں سے ہیںo‘‘

(1) الصآفات، 37 : 111

2۔ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو تو غیر سمجھتا ہی نہیں۔ اُس کے نزدیک غیر وہی ہیں جو اس سے دور ہیں۔ ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَo

’’اے نبی (معظم!) آپ کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لیo‘‘

(2) الانفال، 8 : 64

یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو اپنا مقرب قرار دیا اور بطورِ خاص اپنی بارگاہ میں ان کی حیثیت اور قدر و منزلت کو واضح فرمایاہے۔

اولیاء اللہ (اللہ تعالیٰ کے دوست اور محبوب بندے) اللہ تعالیٰ کا غیر اس لئے بھی نہیں ہوسکتے کہ وہ خود زمین پر چلتے پھرتے اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے، ان کی زیارت اللہ کے ذکر کا سبب ہوتی ہے، ان کی قربت اللہ کی قربت اور انکی محبت اللہ کی محبت ہوتی ہے۔ زیرِ بحث موضوع کو سمجھنے میں حضرت ابنِ عباس اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی درج ذیل حدیث کا حوالہ دینا مددگار ثابت ہوگا۔

حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم سے اولیاء اﷲ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم نے فرمایا :

الَّذِيْنَ إِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اﷲُ.

’’وہ لوگ جنہیں دیکھنے سے اللہ یاد آجائے (اولیاء اﷲ ہیں)۔‘‘

 نسائی، السنن الکبری، 6 : 362، رقم : 11235

ابن المبارک، کتاب الزھد، 1 : 72، رقم : 217

مقدسی، الأحادیث المختارۃ، 10 : 108، رقم : 105

ہیثمی، مجمع الزوائد، 10 : 78

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے معاندین کو اپنا ما سویٰ اور ان کے غیر کو اپنا غیر تصور کرتا ہے۔ ان کے دوست کو اپنا دوست اور ان کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے۔ ازراہِ تمثیل یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ غرباء کے صدقات کو اپنے لئے قرضِ حسنہ اور دین کی خدمت کو اپنے لئے مدد قرار دیتا ہے۔ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم کی بارگاہ کے آداب بیان کرتے ہوئے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم سے کسی عمل میں سبقت لے جانے کو اپنی ذات سے پہل، مؤمنین کی راہ کی پیروی کو اپنی راہِ ہدایت، حضور صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کو اپنی بیعت، حضور صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور ان کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم کے قول کو اپنا قول اور ان کے عمل کو اپنا عمل قرار دیتا ہے، اسی طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم اور اس کے جانثار مؤمنین کو ’’حِزْبُ اﷲِ‘‘ اور ان کے غیر کو ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔

لہٰذا مِنْ دُوْنِ اﷲِ جیسے الفاظ اللہ تعالیٰ سے جس غیریت کا مفہوم لئے ہوتے ہیں وہ لغوی، کلامی اور لفظی نہیں بلکہ حکمی، مرادی اور معنوی اعتبار سے ہیں۔ یعنی خدا کے غیر سے مراد وہی ہے جو پیمانہِ محبت کے اعتبار سے غیر ہو اور بے نسبتی و بے تعلقی کے لحاظ سے پرایا ہو۔ اس لئے انبیاء و صالحین کو نگاہِ ربوبیت میں جو اپنائیت حاصل ہے اگر کوئی اسے نظر انداز کرتے ہوئے ان پر بھی مِنْ دُوْنِ اﷲِ کا اطلاق کرتا ہے تو وہ قرآنی تعلیمات کے ساتھ نہ صرف صریح مذاق کرتا ہے بلکہ خود ربِ ذوالجلال کے ارشادات کا کھلا انکار بھی۔

آیات کا غیر موزوں اطلاق خوارج کا وطیرہ ہے

مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے مفہوم کے ضمن میں ان چند بنیادی باتوں کا قدرے تفصیل سے ذکر اس لئے ہوا کہ کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظامعلیھم السلام اور اولیاء و صلحاء پر بھی کر دیتے ہیں۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا۔ خوارج کے بارے میں منقول ہے :
کَانَ ابْنُ عُمَرَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں۔‘‘

 بخاری، الصحیح، کتاب استتابۃ المرتدین و المعاندین و قتالھم، باب قتل الخوارج والملحدین، 6 : 2539

ابن عبد البر، التمہید، 23 : 335

ابن حجر عسقلانی، تغلیق التعلیق، باب قتل الخوارج والملحدین، 5 : 259

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں؟ قابلِ مذمت ہے، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمہِ ولایت و روحانیت ہیں۔ انہوں نے آپ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے۔

خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت :

اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ ِﷲِط

(یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘} سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا :

لَا حُکْمَ إِلَّا ِﷲ.

 ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضیص نے واضح فرمایا تھا :

کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.

’’کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066

ابن حبان، الصحیح، 15 : 387، رقم : 6939

بیہقی، السنن الکبری، 8 : 171

اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقہِ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے۔ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کا درست اطلاق ’’مِنُ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’اللہ کے سوا‘‘ مگر ہر جگہ سیاق و سباق کے حوالے سے اس کے دائرہ اطلاق اور مراد کو متعین کیا جانا ضروری ہے۔

جب ہم توحید اور شرک کے باب میں غیر کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد لغوی معنی میں غیر ہو گا۔ اس میں ذاتِ باری تعالیٰ، اس کی صفات و افعال اور اسماء کے علاوہ باقی ہر چیز مخلوق ہے اور وہی ما سِوَ اﷲ کہلاتی ہے۔

ذیل میں ہم ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کا اطلاق آیاتِ قرآنی کی روشنی میں قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل تین معانی میں استعمال ہوا ہے :

1۔ معبودانِ باطلہ مِنْ دُوْنِ اﷲِ ہیں

قرآن مجید میں اکثر و بیشتر مقامات پر کفار و مشرکین کے مزعومہ معبودانِ باطلہ (اصنام، اوثان اور طواغیت) کو ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کہا گیا ہے۔ جیسا کہ درجِ ذیل آیات سے واضح ہوتا ہے :

1. وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ

’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں۔ پھر وہ لوگ (بھی جواباً)جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔‘‘

(1) الانعام، 6 : 108

2. وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَo

’’اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے آپ کی مدد کر سکتے ہیںo‘‘

(2) الاعراف، 7 : 197]

اس طرح دیگر بیسیوں آیات میں ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار و مشرکین اور ان کے معبودانِ باطلہ کی مذمت کی ہے، بتوں کی عبادت پر ان کی زجر و توبیخ کی گئی ہے۔ ان آیات کے الفاظ ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ میں انبیاء و اولیاء اور ملائکہ و مقربین قطعاً اور یقینا شامل نہیں ہیں۔

2۔ غیراللہ کو مستحقِ عبادت سمجھنا ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کے ذیل میں شمار ہوگا

یہ اصول ذہن نشین رہے کہ قرآن حکیم کی جن آیات میں عبادت و اُلوہیت اور پوجنے کا ذکر ہو وہاں انبیاء و اولیاء اور ملائکہ و مقربین ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ عبادت فقط اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے اور استحقاقِ عبادت کے لئے ما سِوَ اﷲ ہر شئے غیر ہے۔ لہٰذا یہ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کا دوسرا اطلاق ہے جو عبادت و الوہیت سے مشروط ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اسی باطل طرزِ عمل کو قرآن میں بیان کیا :

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَo

’’انہوںنے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (ں) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیںo‘‘

(1) التوبۃ، 9 : 31

3۔ مظاہرِ فطرت کو معبود جاننا ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کے ذیل میں شمار ہو گا

قرآن مجید میں کئی مقامات پر ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ سورج، ستاروں، جنات اور شیاطین کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اقوام سابقہ میں مظاہرِ فطرت کی پرستش کا رواج عام تھا۔ قرآن مجید نے ان کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے ان معبودانِ باطلہ کو ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کہا ہے :

وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ

’’میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے۔‘‘

(2) النمل، 27 : 24

معبودانِ باطلہ ولی اور نصیر نہیں جبکہ صالحین ولی ہوتے ہیں

کفار اور مشرکین بتوں کو اپنا ولی اور نصیر گردانتے اور ان کو مشکل کشا تصور کرتے ہوئے ان سے مرادیں مانگتے تھے۔ وہ ان کے نام کی نذر بھی مانتے تھے جبکہ حقیقی مددگار کو کلیۃً بھول گئے تھے اس لئے قرآن مجید نے ان کے اس عقیدے کو رد فرمایا اور واضح کر دیا کہ حقیقی ولی اور نصیر فقط اللہ تعالیٰ ہے۔ تمہارے یہ بت اور جھوٹے خدا قیامت کے روز تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ یہ تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکیں گے اس لئے ان کو چھوڑ کر فقط اللہ ہی کو اپنا ولی اور نصیر سمجھو۔ اس پر درج ذیل آیاتِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے :

1.أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍo

’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے، اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مددگار۔‘‘

(1) البقرۃ، 2 : 107

2. لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلاَ أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاo

’’(اللہ کا وعدئہ مغفرت) نہ تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہلِ کتاب کی خواہشات پر، جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اورنہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگارo‘‘

(2) النسائ، 4 : 123

3. أُولَـئِكَ لَمْ يَكُونُواْ مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ مَا كَانُواْ يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُواْ يُبْصِرُونَo

’’یہ لوگ (اﷲ کو) زمین میں عاجز کر سکنے والے نہیں اور نہ ہی ان کے لئے اﷲ کے سوا کوئی مددگار ہیں۔ ان کے لئے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا (کیونکہ) نہ وہ (حق بات) سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ (حق کو) دیکھ ہی سکتے تھےo‘‘

(3) ھود، 11 : 20

4. وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًاo

’’اور اﷲ جسے ہدایت فرما دے تو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ ان کے لئے اس کے سوا مدد گار نہیں پائیں گے، اور ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، جب بھی وہ بجھنے لگے گی ہم انہیں (عذاب دینے کے لئے) اور زیادہ بھڑکا دیں گےo‘‘

(1) الاسرائ، 17 : 97

5. وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًاo

’’اور اس کے لئے کوئی گروہ (بھی) ایسا نہ تھا جو اﷲ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتے اور نہ وہ خود (ہی اس تباہی کا) بدلہ لینے کے قابل تھاo‘‘

(2) الکہف، 18 : 43

6. أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي المَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo

’’کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اولیاء بنا لیا ہے، پس اللہ ہی ولی ہے (اسی کے دوست ہی اولیاء ہیں) اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر بڑا قادر ہےo‘‘

3) الشوری، 42 : 9

7. إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّهِ شَيئًا وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَo

’’بیشک یہ لوگ اللہ کی جانب سے (اسلام کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات کے وقت میں وعدوں کے باوجود) ہرگز آپ کے کام نہیں آئیں گے، اور بیشک ظالم لوگ (دنیا میں) ایک دوسرے کے ہی دوست اور مددگار ہوا کرتے ہیں، اور اللہ پرہیزگاروں کا دوست اور مددگار ہےo‘‘

(4) الجاثیۃ، 45 : 19

. یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بعض لوگ مِنْ دُوْنِ اﷲِ پر قیاس کرتے ہوئے (معاذ اﷲ) انبیاء و اولیاء اور صلحاء و متقین کو کافروں اور مشرکوں کی صف میں ہی شمار کرتے ہیں اور ان کے بھی ولی اور نصیر ہونے کی نفی کرتے ہیں۔ یہ لوگ دلیل کے طور پر ان آیات کو پیش کرتے ہیں جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئیں حالانکہ درحقیقت یہ وہ آیات ہیں جن میں بتوں کے ولی اور نصیر ہونے کی نفی کی گئی ہے لہٰذا ایسی آیات کو دلیل بنا کر انبیاء و مؤمنین کا ایک دوسرے کے لئے ولی اور نصیر ہونے کی نفی کرناخلافِ شریعت ہے۔

. دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن آیات میں ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں وہاں اس سے مراد بت، اوثان، اصنام اور طواغیت وغیرہ ہیں جو کہ بالکل بے بس و بے اختیار ہیں، وہ کسی چیز کے بھی مالک نہیں، جبکہ انبیاء و اولیاء ان آیات کے تحت ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کے زمرے میں شامل ہی نہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ انبیاء و اولیاء کو اذن و اختیار عطا فرمایا ہے پس انہیں ولی اور نصیر ماننا شرک نہیں۔

. قرآنی آیات سے مؤمنین کا ایک دوسرے کے لئے ولی و نصیر ہونا صراحتہً ثابت ہے۔ ان سب کی ولایت اور مدد من جانب اللہ ہوتی ہے جبکہ بتوں کے لئے ولایت من جانب اللہ کا کوئی تصور نہیں۔ اس لئے ’’مِنْ دُوْنِ اﷲ‘‘ کے حکم کا اطلاق صرف بتوں پر ہوتا ہے اور ان کو ولی اور نصیر ماننا صریحاً شرک اور ظلم ہے۔

انبیاء و اولیاء اﷲ کے مقابلے میں ’’من دون اﷲ‘‘ کی بے وقعتی پر مشتمل آیاتِ قرآنی کا تقابلی مطالعہ

موضوع سے متعلق آیاتِ مبارکہ کو مختلف موضوعات کے تحت آمنے سامنے درج کیا جا رہا ہے۔ آیاتِ قرآنیہ کے اس تقابلی مطالعے سے موضوعات متذکرہ کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی اور غلط اطلاقات کی حقیقت بھی کھل سکے گی۔

قرآن میں انبیاء و اولیاء کا ذکر

1. اللہ تعالیٰ نے خود انبیاء و اولیاء کو ولی اور نصیر بنایا

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَo

’’بیشک تمہارا (مددگار) دوست تواﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ(اﷲ کے حضور عاجزی سے)جھکنے والے ہیںo‘‘

(1) المائدۃ، 5 : 55

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَـئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ

’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔‘‘

(2) الانفال، 8 : 72

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌo

’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘

(1) التوبۃ، 9 : 71

4. إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌo

’’اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل (ایک ہی بات کی طرف) جھک گئے ہیں، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے)سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیںo‘‘

(1) التحریم، 66 : 4

2. انبیاء و اولیاء کو شفاعت کا اِذن حاصل ہوگا

1. مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ

’’کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اِذن کے بغیر سفارش کر سکے‘‘

(2) البقرۃ، 2 : 255

2. مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَo

’’(اس کے حضور)اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے والا نہیں، یہی (عظمت و قدرت والا) اللہ تمہارا رب ہے، سو تم اسی کی عبادت کرو، پس کیا تم (قبولِ نصیحت کے لئے) غور نہیں کرتے؟‘‘

(1) یونس، 10 : 3

3.لاَ يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًاo

’’(اس دن) لوگ شفاعت کے مالک نہ ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے (خدائے) رحمن سے وعدہِِ (شفاعت) لے لیا ہےo‘‘

(2) مریم، 19 : 87

4. يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًاo

’’اس دن سفارش سود مند نہ ہوگی سوائے اس شخص (کی سفارش) کے جسے (خدائے) رحمن نے اذن (و اجازت) دے دی ہے اور جس کی بات سے وہ راضی ہوگیا ہے (جیسا کہ انبیاء و مرسلین، اولیائ، متقین، معصوم بچوں اور دیگر کئی بندوں کا شفاعت کرنا ثابت ہے)o‘‘

(1) طہ، 20 : 109

5. يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَo

’’وہ (اﷲ ) ان چیزوں کو جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اس کے حضور) سفارش بھی نہیں کرتے مگر اس کے لئے (کرتے ہیں) جس سے وہ خوش ہوگیا ہو اور وہ اس کی ہیبت و جلال سے خائف رہتے ہیںo‘‘

(2) الانبیائ، 21 : 28

3. انبیاء و اولیاء اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ہوں گے

انبیاء و رسل اور مؤمنین خدا کی بارگاہ میں صاحبانِ عزت، باحیثیت اور اعلیٰ جنتوں میں مہمان ہوں گے (نہ کہ بے عزت و ذلیل اور بے حیثیت)۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

1. إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍo

’’بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گےo‘‘

(1) الحجر، 15 : 45

2. وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْاْ مَاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ خَيْرًا لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَoجَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَآؤُونَ كَذَلِكَ يَجْزِي اللّهُ الْمُتَّقِينَo

’’اور پرہیزگار لوگوں سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ہے؟ وہ کہتے ہیں : (دنیا و آخرت کی) بھلائی (اتاری ہے)، ان لوگوں کے لئے جو نیکی کرتے رہے اس دنیا میں (بھی) بھلائی ہے، اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی بہتر ہے، اور پرہیزگاروں کا گھر کیا ہی خوب ہےo سدا بہار باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اِن میں اُن کے لئے جو کچھ وہ چاہیں گے (میسّر) ہوگا، اس طرح اللہ پرہیزگاروں کو صلہ عطا فرماتا ہےo‘‘

(1) النحل، 16 : 30. 31

3. يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًاo

’’جس دن ہم پرہیزگاروں کو جمع کرکے (خدائے) رحمن کے حضور (معزز مہمانوں کی طرح) سواریوں پر لے جائیں گےo‘‘

(2) مریم، 19 : 85

4. وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَo

’’اور (اس دن) جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گیo‘‘

(1) الشعرائ، 26 : 90

5. فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَo

’’پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو وہ باغاتِ جنت میں خوشحال و مسرور کر دیئے جائیں گےo‘‘

(2) الروم، 30 : 15

6. هَذَا ذِكْرٌ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍoجَنَّاتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْأَبْوَابُoمُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍoوَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌoهَذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِoإِنَّ هَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِن نَّفَادٍo

’’یہ(وہ) ذکر ہے (جس کا بیان اس سورت کی پہلی آیت میں ہے)، اور بیشک پرہیزگاروں کے لئے عمدہ ٹھکانا ہےo (جو) دائمی اِقامت کے لئے باغاتِ عدن ہیں جن کے دروازے اُن کے لئے کھلے ہوں گےo وہ اس میں (مسندوں پر) تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اس میں (وقفے وقفے سے) بہت سے عمدہ پھل اور میوے اور (لذیذ) شربت طلب کرتے رہیں گےo اور اُن کے پاس نیچی نگاہوں والی (باحیا) ہم عمر (حوریں) ہوں گیo یہ وہ نعمتیں ہیں جن کا روزِ حساب کے لئے تم سے وعدہ کیا جاتا ہےo بیشک یہ ہماری بخشش ہے اسے کبھی بھی ختم نہیں ہوناo‘‘

(1) ص، 38 : 49.54

7. إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍo

’’بیشک پرہیزگار لوگ اَمن والے مقام میں ہوں گےo‘‘

(1) الدخان، 44 : 51

8. إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍo

’’بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں (لطف اندوز ہوتے) ہوں گےo‘‘

(2) الذاریات، 51 : 15

4. انبیاء و اولیاء تر و تازہ چہروں کے ساتھ ہوں گے

1. وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌoإِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌo

’’بہت سے چہرے اُس دن شگفتہ و تر و تازہ ہوں گےo اور (بلا حجاب) اپنے رب (کے حسن و جمال ) کو تک رہے ہوں گےo‘‘

(3) القیامۃ، 75 : 22. 23

2. وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌoضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌo

’’اسی دن بہت سے چہرے (ایسے بھی ہوں گے جو نور سے) چمک رہے ہوں گےo (وہ) مسکراتے ہنستے (اور) خوشیاں مناتے ہوں گےo‘‘

(1) عبس، 80 : 38.39

3. وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌoلِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌoفِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍoلَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةًoفِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌoفِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌoوَأَكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌoوَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌoوَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌo

’’اس دن بہت سے چہرے (حسین) بارونق اور ترو تازہ ہوں گےo اپنی (نیک) کاوشوں کے باعث خوش و خرم ہوں گےo عالی شان جنت میں (قیام پذیر) ہوں گےo اس میں کوئی لغوبات نہ سنیں گے (جیسے اہلِ باطل ان سے دنیا میں کیا کرتے تھے)o اس میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گےo اس میں اونچے (بچھے ہوئے) تخت ہوں گےoاور جام (بڑے قرینے سے) رکھے ہوئے ہوں گےoاور غالیچے اور گاؤ تکیے قطار در قطار لگے ہوں گےoاور نرم و نفیس قالین اور مسندیں بچھی ہوں گیo‘‘

(2) الغاشیۃ، 88 : 8.16

5.مؤمنین و متقین ایک دوسرے کے دوست ہوں گے

1. وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌo

’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘

(1) التوبۃ، 9 : 71

2. الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَo

’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)o‘‘

(1) الزخرف، 43 : 67

قرآن میں مِنْ دُونِ اﷲ کا ذکر

معبودانِ باطل بے بس و بے اختیار ہیں

1. وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَo

’’اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیںo‘‘

(3) الاعراف، 7 : 197

2. قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْo

’’(ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا : پھر کیا تم اﷲ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیںo‘‘

(4) الأنبیائ، 21 : 66

3. وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًاo

’’اور ان (مشرکین) نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے لئے کسی نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے اور نہ وہ موت کے مالک ہیں اور نہ حیات کے اور نہ (ہی مرنے کے بعد) اٹھا کر جمع کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں)o‘‘

(2) الفرقان، 25 : 3

4. مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَo

’’ایسے (کافر) لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں (یعنی بتوں) کو کارساز بنالیا ہے مکڑی کی داستان جیسی ہے جس نے (اپنے لئے جالے کا) گھر بنایا اور بیشک سب گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے. کاش! وہ لوگ (یہ بات) جانتے ہوتےo‘‘

(3) العنکبوت، 29 : 41

من دون اﷲ کو شفاعت کا اِذن نہیں ہوگا

1. وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللّهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ

’’اور آپ ان لوگوں کو چھوڑے رکھئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب دے رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ذریعے (ان کی آگاہی کی خاطر) نصیحت فرماتے رہئے تاکہ کوئی جان اپنے کئے کے بدلے سپردِ ہلاکت نہ کردی جائے (پھر) اس کے لئے اﷲ کے سوانہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی۔‘‘

(4) الانعام، 6 : 70

2. فَمَا لَنَا مِن شَافِعِينَoوَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍoفَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَo

’’سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہےo اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہےo سو کاش ہمیں ایک بار (دنیا میں) پلٹنا (نصیب) ہو جاتا تو ہم مومن ہوجاتےo‘‘

(3) الشعرائ، 26 : 100. 102

3. وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَo

’’اور ان کے (خود ساختہ) شریکوںمیں سے ان کے لئے سفارشی نہیں ہوں گے اور وہ (بالآخر) اپنے شریکوں کے (ہی) مُنکِر ہو جائیں گےo‘‘

(4) الروم، 30 : 13

4. أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَن بِضُرٍّ لاَّ تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلاَ يُنقِذُونِo

’’کیا میں اس (اللہ) کو چھوڑ کر ایسے معبود بنالوں کہ اگر خدائے رحمان مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو نہ مجھے اُن کی سفارش کچھ نفع پہنچاسکے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکیںo‘‘

(3) یس، 36 : 23

5. وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُo

’’اور آپ ان کو قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈرائیں جب ضبطِ غم سے کلیجے منہ کو آئیں گے۔ ظالموں کے لئے نہ کوئی مہربان دوست ہو گا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائےo‘‘

(4) المؤمن، 40 : 18

مِنْ دُوْنِ اﷲِ جہنم کا ایندھن ہوں گے

مشرکین اور یہود و نصاریٰ قیامت کے دن بے یارومددگار ہوں گے اور ان کے جھوٹے معبود اور بت ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے ان میں سے ہر ایک کو روزِ قیامت ہر عمل کی بری جزا ملے گی۔



1. إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَo

’’بیشک تم اور وہ (بت) جن کی تم اﷲ کے سوا پرستش کرتے تھے (سب) دوزخ کا ایندھن ہیں، تم اس میں داخل ہونے والے ہوo‘‘

(2) الانبیائ، 21 : 98

2. وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًاo

’’اور اﷲ جسے ہدایت فرما دے تو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ ان کے لئے اس کے سوا مدد گار نہیں پائیں گے، اور ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، جب بھی وہ بجھنے لگے گی ہم انہیں (عذاب دینے کے لئے) اور زیادہ بھڑکا دیں گےo‘‘

(3) الاسرائ، 17 : 97

3. وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًاo

’’اور ہم مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسا ہانک کر لے جائیں گےo‘‘

(4) مریم، 19 : 86

4. فَكُبْكِبُوا فِيهَا هُمْ وَالْغَاوُونَo وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَo

’’سو وہ (بت بھی) اس (دوزخ) میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے اور گمراہ لوگ (بھی)o اور ابلیس کی ساری فوجیں (بھی واصل جہنم ہونگی)o‘‘

(3) الشعرائ، 26 : 94. 95

5. احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَoمِن دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِo

’’اُن (سب) لوگوں کو جمع کرو جنہوں نے ظلم کیا اور ان کے ساتھیوں اور پیروکاروں کو (بھی) اور اُن (معبودانِ باطلہ) کو (بھی) جنہیں وہ پوجا کرتے تھےo اللہ کو چھوڑ کر، پھر ان سب کو دوزخ کی راہ پر لے چلوo‘‘

(4) الصافات، 37 : 22. 23

6. إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَo لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِلَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَoوَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِن كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَoوَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُم مَّاكِثُونَo

’’بیشک مُجرِم لوگ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo جو اُن سے ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں نا امید ہو کر پڑے رہیں گےo اور ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھےo اور وہ (داروغہِ جہنّم کو) پکاریں گے : اے مالک! آپ کا رب ہمیں موت دے دے (تو اچھا ہے)۔ وہ کہے گا کہ (تم اب اسی حال میں ہی) ہمیشہ رہنے والے ہوo‘‘

(2) الزخرف، 43 : 74. 77

7. مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًاo

’’(بالآخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب غرق کر دئیے گئے، پھر آگ میں ڈال دئیے گئے، سو وہ اپنے لئے اﷲ کے مقابل کسی کو مددگار نہ پا سکےo‘‘

(4) نوح، 71 : 25

مِنْ دُوْنِ اﷲِ سیاہ چہروں کے ساتھ ذلیل و خوار ہوں گے

1. وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌoتَظُنُّ أَن يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌo

’’اور کتنے ہی چہرے اُس دن بگڑی ہوئی حالت میں (مایوس اور سیاہ) ہوں گےo یہ گمان کرتے ہوںگے کہ اُن کے ساتھ ایسی سختی کی جائے گی جو اُن کی کمر توڑ دے گیo‘‘

(5) القیامۃ، 75 : 24، 25

2. وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌo تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌoأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُo

’’اور بہت سے چہرے ایسے ہوں گے جن پر اس دن گرد پڑی ہوگیo (مزید) ان (چہروں) پر سیاہی چھائی ہوگیo یہی لوگ کافر (اور) فاجر (بدکردار) ہوں گےo

(3) عبس، 80 : 40.42

3. وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌoعَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌoتَصْلَى نَارًا حَامِيَةًoتُسْقَى مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍoلَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍoلاَّ يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِن جُوعٍo

’’اس دن کتنے ہی چہرے ذلیل و خوار ہوں گےo (اﷲ کو بھول کر دنیاوی ) محنت کرنے والے ( چند روزہ عیش و آرام کی خاطر سخت) مشقتیںجھیلنے والےo دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo (انہیں) کھولتے ہوئے چشمہ سے (پانی) پلایا جائے گاo ان کے لئے خار دار خشک زہریلی جھاڑیوں کے سوا کچھ کھانا نہ ہو گاo(یہ کھانا) نہ فربہ کرے گا اور نہ بھوک ہی دور کرے گاo‘‘

(4) الغاشیۃ، 88 : 2. 7

مِنْ دُوْنِ اﷲِاور ان کے پیروکاروں کے درمیان پھوٹ ہوگی

1. وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءَ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَo

’’اوربیشک تم (روزِ قیامت) ہمارے پاس اسی طرح تنہا آئو گے جیسے ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ (تنہا) پیدا کیا تھا اور (اموال و اولاد میں سے) جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئو گے، اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھیںگے جن کی نسبت تم (یہ) گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے (معاملات) میں ہمارے شریک ہیں۔ بیشک (آج) تمہارا باہمی تعلق (و اعتماد) منقطع ہوگیا اور وہ (سب) دعوے جو تم کیا کرتے تھے تم سے جاتے رہےo‘‘

(2) الانعام، 6 : 94

2. لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌo

’’تمہیں قیامت کے دن ہر گز نہ تمہاری (کافر و مشرک) قرابتیں فائدہ دیں گی اور نہ تمہاری (کافر و مشرک) اولاد، (اُس دن اللہ) تمہارے درمیان مکمّل جدائی کردے گا (مؤمن جنت میں اور کافر دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے)، اور اللہ اُن کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے جو تم کر رہے ہوo

(2) الممتحنۃ، 60 : 3

اس ساری بحث اور تقابلی جائزے کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کے بیان کا اطلاق بلا امتیاز اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس زمرے میں اس وقت آئیں گے جب نفئ شرک اور ہر غیر اللہ سے نفئ استحقاقِ عبادت کی بات ہو رہی ہو کیونکہ عبادت و الوہیت فقط اللہ تبارک و تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اس کے سوا کوئی اور اس شان کا مالک نہیں ہو سکتا۔ قرآنِ حکیم کے وہ مقامات جہاں نفئ شرک اور نفئ استحقاقِ عبادت کی بات نہ ہو رہی ہو بلکہ کفار و مشرکین اور ان کے مزعومہ معبودانِ باطلہ کی مذمت مقصود ہو وہاں مِنْ دُوْنِ اﷲِ میں انبیائے کرام اور اولیاء و صلحاء اور مقربین شامل نہیں۔ فہمِ دین سے نابلد بعض لوگوں نے اپنے من گھڑت تصورِ توحید کے زعم میں ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کو ایک مستقل اصطلاح بنا ڈالا اور جہاں بھی اس کا تذکرہ آیا سیاق و سباق سمجھے بغیر انبیاء و اولیاء کو ان معبودانِ باطلہ کے ساتھ شامل کردیا۔ اس صورت میں ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کا اطلاق ان کے نزدیک براہِ راست انبیاء و رسل اور اولیاء اﷲ پر ہوتا ہے جو صاف ظاہر ہے نہ قرینِ قیاس ہے اور نہ تقاضائے توحید۔ بلکہ ان کا یہ فاسد اطلاق دین میں بہت بڑے فتنے کا باعث بنا۔ چنانچہ اسی شدت سے اس کا رد بھی کیا گیا اور یوں یہ معاملہ بہت بڑے تنازعہ کی صورت اختیار کرگیا۔ اس نادانی کے باعث الزام لگانے والوں کی طرف سے بھی زیادتی ہوئی اور جواب دینے والوں کی طرف سے بھی بعض معاملات میں شدت کے مظاہر دیکھنے میں آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ’’مِنْ دُوْنِ اﷲ‘‘ کا سیاق و سباق دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ اس سے مراد انبیائے کرام اور اولیاء اللہ نہیں، یہ تو صرف ردِ شرک اور نفئ استحقاقِ عبادت کے لئے آتا ہے۔

الغرض یہ امر شک و شبہ سے بالا ہے کہ انبیاء و اولیاء قربِ خداوندی کا اور اس کی بارگاہِ اقدس تک رسائی اور وصول کا واسطہ، وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ ان کی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام واجب و لازم ہے جو کہ قلبی تقویٰ و طہارت اور ایمانِ خالص کی دلیل و برہان ہے۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا ضُروری ہے کہ من دون اللہ اور ہیں جبکہ انبیاء و رسل اور اولیاء اللہ اور ہیں۔ انبیاء کرام اور اولیاء عظام اﷲتعالیٰ کے مقرب بندے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کی رحمت ان کے قریب ہوتی ہے۔ اﷲ رب العزت انہیں اپنی عطائو اور نعمتوں سے نوازتا ہے اور انہیں اپنی رضا اور اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔ وہ دوسروں کے لئے بھی اﷲتعالیٰ کے تقرب کا باعث بنتے ہیں۔ جبکہ ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کا اطلاق جن معبودانِ باطلہ اور کفار و مشرکین پر کیا گیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اﷲ رب العزت کے قرب و رحمت سے محروم اور دور ہیں۔ ان کا نوازشاتِ الہٰیہ کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں، اس لئے ’’مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ کے حقیقی مصداق اوثان و اصنام ہی ہیں۔ اس کا اﷲتعالیٰ کے مقرب بندوں پر اطلاق کرنا سراسر باطل ہے اور منصبِ نبوت و ولایت کی توہین و تحقیر بھی۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔