Friday 20 March 2015

اعتراض نمبر 13 = تقلید شرک اور جہالت کا نام هے

0 comments
جواب = یہ باطل اعتراض عوام میں بہت مشہور کردیا گیا هے ، اور عوام کے ذهن میں یہ ڈال دیا گیا کہ مقلد آدمی الله ورسول کے حکم کے مقابلہ میں اپنے امام کی بات کو ترجیح دیتا هے ، اور پهر تقلید کی حُرمت پر قرآن کی وه آیات سنائی جاتی هیں جن میں مشرکین کی مذمت بیان کی گئ هے ، جو اپنے مشرک وگمراه آباء واجداد کے دین وطریقہ کو نہیں چهوڑتے تهے ، اور کہا جاتا هے کہ تقلید کا معنی هے جانور کے گلے میں پٹہ ڈالنا لہذا ایک مقلد آدمی اپنے امام کا پٹہ گلے میں ڈال دیتا هے ، غرض اس طرح کے بہت سارے وساوس تقلید سے متعلق عوام میں فرقہ جدید اہل حدیث کے علمبرداروں نے مشہور کیئے ہیں

تقلید کی حقیقت

خوب یاد رکهیں کہ تقلید " نعوذبالله " الله تعالی کے حکم اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے سنت کے مقابل ومخالف چیز کا نام نہیں هے ، جیسا کہ فرقہ جدید اهل حدیث نے عوام کو گمراه کرنے کے لیئے مشہور کیا هے ، بلکہ " تقلید " کی حقیقت صرف اور صرف یہ هے کہ ائمہ مجتهدین نے قرآن مجید اور احادیث نبویہ اور آثار صحابہ سے جو مسائل استنباط ( نکالے ) کیئے هیں ان کو تسلیم کرلینا هی " تقلید " هے ، کیونکہ علماء امت نے " تقلید " کی تعریف اس طرح کی هے کہ فروعی مسائل میں غیر مجتهد ( مُقلد ) کا مجتهد کے قول کو تسلیم کرلینا اور اس سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا اس اعتماد پر کہ اس مجتهد کے پاس اس قول کی دلیل موجود هے ، مثال کے طور پر " تقلید " کی اس تعریف کی روشنی میں آپ مذاهب اربعہ کی فقہ کی کوئی بهی مستند کتاب اٹهالیں ، وہاں هر مسئلہ کے ساتھ دلیل موجود هے


فقہ حنفی کی مشہور کتاب " هدایه " اٹهالیں هر فقہی مسئلہ کے ساتھ دلائل شرعیہ (یعنی کتاب الله ، سنت رسول الله ، اجماع امت ، قیاس شرعی ) میں سے کوئی دلیل ضرور موجود هے ، کیا اس عمل کا نام شرک وجہالت هے ؟؟ ( نعوذبالله ) حاصل یہ کہ همارے نزدیک ایک عامی آدمی کا اهل علم کی اتباع وراہنمائی میں دین پرعمل کرنا " تقلید " هے ، اور یہی حکم قرآن نے همیں دیا هے

قال تعالى ( فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) [سورة النحل  43] اسی طرح بعینہ یہ الفاظ سورة الأنبياء میں بهی ہیں يقول سبحانه وتعالى

(فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) [الأنبياء 7]. الله تعالی نے اس آیت میں یہ حکم دیا هے کہ اگر تمہیں علم نہ تو اهل علم سے پوچهو . الله تعالی نے اس آیت میں اہل علم کی پیروی کا واضح حکم دے دیا ، اور امام اعظم ابوحنیفہ امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم الله اهل علم هیں ، بلکہ امت مسلمہ کے عوام وخواص واهل علم کے امام ہیں ، اور ان حضرات کی علمیت وامامت وفوقیت وجلالت قدر پرامت کا اجماع هے ، یہ حضرات ائمہ اگر چہ آج اس دارفانی میں موجود نہیں ہیں ، لیکن ان کے اقوال وفتاوی واجتهادات کتابی صورت میں آج بهی ہمارے پاس موجود ومحفوظ هیں ، اوران حضرات ائمہ کے مذاهب کے ماهر علماء آج بهی موجود هیں ، اور ان شاء الله قیامت تک موجود رهیں گے

فائده = مذکوره آیت مبارکہ میں واضح طور پر یہ بیان کردیا گیا کہ تمام لوگوں پر اجتہاد کرنا واجب نہیں ہے ، اور نہ ہرکسی میں اس عظیم منصب تک پہنچنے کی صلاحیت ہے ، اس لیے الله تعالی نے علماء سے سؤال کرنے حکم دیا ہے ، جو واضح دلیل ہے کہ لوگوں میں ایک کثیر تعداد کا فریضہ سؤال ہوگا نہ کہ اجتہاد کرنا ، یہ تو دلیل شرعی ہوگئ ، عقلی اعتبار سے بهی واضح ہے کہ ہرشخص کا درجہ اجتہاد پر فائز ہونا اور مجتهد ہونا ممکن نہیں ہے ، الحمد لله هم اسی ارشاد ربانی وامرالہی ( فاسألوا أهل الذكر ) کی تعمیل میں دین پر عمل کرنے میں امام اعظم ابوحنیفہ اور آپ کے تلامذه کی راہنمائی حاصل کرتے هیں ، اب همارے اس طرز عمل کو اگر کوئی جاهل شرک وبدعت کہے تو کہتا رهے ۔

اهل علم سے سوال اور ان کی تقلید واتباع وراہنمائی کا حکم اور اس کی اهمیت کئ احادیث میں موجود ہے ، میں یہاں بغرض اختصار ایک حدیث نقل کرتا هوں ، ابن عباس رضي الله عنهما کی روایت هے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں ایک شخص زخمی هوگیا (ایک روایت میں ہے اس کا سر زخمی ہوگیا تها ) پهر اس کو احتلام هوگیا ( یعنی اس پرغسل فرض هوگیا ) تو اس کو ( ساتهیوں کی طرف سے ) غسل کا حکم دیا گیا ، (ایک روایت میں ہے کہ اس اپنے ساتهیوں سے پوچها کہ میرے لیے تیمم کی رخصت واجازت ہے ؟ تو ساتهیوں نے کہا نہیں تو پانی کے استعمال پر قادر ہے ) لہذا اس نے غسل کیا اور فوت هوگیا ، جب رسول الله صلى الله عليه وسلم کو یہ خبرپہنچی تو آپ نے فرمایا ( قتلوه قتلهم الله ) یعنی انهیں لوگوں نے اس کو مارا الله ان کو بهی مارے ، کیا جاهل وعاجز کی شفاء سوال میں نہیں هے ؟؟ یعنی جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تها تو انهوں نے کسی عالم سے کیوں نہیں پوچها ۔

وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رجلاً أصابه جرح على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم أصابه احتلام فأمر بالاغتسال فقُرّ فمات فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال قتلوه قتلهم الله ألم يكن شفاء العِيّ السؤال؟
رواه الإمام أحمد والدارمي في مسنديهما والبخاري في التاريخ الكبير والحاكم في مستدركه وأبو داود وابن ماجة والبيهقي والدارقطني وأبو يعلى والطبراني في الكبير وأبو نعيم وابن عساكر
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم هوا کہ جہاں هم نے دین میں حقیقی اورمستند اهل علم کی رجوع کرنا هے ، جوکہ ائمہ اربعہ اور دیگرائمہ مجتهدین هیں ، وهاں اهل جهل نام نہاد خود ساختہ شیوخ سے بهی بچنا هے ، کیونکہ جاهل کے حکم وفتوی پرعمل گمراهی وتباهی هے ، اور حدیث میں رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے ان لوگوں کو بد دعاء دی جنهوں نے بغیر علم کے مسئلہ بتایا اور اهل علم کی طرف رجوع نہیں کیا ، آج فرقہ اهل حدیث میں شامل نام نہاد شیوخ نے ائمہ اربعہ کی اتباع وتقلید کو شرک و جہالت وضلالت کہ کر عوام الناس کودین میں آزاد کردیا هے ، اور هرجاهل مجهول کو شیخ کا لقب دے دیا گیا ، اور ناواقف عوام کو ان کی اتباع پر مجبور کردیا ، جو کہ ( ضلوا فآضلوا ) کی کامل تصویر بنے هوئے هیں .
(جاری ھے)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔