****************************************************************************
۱۔ عیسیٰ بن جاریہ کا تعارف :
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ تہذیب التہذیب جلد۸ ص۱۸۶، میں حافظ ابو الحجاج مزی تہذیب الکمال جلد۱۴ ص۵۳۴،۵۳۳ میں اور حافظ ذھبیؒ میزان الاعتدال جلد۳ص۳۱۱ میں عیسیٰ بن جاریہ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ:۔ ۱۔ امام الجرح والتعدیل حضرت یحیٰ بن معین فرماتے ہیں لیس بذالك کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔۲۔ امام ابن معین اس کے بارے میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ عندہ مناکیر کہ اس کے پاس منکر روایتیں ہیں۔۳۔ امام ابو داؤد اس کے بارے میں یہ بھی فرماتے ہیں:۔ منکر الحدیث کہ یہ منکر الحدیث ہے۔ مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرقملد لکھتے ہیں کہ امام ابو داؤد اور حافظ ابن حجر یہی دو حضرات ایسے ہیں جن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ نہ متشدد ہیں اور نہ متساہل ۔ امام ابو داؤد نے بے شک عیسیٰ بن جاریہ کو منکر الحدیث کہا ہے۔ یہی جرح امام نسائی نے بھی کی ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۲) اس اقتباس سے حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد کا یہ کہنا غلط ثابت ہو گیا کہ ابو داؤد کی جرح ثابت نہیں ہے۔ رسالہ تعداد رکعات قیام کا تحقیق جائزہ ص۶۴) ۵۔ امام نسائی بھی اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں۔ اور منکر الحدیث راوی کون سا ہوتا ہے اس کی بابت مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیرمقلد حافظ ابن حجر سے نقل کر تے ہوئے لکھتے ہیں جس کی غلطیاں زیادہ ہوں یا غفلت باکثرت ہو یا فسق ظاہر ہو اس کی حدیث منکر ہے۔ (توضیح الکلام جلد۲ص۶۲۸)
مولاناا عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب غیرمقلد منکر الحدیث راوی کے بارے میں لکھتے ہیں :۔ حتی تکثیر المنا کیر فی روایته وینھی الٰی ان یقال فی منکر الحدیث لان منکر الحدیث وصف فی الرجل یسحق بهالترک بحدیثه (ابکار المنن ص۱۹۹) منکر الحدیث وہ راوی ہے جو منکر روایتیں ایسی کثرت سے بیان کرے کہ بالآخر اس کو منکر الحدیث کہا جانے لگے لہذا منکر الحدیث راوی میں ایسا صف ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اس بات کا مسٹھق ہوجاتا ہے کہ اس کی حدیث ترک کر دی جائے۔
مولانا محمد گوندلوی صاحب سابق امیر جماعت الحدیث لکھتے ہیں دوسری عبارت یعنی منکر الحدیث سے قابل اعتبار جرح ثابت ہوتی ہے۔ (خیر الکلام ص۱۶۰)
حافظ محمد اسحاق صاحب غیرمقلد (مدرس جامعہ رحمانیہ لاہور ) ایک حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں ان دونوں راویوں کے ضعیف بلکہ اول الذکر کے منکر الحدیث ہونے کی بنا ء کر کہا جاسکتا ہے کہ حدیث ضعیف جدایا منکر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے۔ (ہفت روزہ الاعتصام ص۲۰ ،۱۷ اگست ۱۹۱۲ء )
مولانا ارشار الحق اثری صاحب غیرمقلد الرفع التکمیل سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ پہلے الفاظ قابل اعتبار جرح نہیں بر عکس دوسرے منکر الحدیث کے کہ وہ راوی پر ایسی جرح ہے جس کا ارتبار کیاجاتا ہے۔ (توضیح الکلام جلد۱ ص۴۹۹)
زبیر علی زئی غیرمقلد لکھنے ہیں سوار منکر الحدیث یعنی سخت ضعیف ہے۔ (توضیح الکلام ص۴۹۸)
ان اقتباسات سے ثابت ہوگیا کہ لفظ منکر الحدیث خود علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی انتہائی سخت قابل اعتبار اور مفسر جرح ہے۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرمقلد عیسٰی بن جاریہ پر لفظ منکر الحدیث سے کی گئی جرح کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں محدیثین کے اطلاقات میں منکر الحدیث کا لفظ مختلف معانی میں مستعمل ہے بعض معنٰی کے اعتبار سے تو یہ سرے سے کوئی جرح کا لفظ ہی نہیں چہ جائیکہ یہ کوئی شدید جرح ہو چنانچہ
۱۔ حافظ عراقی لکھتے ہیں کہ بسا اوقات محدثین کسی راوی پر منکر الحدیث کا اطلاق اس لیے کر دیتے ہیں کہ اس نے صرف ایک ہی حدیث روایت کی ہے۔ (الرفع والتکمیل ص۱۴)
۲۔ حافظ سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں کہ کبھی یہ لفظ ثقہ راوی پر بھی بول دیتے ہیں جبکہ اس نے ضعیف راویوں سے منکر حدیثیں روایت کی ہوں۔
۳۔ حافظ زہبیؒ میزان میں لکھتے ہیں محدثین جب کسی راوی کی بابت منکرالحدیث کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس کی جتنی روایتیں ہیں وہ سب منکر ہیں بلکہ اس کی جملہ روایتوں میں سے اگر بعض بھی منکر ہوں تو اس کو منکر الحدیث کہہ دیتے ہیں (الرفع التکمیل )
دیکھئے ان اطلاقات کے مفہوموں میں باہم کتنا فرق ہے اس لئے جب تک کسی معتبر دلیل سے ثابت نہ ہو جائے کہ امام ابو داؤد وغیرہ نے عیسٰی بن جاریہ کو کس معنٰی کے اعتبار سے منکر الحدیث کہا ہے اس وقت تک قطعی طور پر یہ حکم لگا دینا کہ اس کی یہ روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی نری زبردستی ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۸)
لیکن رحمانی صاحب کا یہ جواب (حسب عادت ) محض سینہ زوری اور فع الوقتی ہے ۔ کیونکہ انہوں نے لفظ منکر الحدیث کے اصل معنٰی (جو علمائے غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہیں) چھوڑ کر جتنے بھی ضمنی معانی یہاں ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک معنٰی بھی یہاں عیسیٰ بن جاریہ کے بارہ میں مراد نہیں ہو سکتا۔ اول معنٰی کا مراد نہ ہونا تو ظاہر ہے کیونکہ عیسٰی بن جاریہ سے صرف ایک حدیث مروی نہیں بلکہ کئی اور روایات بھی مروی ہیں۔ مثلا متصل آئندہ روایت جابر ؓ جس میں حضرت ابی بن کعب ؓ کا اپنے گھر میں آٹھ رکعات پڑھانے کا ذکر ہے۔ اس روایت کو بھی حضرت جابرؓ سے نقل کرنے والے یہی ابن جاریہ ہیں لہذا پہلے معنٰی کا یہاں مراد نہ ہونا بالکل ظاہر ہے ۔ اسی طرح لفظ منکر الحدیث کا دوسرا معنٰی جو رحمانی صاحب نے حافظ سخاوی سے نقل کیا ہے۔ وہ بھی یہاں مراد نہیں کیونکہ عیسٰی بن جاریہ نے ان راویوں سے (بشرط ثبوت) روایات نقل کیں ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ حضرت جبیر بن عبداللہؓ حضرت شریکؓ حضرت سالمؒ بن عبداللہ ؒسعید بن المسیبؒ ابو سلمہؒ عبدالرحمٰین ؒ بن عوف تہذیب الکمال جلد۱۴ص۵۳۳ تہذیب التہذیب جلد۸ ص۱۸۶ اور یہ سب راویو ثقہ اور عادل ہیں بلکہ اول الذکر تینوں صحابہ کرام ہیںؓ میں سے ہیں۔ اور باقی سب ثقہ اور مشہور تابعین ؒ ہیں لہذا یہ معنٰی لینا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ عیسٰی بن جاریہ خود تو ثقہ راوی ہیں لیکن اس نے ضعیف راویوں سے منکر حدیثین روایت کی ہیں۔ نعوذبا اللہ بن ذالک
اور لفظ منکر الحدیث کے تیسرے معنٰی جو رحمانی صاحب نے حافظ زھبیؒ سے الرفع التکمیل کے حوالہ سے ذکر کئے ہیں اسس کی اصل نہیں ہے کیونکہ الرفع والتکمیل میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھنویؒ نے حافظ ذھبیؒ سے یہ قول یوں نقل کیا ہے کہ حافظ ذھبیؒ نے میزان الاعتدال میں عبداللہ بن معاویہ الزھیری کے ترجمہ میں لکھا ہے فولهم منکر الحدیث
لا یعدون به ان کل ماوراہ منکر الخ (الرفع والتکملص۲۰۱) لیکن حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ عبداللہ زھیری کے ترجمہ میں میزان الاعتدالا کے کسی مطبوعہ نسخے میں موجود نہیں ہیں جیسا کہ ششیخ ابو عدہ عبد الفتاح صاحب نے الرفع والتکمیل کے حاشیہ میں اس کی تصریح کی ہے۔ دیکھئے حاشیہ نمبر ۳ الرفع والتکمیل ص۲۰۱ مطبوعہ مکتبہ الدعوۃ الاسلامیہ پشاور اور میزان الاعتدال کا جو نسخخہ خود غیرمقلدین کے مکتبہ اثر یہ سانگلہ اہل شیخو پورہ نے شائع کیا ہے اس میں بھی عبداللہ زہیری کے ترجمہ میں حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا لکھنویؒ کا یہ الفاظ نقل کرنا ان کے سہو قلم کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم ۔ اور بالفرض اگر حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ کے کسی اور نسخہ میں ہوں تب بھی تو پھر بھی یہ الفاظ عیسٰی بن جاریہ کے حق میں کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس سے جتنی روایات مروی ہیں ان کے متعلق کسی محدث نے یہ تصریح نہیں کی کہ عیسیٰ کی مروی روایات میں سے صرف بعض روایات منکرر ہیں اور باقی صحیح ہیں اور یہ اس کی یہ مذکورہ روایت ان منکر روایتوں میں شامل نہیں ہے۔ اذلیس فلیس ۔
الغرض رحمانی صاحب نے جتنے معنٰی بھی لفظ منکر الحدیث کے ذکر کیے ہیں ان میں سے کوئی معنٰی بھی عیسٰی بن جاریہ جیسے منکر الحدیث راوی کے بارے میں مراد نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے حق میں وہی معنٰی مراد ہیں جو ہم نےغیر مقلدین کے علمائے سے نقل کئے ہیں۔ اور اس پر ونیل اور قرینہ یہ ہےکہ امام الجرح واتعدیل حضرت یحیٰ بن معین نے اس کے بارے میں عندہ مناکیر کا مطلب یہ بیان کیا ہےک ہ اس سے لی گئی احادیث (یعنی بکثرت) منکر ہیں۔ (سیرت المصطفٰی ص۱۳۸) (فتاویٰ اہل حدیث جلد۱ ص۳۱۴) اسی طرح ابن معین کے الفاظ عندہ مناکیر جملہ اسمیہ ہے جس میں دوام اور استمرار ہوتا ہے۔ اب عندہ مناکیر کا مطلب ہوگا کہ اس راوی نے بکثرت منکر روایتیں نقل کی ہیں اورر بعینہ یہی معنٰی لفظ منکر الحدیث کا مولانا مبارک پوری صاحب وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جو راوی بکثرت سے منکر روایتیں نقل کرے الخ لہذا رحمانی صاحب کا لفظ منکر الحدیث کا اپنی مرضی کا معنٰی لینے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
اشکال ثانی:۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ لفظ منکر الحدیث جرح مبہم ہے کیونکہ مستند علمائے نے اس کے جرح مبہم ہونے کی تصریح کی ہے۔ چنانچہ علمہ سندھیؒ لکھتے ہیں:۔ کسی محدث کا کسی راوی کے حق میں منکر الھڈیث کہنا ایسی جرح ہے جو بیان سبب سے خالی ہے ۔ کیونککہ اس جرح کا حاصل یہ ہےکہ یہ راوی ضعیف ہے اور اسی کے اس نے ثقات کی مخالفت کی ہے لہذا ضعیف کہنا بلا شبہ جرح مبہم ہے۔ الخ (انورار المصابیح ص۱۱۹،۱۲۰)
جواب :۔ رحمانی صاحب نے دعویٰ تو یہ کیا ہے کہ مسند علماء نے اس کے جرح مبہم ہونےک ی تصریح کی ہے لیکن ان کو کافی کوشش و محنت کے باوجود اس دعویی کے اثبات میں صرف علامہ سندھی کا ہی حوالہ مل سکا ورنہ رحمانی کا اپنی پوری کتاب میں یہ طرز ہے کہ اگر کسی مسئلہ کی تحقیق میں کوئی ضعیف سے ضعیف قول بھی ہاتھ آجائے تو اس کو بھی ذکر کر نے سے دریغ
نہیں معلوم ہوتا ہے کہ لفظ منکرالحدیث کو جرح مبھم کہنے والوں کے دلائل فی کل کائنات صرف علامہ سندھی ؒ کا یہ قول ہے لیکن الحمد للہ تعالٰی ہم نے صرف غیرمقلدین کے کئی مستند علماء کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ یہ مفسر اور نہایت سخت جرح ہے اور رحماننی صاحب کے استاذ اور غیرملقدین کے محقق اعثم مولانا مبارکپوری صاحب کا حوالہ گزر چکا ہے کہ لفظ منکر الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی کثر سے منکر روایتیں بیان کرے اور یہی جرح مفسر ہے کیونکہ جرح مفسر کا مفہوم یہی ہے کہ اس میں جرح کا سبب مذکور ہو اور لفظ منکر الحدیث میں بھی جرح کا سبب یعنی راوی کا کثرت سے مناکیر نقل کرنا موجود ہے لہذا اس کو جرح مبھم کہنا غلط ہے ۔ رحمانی صاحب نے علامہ سندھی ؒ کا جو قول نقل کیا ہے یہ جرح مبھم ہے تو اس کا جواب یہ ہےک ہ اگر انہوں نے لفظ منکر الحدیث کو جرح مبھم کہا تو ساتھ انہوں نے یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ جب یہ اس معنٰی میں ہو کہ یہ راوی ضعیف ہے اور اسس نے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے۔ چنانچہ علامہ سندھیؒ فرماتے ہیں :۔انه ضعیفف خالف الثقه (الرفع والتکمیل ص۲۰۴) لیکن جس معنٰی میں علامہ سندھی نے لفظ منکر الحدیث کو جرح مبھم کہا ہے وہ معنٰی عیسٰی بن جاریہ کے بارے میں مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کو منکر الحدیث کہنے کے ساتھ عندہ مناکیر بھی کہا گیا ہے اور پہلے گزر چکا ہے کہ یہ لفظ اس راوی کے حق میں بولا جاتا ہے جس نے کثرت سے منکر روایتیں نقل کی ہوں اور یہ جرح مفسر ہے اور خود علامہ سندھی بھی اس معنٰی میں لفظ منکر الحدیث کو جرح مفسر مانتے ہیں ۔چانچہ فرماتے ہیں ۔ وانما تصر کثر المنا کیر و کثرۃ مخالفه ۔ حوالہ سابقہ۔ راوی کا کثرت سے منکر روایتیں نقل کرنا اور کثرت سے ثقات کی مخالفت کرنا مضر یعنی جرح مفسر ہے لہذا جس منعٰی میں عیسیٰ بن جاریہ منکر الحدیث ہے اس معنیٰ میں یہ لفظ خود علامہ سندھی ک نزدیک بھی جرح مضر اور مفسر ہے تو یوں غیرمقلدین کا آخری سہارا علامہ سندھیؒ کا حوالہ بھی ان کے ہاتھ سے نقل گیا۔
؏ جن به نکیه تھاوہی پتے ھوا دینے لگے
۶۔ امام نسائی نے عیسٰی بن جاریہ کو منکر الحدیث کے ساتھ ساتھ متروک بھی فرمایا ہے۔ اور مشہور غیرمقلد مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں کہ کذاب ، متروک لیس بثقہ کے الفاظ شدید جرح میں شمار ہوتے ہیں۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۶۰۸)
نیز اثری لیس بثقہ جس لفظ کو انہوں نے متروک کے ہم درجہ شمار کیا ہے فرماتے ہیں یہ الفاظ جرحی کلمات میں دوسرے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں جن کی روایت قابل استشہاد و اعتبار نہیں۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۷۱۷)
اب بقول مولانا اثری صاحب غیرمقلد عیسیٰ بن جاریہ پر امام نسائی نے اتنی شدید جرح کی ہے کہ ایسے راوی کی روایت سے استدلال تو کیا اس کی روایت متابعت اور استشہاد میں بھی پیش کرنے کے قابل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود
غیرمقلدین حضرات اپنے طے شدہ اصولوں کی ذرا برابر ہروا نہیں کرتے اور عیسیٰ بن جاریہ کی روایت سے صرف استشہاد ہی نہیں بلکہ استدلال کئے بیٹھے ہیں۔
؏ ایں چه بوالعجیست
۷۔امام ابن عدی فرماتے ہیں احادیثہ غیر محفوظۃ کہ عیسٰی یہ جاریہ کی بیان کر دہ حدیثیں غیر محفوظ ہیں مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرمقلد اس جلہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں۔ یعنی محفوظ کا مقابل اور اس کا غیر ہیںں جن کا اصطلاعاً شاذ کہتے ہیں۔(انوار المصابیح ص۱۱۷)
اب غیرمقلدین کے وکیل اعظم مولانا رحمانی صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ ابن جاریہ کی بیان کر دہ حدیثیں غیر محفو ظ اور شاذ ہیں اور جس راوی کی روایتیں شاذ ہوں وہ راوی کیسا ہوتا ہے۔ ایسے راوی کا تعارف بھی رحمانی صاحب کے قلم سے ملاحظہ کریں، چنانچہ فرماتے ہیں ۔ اگر حفظ کے اعتبار سے بہت گرا ہوا راوی نہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہو گی اور اگر اسسس کے خلاف ہو یعنی حفظ کے اعتبار سے بہت گرا ہوا راوی ہو تو البتہ (اس کی) وہ روایت شاذ و ممنکر کہی جائے گی۔(انوار المصابیح ص۱۲۳)
گویا عیسٰی بن جاریہ حفظ کے اعتبار سے اتنا گراہوا راوی ہے کہ بقول رحمانی صاحب غیرمقلد اس کی وجہ سے اس کی حدیثیں غیر محفوظ اور شاذ ہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہی امام ابن عدیؒ جنہوں نے عیسٰی بن جاریہ کی روایتوں کو غیر محفوظ اور شاذ فرمایا ہے انہوں نے حدیث ابن عباسؓ کے راوی ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ ؒ کی روایتوں کو صالح اوور درست کہا ہے۔ (تہذیب الکمال جلد۱ ص۳۹۳) اب ابو شیبہ کی بیان کر دہ حدیث تو غیرمقلدین کے نزدیک موضوع اور نہایت ضعیف ہے ۔ لیکن جس راوی (عیسیٰ بن جاریہ) کی روایات ابن عدی کے نزدیک غیر محفوظ ہیں اس کی بیان کر دہ یہ حدیث غیرمقلدین کے ہاں قابل استدلال ہے۔
؏ ناطقہ سر بگریبان ہے اسے کیا کہئے
۸۔ امام عقیلیؒ نے عیسٰی بن جاریہ کو ضعفاء یعنی ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔
۹۔ امام ساجیؒ نے بھی اس کو ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔
مولانا نذیر رحمانی غیرمقلد لکھتے ہیں عیسٰی بن جاریہ کے جارحین میں چار حضرات ابن معین ، نسائی ،عقیلی، ابن عدی کا متعثین میں شمار ہونا تو بالکل واضح ہے اسی طرح ساجی جرح و تعدیل کے باب میں مثبت اور متیقظ نہ تھے بلکہ قسابل یا متشدد تھے اور ایسے لوگوں کی '
جرح و تعدلیل مقبول نہیں۔ (انوار المصابیح ص۱۱۲)۔ جواب رحمانی صاحب کا یہ اشکال بالکل بے وقعت ہے کیونکہ اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ حضرات متشدد اور متعنت تھے تو پھر بھی انکی جرح مقبول ہے کیونکہ ابن جاریہ کے جارحین میں امام ابو داؤد اور حافظ ابن حجرؒ بھی ہیں جن کے متعلق خود رحمانی صاحبل کھتے ہیں کہ یہ نہ متشدد ہیں اور متساہل۔(ص۱۱۲)۔ رحمانی صاحب یہ اصول بھی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ جب متشدد جارح کی موافقت کوئی معتدل جارح کر دے تو پھر متشدد جارح کی جرح بھی مقبول ہو جاتی ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۳)۔ پس جب امام نسائی اور امام ابن معینؒ ،امام ابن عدیؒ اور امام ساجی اور امام عقیلی کو متشدد کہہ کر ان کو جرح کو رد کرنا انصاف و دیانت سے جی چرانے والی بات ہے۔
۱۰۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اس کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ فیه لین (تقریب التہذیب جلد۱ ص۷۷۹)
کہ عیسٰی بن جاریہ روایت حدیث میں کمزور (یعنی ضعیف) ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے فیه کو الفاظ جرح و تعدیل کے چھٹے طبقہ میں شمار کیا ہے۔(انوار المصابیح ص۱۱۶)
علامہ احمد شاکر غیرمقلد فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجررؒ کے بیان کردہ طبقات سے میں صرف پہلے چار طبقوں کی روایات حجت ہیں۔ اور چوتھے طبقہ کے بعد والے طبقات والے راوی کی روایات مردود ہیں وہ روایت کثرت طرق سے مروی ہو۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ حافظ بن حجرؒ کی جرح سے عیسیٰ کی روایت کا ترک ہونا لازم نہیں انہوں نے تقریب میں صرف فیہ لین کہا ہے۔ محدثین نے فیہ لین اور لین الحدیث کو بہت ہلکے اوور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں شمار کیا ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۵) نیز فرماتے ہیں کہ امام دارقطنیؒ جیسے ناقدر رجال کے نزدیک ایسا راوی نہ ساقط العدالت ہے اور نہ اس کی حدیث قابل ترک (ص۱۱۶) جواب:۔ غیرمقلدین حضرات کی عادت شریفہ ہے کہ جب کوئی روایت ان کے مسلک اور خواہش کے موافق ہو تو وہ اسے سر آنکھوں پر رکھتے ہیں چاہئے اس میں کوئی کتنا ضعیف راوی کویں نہ ہو اور پھر اس راوی پر کی گئی جرح کو وہ طرح طرح کی رکیک تاویلوں اور مختلف بہانوں سے ٹال دیتے ہیں لیکن اسی قسم کی جرح جب کسی ایسے راوی پر ہو جس کی روایت سے ان کے مسلک پر زر پڑتی ہو تو پھر یہ حضرات اس جرح کو انکھیں بند کرکے قبول کر لیتے ہیں اور اس جرح کے سہارے وہ اس راوی اور اس کی مروی روایت کوضعیف سے ضعیف قرار دیتے ہیں یہ یحال نذیر رحمانی صاحب کا ہے کہ یہاں یہ روایت ان کے مسلک کے موافق آئی تو اس
کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر حافظ ابن حجرؒ کی جرح جیہ لین کو یوں کہہ کر ٹال دیا کہ بہت ہلکی اور معمولی درجہ کی جرح ہے اور راوی کا ضعیف ہونا اوور اس کی روایت کا قابل ترک ہونا لازم نہیں اتا ۔ لیکن ان کا دو غلا پن ملاحظہ کریں کہ جب حافظ ابن حجرؒ کی یہی جرح غیرمقلدین کے مسل ک کے مخالف روایت کے راوی پر آئی تو اسے فوراً قبو ل کر لیا اور اس روایت اور اس کے راوی کو سخت ضعیف قرار دے دیا ۔ چنانچہ رحمانی صاحب ایک روایت کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ورنہ حق تو یہ ہے کہ یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے اس کا ایک راوی نضر بن شیبان بالکل ضعیف ہے۔ (انورا المصابیح ص۸۷)
حالانکہ نضر بن شیبان کے بارے میں بھی حافظ ابن حجرؒ نے تقریب التہذیب میں لین الحدیث کہا ہے۔ (تقریب جلد۲ ص۲۴۵)
جو بقول رحمانی صاحب نہایت ہلکی اور معمولی درجہ کی جرح کی ہے۔ اب قارئین اندازہ کریں کہ عیسٰی بن اریہ اور نضر بن شیبان پر حافظ ابن حجرؒ نے ایک ہی قسم کی جرح کی ہے لیکن عیسٰی بن جاریہ تو اس جرح کی وجہ سے رحامنی صاحب کے نزدیک ضعیف نہ ہوئے بلکہ بدستور ثقہ ہی اور اس کی روایت بھی صحیح اور قابل احتجاج ہے لیکن نظر بن شیبان حافظ صاحب کی اسی جرح سے باوجود رحامنی صاحب کی نظروں میں بالکل ضعیف ٹھہرا اور اس کی حدیث بھی ضعیف قرار پائی۔
تیری بات کو بت حیلہ گرنہ قرار ہے نہ قیام ہے
کبھی شام ہے کبھی صبح ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے
حضرات ! عیسٰی بن جاریہ پر مشہور ائمہ رجال کی طرف سے یہ مذکورہ دس کلمات جرح منقول ہیں اور ان میں سے اکثر میں(عندہ مناکیر ، منکر الحدیث اور مترول وغیرہ) خود علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی مفسر اور نہایت سخت ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جرح کے ذیل میں غیرمقلدین کے علماء کے حوالے آپ نے ملاحظہ کئے ہیں۔ اس میں سے اگر ایک جرح بھی عیسٰی بن جاریہ پر عائد ہوتی تو یہ اس کی اس روایت کے ضعیگ اور ناقابل استدلال ہونے کیلئے کافی تھی چہ جائیکہ عیسٰی ابن تمام جرحوں کے ساتھ مجروح ہے۔لیکن غیرملقدین کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو کہ ان کو عیسٰی بن جاریہ پر کی گئی جرحوں کے سنگین ہونے کا ااقرار بھی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اس کو ثقہ ٹھہرانے اور اس کی مذکورہ روایت کو قابل استدلال بنانے میں ست تا پاؤں غرق ہیں۔
11
حسين سليم أسد
ضعيف
12
شعيب الأرنؤوط
إسناده ضعيف، عيسى بن جارية ضعيف
13
الشيخ مصطفى العدوي
عيسى بن جارية وهو ضعيف
المنتخب من مسند عبد بن حميد 2/205
14
الاعْتِصَام
المؤلف: إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي الشهير بالشاطبي (المتوفى: 790هـ)
تحقيق ودراسة:
سعد بن عبد الله آل حميد
الاعْتِصَام2/169
سنده ضعيف؛ فعيسى بن جارية الأنصاري المدني
15
أبو الفضل محمد بن طاهر بن علي بن أحمد المقدسي الشيباني، المعروف بابن القيسراني
والْحَدِيث غير مَحْفُوظ
ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي)
16
الكتاب: الأحاديث الواردة في البيوع المنهي عنها
المؤلف: سليمان بن صالح الثنيان
الناشر: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية
فإن الإسناد ضعيف؛ لضعف عيسى بن جارية 1/95
17
الكتاب: الضعفاء والمتروكون
المؤلف: جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ)
عِيسَى بن جَارِيَة يروي عَن يَعْقُوب القمي قَالَ يحيى عِنْده احاديث مَنَاكِير وَقَالَ النَّسَائِيّ مَتْرُوك الحَدِيث
18
الكتاب: الاعتصام
المؤلف: إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي الشهير بالشاطبي (المتوفى: 790هـ)
تحقيق: سليم بن عيد الهلالي
الناشر: دار ابن عفان، السعودية
1/391
سليم بن عيد الهلالي
إسناده ضعيف،
عيسى بن جارية وهو لین فیه
۱۔ عیسیٰ بن جاریہ کا تعارف :
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ تہذیب التہذیب جلد۸ ص۱۸۶، میں حافظ ابو الحجاج مزی تہذیب الکمال جلد۱۴ ص۵۳۴،۵۳۳ میں اور حافظ ذھبیؒ میزان الاعتدال جلد۳ص۳۱۱ میں عیسیٰ بن جاریہ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ:۔ ۱۔ امام الجرح والتعدیل حضرت یحیٰ بن معین فرماتے ہیں لیس بذالك کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔۲۔ امام ابن معین اس کے بارے میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ عندہ مناکیر کہ اس کے پاس منکر روایتیں ہیں۔۳۔ امام ابو داؤد اس کے بارے میں یہ بھی فرماتے ہیں:۔ منکر الحدیث کہ یہ منکر الحدیث ہے۔ مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرقملد لکھتے ہیں کہ امام ابو داؤد اور حافظ ابن حجر یہی دو حضرات ایسے ہیں جن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ نہ متشدد ہیں اور نہ متساہل ۔ امام ابو داؤد نے بے شک عیسیٰ بن جاریہ کو منکر الحدیث کہا ہے۔ یہی جرح امام نسائی نے بھی کی ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۲) اس اقتباس سے حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد کا یہ کہنا غلط ثابت ہو گیا کہ ابو داؤد کی جرح ثابت نہیں ہے۔ رسالہ تعداد رکعات قیام کا تحقیق جائزہ ص۶۴) ۵۔ امام نسائی بھی اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں۔ اور منکر الحدیث راوی کون سا ہوتا ہے اس کی بابت مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیرمقلد حافظ ابن حجر سے نقل کر تے ہوئے لکھتے ہیں جس کی غلطیاں زیادہ ہوں یا غفلت باکثرت ہو یا فسق ظاہر ہو اس کی حدیث منکر ہے۔ (توضیح الکلام جلد۲ص۶۲۸)
مولاناا عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب غیرمقلد منکر الحدیث راوی کے بارے میں لکھتے ہیں :۔ حتی تکثیر المنا کیر فی روایته وینھی الٰی ان یقال فی منکر الحدیث لان منکر الحدیث وصف فی الرجل یسحق بهالترک بحدیثه (ابکار المنن ص۱۹۹) منکر الحدیث وہ راوی ہے جو منکر روایتیں ایسی کثرت سے بیان کرے کہ بالآخر اس کو منکر الحدیث کہا جانے لگے لہذا منکر الحدیث راوی میں ایسا صف ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اس بات کا مسٹھق ہوجاتا ہے کہ اس کی حدیث ترک کر دی جائے۔
مولانا محمد گوندلوی صاحب سابق امیر جماعت الحدیث لکھتے ہیں دوسری عبارت یعنی منکر الحدیث سے قابل اعتبار جرح ثابت ہوتی ہے۔ (خیر الکلام ص۱۶۰)
حافظ محمد اسحاق صاحب غیرمقلد (مدرس جامعہ رحمانیہ لاہور ) ایک حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں ان دونوں راویوں کے ضعیف بلکہ اول الذکر کے منکر الحدیث ہونے کی بنا ء کر کہا جاسکتا ہے کہ حدیث ضعیف جدایا منکر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے۔ (ہفت روزہ الاعتصام ص۲۰ ،۱۷ اگست ۱۹۱۲ء )
مولانا ارشار الحق اثری صاحب غیرمقلد الرفع التکمیل سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ پہلے الفاظ قابل اعتبار جرح نہیں بر عکس دوسرے منکر الحدیث کے کہ وہ راوی پر ایسی جرح ہے جس کا ارتبار کیاجاتا ہے۔ (توضیح الکلام جلد۱ ص۴۹۹)
زبیر علی زئی غیرمقلد لکھنے ہیں سوار منکر الحدیث یعنی سخت ضعیف ہے۔ (توضیح الکلام ص۴۹۸)
ان اقتباسات سے ثابت ہوگیا کہ لفظ منکر الحدیث خود علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی انتہائی سخت قابل اعتبار اور مفسر جرح ہے۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرمقلد عیسٰی بن جاریہ پر لفظ منکر الحدیث سے کی گئی جرح کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں محدیثین کے اطلاقات میں منکر الحدیث کا لفظ مختلف معانی میں مستعمل ہے بعض معنٰی کے اعتبار سے تو یہ سرے سے کوئی جرح کا لفظ ہی نہیں چہ جائیکہ یہ کوئی شدید جرح ہو چنانچہ
۱۔ حافظ عراقی لکھتے ہیں کہ بسا اوقات محدثین کسی راوی پر منکر الحدیث کا اطلاق اس لیے کر دیتے ہیں کہ اس نے صرف ایک ہی حدیث روایت کی ہے۔ (الرفع والتکمیل ص۱۴)
۲۔ حافظ سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں کہ کبھی یہ لفظ ثقہ راوی پر بھی بول دیتے ہیں جبکہ اس نے ضعیف راویوں سے منکر حدیثیں روایت کی ہوں۔
۳۔ حافظ زہبیؒ میزان میں لکھتے ہیں محدثین جب کسی راوی کی بابت منکرالحدیث کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس کی جتنی روایتیں ہیں وہ سب منکر ہیں بلکہ اس کی جملہ روایتوں میں سے اگر بعض بھی منکر ہوں تو اس کو منکر الحدیث کہہ دیتے ہیں (الرفع التکمیل )
دیکھئے ان اطلاقات کے مفہوموں میں باہم کتنا فرق ہے اس لئے جب تک کسی معتبر دلیل سے ثابت نہ ہو جائے کہ امام ابو داؤد وغیرہ نے عیسٰی بن جاریہ کو کس معنٰی کے اعتبار سے منکر الحدیث کہا ہے اس وقت تک قطعی طور پر یہ حکم لگا دینا کہ اس کی یہ روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی نری زبردستی ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۸)
لیکن رحمانی صاحب کا یہ جواب (حسب عادت ) محض سینہ زوری اور فع الوقتی ہے ۔ کیونکہ انہوں نے لفظ منکر الحدیث کے اصل معنٰی (جو علمائے غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہیں) چھوڑ کر جتنے بھی ضمنی معانی یہاں ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک معنٰی بھی یہاں عیسیٰ بن جاریہ کے بارہ میں مراد نہیں ہو سکتا۔ اول معنٰی کا مراد نہ ہونا تو ظاہر ہے کیونکہ عیسٰی بن جاریہ سے صرف ایک حدیث مروی نہیں بلکہ کئی اور روایات بھی مروی ہیں۔ مثلا متصل آئندہ روایت جابر ؓ جس میں حضرت ابی بن کعب ؓ کا اپنے گھر میں آٹھ رکعات پڑھانے کا ذکر ہے۔ اس روایت کو بھی حضرت جابرؓ سے نقل کرنے والے یہی ابن جاریہ ہیں لہذا پہلے معنٰی کا یہاں مراد نہ ہونا بالکل ظاہر ہے ۔ اسی طرح لفظ منکر الحدیث کا دوسرا معنٰی جو رحمانی صاحب نے حافظ سخاوی سے نقل کیا ہے۔ وہ بھی یہاں مراد نہیں کیونکہ عیسٰی بن جاریہ نے ان راویوں سے (بشرط ثبوت) روایات نقل کیں ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ حضرت جبیر بن عبداللہؓ حضرت شریکؓ حضرت سالمؒ بن عبداللہ ؒسعید بن المسیبؒ ابو سلمہؒ عبدالرحمٰین ؒ بن عوف تہذیب الکمال جلد۱۴ص۵۳۳ تہذیب التہذیب جلد۸ ص۱۸۶ اور یہ سب راویو ثقہ اور عادل ہیں بلکہ اول الذکر تینوں صحابہ کرام ہیںؓ میں سے ہیں۔ اور باقی سب ثقہ اور مشہور تابعین ؒ ہیں لہذا یہ معنٰی لینا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ عیسٰی بن جاریہ خود تو ثقہ راوی ہیں لیکن اس نے ضعیف راویوں سے منکر حدیثین روایت کی ہیں۔ نعوذبا اللہ بن ذالک
اور لفظ منکر الحدیث کے تیسرے معنٰی جو رحمانی صاحب نے حافظ زھبیؒ سے الرفع التکمیل کے حوالہ سے ذکر کئے ہیں اسس کی اصل نہیں ہے کیونکہ الرفع والتکمیل میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھنویؒ نے حافظ ذھبیؒ سے یہ قول یوں نقل کیا ہے کہ حافظ ذھبیؒ نے میزان الاعتدال میں عبداللہ بن معاویہ الزھیری کے ترجمہ میں لکھا ہے فولهم منکر الحدیث
لا یعدون به ان کل ماوراہ منکر الخ (الرفع والتکملص۲۰۱) لیکن حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ عبداللہ زھیری کے ترجمہ میں میزان الاعتدالا کے کسی مطبوعہ نسخے میں موجود نہیں ہیں جیسا کہ ششیخ ابو عدہ عبد الفتاح صاحب نے الرفع والتکمیل کے حاشیہ میں اس کی تصریح کی ہے۔ دیکھئے حاشیہ نمبر ۳ الرفع والتکمیل ص۲۰۱ مطبوعہ مکتبہ الدعوۃ الاسلامیہ پشاور اور میزان الاعتدال کا جو نسخخہ خود غیرمقلدین کے مکتبہ اثر یہ سانگلہ اہل شیخو پورہ نے شائع کیا ہے اس میں بھی عبداللہ زہیری کے ترجمہ میں حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا لکھنویؒ کا یہ الفاظ نقل کرنا ان کے سہو قلم کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم ۔ اور بالفرض اگر حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ کے کسی اور نسخہ میں ہوں تب بھی تو پھر بھی یہ الفاظ عیسٰی بن جاریہ کے حق میں کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس سے جتنی روایات مروی ہیں ان کے متعلق کسی محدث نے یہ تصریح نہیں کی کہ عیسیٰ کی مروی روایات میں سے صرف بعض روایات منکرر ہیں اور باقی صحیح ہیں اور یہ اس کی یہ مذکورہ روایت ان منکر روایتوں میں شامل نہیں ہے۔ اذلیس فلیس ۔
الغرض رحمانی صاحب نے جتنے معنٰی بھی لفظ منکر الحدیث کے ذکر کیے ہیں ان میں سے کوئی معنٰی بھی عیسٰی بن جاریہ جیسے منکر الحدیث راوی کے بارے میں مراد نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے حق میں وہی معنٰی مراد ہیں جو ہم نےغیر مقلدین کے علمائے سے نقل کئے ہیں۔ اور اس پر ونیل اور قرینہ یہ ہےکہ امام الجرح واتعدیل حضرت یحیٰ بن معین نے اس کے بارے میں عندہ مناکیر کا مطلب یہ بیان کیا ہےک ہ اس سے لی گئی احادیث (یعنی بکثرت) منکر ہیں۔ (سیرت المصطفٰی ص۱۳۸) (فتاویٰ اہل حدیث جلد۱ ص۳۱۴) اسی طرح ابن معین کے الفاظ عندہ مناکیر جملہ اسمیہ ہے جس میں دوام اور استمرار ہوتا ہے۔ اب عندہ مناکیر کا مطلب ہوگا کہ اس راوی نے بکثرت منکر روایتیں نقل کی ہیں اورر بعینہ یہی معنٰی لفظ منکر الحدیث کا مولانا مبارک پوری صاحب وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جو راوی بکثرت سے منکر روایتیں نقل کرے الخ لہذا رحمانی صاحب کا لفظ منکر الحدیث کا اپنی مرضی کا معنٰی لینے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
اشکال ثانی:۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ لفظ منکر الحدیث جرح مبہم ہے کیونکہ مستند علمائے نے اس کے جرح مبہم ہونے کی تصریح کی ہے۔ چنانچہ علمہ سندھیؒ لکھتے ہیں:۔ کسی محدث کا کسی راوی کے حق میں منکر الھڈیث کہنا ایسی جرح ہے جو بیان سبب سے خالی ہے ۔ کیونککہ اس جرح کا حاصل یہ ہےکہ یہ راوی ضعیف ہے اور اسی کے اس نے ثقات کی مخالفت کی ہے لہذا ضعیف کہنا بلا شبہ جرح مبہم ہے۔ الخ (انورار المصابیح ص۱۱۹،۱۲۰)
جواب :۔ رحمانی صاحب نے دعویٰ تو یہ کیا ہے کہ مسند علماء نے اس کے جرح مبہم ہونےک ی تصریح کی ہے لیکن ان کو کافی کوشش و محنت کے باوجود اس دعویی کے اثبات میں صرف علامہ سندھی کا ہی حوالہ مل سکا ورنہ رحمانی کا اپنی پوری کتاب میں یہ طرز ہے کہ اگر کسی مسئلہ کی تحقیق میں کوئی ضعیف سے ضعیف قول بھی ہاتھ آجائے تو اس کو بھی ذکر کر نے سے دریغ
نہیں معلوم ہوتا ہے کہ لفظ منکرالحدیث کو جرح مبھم کہنے والوں کے دلائل فی کل کائنات صرف علامہ سندھی ؒ کا یہ قول ہے لیکن الحمد للہ تعالٰی ہم نے صرف غیرمقلدین کے کئی مستند علماء کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ یہ مفسر اور نہایت سخت جرح ہے اور رحماننی صاحب کے استاذ اور غیرملقدین کے محقق اعثم مولانا مبارکپوری صاحب کا حوالہ گزر چکا ہے کہ لفظ منکر الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی کثر سے منکر روایتیں بیان کرے اور یہی جرح مفسر ہے کیونکہ جرح مفسر کا مفہوم یہی ہے کہ اس میں جرح کا سبب مذکور ہو اور لفظ منکر الحدیث میں بھی جرح کا سبب یعنی راوی کا کثرت سے مناکیر نقل کرنا موجود ہے لہذا اس کو جرح مبھم کہنا غلط ہے ۔ رحمانی صاحب نے علامہ سندھی ؒ کا جو قول نقل کیا ہے یہ جرح مبھم ہے تو اس کا جواب یہ ہےک ہ اگر انہوں نے لفظ منکر الحدیث کو جرح مبھم کہا تو ساتھ انہوں نے یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ جب یہ اس معنٰی میں ہو کہ یہ راوی ضعیف ہے اور اسس نے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے۔ چنانچہ علامہ سندھیؒ فرماتے ہیں :۔انه ضعیفف خالف الثقه (الرفع والتکمیل ص۲۰۴) لیکن جس معنٰی میں علامہ سندھی نے لفظ منکر الحدیث کو جرح مبھم کہا ہے وہ معنٰی عیسٰی بن جاریہ کے بارے میں مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کو منکر الحدیث کہنے کے ساتھ عندہ مناکیر بھی کہا گیا ہے اور پہلے گزر چکا ہے کہ یہ لفظ اس راوی کے حق میں بولا جاتا ہے جس نے کثرت سے منکر روایتیں نقل کی ہوں اور یہ جرح مفسر ہے اور خود علامہ سندھی بھی اس معنٰی میں لفظ منکر الحدیث کو جرح مفسر مانتے ہیں ۔چانچہ فرماتے ہیں ۔ وانما تصر کثر المنا کیر و کثرۃ مخالفه ۔ حوالہ سابقہ۔ راوی کا کثرت سے منکر روایتیں نقل کرنا اور کثرت سے ثقات کی مخالفت کرنا مضر یعنی جرح مفسر ہے لہذا جس منعٰی میں عیسیٰ بن جاریہ منکر الحدیث ہے اس معنیٰ میں یہ لفظ خود علامہ سندھی ک نزدیک بھی جرح مضر اور مفسر ہے تو یوں غیرمقلدین کا آخری سہارا علامہ سندھیؒ کا حوالہ بھی ان کے ہاتھ سے نقل گیا۔
؏ جن به نکیه تھاوہی پتے ھوا دینے لگے
۶۔ امام نسائی نے عیسٰی بن جاریہ کو منکر الحدیث کے ساتھ ساتھ متروک بھی فرمایا ہے۔ اور مشہور غیرمقلد مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں کہ کذاب ، متروک لیس بثقہ کے الفاظ شدید جرح میں شمار ہوتے ہیں۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۶۰۸)
نیز اثری لیس بثقہ جس لفظ کو انہوں نے متروک کے ہم درجہ شمار کیا ہے فرماتے ہیں یہ الفاظ جرحی کلمات میں دوسرے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں جن کی روایت قابل استشہاد و اعتبار نہیں۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۷۱۷)
اب بقول مولانا اثری صاحب غیرمقلد عیسیٰ بن جاریہ پر امام نسائی نے اتنی شدید جرح کی ہے کہ ایسے راوی کی روایت سے استدلال تو کیا اس کی روایت متابعت اور استشہاد میں بھی پیش کرنے کے قابل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود
غیرمقلدین حضرات اپنے طے شدہ اصولوں کی ذرا برابر ہروا نہیں کرتے اور عیسیٰ بن جاریہ کی روایت سے صرف استشہاد ہی نہیں بلکہ استدلال کئے بیٹھے ہیں۔
؏ ایں چه بوالعجیست
۷۔امام ابن عدی فرماتے ہیں احادیثہ غیر محفوظۃ کہ عیسٰی یہ جاریہ کی بیان کر دہ حدیثیں غیر محفوظ ہیں مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرمقلد اس جلہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں۔ یعنی محفوظ کا مقابل اور اس کا غیر ہیںں جن کا اصطلاعاً شاذ کہتے ہیں۔(انوار المصابیح ص۱۱۷)
اب غیرمقلدین کے وکیل اعظم مولانا رحمانی صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ ابن جاریہ کی بیان کر دہ حدیثیں غیر محفو ظ اور شاذ ہیں اور جس راوی کی روایتیں شاذ ہوں وہ راوی کیسا ہوتا ہے۔ ایسے راوی کا تعارف بھی رحمانی صاحب کے قلم سے ملاحظہ کریں، چنانچہ فرماتے ہیں ۔ اگر حفظ کے اعتبار سے بہت گرا ہوا راوی نہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہو گی اور اگر اسسس کے خلاف ہو یعنی حفظ کے اعتبار سے بہت گرا ہوا راوی ہو تو البتہ (اس کی) وہ روایت شاذ و ممنکر کہی جائے گی۔(انوار المصابیح ص۱۲۳)
گویا عیسٰی بن جاریہ حفظ کے اعتبار سے اتنا گراہوا راوی ہے کہ بقول رحمانی صاحب غیرمقلد اس کی وجہ سے اس کی حدیثیں غیر محفوظ اور شاذ ہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہی امام ابن عدیؒ جنہوں نے عیسٰی بن جاریہ کی روایتوں کو غیر محفوظ اور شاذ فرمایا ہے انہوں نے حدیث ابن عباسؓ کے راوی ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ ؒ کی روایتوں کو صالح اوور درست کہا ہے۔ (تہذیب الکمال جلد۱ ص۳۹۳) اب ابو شیبہ کی بیان کر دہ حدیث تو غیرمقلدین کے نزدیک موضوع اور نہایت ضعیف ہے ۔ لیکن جس راوی (عیسیٰ بن جاریہ) کی روایات ابن عدی کے نزدیک غیر محفوظ ہیں اس کی بیان کر دہ یہ حدیث غیرمقلدین کے ہاں قابل استدلال ہے۔
؏ ناطقہ سر بگریبان ہے اسے کیا کہئے
۸۔ امام عقیلیؒ نے عیسٰی بن جاریہ کو ضعفاء یعنی ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔
۹۔ امام ساجیؒ نے بھی اس کو ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔
مولانا نذیر رحمانی غیرمقلد لکھتے ہیں عیسٰی بن جاریہ کے جارحین میں چار حضرات ابن معین ، نسائی ،عقیلی، ابن عدی کا متعثین میں شمار ہونا تو بالکل واضح ہے اسی طرح ساجی جرح و تعدیل کے باب میں مثبت اور متیقظ نہ تھے بلکہ قسابل یا متشدد تھے اور ایسے لوگوں کی '
جرح و تعدلیل مقبول نہیں۔ (انوار المصابیح ص۱۱۲)۔ جواب رحمانی صاحب کا یہ اشکال بالکل بے وقعت ہے کیونکہ اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ حضرات متشدد اور متعنت تھے تو پھر بھی انکی جرح مقبول ہے کیونکہ ابن جاریہ کے جارحین میں امام ابو داؤد اور حافظ ابن حجرؒ بھی ہیں جن کے متعلق خود رحمانی صاحبل کھتے ہیں کہ یہ نہ متشدد ہیں اور متساہل۔(ص۱۱۲)۔ رحمانی صاحب یہ اصول بھی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ جب متشدد جارح کی موافقت کوئی معتدل جارح کر دے تو پھر متشدد جارح کی جرح بھی مقبول ہو جاتی ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۳)۔ پس جب امام نسائی اور امام ابن معینؒ ،امام ابن عدیؒ اور امام ساجی اور امام عقیلی کو متشدد کہہ کر ان کو جرح کو رد کرنا انصاف و دیانت سے جی چرانے والی بات ہے۔
۱۰۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اس کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ فیه لین (تقریب التہذیب جلد۱ ص۷۷۹)
کہ عیسٰی بن جاریہ روایت حدیث میں کمزور (یعنی ضعیف) ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے فیه کو الفاظ جرح و تعدیل کے چھٹے طبقہ میں شمار کیا ہے۔(انوار المصابیح ص۱۱۶)
علامہ احمد شاکر غیرمقلد فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجررؒ کے بیان کردہ طبقات سے میں صرف پہلے چار طبقوں کی روایات حجت ہیں۔ اور چوتھے طبقہ کے بعد والے طبقات والے راوی کی روایات مردود ہیں وہ روایت کثرت طرق سے مروی ہو۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ حافظ بن حجرؒ کی جرح سے عیسیٰ کی روایت کا ترک ہونا لازم نہیں انہوں نے تقریب میں صرف فیہ لین کہا ہے۔ محدثین نے فیہ لین اور لین الحدیث کو بہت ہلکے اوور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں شمار کیا ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۵) نیز فرماتے ہیں کہ امام دارقطنیؒ جیسے ناقدر رجال کے نزدیک ایسا راوی نہ ساقط العدالت ہے اور نہ اس کی حدیث قابل ترک (ص۱۱۶) جواب:۔ غیرمقلدین حضرات کی عادت شریفہ ہے کہ جب کوئی روایت ان کے مسلک اور خواہش کے موافق ہو تو وہ اسے سر آنکھوں پر رکھتے ہیں چاہئے اس میں کوئی کتنا ضعیف راوی کویں نہ ہو اور پھر اس راوی پر کی گئی جرح کو وہ طرح طرح کی رکیک تاویلوں اور مختلف بہانوں سے ٹال دیتے ہیں لیکن اسی قسم کی جرح جب کسی ایسے راوی پر ہو جس کی روایت سے ان کے مسلک پر زر پڑتی ہو تو پھر یہ حضرات اس جرح کو انکھیں بند کرکے قبول کر لیتے ہیں اور اس جرح کے سہارے وہ اس راوی اور اس کی مروی روایت کوضعیف سے ضعیف قرار دیتے ہیں یہ یحال نذیر رحمانی صاحب کا ہے کہ یہاں یہ روایت ان کے مسلک کے موافق آئی تو اس
کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر حافظ ابن حجرؒ کی جرح جیہ لین کو یوں کہہ کر ٹال دیا کہ بہت ہلکی اور معمولی درجہ کی جرح ہے اور راوی کا ضعیف ہونا اوور اس کی روایت کا قابل ترک ہونا لازم نہیں اتا ۔ لیکن ان کا دو غلا پن ملاحظہ کریں کہ جب حافظ ابن حجرؒ کی یہی جرح غیرمقلدین کے مسل ک کے مخالف روایت کے راوی پر آئی تو اسے فوراً قبو ل کر لیا اور اس روایت اور اس کے راوی کو سخت ضعیف قرار دے دیا ۔ چنانچہ رحمانی صاحب ایک روایت کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ورنہ حق تو یہ ہے کہ یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے اس کا ایک راوی نضر بن شیبان بالکل ضعیف ہے۔ (انورا المصابیح ص۸۷)
حالانکہ نضر بن شیبان کے بارے میں بھی حافظ ابن حجرؒ نے تقریب التہذیب میں لین الحدیث کہا ہے۔ (تقریب جلد۲ ص۲۴۵)
جو بقول رحمانی صاحب نہایت ہلکی اور معمولی درجہ کی جرح کی ہے۔ اب قارئین اندازہ کریں کہ عیسٰی بن اریہ اور نضر بن شیبان پر حافظ ابن حجرؒ نے ایک ہی قسم کی جرح کی ہے لیکن عیسٰی بن جاریہ تو اس جرح کی وجہ سے رحامنی صاحب کے نزدیک ضعیف نہ ہوئے بلکہ بدستور ثقہ ہی اور اس کی روایت بھی صحیح اور قابل احتجاج ہے لیکن نظر بن شیبان حافظ صاحب کی اسی جرح سے باوجود رحامنی صاحب کی نظروں میں بالکل ضعیف ٹھہرا اور اس کی حدیث بھی ضعیف قرار پائی۔
تیری بات کو بت حیلہ گرنہ قرار ہے نہ قیام ہے
کبھی شام ہے کبھی صبح ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے
حضرات ! عیسٰی بن جاریہ پر مشہور ائمہ رجال کی طرف سے یہ مذکورہ دس کلمات جرح منقول ہیں اور ان میں سے اکثر میں(عندہ مناکیر ، منکر الحدیث اور مترول وغیرہ) خود علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی مفسر اور نہایت سخت ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جرح کے ذیل میں غیرمقلدین کے علماء کے حوالے آپ نے ملاحظہ کئے ہیں۔ اس میں سے اگر ایک جرح بھی عیسٰی بن جاریہ پر عائد ہوتی تو یہ اس کی اس روایت کے ضعیگ اور ناقابل استدلال ہونے کیلئے کافی تھی چہ جائیکہ عیسٰی ابن تمام جرحوں کے ساتھ مجروح ہے۔لیکن غیرملقدین کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو کہ ان کو عیسٰی بن جاریہ پر کی گئی جرحوں کے سنگین ہونے کا ااقرار بھی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اس کو ثقہ ٹھہرانے اور اس کی مذکورہ روایت کو قابل استدلال بنانے میں ست تا پاؤں غرق ہیں۔
11
حسين سليم أسد
ضعيف
12
شعيب الأرنؤوط
إسناده ضعيف، عيسى بن جارية ضعيف
13
الشيخ مصطفى العدوي
عيسى بن جارية وهو ضعيف
المنتخب من مسند عبد بن حميد 2/205
14
الاعْتِصَام
المؤلف: إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي الشهير بالشاطبي (المتوفى: 790هـ)
تحقيق ودراسة:
سعد بن عبد الله آل حميد
الاعْتِصَام2/169
سنده ضعيف؛ فعيسى بن جارية الأنصاري المدني
15
أبو الفضل محمد بن طاهر بن علي بن أحمد المقدسي الشيباني، المعروف بابن القيسراني
والْحَدِيث غير مَحْفُوظ
ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي)
16
الكتاب: الأحاديث الواردة في البيوع المنهي عنها
المؤلف: سليمان بن صالح الثنيان
الناشر: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية
فإن الإسناد ضعيف؛ لضعف عيسى بن جارية 1/95
17
الكتاب: الضعفاء والمتروكون
المؤلف: جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ)
عِيسَى بن جَارِيَة يروي عَن يَعْقُوب القمي قَالَ يحيى عِنْده احاديث مَنَاكِير وَقَالَ النَّسَائِيّ مَتْرُوك الحَدِيث
18
الكتاب: الاعتصام
المؤلف: إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي الشهير بالشاطبي (المتوفى: 790هـ)
تحقيق: سليم بن عيد الهلالي
الناشر: دار ابن عفان، السعودية
1/391
سليم بن عيد الهلالي
إسناده ضعيف،
عيسى بن جارية وهو لین فیه
No comments:
Post a Comment