Tuesday 31 March 2015

امام بیہقی ؒ کے ہاں اللہ تعالی کے لیے مکان ،جگہ اور لوکیشن کی تعیین غلط ہے

0 comments
 .
الأسماء والصفات للبيهقي (2/ 280)
وَلَيْسَ مَعْنَى قَوْلِ الْمُسْلِمِينَ: إِنَّ اللَّهَ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ، هُوَ أَنَّهُ مُمَاسٌّ لَهُ، أَوْ مُتَمَكِّنٌ فِيهِ، أَوْ مُتَحَيِّزٌ فِي جِهَةٍ مِنْ جِهَاتِهِ، لَكِنَّهُ بَائِنٌ مِنْ جَمِيعِ خَلْقِهِ، وَإِنَّمَا هُوَ خَبَرٌ جَاءَ بِهِ التَّوْقِيفُ فَقُلْنَا بِهِ، وَنَفَيْنَا عَنْهُ التَّكْيِيفَ، إِذْ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ "
اس عبارت میں امام بیہقی ؒ یہی فرماتے ہیں کہ اللہ کو عرش پر مستوی ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی ذات اس کو چھورہی ہے ، یا وہ وہاں متمکن ہے یا وہ اس کے [یعنی عرش کے جہت میں ہے لیکن وہ مخلوق سے جدا ہے ۔اور یہ صرف ایک توقیفی خبر ہے پس ہم نے اس پر قول کیا اور اس سے کیفیت نفی کردی کیونکہ اس کی طرح کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع وبصیر ہے ..
جبکہ وکٹورینز اللہ عزوجل کی طرف فوق یا عرش کی نسبت کو بالکل جہت کے معنی میں لیتے ہیں کیونکہ وہ اللہ عزوجل کی تحدید کرتے ہیں عرش پر مان کر دوسری جگہوں کی نفی کرتے ہیں جبکہ اہل سنت اللہ عزوجل کے لیے کسی جگہ کی تعین نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ کہاں ہے کا سوال اپنے ظاہر کے مطابق صحیح نہیں مانتے ہاں اگر اس سے مکانت یعنی منزلت کا سوال مراد ہو توٹھیک ہے ۔۔۔کیونکہ کہاں ہے کا جواب اپنے ظاہر پر جگہ کی تعیین کے لیے ہی ہے جو کہ اللہ عزوجل سے منفی ہے
امام بیہقی کی دوسری عبارت
الأسماء والصفات للبيهقي (2/ 289)
وَالَّذِي رُوِيَ فِي آخِرِ هَذَا الْحَدِيثِ إِشَارَةٌ إِلَى نَفْيِ الْمَكَانِ عَنِ اللَّهِ تَعَالَى، وَأَنَّ الْعَبْدَ أَيْنَمَا كَانَ فَهُوَ فِي الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى سَوَاءٌ، وَأَنَّهُ الظَّاهِرُ، فَيَصِحُّ إِدْرَاكُهُ بِالْأَدِلَّةِ؛ الْبَاطِنُ، فَلَا يَصِحُّ إِدْرَاكُهُ بِالْكَوْنِ فِي مَكَانٍ. وَاسْتَدَلَّ بَعْضُ أَصْحَابِنَا فِي نَفْيِ الْمَكَانِ عَنْهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ» . وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ ". وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فَوْقَهُ شَيْءٌ وَلَا دُونَهُ شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ فِي مَكَانٍ.
اس عبارت میں امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ بندہ جہاں بھی ہے وہ اللہ عزوجل کے لیے قرب و بعد کی نسبت سے برابر ہے یہ ایک واضح دلیل ہے کہ امام بیہقی ؒ کے ہاں اللہ عزوجل کی قرب وبعد حسی نہیں نہ اس کی فوقیت حسی ہے بخلاف وکٹورینز کے کیونکہ ان کے ہاں ملائکہ آسمان کی طرف جاتے ہیں تو اس کا مطلب وہ لوگ اللہ کی طرف جانے کے لیتے ہیں اس معنی پر کہ اللہ جس جہت میں ہے فرشتے اسی جہت میں جارہے ہیں ۔۔۔ان کے ہاں آسمان والے زیادہ قریب ہیں اللہ کو بنسبت زمین والوں کے ۔۔۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اللہ کا قرب وبعد حسی ہے یعنی مسافت کا قرب وبعد ہے ۔۔جبکہ امام بیہقی ؒ کے ہاں بندہ جہاں بھی ہے اللہ کے لیے اس کے قرب وبعد میں کوئی فرق نہیں آتا..
استواء کے مسائل میں یہ لوگ بعینہ ابن تیمیہ اور ابن القیم کے مسلک پر ہیں ۔۔۔اور ابن القیم نے لکھا ہے کہ ابن تیمیہ ؒ عثمان بن سعید الدارمی کے کتابوں کی بہت زیادہ تاکید ووصیت کرتے تھے یہاں اس عثمان بن سعید کی کچھ عبارتیں ذکر کرتے ہیں جو ان کے امام ابن تیمیہ اور ابن القیم کے ہاں بہت ہی ضروری کتابیں ہیں کہ ان کے ہاں استوائ کے بارے میں اصل عقائد کیا ہیں....
نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله عز وجل من التوحيد (1/ 444)
إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَصِفْ نَفْسَهُ أَنَّهُ فِي مَوْضِعٍ دُونَ مَوْضِعٍ. فَإِنْ كُنْتَ أَيُّهَا الْمُعَارِضُ مِمَّنْ يَقْرَأُ2 كِتَابَ اللَّهِ وَيَفْهَمُ3 شَيْئًا مِنَ الْعَرَبِيَّةِ عَلِمْتَ أَنَّكَ كَاذِبٌ عَلَى اللَّهِ فِي دَعْوَاكَ؛ لِأَنَّهُ وَصَفَ4 أَنَّهُ فِي مَوْضِعٍ دُونَ مَوْضِعٍ وَمَكَانٍ دُونَ مَكَانٍ. ذَكَرَ أَنَّهُ فَوْقَ الْعَرْشِ، وَالْعَرْشُ فَوْقَ السَّمَوَاتِ
بشر المریسی پر رد کرتے ہوئے الدارمی لکھتا ہے کہ تم اس بات میں جھوٹے ہو کہ اللہ تعالی نے خود کو کسی نہ کسی ایک جگہ ہونے کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اس نے اپنی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ کسی ایک جگہ ہے اور کسی ایک مکان میں ہے ۔۔وہ یہ کہ اس نے ذکر کیا ہے کہ وہ عرش کے اوپر ہے اور عرش آسمانوں کے اوپر ہے ...
ابن تیمیہ اور اس کے پیروکار جن افکار کی دعوت اس مسئلے میں دے رہے ہیں وہ یہی ہیں کہ اللہ کو فوق العرش ماننے کا مطلب اللہ کو اس جگہ اور مکان میں ماننا ہے ماسوائے دوسری جگہوں کے ۔۔۔العیاذ باللہ یہ صاف اللہ عزوجل کی تحدید اور مکان کا بیان ہے جبکہ سلف سے نصوص صفات کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ اس کی تفسیر نہیں بیان کرتے تھے بلکہ کہتے کہ ان کو اسی طرح آگے گزارو جیسا کہ یہ آئے ہیں ۔۔امروھا کما جاءت ۔۔۔جبکہ ان کے ہاں اس کا مطلب اس کے ظاہری معنی ہی پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھنا ہے
تو کھل کر سامنے آگیا امام بیہقی ؒ کے ہاں اللہ تعالی کے لیے مکان ،جگہ اور لوکیشن کی تعیین غلط ہے جبکہ ان کے ہاں یہ آیتیں اللہ عزوجل کا مکان اور محل وقوع بتارہی ہیں....

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔