Tuesday 31 March 2015

علم غیب مصطفیٰ ﷺ پر طعن و اعتراض کرنا منافقین کا کام ھے

0 comments
علم غیب مصطفیٰ ﷺ پر طعن و اعتراض کرنا منافقین کا کام ھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قال السدی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرضت علی امتی افی صورھا فی الطین کما عرضت علی آدم و اعلمت من یومن بی و من یکفر بی مبلغ ذلک المناقین فقالوا استہزائً زعم محمدانہ یعلم من یومن بہ و من یکفربہ ممن لم یخلق بعد و نحن معہ وما یعرفنا مبلغ ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم و قام علی المنبر محمد اللہ تعالیٰ داشنی علیہ ثم قال ما بال اقوام طنعوا فی علمی لا تسالونی عن شی فیما بینکم و بین الساعۃ الا بناتکم بہ فقام عبد اللہ بن خذافہ السنہمی فقال من ابی یا رسول اللہ فقال حذافۃ فقام عمر فقال یا رسول اللہ رضینا باللہ ربا وابالاسلام دینا و بالقرآن اماماً ربک نبیا فاعف عنا فاللہ عنک فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فھل انتم منتھون فھل انتم منتھون ۔ (خازن ص ۳۸۲، جلد اوّل)

روایت کا مفھوم و خلاصہ

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے سامنے میری اُمت کو پیش کیا گیا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔ جب میرے سامنے اُمت کو پیش کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کا علم بھی عطا کر دیا جو ایمان لائیں گے اور ان کا علم بھی دے دیا جو ایمان نہیں لائیں گے ۔ جب یہ بات منافقین تک پہنچی تو انہوں نے اس کا مذاق اڑ ایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ گمان کرتے ہیں کہ جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ۔ ان میں سے بھی وہ مومن اور غیر مومن کو جانتے ہیں حالانکہ ہم تو ان کے پاس رہتے ہیں ہمیں وہ نہیں جانتے ۔ جب منافقین کی یہ بات حضور علیہ الصلوٰہ والسلام تک پہنچی تو آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا اقوام کو کیا حق پہنچتا ہے کہ میرے علم پر طعن کریں ۔ آپ نے فرمایا قیامت تک کے سوالات مجھ سے پوچھ لو میں ہر شیٔ کے بارے میں تمہیں خبر دوں گا ۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی نے اپنے والد کی خبر پوچھی ۔ حضور علیہ السلام نے ان کو ان کے والد کی خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑ ے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ کو رب اور سلام کو دین مانتے ہیں اور قرآن کو امام مانتے ہیں اور آپ کو نبی مانتے ہیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا بیان جاری رکھا اور فرمایا کیا تم میرے علم پر طعن کرنے سے باز نہیں آؤ گے ۔

اس روایت کو امام خازن نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 179 کے شان نزول میں رقم فرمایا ہے ۔ ۔ ۔

فائدہ :- اس روایت سے یہ صاف طور پر واضح ہوا کہ منافقین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب پر طعن کیا کرتے تھے اور یہ انکا وطیرہ تھا لہزا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی برا لگا اور آپ نے صاف صاف فرمایا کہ لوگوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ میرے علم پر طعن کریں یعنی تم میں سے کسی کا یہ منصب ہی نہیں کہ میرے علم میں کلام کرو اور پھر ہر شئے کہ پوچھنے کا سر عام چیلنج دیا اور بار بار فرمایا سلونی عما شئتم لہذا پھر لوگوں نے غیبی خبریں پوچھیں کسی نے ماکان کی خبر کو اپنے نطفہ کی حقیقت کے حوالہ سے پوچھا تو کسی نے مایکون کی خبر کو اپنے اخروی ٹھکانہ کی حیثیت سے پوچھا اور میرے سچے رسول برحق نے سب کو ٹھیک ٹھیک بتلادیا اور پھر جو سچے اور مومن صحابہ تھے کہ جیسے بعض روایات میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جلال مبارک کو دیکھ کر گھٹنوں کے بل آپکے سامنے جھک گئے اور عرض کی یارسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے آپ کا سچے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہیں ہمیں معاف فرمادیجئے تو تب جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال مبارک کم ہوا ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔