Saturday 28 March 2015

كلمہ طیبہ کا مفھوم

0 comments

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ

ترجمہ: نہیں ہے كوئی معبود اللہ كے سوا حضرت محمد (ﷺ) اللہ كے رسول ہیں۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
توحید: یہ كلمہ طیبہ توحید پر مشتمل ہے۔توحید كے معنی ہیں اللہ تعالیٰ كو معبود برحق، وحدہٗ لاشریك لہٗ ماننا اور یہی دین كی بنیاد ہے۔
الوہیت: استحقاقِ عباد۱ت یا وجو۲ب كو الوہیت كہتے ہیں۔جو ذات مستحق واجب الوجود كے لیے مستحق عبادت ہونا ضروری ہے۔
مشركین كی سفاہت ہے كہ وہ اپنے بتوں اور معبودوں كو ممكن ۴ الوجود مان كر معبود اور مستحق عبادت سمجھتے ہیں۔
عبادت: غایت تعظیم اور انتہاء تذلل۶ كو عبادت كہتے ہیں جس كی اصل یہ ہے كہ عبادت كرنے والا جس كی عبادت كرتا ہے اس كے لیے ذاتی اور مستقل صفت مانتا ہے جس میں كسی كی قدرت و مشیت كو كسی قسم كا كوئی دخل نہ ہو۔
اصل عبادت اسی اعتقاد كو كہتے ہیں۔اس اعتقاد كے ساتھ كسی كی اطاعت و محبت یا اس كے لیے كوئی عمل كرنا اس كی عبادت ہے۔ بغیر عمل كے كسی كے لیے صرف اعتقاد كا ہونا بھی اس كی عبادت قرار پائے گا۔
استعانت: الوہیت اور عبادت كے معنی واضح ہونے كے بعد استعا۱نت كے معنی خود بخود سمجھ میں آجاتے ہیں اور وہ یہ كہ كسی كے لیے عون كی ایسی صفت مستقلہ مان كر جو مقہوریت اور مغلوبیت سے بالا تر ہو اس سے طلب عون كو استعانت (حقیقیہ) كہا جاتا ہے ایسی استعانت صرف معبود حقیقی كی شان كے لائق ہے، لہٰذا مستعان وہی ہوسكتا ہے اس كے غیر سے استعانت دراصل اس كی الوہیت و معبودیت كے اعتقاد كے منافی ہے۔
فائدہ: چوں كہ الوہیت اور معبودیت استقلال ذاتی كے بغیرمتصور نہیں، اس لیے كسی كو مجازی معبود و الٰہ نہیں كہہ سكتے بخلاف استعانت،محبت اور اطاعت وغیرہ كے كہ یہاں مستعان مجازی اور محبوب مجازی كہہ سكتے ہیں۔كیوں كہ مظاہر كائنات میں خالق حقیقی نے یہ اوصاف پیدا كیے ہیں او رجو چیزپیدا كی ہوئی ہو اس میں استقلال ذاتی ممكن نہیں جس طرح استقلال ذاتی میں حدوث و امكان كا شائبہ نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا الٰہ اور معبود كو مجازی كہنا بالكل ایسا ہوگا جیسے واجب الوجود كو حادث كہہ دیا جائے۔
مختصر یہ كہ الوہیت كے مفہوم كا خلاصہ، غلبہ اور استقلال ذاتی ہے جو ذات اس سے متصف ہوگی اس كے لیے استحقاق عبادت و استعانت اور وجوب وجود بداہةً ضروری ہوگا اور یہ ملازمت و ضر۱۱ورت كا سلسلہ ایسا ہے كہ معبود برحق كے تمام اوصاف واقعیہ كو اعتقاد كے سامنے لے آتا ہے اور ایك مومن و مصدق اس كی روشنی میں معبودِ حقیقی كے تمام اوصاف كو بلاتامل تسلیم كرلیتا ہے۔
مثلاً استحقاق عبادت كے لیے ضروری ہے كہ معبود سب سے بڑا اور عظمت والا ہو نیزاس كے لیے واجب الوجود ہونا بھی ضروری ہو كیوں كہ امكان كی صورت میں احتیاج لازم آئے گی اور محتاج غایت تعظیم كا مستحق نہیں ہوسكتا، اسی طرح واجب الوجود ہونے كے لیے صانع۱عالم ہونا لازم ہے كیوں كہ سلسلہ ممكنات كا غیر متناہی ہونا محال ہے،لامحالہ كسی واجب پر ختم ہوگا وہی صانع قرار پائے گا۔ پھر صانع كا تعدد امكا۳ن تمانع كو مستلزم ہے اور امكان تمانع اجتماع نقیضین كو مستلزم ہے اور ظاہر ہے كہ اجتماع نقیضین ممكن نہیں بلكہ محال ہے اور مستلزم محال یقینا محال ہوتا ہے۔اس لیے امكان تمانع باطل قرار پائے گا اور تعدد صانع ممتنع ہوگا۔معلوم ہوا كہ صانع كا ایك ہونا ضروری ہے۔جب صانع كا وجود ضروری ہو تو اس كے لیے حیات علم و قدرت،سمع و بصر، كلام ارادہ اور حكمت و مشیت تمام اوصاف كا ہونا بھی ضروری ہے ورنہ صانع نہیں ہوسكتا۔اسی طرح صانع كے لیے كائنات كا رب ہونا اور ربوبیت كے لیے رحمان و رحیم ہونا سب كچھ ضروریات و لوازمات سے ہے كہ لزوم و ضرورت كا یہ سلسلہ ایسا ہے كہ ایك صفت كے ساتھ دوسری اور دوسری كے ساتھ تیسری اور اسی طرح ہر صفت ملزومہ كے ساتھ صفت لازمہ ثابت ہوتی چلی جائے گی۔
شرك: توحید كی نقیض شرك ہے، چونكہ توحید امر واجب لذاتہٖ كا اعتقاد ہے اور واجب لذاتہٖ كا نقیض ممتنع  لذاتہٖ ہے۔لہٰذا جب تك كسی امر ممتنع لذاتہٖ كا اعتقاد نہ ہو اس وقت تك شرك مستحق نہ ہوگا۔مثلاً اللہ تعالیٰ كا مستقلاً بالذات قادر مطلق ہونا واجب لذاتہٖ ہے اور اس كا اعتقاد توحید ہے اور اللہ تعالیٰ كے غیر كا مستقلاً بالذات قادر مطلق ہونا ممتنع لذاتہٖ ہے تو جو شخص غیر خدا كے حق میں ایسا اعتقاد ركھے وہ شرك ہے اور اس كا یہ اعتقاد شرك قطعی ہے۔خواہ وہ ایسی قدرت بعطاء خداوندی ہی كیوں نہ مانتا ہو۔كیوں كہ صفت مستقلہ اوصاف الوہیت سے ہے اور وصف الوہیت كی عطاء ممتنعات ذاتیہ سے ہے۔لہٰذا اعطائے الوہیت كا معتقد بھی امر ممتنع لذاتہٖ كا اعتقاد ركھنے كی وجہ سے مشرك قرار پائے گا لیكن اگر كسی غیر خدا كے حق میں كوئی شخص یہ اعتقاد ركھے كہ اللہ تعالیٰ نے اسے تمام ممكنات پر غیر مستقل قدرت عطا كردی ہے تو یہ اعتقاد شرك نہ ہوگا كیوں كہ غیر مستقل قدرت عطا كرنا تحت قدرت ہے اور جو چیزتحت قدرت ہو ممكن بالذات ہے اور كسی ممكن بالذات كا ممتنع لذاتہٖ ہونا محال ہے اور جب تك كسی امر ممتنع لذاتہٖ كا اعتقاد نہ ہو مشرك نہیں ہوسكتا۔لہٰذا تمام ممكنات پر اللہ تعالیٰ كا اپنے كسی محبوب كو غیر مستقل قدرت عطا كرنے كا اعتقاد ہر گز شرك نہ ہوگا۔
قدرت كی طرح علم،سمع،بصر كو بھی سمجھ لیجیے۔اگر كوئی شخص یہ اعتقاد ركھتا ہے كہ اللہ تعالیٰ نے اپنے كسی محبوب كو تمام مخلوقات كا غیرمستقل یعنی ممكن اورحادث علم عطا كردیا ہے یا دور و نزدیك كی ہر شے اور ہر آواز كے سننے دیكھنے كی غیر مستقل صفت كا عطا كرنا تحت قدرت ہونے كی وجہ سے ممكن ہے اور امر ممكن كا اعتقاد شرك نہیں ہوسكتا۔ لہٰذا استقلال ذاتی ہی كا عقیدہ شرك ہوگا۔كیوں كہ استقلال و الوہیت كی اعطا ممتنع لذاتہٖ ہے اور اسی كا اعتقاد شرك ہے۔
خلاصہ كلام یہ كہ توحید و الوہیت او عبادت و شرك كے ان مفاہیم كو ذہن نشین كرلینے كے بعد یہ حقیقت بے غبار ہوكر سامنے آجاتی ہے كہ الٰہ برحق صرف وہی ذات واجب الوجود ہے جو ہر صفت كمال سےمتصف اور ہر عیب و نقص سے پاك ہو اور اسی ذات مقدسہ كا نام اللہ ہے اس كے سوا كوئی مستحق عبادت نہیں۔ یہ معنی ہیں لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ كے اور اصل دین بھی یہی ہے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ
محمد (ﷺ) اللہ (تعالیٰ) كے رسول ہیں۔
محمد: لفظ محمد كا مادہ حمد ہے اور التحمید مصدر سے اسم مفعول كا صیغہ ہے جس میں مبالغہ كے معنی پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ كے آخری رسول خاتم النبیین ﷺ كا نام مبارك اور اسمائے مباركہ میں سے اسم ذات ہے اس كے معنی ہیں بہت زیادہ بار بار حمد كیا ہوا،بے شمار تعریف كیا ہوا، مطلقاً سراہا ہوا۔
مواہب اللدنیہ میں امام قسطلانی رحمةاللہ علیہ نے ایك حدیث كا مضمون ارقام فرمایا جس كا خلاصہ یہ ہے كہ آسمانوں میں حضور ﷺ كا مشہور نام مبارك احمد ہے اور زمین میں محمد (ﷺ)۔
احمد: لفظ "احمد" كا مادہ بھی حمد ہے۔احمد مصدر سے اسم تفضیل كا صیغہ ہے جس كے معنی ہیں بہت زیادہ حمد كرنے والا۔ حمد كرنے والا ضرور قابل تعریف ہوتا ہے اور جو قابل تعریف ہو وہ یقیناً مستحق حمد كی تعریف كرتا ہے۔لہٰذا حمد ہونے كے لیے محمد ہونا ضروری ہے اور محمد ہونے كے لیے احمد ہونا لازمی ہے۔یہی وجہ ہے كہ بعض علماء نے "احمد و محمد" دونوں كو حضور ﷺ كے اسماء ذاتیہ سے شمار كیا ہے اور بعض نے دونوں كو ہم معنی بھی قرار دیا ہے۔
بشارت عیسیٰ ؈ اور ایك شبہ كا ازالہ
قرآن كریم میں حضرت عیسیٰ ؈ كی ایك بشارت ان الفاظ میں مذكور ہے:
وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ
ترجمہ: میں بشارت دیتا ہوا آیا ہوں اس رسول كی جو میرے بعد آئے گا جس كا نام احمد ہے۔
اس مقام پر ایك شبہ وارِد ہوسكتا ہے اور وہ یہ كہ قرآن مجید میں چار جگہ حضور ﷺ كا نامِ مبارك محمد آیا ہے (ﷺ)۔اسی طرح اذان، نماز، كلمہ اور درود سب میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام كا نام مبارك محمد ہی وارد ہے تو ایسی صورت میں حضرت عیسیٰ ؈ نے اسمہٗ احمد كی بجائے اسمہٗ محمد كیوں نہیں فرمایا۔لفظ "احمد" كے ساتھ بشارت میں یہ خدشہ لاحق ہوسكتا ہے كہ حضرت عیسیٰ ؈ نے احمد كے آنے كی بشارت دی ہے اور حضور "محمد" ہیں۔ لہٰذا ممكن ہے كہ حضرت عیسیٰ ؈ كی پیشین گوئی كا مصداق كوئی اور ہو جس كا نام "احمد" ہو۔
اس كے متعدد جواب ہوسكتے ہیں لیكن سرِدست ہم صرف ایك جواب پر اكتفا كرتے ہیں۔وہ یہ كہ حضرت عیسیٰ ؈ آسمانی الاصل ہیں اور وہ اس طرح كہ ان كی تخلیق نفخ جبرئیل ؈ سے ہوئی یعنی اس كے بغیر كہ نفخ جبرائیل ؈ كو حضرت عیسیٰ ؈ كے لیے مادہ تسلیم كیا جائے بلكہ محض سبب اولین ہونے كی حیثیت سے اور اس اعتبار سے كہ جبرائیل ؈ كا نفخحضرت عیسیٰ ؈ كے ساتھ حضرت مریم ؉ كے حاملہ ہونے كا ذریعہ بنا۔لہٰذا عیسیٰ ؈ كی پیدائش كی اصل نفخ جبرائیل ؈ قرار پایا اور نفخ جبرائیل ذاتِ جبرائیل ؈ سے متعلق ہے اور ذاتِ جبرائیل ؈ آسمانی ہے۔اس لیے حضرت عیسیٰ ؈ آسمانی الاصل قرار پائے۔
اور ہم سابقاً عرض كرچكے ہیں كہ حضور ﷺ كا نام مبارك احمد آسمانی ہے،لہٰذا عیسیٰ ؈ نے اسی نام پاك كے ساتھ بشارت دی تاكہ اس بشارت سے خود حضرت عیسیٰ ؈ كے آسمانی الاصل ہونے پر روشنی پڑ جائے كیوں كہ بہترین كلام وہی ہوتا ہے جس سے متكلم كی حیثیت نمایاں ہوجائے تو گویا حضرت عیسیٰ ؈ نے لفظ "احمد" كے ساتھ بشارت دے كر بتادیا كہ میں آسمانی الاصل ہوں۔اسی لیے آسمانی بولی بول رہا ہوں۔جو جہاں كا ہوتا ہے وہیں كی بولی بولتا ہے۔
اب لفظ "محمد" كی طرف آئیے اور كلمہ طیبہ میںاس كے وارد ہونے پر غور كیجئے۔ كلمہ طیبہ دراصل دین متین كی بنیاد ہے۔ اسے پیشِ نظر ركھنے سے معلوم ہوگا كہ یہاں لفظ "محمد" (ﷺ) كی حیثیت كس قدر عظیم و جلیل ہے۔اس اجمال كی تفصیل یہ ہے كہ یہ كلمہ طیبہ كا جزو اول جو توحید اور اللہ تعالیٰ كی الوہیت و معبودیت كے مضمون پر مشتمل ہے۔ بمنزلہ دعویٰ كے ہے جسے تسلیم كرنے كے لیے ہر انسان دلیل كا محتاج تھا اور وہ دلیل كلمہ طیبہ كا جزوِ ثانی "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ" ہے۔
ابھی عرض كرچكا ہوں كہ "محمد" كے معنی ہیں بہت زیادہ تعریف كیا ہوا اور تعریف ہمیشہ خوبی اور حسن و جمال كی ہوتی ہے۔ عیب كی تعریف نہیں ہوتی بلكہ اس كی مذمت كی جاتی ہے۔معلوم ہوا كہ جس ذات پاك كو "محمد" كہا گیا ہے وہ عیب و نقص اور برائی و ذم سے پاك ہے اور مجسمہ حسن و جمال ہے اور یہ اس لیے كہ وہ دلیل ہے دعوئ توحید كی،توحید كا دعویٰ بالكل بے عیب ہے اس لیے اس كی دلیل بھی بے عیب ہونی چاہیے۔،اسی بے عیب دلیل كا نام "محمد رسول اللہ ﷺ" ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔