قبرِ انور کی زیارت کی شرعی حیثیت پر اُمتِ مسلمہ کا اِجماع ہے۔ کئی ائمہِ احناف کے نزدیک واجب ہے جبکہ ائمہِ مالکیہ کے نزدیک قطعی طور پرواجب ہے۔ اُن کے علاوہ دیگر اہلِ سنت کے مکاتب و مذاہب بھی اُسے واجب قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم یوں فرمایا ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
النساء، 4 : 64
اس آیتِ کریمہ کو فقط سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات پر محمول کرنا، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، نصِ قرآنی کا غلط اِطلاق اور قرآن فہمی سے ناآشنائی کی دلیل ہے۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے محدّثین و مفسرین نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کو مطلق قرار دیا ہے۔ حافظ ابنِ کثیر اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں :
يُرشد تعالي العصاة والمُذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلي الرسول صلي الله عليه وآله وسلم، فيستغفروا اﷲ عنده، ويسألوه أن يغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذٰلک تاب اﷲ عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال : ﴿لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد ذکر جماعة منهم الشيخ أبومنصور الصبّاغ في کتابه الشامل ’الحکاية المشهورة، عن العتبي، قال : کنتُ جالساً عند قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فجاء أعرابي فقال : السلام عليک يارسول اﷲ! سمعتُ اﷲ يقول : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد جئتُکَ مستغفراً لذنبي مستشفعاً بکَ إلي ربي. ثم أنشأ يقول :
يا خير من دفنت بالقاع أعظمه
فطاب من طيبهن القاع و الأکم
نفسي الفداء لقبر أنت ساکنه
فيه العفاف وفيه الجود والکرم
فطاب من طيبهن القاع و الأکم
نفسي الفداء لقبر أنت ساکنه
فيه العفاف وفيه الجود والکرم
ثُم انصرف الأعرابيّ، فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم في النوم، فقال : يا عتبي! الحق الأعرابيّ، فبشره أن اﷲ قد غفر له.
’’اللہ تعالیٰ نے عاصیوں اور خطاکاروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب ان سے خطائیں اور گناہ سرزد ہوجائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرنا چاہئے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیک وسلم ہمارے لئے دعا فرمائیں جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرمائے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔ اِسی لئے فرمایا گیا : لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا (تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے)۔ یہ روایت بہت سوں نے بیان کی ہے جن میں سے ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب ’الحکایات المشہورۃ‘ میں لکھا ہے : عُتبی کا بیان ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا : ’’السّلام علیکَ یا رسول اﷲ! میں نے سنا ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اُن کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘ میں آپ صلی اﷲ علیک و سلم کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہوئے اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتے ہوئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے :
(اے مدفون لوگوں میں سب سے بہتر ہستی! جن کی وجہ سے میدان اور ٹیلے اچھے ہو گئے، میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم رونق افروز ہیں، جس میں بخشش اور جود و کرم جلوہ افروز ہے۔ )
پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی، میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے تھے : عُتبی! اعرابی حق کہہ رہا ہے، پس تو جا اور اُسے خوش خبری سنا دے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 519 - 520
اعرابی کا مذکورہ بالا مشہور واقعہ درج ذیل کتب میں بھی بیان کیا گیا ہے :
1. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 495، 496، رقم : 4178
2. ابن قدامة، المغني، 3 : 298
3. نووي، کتاب الأذکار : 92، 93
4. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 46. 47
5. مقريزي، إمتاع الأسماع، 14 : 615
2. ابن قدامة، المغني، 3 : 298
3. نووي، کتاب الأذکار : 92، 93
4. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 46. 47
5. مقريزي، إمتاع الأسماع، 14 : 615
اِمام قرطبی نے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن (5 : 265 ۔ 266)‘‘ میں عتبیکی روایت سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یوں بیان کیا ہے :
روي أبو صادق عن علي، قال : قدِم علينا أعرابيّ بعد ما دفّنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثلاثة أيام، فرمي بنفسه علي قبر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وحَثَا علي رأسه من ترابه، فقال : قلتَ يا رسول اﷲ! فسمعنا قولک، و وَعَيْتَ عن اﷲ فوعينا عنک، وکان فيما أنزل اﷲ عليک : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ﴾ الآية، وقد ظلمتُ نفسي، وجئتُکَ تستغفر لي. فنودي من القبر أنه قد غفر لک.
’’ابو صادق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد مدینہ منورہ آیا۔ اس نے فرطِ غم سے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گرا لیا۔ قبر انور کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اورعرض کیا : اے اللہ کے رسول! صلی اﷲ علیک وسلم آپ نے فرمایا اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کا قول مبارک سنا ہے، آپ صلی اﷲ علیک وسلمنے اللہ سے احکامات لئے اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے احکام لئے اور اُنہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ’’وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ۔ ۔ ۔ (اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے۔ ۔ ۔)۔‘‘ میں نے بھی اپنے اوپر ظلم کیا ہے، آپ صلی اﷲ علیک وسلم میرے لیے اِستغفار فرما دیں۔ اعرابی کی اِس (عاجزانہ اور محبت بھری) التجاء پر اُسے قبر سے ندا دی گئی : ’’بیشک تمہاری مغفرت ہو گئی ہے۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 5 : 265
عتبیٰ کی اس روایت پر اکابر محدّثینِ کرام نے اعتماد کیا ہے۔ امام نووی نے اسے اپنی معروف کتاب ’’الایضاح‘‘ کے چھٹے باب (ص : 454، 455) میں، شیخ ابوالفرج بن قدامہ نے اپنی تصنیف ’’الشرح الکبير (3 : 495)‘‘ میں اور شیخ منصور بن یونس بہوتی نے اپنی کتاب ’’کشاف القناع (5 : 30)‘‘، جو مذہب حنبلی کی مشہور کتاب ہے، میں اسے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام مذاہب کے اجل ائمہ و علماء کا عُتبی کی روایت کے مطابق دیہاتی کا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر مغفرت طلب کرنا ان کی کتابوں میں زیارۃِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا مناسکِ حج کے ذیل میں بیان ہواہے۔ جن میں امام ابنِ کثیر، امام نووی، امام قرطبی، امام ابنِ قدامہ، امام سبکی، امام سیوطی، امام زرقانی سمیت کئی ائمہ شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اکابر محدّثین و مفسرینِ کرام نے کفر اور گمراہی کو نقل کیا ہے؟ یا (معاذ اﷲ) وہ بات نقل کی ہے جو بت پرستی یا قبر پرستی کی غماز ہے؟ اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو پھر کس امام کو معتبر اور کس کتاب کو ثقہ و مستند مانا جائے گا؟
لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بعد اَز وصال اُمت کے لئے اِستغفار فرمانا ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمت کے حق میں انتہائی شفیق و رحیم ہونا نصوصِ قرآن و سنت سے ثابت اور متحقق ہے تو یہ امر قطعًا و حتماً معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال بھی روضۂ مبارک پر حاضرِ خدمت ہونے والوں کو محروم نہیں فرماتے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْم بَيْتِه مُهَاجِرًا إِلَي اﷲِ وَ رَسُوْلِه ثُمَّ يُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُه عَلَي اﷲِ.
’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا۔‘‘
النساء، 4 : 100
آیتِ مقدسہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد جو شخص اپنے نہاں خانہ دل میں گنبد خضراء کے جلوؤں کو سمیٹنے کی نیت سے سفر اختیار کرتا ہے اس پر بھی اسی ہجرت الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِطلاق ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment